اسلام کا سائنسی نظریہ

اسلام کا سائنسی نظریہ

سائنس

سائنس لاطینی زبان  کے لاطینی زبان کے  لفظ(Scientia) سے لیا گیا ہے، جس کے معنی (Knowledge) کے ہیں۔ آسان اور مختصر الفاظ میں سائنس کے معنی  ہیں تجرباتی علومِ حکمت۔ اگر اس کی مزید وضاحت کی جائے تو یہ طبعی حقائق کا وہ علم ہے جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔ سائنس علم الاشیاء کا نام ہے، سائنس کائنات کے اصولوں کو مادی طور پر سمجھنے کی کوشش کا نام ہے۔ پروفیسر ٹامسن کے مطابق سائنس کائنات کے اندر جن چیزوں کا ادراک عقلِ انسانی سے ممکن العمل ہو ان کا مدلل بیان قلمبند کرنا ہے۔

مذاہب عالم میں صرف مذہب اسلام  کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ دین دنیا دونوں کو جامع ہے اور انسان کو دونوں جہاں سعادتوں سے بھرپور فائدہ اٹھا نے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے بر عکس دنیا کے دیگر مذاہب میں اس قسم کی جامعیت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔اسلام ہی واحد ایک مذہب ہے جو انسان کو صحیح مقام و مرتبہ عطا کرتے ہوئے اس کو سب سے معزز اور باوقار ہستی قرار دیتا ہے اور یہ حق دیتا ہے  کہ دین و مذہب کے ساتھ دنیا کا حصول بھی  ضروری ہے۔

اللہ رب العزت کا پاک ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ﴿۷۰﴾

” اور ہم نے آدم کی اولاد کو یقیناً عزت بخشی اور انہیں بر و بحر میں سواریاں عطا کیں، عمدہ چیزوں سے انہیں نوازا اور بہت سی مخلوقات پر انہیں کلی فضیلت عطا کیں”

انسان اس دنیا میں قرآنی ارشاد کے مطابق خلیفۃ الارض  بنا کر پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے  تخلیق آدم ؑ کے بعد ان کو تمام موجودات کا علم مع ان کے خواص کے  بتلا  دیا۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا”  اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام نام بتلا دیے”(البقرہ:30)

مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا کی ان تمام چیزوں کے نام مع ان کے خواص کے سمجھا اور بتلا دیا تھا، جن پر خلافتِ ارض کا دارو مدار ہے ۔ علامہ زمخشری کی تصریح کے مطابق حضرت آدم ؑ کو چیزوں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کے متعلقات، ان کے دینی اور دنیوی  منافع بھی سمجھا دیے گئے تھے۔

خلاصہ یہ کہ حضرت آدم ؑ کو علم الاشیاء سے نوازا گیا تھا اور  یہ دنیا کا سب سے پہلا علم تھا جو آدم ؑ کے ذریعہ نوعِ انسانی کو عطا کیا گیا۔اس علم کی اہمیت و افادیت دورِ قدیم سے زیادہ دورِ جدید میں محسوس کیا جا رہی ہے۔ لہذا آج انسان جن علوم کو سائنسی علوم کہتا ہے وہ در اصل یہی “علم الاشیاء” ہے، جو انسانوں کے روزِ اول میں ہی عطا کر دیا گیا تھا،تاکہ وہ اس علم کے ذریعہ خلافتِ ارض کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے سکے اور منشائے الہی کے مطابق عدل و انصاف قائم کرے۔

سائنس کی ترقی میں قرآن کا کردار

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اسلامی دور سے پہلے سائنس کا باقاعدہ کوئی تصور نہیں تھا ۔ اور عملی سائنس (practical science) تو سرے سے تھا ہی نہیں،بلکہ سائنس جو کچھ بھی تھا وہ محض یونانی فلسفے کے ماتحت تھا،جس کا درجہ محض ظن سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کے برعکس قرآن مجید نہ صرف تجربہ و مشاہدہ پر ابھارتا ہے ،بلکہ دنیا کی ہر چیز کا نزدیکی اور باریکی کے ساتھ جائزہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن کریم کی بےشمار آیتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے ۔مثلاً:

أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴿۱۷﴾وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ﴿۱۸﴾وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ﴿۱۹﴾وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ ﴿۲۰﴾(الغاشیۃ)

” بھلا کیا نظر نہیں کرتے اونٹوں پر کہ کیسے بنائے ہیں اور آسمان پرکہ کیسااس کو بلند کیاہے۔اور پہاڑوں پر کہ کیسے کھڑے کر دیے ہیں۔اور زمین پر کہ کیسی صاف  بچھا دی ہے”۔

اسی طرح دوسری جگہ:

وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ ﴿۲۰﴾وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿۲۱﴾(الذاریات)

“اور زمین میں یقین کرنے والوں کیلئے بے شمار نشانیاں ہیں اور تمہاری ذات میں بھی کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟”

ان آیتوں پرغور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان میں علوم حیوانات(Biology) علم فلکیات(Astronomy) یا خلائی سائنس(Space science) علم طبقات یا ارضیات(Geology) اور علم الابدان( Physiology)کا ذکر نہایت ہی اختصار کے ساتھ ذکر کر دیا گیا ہے۔ آج سائنسی تحقیقات انہیں علوم کے ارد گرد گردش کرتے نظر آتے  ہیں۔غرض اہل اسلام نے اس دعوتِ فکر سے متاثر ہو کر اس کی اہمیت و افادیت کو محسوس کیااور دینا کی تمام چیزوں پر غور وفکر کرنا اور نئے نئے حقائق کا پتہ لگانا شروع کیا،جس کے نتیجہ میں جدید سائنس کی داغ بیل پڑی اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

انگریزمورخین اہلِ اسلام کی بے مثال علمی و سائنسی ترقی  پر اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ پرفیسر حتٰی نے اس کو عربوں کی ذہانت و طباعی کے ساتھ کچھ مخفی قوتوں اور صلاحیتوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ایک ایسے قوم کہ جن کو نہ کھانے کا سلیقہ تھا نہ بات کرنے کی تمیز تھی ،تہذیب و تمدن سے عاری قوم کے اندر اچانک  یہ صلاحیت، اعلیٰ درجہ کی ذہنی قابلیت ان میں کیوں کر پیدا ہوگئی ،ان کی مخفی قوتوں کو کس نے بیدار کیا؟ کیا اس موقع پر قرآن عظیم کے سواکوئی دوسرا محرک  بھی پایا جاتا ہے؟قرآن کریم ہی واحد ایسی کتاب ہے جس نے اپنی بے شمار آیات کے ذریعہ ایک سوئی ہوئی غافل قوم کو بیدار کر کے مطالعۂ فطرت اور اس کے رازوں کو بے نقاب کرنے پر آمادہ کیا۔

سائنسی نظریات کی حیثیت

سائنسی نظریات اگرچہ عموماً بدلتے رہتے ہیں،مگر اس کے باوجود سرے سے ان نظریات کو ناقابلِ استدلال نہیں تصور نہیں کیا جا سکتا،وگرنہ قرآن کریم میں جگہ جگہ کائنات میں غور و فکر کر نے کی ترغیب دینا اور بے شمار مقامات پہ یہ فرمانا کہ غور فکر کرنے والوں،سمجھ اور عقل رکھنے والوں کے لیے قدرت کی ہر چیز میں دلائل و شواہد موجود ہیں،مہمل اور بے معنی ہو جاتا۔  اب رہا یہ مسئلہ کہ سائنسی نظریات جو عموماً تغیر و تبدل کا شکار ہوتے رہتے ہیں ان کیا حل ہے۔تو یہ جان لینا چاہیے کہ سائنسی نظریات کی دو قسمیں ہیں:

ایک قسم وہ  جس کی حیثیت محض مفروضات یا ظن و تخمین کی ہوتی ہے، جو ابھی زیرِ تجربہ ہوں یا سائنداں اس پر کام کر رہے ہوں۔ اس کی تفتیش ابھی مکمل نہیں ہوئی ہو۔جس کے بنا پر ابھی کوئی یقینی بات سامنے نہ آئی ہو۔ تو زیادہ تر تبدیلیاں اسی قسم کے مفروضات میں واقع ہوتی ہیں۔

اس کے بر عکس دوسری قسم وہ جو تجربہ و مشاہدہ میں آکر پوری طرح ثابت ہوچکے ہوں اور بار بار کے تجربات سے ان سے ہمیشہ یکساں قسم کے نتائج برآمد ہوتے ہوں۔یہاں تک کہ ان کی حیثیت ثابت شدہ حقائق کی ہوجاتی ہے۔مثلاً : ہائڈروجن کے دو جوہر (Atem)جب آکسیجن کے ایک جوہر(Atem)سے ملتا ہے تو ہمیشہ پانی کا ایک سالمہ (Molecule ) وجود میں آتا ہے۔ اور پانی کے ایک سالمے کی تحلیل سے ہمیشہ ہائڈروجن کے دو اور آکسیجن کا ایک جوہر برآمد ہوتا ہے۔ اسی طرح کاربن کے 12 ہائڈروجن کے 22 اور آکسیجن کے 11 جوہر کے کیمیائ اتصال سے ہمیشہ شکر کا سالمہ بنتا ہے اور بار بار کے تجربہ سے نتیجہ دائمی طور پر یکساں رہتا ہے۔

تو اس قسم کے سائنسی تجربات کو جس میں کوئی تبدیلی  نہیں ہوتی قبول کیا جا سکتا ہے۔ یعنی تمام سائنسی تجربات کو سرے سے خارج از بحث نہیں کیا جا سکتا۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں