نواقض صوم

نواقض صوم

(رمضان سیریز: 11)

نواقضِ صوم
(روزہ توڑنے والے کام)

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

روزہ عظیم الشان عبادت ہے جس کے فضائل وبرکات میں بہت کچھ لکھا اور کہا جاسکتا ہے۔ تاہم کچھ امور واعمال وہ بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ عبادت بے اثر اور ختم ہوجاتی ہے۔ عند اللہ جن کاموں کی وجہ سے روزہ نامقبول اور بے وقعت ہوجاتا ہے اس پر ان شاءاللہ جلد ہی اگلی کسی پوسٹ میں گفتگو کی جائے گی، ابھی ان کاموں کا تذکرہ کرنا مقصود ہے جن کی وجہ اس دنیا میں ازروئے شرع روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ کام حسبِ ذیل ہیں:

(۱) روزہ کی حالت میں مجامعت کرنا۔ اس کا کفارہ توبہ واستغفار اور اس روزے کی قضا کے ساتھ ساتھ ایک غلام کو آزاد کرنا ہے، غلام آزاد کرنے پر عدمِ استطاعت کی صورت میں دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ہے اور اگر اس کی استطاعت بھی نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ ایک آدمی نے رمضان میں اپنی اہلیہ سے جنسی تعلق بنا لیا، پھر اس نے اللہ کے رسولﷺ سے استفتاء کیا تو آپﷺ نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس کوئی غلام ہے؟ اس نے نفی کی تو فرمایا کہ کیا تم دو ماہ مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے نفی کی تو فرمایا کہ تب تم ساٹھ مساکین کو کھانا کھلادو۔ ‘‘ [أن رجلا وقع بإمرأتہ فی رمضان فاستفتی النبیﷺ عن ذالک فقال ھل تجد رقبۃ؟ قال لا، قال ھل تستطیع صیام شھرین قال لا قال فأطعم ستین مسکینا] (صحیح بخاریؒ:۱۹۳۷، صحیح مسلمؒ:۲۶۵۱)

(۲) اپنے اختیار وارادہ سے کسی وسیلے (مثلاً بوس وکنار، ملامست، استمناء بالید) سے انزالِ مادہ منویہ کرنا۔ یہ حرکت روزے کے تقدس اور مشروعیت کے بنیادی مقاصد کے منافی ہے۔ حدیث ِ قدسی میں اللہ فرماتا ہے کہ روزے دار میری خاطر اپنا کھانا، پینا اور شہوت چھوڑ دیتا ہے۔ ‘‘ [یدع طعامہ وشرابہ وشھوتہ من أجلی] (صحیح بخاریؒ: ۱۹۲۷)

اس کا کفارہ توبہ واستغفار کے ساتھ ساتھ اس دن کے روزے کی قضا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ بلا ارادہ یا نیند میں احتلام ہونے سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔

(۳) منھ یا ناک کے راستے سے پیٹ تک کسی مأکول ومشروب شے کا پہنچانا۔ یہ چیز روزے کے حکم والی آیت ِ کریمہ (بقرہ، ۱۸۷) کے بالکل خلاف ہے۔ مزید یہ کہ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’ناک میں خوب پانی ڈالو الا یہ کہ تم روزے کی حالت میں ہو۔ ‘‘ [وبالغ فی الاستنشاق الاأن تکون صائماً] (مستدرک حاکمؒ:۵۲۵۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ:۹۸۴۴۔ سنن ابوداؤدؒ: ۲۳۶۸) معلوم ہوا کہ روزے کی حالت میں ناک کے راستے سے پانی داخل کرنے پر روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ واضح رہے کہ صرف خوشبو سونگھنے سے روزہ متأثر نہیں ہوتا ہے۔

(۴) کھانے پینے کی ضرورت پورا کرنے والے انجیکشن لگوانا۔ البتہ وہ انجیکشن جو کھانے پینے کی نیابت وکفایت میں استعمال نہ کیے جاتے ہوں ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح روزے کی حالت میں بدن میں خون چڑھوانے سے بھی روزہ باطل نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ چیزیں کھانے پینے میں شمار نہیں ہوتیں، جبکہ اصل روزے کا باقی رہنا ہے تاآنکہ اس کا ٹوٹ جانا واضح ہوجائے۔ اسلامی شریعت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ کسی شک یا گمان کی بنا پر یقین کو زائل نہیں کیاجائے گا۔

(۵) پچھنا، فصد یا بڑی مقدار میں بدن سے خون نکلوانا۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’پچھنا لگانے والا اور پچھنا لگوانے والا دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ‘‘ [أفطر الحاجم والمحجوم] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۶۹۔ سنن ترمذیؒ:۷۷۴)

حالت ِ اضطرار میں کسی مریض کو بڑی مقدار میں خون دینا جائز ہے لیکن اس دن کے روزہ کی قضا واجب ہوگی۔ نکسیر پھوٹنے، دانت ٹوٹنے، کھانسی میں خون آنے، زخم پھٹنے اور سوئی یا کیل چبھنے سے خون نکلنے پر روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔

(۶) جان بوجھ کر الٹی کرنا یا آئی ہوئی منھ بھر الٹی کوواپس پیٹ میں نگل لینا۔ اللہ کے رسولﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’جسے الٹی مجبور کرکے آجائے تو اس پر قضا نہیں ہے، اور جو جان بوجھ کر الٹی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ قضا کرلے۔ ‘‘ [من ذرعہ القیء فلیس علیہ قضاء ومن استقاء عمداً فلیقض] (سنن ترمذیؒ: ۷۲۰۔ سنن ابوداؤدؒ:۲۳۸۲) الٹی کے سلسلے میں ان دو شکلوں کے علاوہ روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔

(۷) عورت کو حیض یا نفاس کا خون آجانا۔

-حیض ونفاس کے علاوہ نواقضِ صوم کے لیے ضروری ہے کہ مکلف انسان یعنی روزے دار تین شرطیں پوری کرتا ہو:

الف) اس کو علم ہو کہ یہ چیزیں روزہ توڑدیتی ہیں، بصورتِ دیگر اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا} (بقرہ، ۲۸۶) ’’اے ہمارے رب!ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، ان پر گرفت نہ کر۔ ‘‘

صحیح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی اس دعا کو قبول فرمالیا ہے۔ [قال اللہ تعالیٰ:قد فعلت] (صحیح مسلمؒ:۳۴۵)

نیز ارشادِ باری ہے:{وَلَیْْسَ عَلَیْْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً} (احزاب، ۵) ’’نادانستہ جو تم کہو (یاکرو) اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے، لیکن اس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرو۔ اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘

نیز صحیحین میں موجود حضرت عدی ؓبن حاتم کی حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نادانی میں کی جانے والی روزے کی غلطی پر کچھ نہیں ہے۔ حضرت عدیؓ بن حاتم نے سورہ بقرہ کی آیت ِ صوم (۱۸۷) میں مذکور استعارے کو حقیقی معنی میں سمجھا تھا اور دوسیاہ وسپید دھاگوں کی رؤیت کی بنیاد پر روزے کی سحری وافطار کے وقت کی تعیین کرنا چاہی تھی۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان کی اس غلط فہمی کی تصحیح تو فرمائی، لیکن انہیں اس دن کے روزے کی قضا کے لیے نہیں کہا۔ فرمایا کہ یہاں سیاہ وسپید دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اور رات کی سیاہی ہے۔ ‘‘ [۔۔۔إنما ذالک بیاض النھار وسواد اللیل] (صحیح بخاریؒ:۴۵۰۹۔ صحیح مسلمؒ:۲۵۸۵)

ب) اس کو یاد ہو کہ ان چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، بصورتِ دیگر اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ متذکرہ بالا سورۂ بقرہ میں وارد مومنوں کی دعا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد بھی ہے کہ: ’’جو بھول جائے کہ وہ روزے سے ہے اور کچھ کھا یا پی لے تو اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا تھا۔ ‘‘ [من نسی وھو صائم فأکل أو شرب فلیتم صومہ فإنما أطعمہ اللہ وسقاہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۳۳۔ صحیح مسلمؒ:۲۷۷۲)

ج) اس نے اپنی آزادی واختیار سے ان چیزوں ک ارتکاب کیا ہو، بصورتِ دیگر اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ارشادِ باری ہے:{مَن کَفَرَ بِاللّہِ مِن بَعْدِ إیْمَانِہِ إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِیْمَانِ وَلَـکِن مَّن شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْراً فَعَلَیْْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم} (نحل، ۱۰۶) ’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضامندی سے کفر کو قبول کر لیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ ‘‘

اللہ کے رسولﷺکا ارشاد ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ نے میری امت سے خطا ونسیان اور زبردستی کرائے گئے اعمال کو معاف کر دیا ہے۔ [إن اللہ تجاوز عن أمتی الخطا والنسیان وما استکرھوا علیہ] سنن ابن ماجہؒ: ۲۰۴۳۔ سنن بیہقیؒ:۱۱۷۸۷)

ہم بتا دیں کہ نگلے بغیر کھانا چکھ لینے سے، مسواک کرنے سے، خوشبو وغیرہ سونگھنے سے روزہ متأثر نہیں ہوتا ہے۔

نوٹ:مندرج بالا نکات میں اگر کوئی بات کسی خاص فقہی مسلک سے میل نہیں کھاتی ہے اور کوئی بھائی اس مسلک کی اتباع کرتے ہیں تو انھیں بلا تکلف اپنے مسلک پر عمل کرلینا چاہئے اور اپنے خداترس علماء پر اعتماد کرنا چاہیے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں