مسلمان اور سائنس

مسلمان اور سائنس

تحریر: نعیم احمد

      سائنس کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن و دماغ میں انگریزی زبان کی موٹی موٹی کتابیں جوبڑےبڑے کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں،اور انگریز مصنفین کے زبان پر چڑھنے والے نام گردش کرنے لگتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فن سائنس انگریز مصنفین اور انگریز سائنسدانوں کی مرہون منت ہے۔مسلمان قوم کا اس فن سے دور دور کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔

حالانکہ معاملہ کچھ اور ہے۔ تاریخ سے ناواقفیت کے باعث ہمارا یہ ذہن بن گیاہے۔جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ مسلمانوں نے اس میدان میں کیا کیا کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔مسلمانوں نے تو اس وقت سائنس کو ترقی و عروج عطا کیا جب یورپ ایسے دور میں جی رہا تھا جسے تاریکی کا دور کہتے ہیں۔

یورپ گیارہویں صدی میں

مورخین لکھتے ہیں کہ گیارہویں بارہویں صدی میں یورپ کا زیادہ تر حصہ غریبی اورقحط سے دو چار تھا۔چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد تھیں۔ لکڑی کے کچھ مکانات تھے جس میں رہنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لوگ مویشیوں کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔ایک ہی کپڑا سالہا سال تک پہنتے تھے۔صفائی ستھرائی کا کوئی خیال نہیں تھا۔ نہانا بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا تھا۔فقر و فاقہ کے سبب لوگ درخت کی پتیاں اور چھال کھا کر گزر بسر کرتے تھے۔ایسے وقت میں مسلمانوں نے ایسے ایسے ایجادات کئے جنہیں دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔ آئیے ہم سائنسی تاریخ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

سائنس

انگریزی زبان کا لفظ Science لاطینی زبان کے لفظ Scientia اور یونانی زبان کےلفظ Skhizan سے نکلا ہے۔اردو میں اس کے معنی علم کے ہیں۔ اصطلاح میں سائنس ایسے علوم جو ایک منظم طریقہ کار کے تحت بار بار کے تجربات و مشاہدات کے بعد کہ جس کے نتائج یکساں ہوں کے جاننے کا نام ہے۔

            سائنس کا وجود اس وقت سے ہے جب سے انسانوں کا وجود ہے۔کیونکہ سائنس کا ایک معنی علم کے ہیں جیسا کہ ماقبل میں بیان کیا گیا،اور اس روئے زمین پر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ آپ کے پیدا کرنے کے بعدان تمام چیزوں کے نام جو اس روئے زمین پر ہیں ان کے خاصیات،مثبت ومنفی اثرات ان تمام چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کر دیا۔قرآن کریم کی اس آیت سے اسی کی طرف اشارہ ملتاہے’’و علم آدم الاسماء کلہا‘‘اور آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سارے نام سکھا دئے‘‘ اس آیت کی تشریح میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں’’ناموں سے مراد کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام ان کی خاصیتیں اور انسان کو پیش آنے والی مختلف کیفیت کا علم ہے‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن) اس قرآنی صراحت کی روشنی میں ہم یہ کہ  سکتے ہیں کہ سائنس کا وجود انسانوں کے وجود کے ساتھ مرکب ہے۔کیونکہ جو آدم علیہ السلام کو عطا کیاگیا وہ سائنسی ہی کی ایک قسم ہے۔

سائنس کی تاریخ

      سائنس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کی انسانی تہذیب۔ انسانوں کے سائنسی مطالعہ کا سلسلہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید ترقی ہوتی رہی اسی طرقی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے سامنے سائنس کی یہ شکل موجود ہے۔ سائنس کی قدامت کا اندازہ نو، دس ہزار سال سے لگایا گیا ہے۔

ایک اندازےکے مطابق اس کا آغاز آٹھ ہزار قبل مسیح میں ہوا۔ اور یہ اندازہ انسانی استعمال کی چند دریافت شدہ اشیاء کے مدد سے متعین کی گئی ہے۔ مثلاً پہیہ، چرخی، بیلن وغیرہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس زمانے میں مویشی پالنے کا رواج ہو چکا تھا۔ جڑی بوٹیوں سے دوائیں بھی بنائی جانے لگی تھیں۔ ایسی ایسی دریا فتیں چونکہ سائنس کے دائرہ میں آتی ہیں۔ اس لئے سائنس کی قدامت کو انسانی تہذیب کا ہم عمر کہا جا سکتا ہے۔

      عہد قدیم سے لیکر آج تک اس روئے زمین  پر بہت سی تہذیبیں آئیں اور فنا ہو گئیں۔ ان تہذیبوں میں کچھ نہ کچھ سائنسی کارنامے اور ایجادات ضرور ملتے ہیں۔پہیہ، چرخ، بیلن، جڑی بوٹیوں سے دوا بنانا انہیں سائنسی کارناموں کی ایک جھلک کہی جا سکتی ہے۔ ۱۵۰۰ قبل مسیح تا ۱۷۰۰ قبل مسیح کے زمانے میں مصر کے علاقے میں سال کے ۳۶۵ دن معلوم کئے جا چکے تھے۔ پھر دنوں کو مہینوں میں اور مہینوں کو ہفتوں، گھنٹوں مین تبدیل کیا چکا تھا۔ ریاضی کے ابتدائی نقوش بھی اسی عہد میں ملتے ہیں۔ یہاں کے لوگ کانوں سے دھات نکالنا اور ان سے دوسری چیزیں بنانے کا ہنر بھی جانتے تھے۔شیشہ سازی کا ہنر بھی ان کے اندر آچکا تھا۔ اور یہ لوگ اس فن میں اس وقت کے دوسری قوموں پر فوقیت رکھتے تھے۔

سائنس کا آغاز بطور فن کے

      باقاعدہ فن کے طور پر سائنس کا آغاز یونانی دور سے ہوتا ہے۔ یونان میں سائنس فلسفے کی شکل میں وجود میں آتاہے۔اور ایک لمبے عرصے تک اسی شکل میں رہتا ہے۔ پھر بعد میں اسے فطری فلسفہ کا نام دے دیا گیا۔ اسے سائنس کا  نام بہت بعد میں غالباً انیسویں صدی میں دیا گیا۔یہاں چند مشہور یونانی سائنسدانوں کے نام ذکر کئے جاتے ہیں:

تھیلس

۶۲۹ ق م کے قریب پیدا ہوا۔ اور تقریباً سو برس زندگی پائی۔ علم فلکیات میں ا سکے مشاہدات و تجربات نے سائنسی دنیا میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ سورج اور چاند گرہن پر اس کی تحقیق کا لوگوں نے مذاق اڑایا ۔لیکن جب فلکی حسابات کی بنیاد پر اس نے سورج گرہن کی جو تاریخ اور وقت کی جو پیشن گوئی کی تھی ٹھیک اسی کے مطابق سورج گرہن ہوا تو لوگوں نے اس کے علم کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ علم ہندسہ میں اس نے کمال پیدا کیا اور اپنی تحقیقات و مشاہدات کے بنیاد پر اصول وضع کئے۔تھیلس کا خیال تھا کہ چاند، سورج اور ستارے زمین کی گردش کرتے ہیں۔

فیشاغورس

۵۸۲ ق م میں یونان کے ایک چھوٹے سے جزیرےساموس(Samos) میں پیدا ہوا۔ اس نے بابل میں ریاضی اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ اور علم کی جستجو میں نکل پڑا۔ مشرق میں ہندوستان کے صوبہ بہار تک کا سفر کیا جہاں اس کی ملاقات گوتم بدھ سے ہوئی۔ان سے علوم حاصل کر کے وہاں سے رخصت ہوا۔ تقریباً ۳۳ سال سیاحت و سفر کے بعد یونان واپس لوٹا۔ فیشاغورس نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ چاند کی روشنی ذاتی نہیں وہ سورج کی روشنی سے چمکتاہے۔

بقراط

۴۶۰ ق م میں ایشائے کوچک کے ساحل کے قریب کوس(Cos) نامی جزیرے میں پیدا ہوا۔ اس نے علم طب کی بنیاد ڈالی۔ اس زمانے میں زیادہ تر علاج و معالجہ جھاڑ پھونک کے ذریعے کیاجاتا تھا۔ اس طریقہ علاج پر بقراط کا اعتقاد بالکل نہ تھا۔ پہلی بار اس نے دوا کے ذریعے علاج کا تصور پیش کیا۔ بقراط کا دعویٰ تھا کہ دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا علاج اللہ تعالیٰ نے نہ پیدا کیا ہو۔ اس کا قول تھا کہ خون،بلغم، صفراء اور سودا یہ چاروں اخلاط جب تک جسم میں اپنے صحیح تناسب میں رہتے ہیں آدمی تندرست رہتاہے۔ ان میں کمی بیشی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ کم و بیش ۳۰۰ دواوں کا علم اسے تھا۔

جالینوس (Galen)

ایشائے کوچک کے ساحل کے قریب پرغامہ نامی قصبہ میں ۱۳۰ء میں پیدا ہوا۔ اس نے علم طب میں خاص مقام حاصل کیا۔تحصیل علم کیلئے اسکندریہ اور دیگر دور دراز کے علاقوں کا سفر کیا۔ بے شمار طبی تجربات و تحقیقات پیش کئے۔ ان دنوں انسانی لاشوں کو چیرنا ایک سنگین اخلاقی و قانونی جرم تھا۔اس لئے اس نے بندروں کی لاشوں کو چیر کر جسم کے اندرونی اعضاء کا مشاہدہ کیا۔ اور تشریح الابدان (Anatomy) اور منافع الاعضاء (Physiology)جیسے اہم علوم کی بنیاد ڈالی۔

      جالینوس کے وفات کے بعد علم و حکمت کی شمع یونان میں آہستہ آہستہ بجھنے لگی۔ یورپ سے رومی بادشاہت ختم ہونے لگی۔ یورپ کی تمام اقوام عیسائی مذہب قبول کرنےلگی۔  عیسائی قوم پادریوں اور پوپ کے حکم کے طابع ہوکر رہ گئی۔ پادریوں نے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انجیل مقدس میں تمام دینی و دنیوی علوم موجود ہیں باقی علوم باطل اور بے کار ہیں۔ چنانچہ یونانی حکماء کی کتابوں کو پڑھنا جرم قرار دیا گیا۔کلیسا نے جو پادریوں کے حکم کے ماتحت چلتے تھے تمام علم و حکمت کی کتابیں جلوا دئے یا انہیں ضبط کر کے ایک تاریک کوٹھری میں ڈالوا دیا۔

مورخین لکھتے ہیں: حکمرانوں پر یہ خوف لاحق ہوا کہ ان کتابوں کا مطالعہ حکومت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے۔چنانچہ ہر حکمراں ان کوٹھریوں پر اپنا تالہ ڈلوا دیتا۔ اسی دور کو مورخین نے یورپ کا تاریک دور کہا ہے۔ تاریکی کا یہ دور یورپ پر تقریباً ۱۰۰۰ سال رہا۔ دوسری طرف اسی عہد میں اسلام اور مسلمان عرب کی وادیوں سے نکل کر دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلناشروع ہوئے۔ جب مسلمان ایشیا، یورپ اور افریقہ تک حضرت محمد ﷺ کے فرمان ’’طلب العلم فرضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ‘‘ (علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے)  کو لیکر پہونچے تو تمام علاقے علم کی شمع سے روشن ہو گئے۔ یورپ کے سیاسی انتشار کے سبب علم و حکمت کا مرکز  یونان سے منتقل ہو کر مصر آگیا۔ جہاں مسلمانوں نے اسے خوب ترقی دی۔ مسلمان جب مصر پہونچے تو آہستہ آہستہ یہاں عربی زبان رواج پانے لگی۔ کتابوں کے تراجم عربی زبان میں ہونے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے علم و حکمت کاقیمتی سرمایہ مسلمانوں کےقبضہ میں آگیا۔ لاتعداد مسلم اطبّاء اور سائنسداں پیدا ہوئے۔ جنہوں نے بے شمار ایجادات اور حیرت انگیز کارناموں سے دنیا کو روشناس کرایا۔ جن میں چند سائنسدانوں کا مختصرتعارف یہاں ذکر کیا جاتاہے،جو حسب ذیل ہیں:

ابو اسحاق ابراہیم ابن جندب

      علم فلکیات(Astronomy) کا ماہر۔ علم نجوم میں بھی کمال پیدا کیا۔ اجرام فلکی کے مشاہدے کیلئے اس نے ایک آلہ ایجاد کیا جسے اصطرلاب یعنی دویبین کہتے ہیں۔ اس دوربین کے ذریعے اجرام فلکی کے صحیح صحیح مشاہدے، چاند تاروں کے درمیان کی دوری کی پیمائش کی جا سکتی تھی۔ یہ دنیا کا پہلا نجومی تھا۔گیارہوں صدی عیسوی میں مشہور سائنسداں ابو اسحاق ابن یحیٰ نقاش زرقانی نے اسی اصطرلاب کو مزید ترقی دی اور اس کا نام صحیفہ زرقانیہ رکھا جو بعد میں ’’Sphaca‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر اس کے پانچ صدی بعد غالباً سترھویں صدی میں گلیلیو نامی یورپین سائنسداں نےاسی اصطرلاب کو مزید طرقی دیکر ایک نئی شکل میں تبدیل کیا۔ آج اہل یورپ گلیلیو کو اصطرلاب کا موجد قرار دیتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔ابراہیم ابن جندب نے۷۷۶ء میں بغداد میں وفات پائی۔

جابر ابن حیّان

      علم کیمیا (Chemistry)کا موجد ۔ اسے علم کیمیا کا بابائے آدم بھی کہا جاتاہے۔ یہ دنیا کا پہلا سائنسداں تھا جس نےعلم کیمیا میں تجربات کی بنیاد ڈالی۔اس نے کیمائی تجربے کرکے ایسےایسےاصول و قواعد وضع کئے جو آج بھی سائنسی دنیا میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دواؤں کا جوہر اڑانا(Sublimotion) قلماو کرنا(Crystallisation) فلڑر کرنا ، دھات کو بھسم کر کےکشتہ بنانا(Oxidisation) لوہے کو زنگ آلود ہونے بچانے کا طریقہ، موم جامہ بنانے کا طریقہ، چمڑے کو رنگنے کا طریقہ وغیرہ۔ ان تمام چیزوں کو جابر ابن حیان نے دریافت کیا۔ تیزاب بنانے کا طریقہ بھی سب سے پہلے اسی نے ہی دریافت کیا۔جابر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا گھر سائنس روم(Laboratory)بنا ہوا تھا۔

محمد ابن موسیٰ خوارزمی

      ریاضی کا ماہر اور الجبرا کا موجد تھا۔ خوارزمی مامون رشید کے عہد میں بغداد آیا۔ بغداد کے علمی ماحول سے وہ کافی متاثر ہوا۔ اور اس وقت کے سب سے بڑے  سائنس اکیڈمی بیت الحکمۃ کا ممبر بننے کیلئے کوششیں شروع کر دی۔ شب و روز کے محنت سے اس نے علم ریاضی پر ایک زبردست تحقیقی مقالہ لکھ کر بیت الحکمۃ میں بھیج دیا۔ خوازمی کا مقالہ بہت سراہا گیا۔ اور اسے بیت الحکمۃ کا ممبر چن لیا گیا۔ خوارزمی کا یہ طریقہ آج بھی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے رائج ہے۔ علم ریاضی پر  اس  نے دو کتابیں تحریر کی علم الحساب اور الجبراوالقابلہ۔ اول الذکر کتاب علم ریاضی پر دنیا کی پہلی تصنیف شمار کی جاتی ہے۔ اور آخر الذکر الجبرا کے فن میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ خوارزمی کی یہ کتابیں جب یورپ پہونچیں تو دانشوران یورپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔ ۸۵۰ ء میں اس نے وفات پائی۔

ابو القاسم ابن عباس زہراوی

      ابوالقاسم اندلس(اسپین) کے مشہور شہر قرطبہ سے کچھ فاصلے پر قصر الزہراء نامی مقام پر پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم ختم کرنے کے بعد قرطبہ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ علم طب کے شعبہ جراحت (Surgery) میں مہارت حاصل کی۔ ابوالقاسم نے پہلی بار آپریشن (Surgery) کے ذریعے علاج کا نظریہ پیش کیا۔ اس لحاظ سے وہ دنیا کا پہلا سرجن(Surgeon) تھا۔ اس نے آپریشن کے ذریعے علاج کو بہت ترقی دی۔ آپریشن میں استعمال ہونے والے آلات ایجاد کئے۔کینسر کی بیماری پر اس نے تحقیق کی اور یہ بتایا کہ کینسر کے پھوڑے یا زخم کو ہر گز نہ چھیڑا جائے، چھیڑنے سے وہ اور خطرناک بن سکتاہے۔ زہراوی کے ایجاد کئے ہوئے آلات میں سے بہت سے آلات آج بھی مستعمل ہیں۔زہراوی کی ڈائری ’’تصریف‘‘ جو فن طب میں ایک کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، اس میں وہ احتیاطی تدابیر جو ایک سرجن کو کرنے چاہئے لکھے ہوئے ہیں۔ ۱۰۰۹ء میں اس نے وفات پائی۔

ابو علی حسن ابن الہیثم

      بصرہ کا مشہور سائنسداں ابو علی حسن ابن الہیثم ۹۶۵ء میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے غرض سے دنیا کی مشہور قدیم تریم یونیورسٹی جامعہ ازہر میں آیا۔ جامعہ ازہر کی پرسکون اور علمی ماحول میں اپنی عظیم اور نادر سائنسی تحقیقات شروع کی۔ اور ایسی ایسی دریافتیں کیں ایسے ایسے نظریے پیش کئے جن سے سائنسی دنیا آج تک استفادہ کر رہی ہے۔ ابن الہیثم کی چند دریافتیں حسب ذیل ہیں:

(۱) ڈیم بنانے کا منصوبہ

مصر ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی پیداوار کا انحصار دریائے نیل پر ہے۔ دریائے نیل سے ہی پورا مصر سیراب ہوتاہے۔ لیکن کبھی بارش زیادہ ہونے کے سبب سیلاب کے آجانے سے تو کبھی بارش کم ہونے وجہ سے کھیتوں کی سیرابی کیلئے مناسب مقدار میں پانی میسر نہیں ہوتا، جس کے سبب قحط پڑ جاتا تھا۔ ابن الہیثم نے پورے مصر کا جایزہ لیا اور دیائے نیل پر ایک مضبوط باندھ کامنصوبہ تیار کیا۔ یہی منصوبہ (Aswan Dam) اسوان ڈیم کے نام سے آج بھی یاد کیا جاتاہے۔ آج پوری دنیا میں پانی کو اکٹھا کرکے استعمال میں لانے کیلئے ڈیم بنانے کا طریقہ رائج ہے۔ پوری دنیا ابن الہیثم کے اس احسان تلے دبی ہے۔

(۱) آنکھوں کی روشنی پر تحقیق

آنکھوں کی روشنی کے متعلق قدیم سائنسدانوں کی یہ تحقیق تھی کہ آنکھوں سے روشنی کی شعائیں نکلتی ہیں، اور جس چیز پر پڑتی ہیں وہ چیز ہمین نظر آجاتی ہے۔ لیکن ابن الہیثم نے سابقہ تحقیق کو رد کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ جب روشنی کسی چیز پر پڑتی ہے تو روشنی کی شعائیں اس چیز کی مختلف سطحوں سے پلٹ کر پھیل جاتی ہیں، ان شعائوں میں سے کچھ شعائیں دیکھنے والے کی آنکھوں میں داخل ہو جاتی ہیں، جس کے سبب وہ چیز ہمیں نظر آنے لگتی ہے۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ ابن الہیثم نے یہ نظریہ پیش کیا کہ روشنی آنکھوں سے نہیں نکلتی بلکہ آنکھوں میں روشنی پہونچتی ہے تب ہمیں چیزیں نظر آتی ہیں۔ ابن الہیثم کی اس تحقیق کو آج بھی درست مانا جاتاہے۔

      مذکورہ بالا سائنسدانوں کےنام ان سیکڑوں مشہور معروف مسلم سائنسدانوں میں سے چند کے ہیں، جنہوں نے اس دنیا کو بے شمار نئے نئے ایجادات و انکشافات سے روشناس کرایا۔ مگر متعصب یورپین سائنسدانوں نے مسلم سائنسدانوں کے ایجادات میں تھوڑے اضافے کر کے اسے اپنی طرف منسوب کر لیا۔ اور خود کو اس کا موجد گرداننے لگے۔ اس کی بے شمار مثالیں آپ کو مل جائیں گی مثلاً:

اصطرلاب کا موجد ابراہیم ابن جندب ہے جیسا کہ ماقبل میں بیان کیا گیا، لیکن آج جب آپ سائنس کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ملے گا کہ اس کا موجد گلیلیو ہے، جس نے اسی اصطرلاب میں تھوڑے بہت اضافے کئے تھے۔ اسی طرح ہوائی جہاز کا سب سے پہلے نظریہ عباس ابن فرناس نے دیا مگر آپ سائنس کی کتابوں میں شاید ہی اس کا نام پائیں۔ اس کی جگہ آپ کو یہ ملےگا کہ ہوائی جہاز کا موجد رابرٹ برادران یعنی اولیور رائٹ اور ولبر رائٹ ہیں۔مگر افسوس کی یہ بات ہے کہ مسلمان قوم بھی تاریخ سے ناواقفیت کے سبب اس افسانے کو حقیقت سمجھ بیٹھی ہے۔

مستفاد منہ:- مسلمان سائنسداں اور ان کی خدمات، دنیائے اسلام میں سائنس و طب کا عروج

نوٹ:۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ غیرجانبداری اختیار کرتے ہوئے آپ تک حقیقت کو پہونچائیں۔ہم قدیم مسلم سائنسدانوں کے حالات زندگی اور ان کے کارناموں پر( ایک سیریزکے تحت)روشنی ڈالیں گے۔ آپ ہماری ہر اپڈیٹ سے باخبر رہنے کیلئے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ویب سائٹ کو سبسکرائب کر لیں۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں