اردو زبان کی تاریخ : دوسری قسط

اردو زبان کی تاریخ

(دوسری قسط)

تحریر:احمد

ہند آریائی کا عہد وسطیٰ

      پروفیسر مسعود حسین خان کے مطابق ۵۰۰ قبل مسیح تا ۶۰۰عیسوی کا زمانہ ہے اور ایک قول کے مطابق ۶۰۰ قبل مسیح تا ۱۰۰۰عیسوی کا زمانہ ہے۔ یہ عہد پراکرتوں (فطری زبانیں) جو سنسکرت کی لگائی گئی پابندیوں سے آزاد عوامی زبان تھی کے آغاز و ارتقاء کا عہد کہلاتا ہے۔ اس عہد میں عوامی بولیاں بدھ اور جین متوں کا سہارا لیکر تیزی کے ساتھ ادبی پراکرتوں کی شکل اختیار کر رہی تھیں اس عوامی زبان نے جب ادبی شکل اختیار کیا تو اسے پالی کے نام سے یاد کیا گیا جس کو پہلی پراکرت ہونے کا شرف حاصل ہے۔

عہد وسطیٰ کی ادبی پراکرتیں

اس عہد کی ادبی پراکرتیں پانچ ہیں:
(۱)مہاراشٹری (۲) شورسینی (۳) مگدھی (۴) اردھ مگدھی (۵) پشاچی۔

مہاراشٹری پراکرت
      ادبی لحاظ سے اس پراکرت کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی مراٹھی زبان اسی پراکرت سے نکلی ہے اس عہد کا زیادہ تر شعری و ادبی سرمایہ  اسی پراکرت میں ملتا ہے سب سے پہلے اس کے قواعد مرتب کیے گئے۔سنسکرت کے ڈراموں کے گیت زیادہ تر اسی پراکرت میں لکھے جاتے تھے۔
شورسینی پراکرت
      اس کا مرکز شورسین (متھرا) کا علاقہ تھا۔سنسکرت کے بعد اگر کسی پراکرت کا رواج تھا تو وہ یہی پراکرت تھی جس پر سنسکرت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے جہاں سنسکرت اور شورسینی دونوں پھلتی پھولتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دونوں میں بڑا قریب کا رشتہ نظر آتا ہے۔
مگدھی پراکرت
      یہ مگدھ دیس یعنی جنوبی بہار کی بولی تھی، چونکہ یہ آریائی تمدن کے مراکز سے کافی دور تھی اس لئے اس پر غیر آریائی بولیوں کا شدید اثر ملتاہے۔   آریا اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسے کمترلوگوں کی زبان گردانتے تھے۔
اردھ مگدھی پراکرت
      ’’اردھ‘‘ کے معنی ہے آدھا یعنی آدھی مگدھی۔ بہار سے لیکر الہ آباد تک کے علاقے میں بولی جانے والی زبان اردھ مگدھی کہلاتی تھی بعد میں دلّی والے اسے پورب کے نام سے پکارنے لگے اور مغربی ہندوستانی اسے پراچیہ کہا کرتےتھے۔ گوتم بدھ اور مہاویر جین نے اسی پراکرت کی قدیم شکل میں اپنے مذہب کی اشاعت و تبلیغ کی ہے۔
پشاچی پراکرت
      یہ پنجاب اور کشمیر کے علاقے میں بولی جانے والی زبان تھی یہ پراکرت اتنی تاریکی میں تھی کہ عوام میں یہ بھوت پریت کی زبان سے مشہورتھی۔

ہند آریائی کا عہد جدید

      یہ عہد اپ بھرنشوں کا عہد کہلاتا ہے۔ مسعود حسین خان کے مطابق اس کا زمانہ ۶۰۰عیسوی تا ۱۰۰۰عیسوی اور ایک قول کے مطابق ۱۰۰۰عیسوی تا حال زمانہ ہے۔ پروفیسر مسعود حسین لکھتے ہیں کہ’’ لسانیات کا یہ اٹل اصول ہے کہ بول چال کی زبان جتنی تیزی سے بدلتی ہے ادب کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے سکتی ہی وجہ ہے کہ جب سنسکرت کے قواعد مرتب کئے جارہے تھے، تو اسے خالص کرنے کیلئے عوامی زبان کو ترک کر دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوامی زبان سنسکرت سے دور ہو گئی اور پراکرت (عوامی زبان) نے سر اٹھایا اور سنسکرت سے آگے نکل گئی۔ ٹھیک یہی معاملہ پراکرتوں کے ساتھ بھی ہوا جب پراکرتوں کے قواعد مرتب کئے جانے لگےتو یہ بھی عوامی زبان سے الگ تھلگ جا پڑی اور عوامی بولی نے ایک نئی شکل اختیار کی جسے اپ بھرنش نام دیاگیا۔

اپ بھرنش
      ’’اپ بھرنش‘‘ کے معنی ہے بگڑی زبان چونکہ پراکرت نے جب ادبی شکل اختیار کر لی تو اس کے مقابلے میں یہ بگڑی ہوئی معلوم ہونے لگی تو قواعد نویسوں نے اسے اپ بھرنش کہ دیا۔ ڈاکٹرسدھیشور ورما کے مطابق ان بولیوں کا آغاز چھٹی صدی عیسوی سے ہوتا ہے۔ حالانکہ یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہند آریائی کا عہد جدید اور اپ بھرنشوں کی ابتداء چھٹی صدی عیسوی سے ہوتی ہے۔ اپ بھرنش چونکہ اس وقت کی عوامی بولی اور زندہ زبان تھی جسے دیکھ کر پڑھے لکھے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئےچنانچہ۸۰۰ عیسوی سے ۱۰۰۰ عیسوی تی دوآبہ (متھرا کا علاقہ) کی شورسینی اپ بھرنش ایک طرح سے سارے شمالی ہندوستان کی ادبی زبان بن گئی تھی۔

اپ بھرنش کی تقسیم

پراکرت کے مشہور عالم مارکنڈے نے اپ بھرنش کی تین قسمیں بیان کی ہے:
(۱)ناگر اپ بھرنش (۲) براچڈ اپ بھرنش (۳) ۱پ ناگر اپ بھرنش
ناگر اپ بھرنش
      یہ راجستھان اور گجرات کی قدیم بولیوں کی ادبی شکل تھی اس پر شورسینی کا اثر اس قدر پڑا کہ وہ اس کی بیٹی معلوم ہونے لگی۔ اس اپ بھرنش کو دوسری اپ بھرنشوں پر فوقیت حاصل تھی بایں وجہ کہ یہ علمی طبقہ میں کافی مقبول تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس اپ بھرنش میں بکثرت تصانیف ملتی ہے۔ ہندی سرم الخط ’’دیو ناگری ‘‘اسی اپ بھرنش سے بنی ہے۔
براچڈ اپ بھرنش
یہ سندھ میں رائج تھی موجودہ سندھی اسی سے نکلی ہے۔
اُپ ناگر اپ بھرنش
    یہ ناگر اور براچڈ کے اختلاط سے بنی تھی اس کا رواج مغربی راجپوتانہ اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں تھا۔
رفتہ رفتہ اپ بھرنش بھی ادبی زبان بن گئی۔ یہ بالکل ٹھیک ٹھیک بتانا مشکل ہے کہ اپ بھرنش کس سن میں ختم ہوتی ہے اور موجودہ آریائی زبانوں کا آغاز کب ہوتاہے مسعود حسین خان کے تحقیق کے مطابق جدید آریائی زبانوں کا طلوع ؁ ۱۰۰۰ء سے ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی جدید زبانوں کی پیدائش پراکرتوں سے نہیں بلکہ اپ بھرنشوں سے ہوئی ہے۔ ان کا سلسلہ حسب ذیل اپ بھرنشوں سے ملایا جا سکتاہے:
(۱)شورسینی (۲) مگدھی (۳) اردھ مگدھی (۴) مہاراشٹری (۵) براچڈ ور کیکئی۔
شورسینی اپ بھرنش: شورسینی اپ بھرنش متھرا کے علاقے میں بولی جاتی تھی اس میں چار بولیاں شامل ہیں:
      (۱)کھڑی بولی یا ہندوستانی [موجودہ اردو و ہندی ](۲) راجستھانی (۳) پنجابی[مشرقی] (۴) گجراتی
نوٹ:۔ گجراتی اور راجستھانی کا تعلق شورسینی کی اس شکل سے ہے جسے ناگر اپ بھرنش کہا جاتاہے۔
مگدھی اپ بھرنش: اس کا علاقہ بہت ہی وسیع و عریض تھا جس کے سبب مختلف جگہوں پر اس کے مختلف نام پڑ گئے۔ بنگال میں یہ پراچیہ گوڑا اور ڈھکئی کہلائی جس سے موجودہ بنگالی اور آسامی پیداہوئے۔ اڑیسہ میں اس کا نام ات کلی پڑا جس سے موجودہ اڑیا نے جنم لیا۔ بہار کی تمام بولیاں اسی اپ بھرنش سے نکلی ہے۔ بہار کی ایک بولی جس کا نام مگہی ہے اسی مگدھی کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
اردھ مگدھی: اس میں مشرقی ہند کی تمام بولیاں آتی ہیں مثلاً اودھی، چھتیس گڑھی، بھوجپوری وغیرہ ۔
مہاراشٹری اپ بھرنش: اس کا خاص مرکز موجودہ برار تھا جسے سنسکرت میں مہاراشٹر کے نام سے پکارا گیا ہے۔
براچڈ اور کیکئی اپ بھرنش: براچڈ اپ بھرنش سے سندھی اور کیکئی سے لہندا نکلی ہے۔ مشرقی پنجابی کا تعلق بھی اسی کیکئی اپ بھرنش سے تھا لیکن بعد میں اس پرشورسینی کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ گجراتی اور راجستھانی کی طرح ’’گریرسن‘‘ نےاس کا سلسلہ بھی شورسینی اپ بھرنش سے ملا دیا۔

قدیم پراکرتوں کا رشتہ موجودہ زبانوں سے

    یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ قدیم پراکرتوں اور اپ بھرنشوں کا رشتہ ہم موجودہ زبانوں سے اتنی آسانی سے نہیں ملا سکتے۔ اس کو اس طرح سمجھئے مثلاً بہاری، بنگالی،اڑیا اور آسامی زبانوں کا تعلق مگدھی اپ بھرنش سے ملتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ؁ ۶۰۰ء سے ؁ ۱۰۰۰ء تک کے عرصہ میں ان علاقوں میں ایک ہی زبان رائج تھی ،جس کی ادبی شکل مگدھی اپ بھرنش تھی۔ ہاں یہ تو ممکن ہے کہ بعض اصول ان میں مشترک ہوں۔ لیکن یہ ماننا کہ اتنے بڑے علاقے میں ایک ہی زبان رائج تھی لسانی اعتبار سے ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ایک ہی زبان بولی جاتی تھی تب بھی علاقائی اختلافات کا پیدا ہوجانا لازمی ہے۔

یہی بات دوسری پراکرتوں اور اپ بھرنشوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ آج پنجاب سے لیکر بنگال تک ادبی حیثیت سے صرف ایک زبان استعمال میں لائی جاتی ہے اور اس کی بنیاد اسی بولی پر ہے جو دلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی ہے یعنی کھڑی بولی(موجودہ اردو ہندی) اس کے ساتھ برج بھاشا، بگھیلی، پنجابی اور بہاری بولیاں آج بھی اپنے علاقے کی زندہ زبانیں ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی ادبی مرتبہ حاصل نہیں ۔اس لئے آج سے دو سو سال بعد بھی محققین کو ان زبانوں کے علاقوں میں بھی صرف ادبی زبان (اردو، ہندی ) کے نمومے مل سکیں گے۔ کیا اس وقت کہ کہنا صحیح ہوگا کہ کھڑی بولی اتنے وسیع علاقے میں بولی جاتی تھی۔

آج کھڑی بولی کو جتنا عروج حاصل ہے کسی زمانےمیں کسی زبان کو اتنی شہرت حاصل نہیں ہوئی باوجود اس کہ ابھی تک یہ شہر اور قصبات کے مقامی بولیوں کی جگہ نہیں لے سکی در اصل زبان کا جو نقشہ آج ہے وہی آج سے اٹھارہ سو سال پہلے تھا۔(مقدمہ تاریخ زبان اردو۔ مسعود حسین خان)

جدید ہند آریائی زبانوں کی تقسیم

      جدید ہند آریائی زبانوں کا زمانہ؁ ۱۰۰۰ء تا حال زمانہ ہے۔ جدید آریائی زبانوں کا سلسلہ اپ بھرنشوں سے ملتا ہےجس کی تقسیم درج ذیل طریقوں پر ہوتی ہے۔
شمالی مغربی ہندوستان کی زبانیں: (۱) لِہندا [مغربی پنجابی] (۲) سندھی
لہندا: یہ مغربی پنجاب کی زبان تھی جہاں قدیم زمانے میں پشاچی پراکرت اور پراچڈ اپ بھرنش بولی جاتی تھی۔ یہ مغربی پنجابی، جاٹکی، ہندکی یا اُچی کے ناموں سے بھی مشہور ہے۔ لہندا میں کوئی ادبی کارنامہ نہیں ملتا۔ اس کا رسم الخط لِِنڈا ہے جو موجودہ وقت میں فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔
سندھی: یہ صوبہ سندھ کی بولی ہے اس میں عربی، فارسی کے الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔ موجودہ سندھی کا تعلق براچڈ اپ بھرنش سے ملتا ہے۔ اس کا رسم الخط پاکستان میں عربی اور ہندوستان میں دیوناگری ہے۔

جنوبی ہندوستان کی آریائی زبان

مراٹھی: یہ مہاراشٹر کی زبان ہے اس کی تین کاص بولیاں ہیں جن میں سے پونا کے اطراف کی بولی کو ادبی حیثیت حاصل ہے۔ ادبی لحاظ سے یہ ہندوستان کی ممتاز ترین زبان میں شمار کی جاتی ہے۔ اسے شاعری اور موسیقی کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی ہندی کی طرح اس کا اختتام بھی ’’الف‘‘ پر ہوتا ہے۔ اور جمع ’’اے‘‘ جوڑ کر بنائی جاتی ہے۔
مشرقی ہندوستان کی زبانیں
(۱)آسامی (۲) بنگالی (۳) اڑیا (۴) بہاری
آسامی: آسام کی زبان ہے جسے بنگالی کی بہن بھی کہا جاتا ہے۔ آسامی زبان قواعد کے لحاظ سے بہت حد تک بنگالی سے ملتی جلتی ہے۔
بنگالی: یہ ریاست بنگال اور بنگلہ دیش کی زبان ہے شہری بنگالی میں سنسکرت الفاظ بکثرت مستعمل ہیں۔ بقول مسعود حسین خان ادبی بنگالی میں سنسکرت کے خالص الفاظ کی جتنی بھرمار ہے اس کی مثال اگر ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں ملتی ہے تو پرانی ہندی ہے۔
اڑیا: یہ اڑیسہ میں بولی جاتی ہے اسے ات کلی یا اوڈری بھی کہتے ہیں ۔ اس کے قواعد بھی بنگالی سے کافی ملتے جلتے ہیں۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ بنگالی اور اڑیا میں ماں بیٹی کا رشتہ ہے۔
بہاری: یہ بہاراور یوپی کے کچھ اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ بنگالی، اڑیا اور آسامی کی طرح اس کی پیدائش بھی مگدھی  اپبھرنش سے ہوئی ہے۔ بہار کی تین بولیاں قابل ذکر ہیں:
میتھلی: یہ دربھنگہ اور اس کے قرب و جوار میں بولی جاتی ہے۔
مگہی: اس کا مرکز پٹنہ ہے ۔
بھوجپوری: یہ یوپی کے گورکھپور، اعظم گڈھ، غازی پور، بنارس، اور بہار کے چمپارن اور سیوان کے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔

مغربی ہندی اور اس کی بولیاں

      مغربی ہندی کے حدود تقریباً وہی ہیں جو مدھیہ دیش کے ہیں۔ یہ مغرب میں سرہند سے لیکر مشرق میں الہ آباد تک، شمال میں ہمالیہ کے دامن سے لیکر جنوب میں وندھیاچل اور بندیل کھنڈ تک بولی جاتی ہے( مقدمہ تاریخ زبان اردو) گریرسن کے مطابق مغربی ہندی کی پانچ بولیاں اہم ہیں جو حسن ذیل ہیں:
(۱)کھڑی بولی یا ہندوستانی(۲) ہریانوی، جاٹو یا بانگڑو (۳) برج بھاشا (۴) قنوجی (۵) بندیلی
کھڑی بولی: مغربی ہندی کی وہ بولی ہے جو مغربی روہیل کھنڈ دوآبہ کے شمالی حصہ اور پنجاب کے ضلع انبالہ میں بولی جاتی ہے۔
ہریانوی،جاٹو یا بانگڑو: دہلی کے شمال مغربی اضلاع کرنال، رہتک، حصاروغیرہ کی بولی ان تینوں ناموں سے جانی جاتی ہے۔ لیکن اس کا ہریانوی نام زیادہ مشہور ہے۔ گریرسن نے موجودہ ہریانوی کو کھڑی بولی ہی کی ایک شکل مانا ہے۔ جس میں راجستھانی اور پنجابی بولیوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔
برج بھاشا: مغربی ہندی کی سب سے نمائندہ بولی اور بقول مسعود حسین اس کی سب سے عزیز بیٹی ہے۔ یہ کھڑی بوکی کے مقابلے میں شورسینی اپ بھرنش اور پراکرت کی سچی جانشین ہے۔ اس کا مرکز متھرا کا علاقہ ہے۔ لیکن یہ جنوب میں آگرہ، بھرت پور، دھول پور، کرولی، ریاست گوالیار اور جے پور کے مشرقی اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے۔ شمال میں گڑگاؤ ضلع کے مشرقی حصص تک رائج ہے۔
بندیلی: جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے بندیل کھنڈ میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والے بندیلے کہلاتے ہیں۔ باندہ، ہمیرپورجالون اور جھانسی کے اضلاع میں بھی یہ بولی جاتی ہے۔ حالانکہ بندیلی کا علاقہ اس سے زیادہ وسیع ہے شمال میں یہ آگرہ، مین پوری اور ایٹہ تک بولی جاتی ہے۔ اس کے مشرق میں پوربی ہندی کی بگھیلی بولی جاتی ہے۔ شمال مغرب میں یہ قنوجی اور برج بھاشا سے گھری ہوئی ہے۔ اس کے جنوب مغرب میں راجستھان کی بولیاں رائج ہیں۔

مشرقی ہندوستان کی زبانوں سے گہرا تعلق رکھنے والی زبانیں

مشرقی ہندی یا پوربی ہندی یہ مغربی ہندی کے پورب میں بولی جاتی ہے۔ یہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے مغرب ہندی سے ملتی جلتی ہے اور بعض خصوصیات کے لحاظ سے بہاری اوربنگالی سے۔ لیکن اس کا گہرا رشتہ مشرقی ہندوستان کی زبانوں یعنی بہاری اور بنگالی وغیرہ سے ہے۔ اس کی تین خاص بولیاں ہیں: (۱) اودھی (۲) بگھیلی (۳)چھتیس گڈھی ۔ گریرسن نے سب سے پہلے مشرقی ہندی کو ایک علیحدہ حیثیت دی اس سے پہلے اسے ہندی ہی کی ایک شاخ مانی جاتی تھی۔ یہ ناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں