خدا بخش اورنٹیل پبلک لائبریری پٹنہ
محمد قمر الزماں ندوی ۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اس وقت نئی نسل میں کتب بینی کا ماحول بالکل نہیں ہے ، مطالعہ سے ان کو کوئی شوق اور دلچسپی نہیں ہے ، بات نئی نسل تک ہی محدود نہیں ہے ، بلکہ اب تو موبائل اور انٹرنیٹ نے اکثر کو کتابوں سے دور اور فارغ کردیا ہے ۔ نوے فیصد لوگ تو وہ ہیں جو ملازمت مل جانے اور برسر روزگار ہونے کے بعد کتابیں دیکھتے ہی نہیں ،جب وہ کتابیں دیکھتے ہی نہیں اور ان کا مطالعہ کرتے ہی نہیں، تو کتابیں خریدنے اور ان کو جمع کرکے ذاتی لائبریری بنانے کا شوق کہاں سے میسر ہوگا ؟۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگوں کے گھروں میں مہنگے اور قیمتی فرنیچر، آلات و اسباب،ارام دہ لگژری گاڑیاں،اور زندگی کے تعیش کی تمام چیزیں میسر ہیں ،لیکن گھر میں کتابوں کے لیے کوئی خانہ، گوشہ یا لائبریری نہیں ہے ،سوائے بچوں کے نصابی کتابوں کے ، اور ناہی اُردو اخبارات و رسائل اور جریدے ان کے یہاں دستیاب ہیں ۔ کتابوں سے دوری، مطالعہ سے بے توجہی اور معلومات کی کمی اب اتنی ہوگئی ہے کہ ایک بظاہر بہت بڑے عالم دین ہم سے کہنے لگے کہ سیرت کی مشہور و معروف کتاب رحمت للعالمین(صلی اللہ علیہ وسلم)کے مصنف قاضی سلیمان منصور پوری ضلع مظفر نگر کے گاؤں منصور پور کے رہنے والے تھے, ہم نے کہا نہیں آپ کی معلومات غلط ہے، وہ منصور پور پنجاب میں واقع ہے، جو پہلے پٹیالہ ریاست کا حصہ تھا اور وہ پٹیالہ عدالت کے منصف بھی تھے اور ان کا انتقال جدہ سعودی عرب میں ہوا تھا۔ بہر حال آج کی مجلس میں ہم کتابوں کے ایک ایسے عاشق کا تذکرہ کریں گے جن کو قیمتی اور نادر کتابوں کے اکھٹا کرنے کا شوق تھا اور ان کا یہ شوق دیوانگی کی حد کو پہنچا ہوا تھا ۔
مولوی خدابخش خان پٹنہ کے مشہور خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری کے بانی تھے، جسے استنبول عوامی کتب خانہ (ترکی) کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے کتب خانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج یہ قومی اہمیت کے ادارے کے طور پر مان لیا گیا ہے، کیونکہ 1969ء میں بھارت کے پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کی رو سے اس کتب خانے کی نگرانی حکومت اپنے ہاتھ میں لے چکی ہے۔ یہاں پر اردو، فارسی اور عربی کے ہزاروں دستاویزات اور قیمتی و نادر مخطوطات موجود ہیں۔ قبل اس کے اس لائبریری کا ہم تعارف کرائیں پہلے مولوی خدا بخش خاں مرحوم کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں ، تاکہ خلف کو اپنے سلف کی حالات زندگی اور کتابوں سے محبت و شیفتگی نیز کتابوں کے اکھٹا کرنے میں ان کی دیوانگی اور شوق کا علم ہوسکے ۔ بعض موقع پر انہوں نے فٹ پاتھ پر سے بعض نادر و نایاب کتابوں کو حاصل کیا ،جو ملک میں کہیں دستیاب نہیں تھیں اور لوگوں نے کباڑ کے بھاؤ میں ان کتابوں کو کتب فروشوں سے فروخت کردیا تھا ۔ فٹ پاتھ کے ان کتب فروشوں کو معلوم تھا کہ مولوی خدا بخش صاحب کو نادر و نایاب کتابوں کو اکھٹا کرنے کا شوق اور جنون ہے، تو وہ ان سے مہنگے داموں میں کتابیں فروخت کرتے تھے۔ جوہری ہی جوہر کی قدر جانتا ہے ۔ مولوی صاحب جانتے تھے ،کہ ان کتابوں اور مخطوطات کی کیا قدر و قیمت ہے، لہذا وہ ان کتابوں کو مہنگے داموں میں خرید لیتے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ کتب فروش ان سے زیادہ قیمت اور پیسے لے رہے ہیں اور مہنگی قیمت میں کتابیں فروخت کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح کتابوں کو حاصل کرتے اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی جلد سازی کرا کر اس کو محفوظ کرتے جاتے اور اس طرح انہوں نے اپنے والد مرحوم کے کتب خانے کے علاؤہ کتابوں کا ایک بڑا قیمتی اور نایاب ذخیرہ اکھٹا کرلیا اور پھر ایسی لائبریری اور کتب خانہ وجود میں آیا جو ایشیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے ۔
مختصر حالات زندگی
خدابخش خان کی پیدائش 2/ اگست 1842ء کو سیوان کے قریب “اُكھائی” گاؤں میں ہوئی تھی۔ ان کے آباواجداد مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی خدمت میں تھے۔ ان کے والد پٹنہ میں ایک مشہور وکیل تھے، لیکن وہ کمائی کا بڑا حصہ کتابیں خریدنے میں لگاتے تھے۔ انھوں نے ہی پٹنہ میں خدابخش کولایا تھا۔ خدابخش نے 1859ء میں پٹنہ ہائی اسکول سے بہت اچھے نشانات کے ساتھ میٹرک پاس کیا تھا۔ ان کے والد نے انھیں اعلی تعلیم کے لیے کولکتہ بھیج دیا، لیکن وہ نئے ماحول میں خود کو ہم آہنگ نہیں کر سکے اور وہ اکثر صحت کے مسائل سے پریشان رہے، بعد میں انھوں نے 1868ء میں اپنی قانون کی تعلیم مکمل کی اور پٹنہ میں پریکٹس شروع کر دیا، کم وقت میں ہی وہ ایک مشہور وکیل بن گئے۔
والد کا انتقال اور وصیت
1876 ء میں خدابخش کے والد کا انتقال ہو گیا۔ مگر والد نے وصیت کی کہ ان کا بیٹا ان کے گراں قدر مجموعے میں شامل 1700 کے آس پاس کتابوں کو بڑھائے اور اسے ایک عوامی کتب خانہ کی شکل دینے کی کوشش کرے۔
اعزازات
1877ء میں خدابخش پٹنہ میونسپل کارپوریشن کے نائب صدر بن گئے۔ انھیں 1891ء میں خان بہادر کے خطاب سے نوازا گیا۔ تعلیم اور ادب کے میدان میں ان کی شراکت کے لیے 1903ء میں انھیں اس وقت “سي آئ بی” کے خطاب کے ساتھ نوازا گیا۔
خدابخش کتب خانہ اور اس کا افتتاح
خدابخش کتب خانے کا افتتاح 1891ء میں بنگال کے نائب گورنر سر چارلس ایلیٹ نے کیا۔ اس وقت اس لائبریری میں تقریباً 4000 قلمی مخطوطات تھے۔
حیدرآباد کے نظام کی ملازمت
1895ء میں وہ ریاست حیدرآباد کے نظام کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر مقرر ہوئے۔ تین سال کے لیے یہاں رہنے کے بعد وہ پھر پٹنہ لوٹ آئے اور پٹنہ میں وکالت شروع کر دی، لیکن جلد ہی وہ فالج سے متاثر ہو گئے اور انھوں نے صرف کتب خانے تک ہی اپنی سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ 3 اگست 1908 کو ان کا انتقال ہو گیا۔
خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،(خدا بخش مشرقی کتب خانہ) بھارت کے قومی کتب خانوں میں سے ایک ہے۔ یہ کتب خانہ عوام کے لیے 1891ء میں کھولا گیا تھا۔ اِس کتب خانہ کے بانی خان بہادر مولوی خدا بخش خان تھے جنھوں نے 4,000 کتب کے ایک منفرد مجموعہ کے ساتھ اِس کتب خانہ کا آغاز کیا۔ اِس کتب خانہ کی عملداری وزارت ثقافت، حکومت ہند کے دائرہ اختیار میں ہے جبکہ اِس کی نمائندگی بہار کے گورنر کے پاس ہے۔ اِس کتب خانہ میں فارسی زبان، عربی زبان کے قلمی مخطوطات موجود ہیں جبکہ راجپوت اور مغل ادوارِ حکومت میں نمایاں شخصیات کی تصاویر بھی موجود ہیں۔
اولاً یہ کتب خانہ مولوی خدا بخش خان کا ذاتی کتب خانہ تھا، جس میں اُن کے والد محمد بخش کی جمع کردہ 1,400 کتب موجود تھیں جن میں مولوی خدا بخش نے بعد ازاں اضافہ کرتے ہوئے 4,000 کی تعداد تک جمع کیا اور 1880ء تک یہ مولوی خدا بخش کا ذاتی کتب خانہ کے نام سے معروف تھا۔ اِس کتب خانے کا باقاعدہ افتتاح گورنر بنگال چارلس الفریڈ ایلیٹ نے 5 اکتوبر 1891ء کو کیا۔ تقسیم ہند 1947ء کے بعد ڈاکٹر شریدھر واسودیو سوہونی اِس بات کے زبردست حامی تھے کہ اِس مجموعہ کتب کو بھارت میں ہی برقرار رکھا جائے۔ 26 دسمبر 1969ء کو حکومت ہند نے ایک وفاقی قانون سازی بنام خدا بخش اورئینٹل پبلک لائبریری ایکٹ (1969ء) کے ذریعہ اِس کتب خانہ کو قومی کتب خانوں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اِس کی مالی ذمہ داریاں اپنے ذمہ لیں۔
کتب خانہ میں نادر اور بیش قیمت قلمی مخطوطات موجود ہیں جن میں تیمورنامہ (خاندانِ تیموریہ)، شاہنامہ فردوسی، پادشاہ نامہ، جامع التواریخ، دیوان حافظ اور سفینۃ الاولیاء کے قلمی مخطوطات شامل ہیں۔ تیموری مخطوطات پر اکثر مغل شہنشاہوں کے دستخط موجود ہیں اور مہاراجا رنجیت سنگھ کے عسکری حقائق سے متعلق بھی مخطوطات موجود ہیں۔ سلطنت مغلیہ کے زمانہ میں تخلیق کی جانے والی تصاویر، خطاطی اور تزئین و آرائش کی کتب بھی اِس کتب خانہ کا حصہ ہیں جو عربی زبان اور اردو زبان میں ہیں۔ قرآن کریم کا ایک نادر نسخہ جو ہرن کی کھال پر لکھا گیا، بھی موجود ہے۔
کتب خانہ میں قلمی مخطوطات (عربی زبان، فارسی زبان، اردو زبان، ترکی زبان، پشتو زبان) کی تعداد 21,136 ہے۔ طبع شدہ کتب کی تعداد 2,082,904 ہے جن میں انگریزی، عربی، اردو، فارسی، ہندی، جرمن، فرانسیسی، پنجابی، روسی، جاپانی زبان کی کتب شامل ہیں۔ ماہ ناموں، روزناموں اور ہفت وار رسالوں کی بھی کثیر تعداد موجود ہے۔ علاوہ ازیں 2,195 مائیکرو فلم، 752 مائیکروفورم، 182 سلائیڈز، 2,041 آڈیو کیسٹ، 1,051 ویڈیو کیسٹ موجود ہیں۔