یوم الفرقان

وَ اِذۡ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحۡدَی الطَّآئِفَتَیۡنِ اَنَّہَا لَکُمۡ وَ تَوَدُّوۡنَ اَنَّ غَیۡرَ ذَاتِ الشَّوۡکَۃِ تَکُوۡنُ لَکُمۡ وَ یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّحِقَّ الۡحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقۡطَعَ دَابِرَ الۡکٰفِرِیۡنَ ۙ﴿۷﴾
 یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا ۔ 5 تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے ۔ 6 مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے ،  
اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا یَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۴۱﴾
 اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز ، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن ، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی ، 33 ﴿تو یہ حصّہ بخوشی ادا کرو﴾ ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ الانفال ۴۱
عرب کے صحراؤں میں جب طلوعِ اسلام ہوا تب امن و سلامتی کی ہوا چلنے لگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ جس روش پر انسان چل رہا ہے اس سے آگاہ کیا جائے اور زمین پر اللہ کی بڑائی قائم ہوجائے۔اللہ کا کلمہ سر بلند ہو اقامت دین ہو جائے۔ایمانی زندگی حق باطل کی کشمکش ہی کا نام ہیے کسی مسلمان کی زندگی سے حق و باطل کی کشمکش غائب ہو جاے تو ایک حد تک ایمانی اور مسلمانی زندگی نہیں ہے۔ مسلمان کی زندگی میں تو حق کے غلبے کی کوشش ہوگی، دین قائم کرنے اور باطل کو مغلوب کرنے کی کوشش ہوگی۔ دین کی تبلیغ کے لیے نبی اکرم اور انکے اصحاب نے پتھر کھاۓ تو کبھی ابی طالب کی گھاٹی میں محصور ہو کر پیٹ پر پتھر باندھ کر دین کی تبلیغ جاری رکھی ۔لیکن اسلام پھیلانے کا کام نہیں روکا گیا ۔١٣سال بعد جب مظالم حد سےزیادہ بڑھ گئے تو اللہ کے حکم سے نبی کریم نے ہجرت کی۔ تاکہ اسلامی ریاست قائم ہو سکے جہاں اسلام کے طریقہ کار سے لوگ چلیں اور دنیا میں اسلامی مرکز بنے اور دین کی تبلیغ کی جا سکے ۔دنیا کے سب سے عظیم لیڈر نے جب اپنی ریاست قائم کی تو اس نےسب سے پہلے چار اقدام کیے۔
مسجد کی تعمیر ۔۔جس سے اللہ سے تعلق مضبوط ہو، جسے اسلامی نظام تمدن و ریاست کا سرچشمہ و مرکز بننا تھا۔ وہ حکومت کا دربار، مشورے کا ایوان اور سرکاری مہمان خانے کی حیثیت سے برپا کی گئی۔ 
2) مواخات قائم کی۔۔ انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ تاکہ معاشرتی تعلقات مظبوط ہو
 3) میثاق مدینہ کیا۔ ریاست چلانے کے لیے مدینہ کے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی سوسائٹی کو ایک نظم میں پرو دیا۔ جس کو بجا طور پر دنیا کا پہلا تحریر ی دستور کہا جاسکتا ہے۔ جس سے مدینہ کے منظم ہونے والے معاشرے میں خدا کی حاکمیت اور اس کے قانون کو اساسی اہمیت حاصل ہوگئی۔ 
4) دفاعی قوت کی تنظیم کا آغاز کیا اور ریاست مدینہ کی سرحد ات کی نگرانی اور دشمن کی نقل و حرکت کی دیکھ بھال کے لیے مہمات بھیجنا شروع کیے تاکہ مضبوط ریاست قائم کی جا سکے ۔
سبحان اللہ ۔ خوبصورت انداز ریاست کی تشکیل کے لیے بلاشبہ میرے نبی دنیا کے سب سے بہترین رہنما قائد ہیں ۔ہجرت سے جنگ بدر کا قریبی تعلق ہے۔ کیونکہ ہجرت کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب حق اور باطل کے مابین جنگ جاری تھی اور صادق اور امین کی جیت ہوئی تھی۔
 حق اور باطل کے درمیان پہلا معرکہ جنگ بدر جس کا آغاز و انجام حکم الہی سےہوا تھا
یہ پہلا غزوہ ہے جو رمضان دوہجری میں پیش آیا۔ اللہ تعالیٰ خود جنگ چاہتا تھا کیونکہ حق اور باطل کو واضح کرنا تھا۔ بدر کی لڑائی سے پہلے پہلے تین سو طلائی دستے بھیجے گئے تھے جبکہ کوئی لڑائی پیش نظر نہیں تھی۔ 
رسول اکرم کے مدینہ پہنچنے کے بعد سے جنگ بدر کے درمیان ۱۹ماہ کا عرصہ تھا اور اس عرصے میں نبی کریم صلی اللہ وسلم نے اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالی۔ ۱۹ماہ میں رسول اللہ نے مدینہ کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ 
نبی کریم ﷺ مشرکین کے قتل کی پلاننگ سے بچ کر مدینہ ہجرت کرگئے ا۔ب ادھر کفارمکہ جھنجھلا گئے اور مکہ میں جو مسلمان رہ گئے تھے ان کے ساتھ مزید ظلم و ستم کیا۔ مسلمانوں کی جو جائیداد مکہ میں رہ گئ تھی وہ ساری ضبط کرلی۔ خود نبی کا مکان جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ سے وراثت میں ملا تھا وہ بھی ضبط کر لیا۔ ادھر کفارمکہ نے دھمکیاں دینی شروع کی عبداللہ بن ابی (منافقین کا سردار) کو خط لکھ کر مدینہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوشش کی ۔ مسلمانوں پر مسجد حرام کا راستہ روکا۔ سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ انصاری صحابی طواف کرنے کے لئے مکہ گئے اپنے دوست کے ساتھ جو مکہ کے باشندے تھے، ابو جہل نے پوچھا یہ کون ہے اور جب اسے بتایا گیا کہ یہ مدینے کے صاحب ہے تو اسے غصہ آیا اور کہا” تم نے ان بے دینوں کو یہاں پناہ دے رکھی ہے!” اور مارنے کےارادے سے آگے بڑھا۔ اور کہا “ہم تمہیں کعبے کا طواف نہیں کرنے دیں گے۔”
 تو سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے بآواز بلندکہا سن! خدا کی قسم اگر تو نے مجھ کو اس سے روکا تو تجھے ایسی چیز سے روک دوں گا جو تجھ پر اس سے بھی زیادہ گراں ہوگی”یعنی اہل مدینہ کے پاس سے گزرنے والا تیرا تجارتی راستہ۔
قریش مکہ کی تجارت: چونکہ اللہ تعالی کا مبارک گھر خانہ کعبہ مکہ میں موجود ہے اس لیے حج کے لیے لوگ دور دراز سے یہاں آتے، حج کے دنوں میں قریش مکہ کی بہت زیادہ عزت کی جاتی اور ان کے قافلے جو مختلف علاقوں میں تجارت کے لئے جاتے محفوظ رہتے تھے۔ شام اور مصر جاتے تھے جو اس وقت کے انٹرنیشنل مارکیٹ تھے اور شام اور مصر کا راستہ مدینہ کی طرف سے گزرتا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قافلے پر اپنی پکڑ مضبوط کی،چھوٹے چھوٹے دستے بنائے۔ اور مکہ کے قافلے پر پھیلانے کی کوشش کرتے۔ اسی طرح بدر سے پہلے ان کے درمیان چھ یا سات بار مڈ بھیڑ ہوئی۔ مکہ والوں نے ایک تجارتی قافلہ ایسا زبردست تیار کیا اور اس میں زیادہ سے زیادہ مال لگایا تاکہ جو نفع حاصل ہو گا اس سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کر سکیں۔ ان کے غریب سے غریب لوگوں نے بھی اس میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالا۔
نبی صلی وسلم کو جاسوس کے ذریعے اطلاع ملی کہ قافلہ تیارہے ۔ چنانچہ رسول اللہﷺ اس قافلے کی طرف گئے لیکن وہ بچ کر نکل گیا۔ جب یہ قافلہ واپس آیا تو اسی پر رسول اللہ نے حملہ کرکے اس کا سامان اپنی ملکیت میں لینا چاہا اسی کوشش میں جنگ بدر پیش آئی۔ شام جاتے ہوئے بدر کا راستہ آتا ہے اور قافلے کو لے کر ابوسفیان واپس آ رہا تھا۔ رسول ﷺ نے دو صحابہ کو جاسوسی کے لیے بھیجا تو ان کو یہ پتہ لگا کہ قافلہ بدر کے مقام پر آنے والا ہے۔ صحابہ رسول کے پاس خبر لے کر گئے اور ادھر ابوسفیان وہاں پہنچا تواسے جاسوسوں کا علم ہو گیا۔ اس نے اسی وقت قافلہ سے ایک شخص کو خبر لے کر مکہ بھیجا اور یہ خبر آگ کی تیزی سے پھیلی اور کفار قافلے کو بچانے کے لئے تیزی سے جمع ہوگئے۔ 
رسول اکرم اور صحابہ قافلے کو تباہ کرنے کی نیت سے جا رہے تھے صحابہ کو فوری تیار ہونے کا کہا گیا ، صحابہ اکرام جیسے تھے اسی حالت میں نکلے ۔
ان کی تعداد 313 اور ان کے پاس صرف ۲ گھوڑے تھے۔ نہ ہتھیار ڈھنگ کے تھے نہ کھانے کے برابر انتظام اور سب روزہ سے تھے یہ غزوہ ۱۷ رمضان دوہجری میں پیش آیا۔ 
ابو سفیان کو جب نبی ﷺ کے حملے کی اطلاع ملی ملی تو اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور قافلے کو بچا لیا۔ ادھر نبی کریم صل وسلم اور صحابہ کرام بدر پہنچ کر ٹھہرے تو ان کو اطلاع ملی کہ قافلہ بچ کر نکل گیا اور دوسری طرف سے یہ خبر ملی کہ مکہ سے لشکر بھی آرہا ہے! 
اب نبی صلی وسلم کے پاس دو راستے تھے۔ ایک قافلہ کا پیچھا کرنا اور دوسرا جنگ کا سامنہ کرنا ۔
قافلہ ایسا تھا جس کی ملکیت پچاس ہزار دینار تھی اس مال سے وہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لیے ہتھیار خریدنے والے تھے۔ اور جنگ نا کرنے کی سورت کفار اہل اسلام کو ڈرپوک کہتے چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ مانگا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے مشورہ دیا کہ “آپ کی جو نیت ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں” ۔ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہوکر بہت عمدہ تقریر کی اور کہا”یا رسول اللہ آپ کو اللہ کی طرف سے جو حکم ہوا ہے کر گزرئیے واللہ! ہم کو وہ جواب نہیں دیں گے جو موسی علیہ السلام کو ان کی قوم نے دیا تھا۔”
 ابھی تک جنہوں نے مشورہ دیا تھا وہ مہاجرین میں سے تھے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم نے اور مشورہ مانگا تو انصار سے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی ایسی ہی بات کی۔ 
نبی کریمﷺ نے فیصلہ کیا کہ لشکر کا مقابلہ کیا جائے گا اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کیا ہے ۔ بدر کے مقام پر جب رسول ﷺ پہنچے تو دعا کی تھی کہ” اللہ حق کو حق کر دکھانا اور باطل کو باطل ثابت کردینا”۔ اور دوسری طرف مکہ سے نکلتے وقت ابوجہل نے بھی خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ “جو حق ہےاس کا ساتھ دینا اور باطل کو ختم کر دینا۔ “
 جنگ ہوئی کفار تعداد میں ہزار تھے اور مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی اللہ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کے لیے پانچ ہزار فرشتوں کو بھیجا اور اس جنگ میں کفار کے 70سردار مارے گئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ اور اسی دن کو یوم الفرقان کہا جاتا ہے۔ جنگ بدر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے جب جنگ حق اور باطل کے مابین ہو تو ڈرنا نہیں چاہیے حق کا ساتھ دینا چاہئے کیوکی اللہ سچے لوگوں کے ساتھ ہیں
 دونوں کے درمیان کوئی تناسب نہیں تھا اللہ نے قلیل تعداد کو کثیر لوگوں پر فتح دی۔ اللہ کے نزدیک ایک صرف اور صرف نیت معنی رکھتی ہے۔ اگر آپ کا نیک ارادہ خود سے وعدہ ، خدا پر یقین زیادہ ہوگا تو اللہ آپ کو ضرور مدد کرے گا آپ کو کامیابی دے گا
کسی نے کیا خوب کہا ہے، 
 فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی۔
 آج کے اس مایوسی کے دور میں بھی ایمان استقامت اور حوصلہ کے ساتھ رہنا چاہیے جتنا اللہ نے مقدر کر رکھا ہے اتنا ہی زندہ رہیں گے ایک دن بھی زیادہ نہیں اور نہ کم۔
تو پھر جنگ سے ڈرتے کیوں ہو دشمنان اسلام سے ہاتھ ملاتے کیوں ہو 
  ہمارا ملک بھی اسی معرکہ حق وباطل کی کی متحرک رزم گاہ بنا ہوا ہے۔ مسلم دشمنی، حجاب تنازعہ، متنازع بیانات اور اس طرح کے کئی اور پروپیگنڈے مسلمانوں کے خلاف شروع ہے یہ لوگ اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ اپنے نور کو تاقیامت پھیلاتا رہیگا ۔ ایسے مخالف ماحول میں صرف باکردار شخصیت ہی کھڑی رہ سکتی ہے ۔ 
 مسلم نوجوانوں میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے، محلے کا گروپ بنایا جائے ان کو دین کی تفصیل سے تعلیم دی جائے اور مسلم نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ہم کو دین کو نافذ کرنا ہے۔ مضبوط عقیدہ فکر اور اخلاق کریمانہ کے ساتھ ساتھ تعلق باللہ، سے شخصیت کو سیرت و کردار کی بلندی عطا کرنا ہے۔ اس ماہ کو ہم غفلت میں گزار دیتے ہیں 
دور حاضرہ کا تقاضہ ہے کہ اس کے ایک ایک لمحے کو قیمتی سمجھ کر استعمال کریں اور سال بھر میں ہمارے فکر و عمل میں جو طرح طرح کے نئے وائرسیس کمیونزم، نیشنلزم اور سیکولرزم کے گھس آتے ہیں، اس مبارک مہینے میں ہم ان کو اپنے فکر و عمل سے کھرچ کھرچ کر نکالیں اور اعتصام بالحق اور باطل سے براءت کے اینٹی وائرس کو ضرور اپ ڈیٹ کر لیں ۔اور اپنی اسلامی امیونٹی کو اتنا مضبوط کریں کہ کویی بھی وایرس اثر نہ کر سکے ۔
✍🏻منزہ فردوس 
اپنی راۓ یہاں لکھیں