مغربی استعمار کیوں اور کیسے ؟

تحریر : انعام الحق قاسمی 

مغربی استعمار کیوں اور کیسے ؟

عرب کا ماضی اور حال

اسلام امن و شانتی کا مذہب ہے ، مکمل ضابطۂ حیات ہے ،گمراہوں کو راستہ دکھاتا ہے ، سرمدی اور دائمی دین ہے ، اب تاقیامِ قیامت دین اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔

اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے ان عربوں کو جو آمد اسلام سے قبل تاریکی و گمراہی اور سراسر جہالت میں تھے جن کا مستقبل بظاہر تاریک معلوم ہوتا تھا ایسی قابلیت و صلاحیت کا حامل بنا دیا کہ ایک عام آدمی نے بھی ایسے کارہائے نمایاں انجام دیا جس کی مثال نایاب ہے ، یہی وہ عرب تھے جنہوں نے بیت المقدس کو بڑے شاندار طریقے سے فتح کیا تھا ، چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کے ساتھ تشریف لے گئے تو عیسائیوں نے بآسانی بیت المقدس کی کنجی حوالہ کردی ، اس کے بعد مسلمانوں میں آپسی اختلاف کی وجہ سے ۹۰ سال تک عیسائیوں کے قبضہ میں رہا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے تمام مسلمانوں کو متحد کرکے عیسائیوں کے قبضہ سے آزاد کرایا ، الغرض عرب کا (آمد اسلام کے بعد) ماضی بڑا ہی تابناک ہے لیکن آج وہی عرب ممالک جنہیں ہم آزاد سمجھتے ہیں در اصل آزاد نہیں ہیں بلکہ ان میں اکثر تو امریکہ نواز ہیں ، قدم قدم امریکہ کی حامی بھرتے ہوئے نظر آتے ہیں الغرض ہر ملک کسی نہ کسی بڑی طاقت سے وابستہ ہے ، لیکن زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ جو قوم کبھی غیرت و حمیت اپنا طرہ  ٔ امتیاز رکھتی تھی اس کے برعکس آج وہی قوم اپنی اصلیت بھول چکی ہے اور ضرورت سے زیادہ اغیار کی وفاداری میں کوشاں ہے ۔

مغربی انتقامی اقدام

مغربی ممالک نے گزشتہ دو صدیوں میں عالم اسلام کے مختلف حصوں پر اپنا اقتدار قائم کیا تھا ، صلیبی جنگوں میں ترکی مسلسل کامیاب رہی اور مغربی جارحیت کو مشرق میں قدم جمانے سے روکا جس کی بنا پر مغربی طاقتوں نے انتقام کی خاطر مسلم ممالک سے معاندانہ رویہ اختیار کیا چنانچہ آج فلسطین میں اسرائیلی حکومت پڑوس کے سارے ملکوں کیلئے سخت پریشانی اور اذیت کا مسئلہ بناہوا ہے ، اسرائیل کا اس علاقہ میں کوئی وجود نہیں تھا برطانیہ اور مغربی ممالک نے اس کو وہاں دخیل بناکر مسلسل مدد کی جس سے وہ مضبوط طاقت بن گیا اور آخر کار علاقہ کے اصل باشندوں کو وطن سے بے وطن کردیا اور جو وہاں رہ گئے ان کو غلاموں کی طرح باقی رکھا گیا نیز مسلمانوں کے مقدس مقام کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی جو خطرناک حد تک پہونچ گئی ہے اس لئے پوری دنیا میں بسنے والے عرب اور مسلمانوں کیلئے پریشانی کا باعث بن گیا اور ظلم و زیادتی کی حد تو یہ ہے کہ مسجد اقصٰی کو یہودی عبادت گاہ بنانے کی کوشش مغربی طاقتوں کی مدد سے کی جارہی ہے ایسی صورت حال میں پورے ممالک اسلامیہ کیلئے بے چینی اور ملی غیرت کا مسئلہ بن گیا ہے لیکن دشواری یہ ہے کہ مسلمان اور عرب ممالک وہ نہیں کر رہے ہیں جو ان کو کرنا چاہئے تھا ۔

بیت المقدس اور یہودی سازشیں

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول رہ چکا ہے ، یہ ان کیلئے انتہائی مقدس اور بابرکت مقام ہے اس مقام کے دعوے دار یہودی اور عیسائی رہ چکے ہیں لیکن جب مسلمان قوم دنیا میں آئی تو وہ پاسداری کرتی رہی لیکن افسوس کہ پھر عیسائی ۹۰ سال تک قابض رہے ، اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے فتح کیا بعد ازاں عرصۂ دراز تک عیسائیوں کے قبضہ میں رہا اور آج کل یہودیوں کا قبضہ ہے جو مسلم قوم کیلئے انتہائی غیرت و حمیت کا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔

یہودیوں کیلئے بعض حکومتوں نے زمین تنگ کردی تھی جس کی وجہ سے وہ دیگر غیر مسلموں کی طرح فلسطین میں مسلمانوں کے امن و امان میں خوشحال زندگی بسر کررہے تھے ، ان کی تعداد فلسطین میں پچھلی صدی تک ۸ ہزار سے زائد نہ تھی اس معمولی تعداد سے مسلمانوں کو دھوکہ ہوا کہ دیگر اقوام کی طرح یہ اقوام بھی احسان شناس ہوگی لیکن یہ قوم احسان فراموش ثابت ہوئی ، جب یہودیوں کیلئے یورپ کی زمین مکمل طور پر تنگ ہوگئی تو انہوں نے یہ آواز اٹھائی کہ دنیا میں کوئی ایسی جگہ ہونی چاہئے جو یہودیوں کا قومی وطن بن سکے ، یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اس کوشش میں لگی رہی ان کو مختلف وسیع مقامات کی پیش کش کی گئی لیکن یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اس علاقہ کا بیت المقدس سے کوئی واسطہ نہیں اور ہم بیت المقدس چاہتے ہیں ۔ فلسطین میں یہودیوں کی قوت مسلمانوں کے مقابلہ میں بالکل کمزور سمجھی جاتی تھی لیکن بدقسمتی سے فلسطین برطانوی اقتدار میں آگیا اور یہودیوں کا مطالبہ مسلسل جاری رہا کہ فلسطین میں ان کا مطلوبہ وطن بنایا جائے اور حکومت برطانیہ کیلئے ایسا کرنا مشکل تھا کہ فلسطین کی آبادی کو علی الاعلان مجبور کرکے یہودی مسکن قرار دیدے اس لئے برطانیہ نے خاموش طریقہ سے مسلمانوں کو قانون کے ذریعہ تنگ کرنا شروع کردیا اور یہودیوں کی رعایت اور طرف داری کرتا رہا اس طرح یہودیوں کی آبادی بڑھتی گئی اور عربوں کیلئے فلسطین کی زمین بھاری پڑنے لگی ،جب یہ جبر و تشدد حد سے زیادہ ہوگیا تو عرب عوام نے احتجاج شروع کیا لیکن عرب حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا آخر کا ر لاکھوں فلسطینی عرب عوام ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ادھر یہودی اور عربی سرحدوں پر جو عرب آباد ہیں ان میں کئی کئی روز فاقہ کے باوجود اس قدر جذبہ جہاد موجود ہے کہ یہودی حملوں کا مسلسل مقابلہ کرتے رہتے ہیں بس یہی عرب اس علاقہ کے روک ہیں جو دشمن کو سرحد سے آگے بڑھنے نہیں دیتے ، ان کا عرب سے کوئی مستقل انتظام نہیں ہے جو ان کا دائمی سہارا بن سکے اگر خدا نخواستہ اقتصادی بدحالیوں میں اسی طرح گھرے رہے اور یہ مجاہدین ہمت ہارگئے تو یہودی مملکت کی توسیع روکنا مشکل ہے ، یہودیوں کی جرأت و ہمت کا یہ حال ہے کہ مدینہ و خیبر کی واپسی کا دعوٰی کرتے ہیں اور اسے اپنا قدیم وطن بتاتے ہیں اور مستقبل میں ان عرب علاقوں پر قابض ہونے کی مکمل کوشش کررہے ہیں اور اپنے نوجوانوں کو آمادہ کرکے تیار کررہے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ دشمنان اسلام کی ناپاک سازشوں کو نیست و نابود کردے اور تمام مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کو صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین ۔

نوٹ: یہ مختصر مقالہ بموقع : سیمینار بعنوان : دنیا کا ماضی و حال اور مغربیت کی کش مکش بموضوع : مغربی استعمار کیوں اور کیسے ؟ بمقام : دارالامور ٹیپو سلطان ریسرچ سینٹر سری رنگا پٹن بنگلوربندہ کے ذریعہ لکھا گیا تھا جو افادہ عام کیلئے یہاں پیش کیا گیا ہے ۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں