محبت اور عشق
مولانا ذکی الرحمٰن غازی مدنی
(جامعۃ الفلاح بلریاگنج ، اعظم گڑھ)
پورے عالمی سماج میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے مابین قبل از شادی تعلقات پیدا ہونے کا فتنہ عام ساہوتا جارہا ہے۔ نادان لوگ اسے عشق اور محبت جیسے معصوم الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس برائی کے مسلم معاشرے میں پھیلنے کا بنیادی سبب تو یہی ہے کہ مناسب عمر میں مناسب شریکِ زندگی کا ساتھ نہیں ہوپاتا۔ مناسب عمر میں شادی نہ کرنے کے بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر غیر اسلامی افکار وخیالات اور کافرانہ رسوم ورواج ہیں جو کسی طرح بھی بندۂ مومن کے شایانِ شان نہیں ہوسکتے۔
بہرحال مناسب عمر میں شادی نہ ہونے کی وجہ سے ایک بیماری عشق اور محبت کے نام سے بھی پھیلتی جارہی ہے۔
اس بیماری کے پھیلانے میں چند اسباب کا بڑا ہاتھ ہے:
٭دلوں کا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت سے خالی ہوجانا۔
٭اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دکھاوے کی زبانی محبت ہونا، اور اخلاص سے دل عاری ہونا۔
٭نتائج وعواقب میں غور نہ کرنا۔
٭حقائق ومضمرات کو چھوڑ کر صورتوں اور ظاہر پر مرنا۔
٭تعلق اور راہ ورسم پیدا کرنے سے پہلے بصیرت کی نگاہ سے انسان کا جائزہ نہ لینا۔
حقیقت بات یہ ہے کہ اگر دلوں میں محبتِ الٰہی گھر کر جائے اور اسی کی رضا مقصودِ عمل وفکر بن جائے تو ناممکن ہے کہ دلِ انسانی کسی اور کی محبت کو گوارا کرلے۔ اللہ کے سچے رسولﷺ کا ارشادِ عالی ہے: جس شخص کے اندر تین چیزیں ہوتی ہیں وہ ایمان کی حلاوت پالیتا ہے؛یہ کہ اللہ اور اس کے رسولﷺکی محبت ماسوا سے زیادہ ہو، یہ کہ انسانوں سے محبت کی بنیاد اللہ کی محبت ہو اور یہ کہ توفیقِ الٰہی کے ذریعہ کفر سے نجات پالینے کے بعد انسان واپس کفر میں لوٹنے سے اُتنی ہی نفرت کرے جتنا کہ اسے اپنے آپ کے آگ میں پھینکے جانے سے نفرت ہوتی ہے۔ ’’(صحیح بخاریؒ: ۱۶۔ صحیح مسلمؒ: ۱۷۴)
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح ایمانی لذت وحلاوت کا ادراک انسان اسی وقت کرپاتا ہے جبکہ یہ تینوں عادات اس کے اندر پائی جانے لگیں۔ ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ ہر ایمان والے مرد وعورت کے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت سب پر فائق ہوجائے۔ جسمِ انسانی کے حسن وجمال پر لٹو ہوجانے والے دلوں میں یہ ایمانی حلاوت ولذت مفقود ہوتی ہے جوکہ بڑی محرومی وشقاوت کی بات ہے۔ دوسری صفت یعنی کسی انسان سے اللہ کی محبت کی خاطر محبت رکھی جائے، یہ بھی عشق ومحبت کی آڑ میں جنسی ہوس کے متلاشیوں کے یہاں نہیں ملتی کیونکہ ان کے یہاں تعلقات یا پسندیدگی کی بنیاد جسمانی حسن وجمال، خوش گفتاری یا خوبصورتی وغیرہ فانی صفات وحالات ہوتے ہیں۔ اللہ کی محبت واتباع کی خاطر اس قسم کے تعلقات قائم نہیں کئے جاتے۔ ایمانی لذت کی تیسری علامت بھی ایسے لوگوں کے یہاں مفقود ہوجاتی ہے کہ بسااوقات جنسی آوارگی مذہب اور دین کی قید سے آزاد ہوکر اپنے گل کھلاتی ہے اوربہت سے ایمان مخالف اعمال وعادات بلکہ صریح کفر کا اقرار بھی کرا کے چھوڑتی ہے۔
اللہ اور اس کے رسولﷺ کی سچی محبت سے خالی دل ہی اس دنیا کی ظاہری زیب وزینت اور ٹیپ ٹاپ پر فریفتہ ہوتے ہیں۔ اگر دلوں میں اللہ کی حقیقی محبت سرایت کرجائے تو ناممکن ہے کہ کوئی اور اس میں اپنی جگہ بناسکے اور دل کی دنیا کا معبود بن بیٹھے۔ الٰہی محبت کی علامت ہی یہ ہے کہ صرف ایسے لوگوں سے محبت واپنائیت اختیار کی جائے جو کسی اخروی خیر یابھلائی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور کسی نیک عمل میں ہمارے معاون بن سکتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کے والد، اولاد اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۱۵۔ صحیح مسلمؒ: ۱۷۷)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے اللہ کے رسولﷺ سے عرض فرمایا کہ اے اللہ کے رسولﷺآپ کا وجود مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہے سوائے میری اپنی جان کے۔ یہ سن کراللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!ایمان اسی وقت مکمل ہوگا جب کہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز ہوجاؤں۔ حضرت عمرؓنے کہا: تو اب اے اللہ کے رسولﷺآپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ آپﷺنے سن کر فرمایا: ہاں !اب اے عمر۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ: ۶۶۳۲)
اپنے ہی جیسے فانی انسانوں کی محبت اور پیار میں گرفتار لوگ اس عظیم الشان مرتبے اور اس بلند مقام سے محروم رہ جاتے ہیں۔ جان لیجئے کہ حکمِ الٰہی کے خلاف دنیا میں کی جانے والی ہر محبت قیامت کے دن عداوت اور نفرت میں تبدیل ہوجائے گی، اس وقت ہر محبوب اپنے محبوب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے گا کہ اس کی دانست میں اسی کی وجہ سے وہ دنیا میں عملِ صالح سے محروم رہاتھا اور گناہ پر گناہ کرتا چلا گیا تھا۔ فطری محبت جو انسان کی سرشت میں ڈال دی گئی ہے یعنی اولاد کی محبت، والدین کی محبت، میاں بیوی کی محبت، اگر یہ جائز محبتیں بھی حکمِ لٰہی کی خلاف ورزی میں کام آتی ہیں تو ان کا حشر بھی ایسی ہی عداوت ونفرت کی شکل میں ظاہر ہوگا۔ ارشادِ ربانی ہے: (معارج، ۱۰-۱۴) ’’اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہیں پوچھے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے۔ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا، اور روئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ میں دیدے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے۔‘‘ (زخرف، ۶۷) ’’وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔‘‘
دوسری آیت میں بتایا گیا کہ وہاں ایک دوسرے کے چاہنے والے سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے متقیوں کے۔ یہ متقی وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی ہر محبت وقلبی تعلق اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کی محبت کی بنیاد آپس میں ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت کرتے رہنے پر رکھی جاتی ہے۔ جو ایک دوسرے کو خیر کی دعوت دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل منافقین کی طرح نہیں ہوتا کہ برائی کا حکم دیں اور بھلائی سے روکیں اور اہلِ ایمان میں برائیوں کے پھیلانے پر خوش ہوں اور اسی کی کوششیں کریں۔ ایسے ہی منافقین کے لیے جہنم کا سب سے نچلا درجہ مخصوص کیا گیا ہے۔
کسی بھی لڑکے لڑکی کے بیچ قائم ہونے والا محبت وپسندیدگی کا رشتہ یقینا گناہ اور سرکشی میں تعاون ویکجہتی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ یہ ایک شیطانی ہتھکنڈا ہوتا ہے جو دھیرے دھیرے ایسی سنگین شکل اختیار کر جاتا ہے کہ شیطان متعلقہ اشخاص پر پوری طرح غالب آجاتا ہے اور دل مکمل طور سے فساد وشیطنت کا مرکز بن جاتا ہے۔ شیطان سے مغلوبیت کا یہی مرحلہ ہوتا ہے جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ میرا سکون وچین اور میرا قرار واطمینان صرف اور صرف محبوب سے وصال میں ہے، حالانکہ یہ ایک شیطانی دھوکہ یا غلبہ ہوتا ہے جو انسان کی عقل کو ماؤف کردیتا ہے۔
علامہ ابن القیمؒ کہتے ہیں کہ حرام محبت جب عشق کے درجہ میں پہنچ جاتی ہے تو عاشق کا دل پوری طرح شیطان کے قبضہ میں چلا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ اپنے معشوق کے خیال، تذکرہ اور سوچ میں پڑا رہتا ہے یہاں تک کہ حالت پاگل پن اور جنون تک پہنچ جاتی ہے۔ جائز محبت اور حرام محبت میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے کہ میاں بیوی کی محبت، اولاد ووالدین کی جائز محبت انسان کو کچھ کرنے کا سبق دیتی ہے، ان کی خاطر اپنی ذات کو بھلادینے کا سبق دیتی ہے اور ان کی سعادت وکامیابی کے لیے محنت ومشقت اٹھانے کی تلقین کرتی ہے۔ اس کے برخلاف آپ دیکھیں گے کہ حرام محبت میں مبتلا شخص سب سے پہلے اللہ کے حقوق سے غافل ہوجاتا ہے اور بعد ازاں بندوں کے حقوق سے بھی بے پرواہ ہوتاچلاجاتا ہے۔ حرام محبت انسان کو خودغرضی کا سبق دیتی ہے اور دوسروں کو قربان کرکے، دوسروں کی خوشی چھین کر کسی طرح اپنی خوشی کو حاصل کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔ (روضۃ المحبین ونزھۃ المشتاقین، ابن القیمؒ: ص۳۴)
اس حرام محبت یا عشق کے متعدد مفاسد ونقصانات ہوتے ہیں: نمبر ایک اس کی وجہ سے انسان اپنے ربِ حقیقی کی محبت وطاعت سے غافل ہوکر مخلوق کی محبت وخیال میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل اپنے معشوق ومحبوب کی محبت میں بجائے لذت کے مشقت اور بجائے راحت کے عذاب کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی قاعدہ ہے کہ جو انسان بھی اللہ کو چھوڑ کر غیراللہ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دے گا، وہ لامحالہ اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے نقصان اٹھائے گا اور لذت کی جگہ عذاب اس کا مقدر بنے گا۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ مرفوعاً روایت کرتی ہیں کہ جو شخص لوگوں کی ناراضگی مول لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی ایذا وتکالیف سے اس کو محفوظ کر دیتے ہیں، تاہم جو انسان اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر انسانوں کی رضا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے انسانوں کے حوالے کرکے اُن کا دست نگر بنا دیتے ہیں۔‘‘ (سنن ترمذیؒ: ۲۴۱۴)
اس حرام محبت کا تیسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس میں مبتلا ہونے والا انسان ہر لحاظ سے بے غیرت اور اپنی عزت وخودداری کو بیچ دینے والا بن جاتا ہے۔ اس کی ساری خواہشات وجذبات اپنے محبوب کے تابع ہوجاتی ہیں اور وہ زرخرید غلام کی طرح اس کی طاعت کرنے اور اس کے ناز اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کا چوتھا اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس حرام محبت میں مبتلا انسان اپنے دینی ودنیاوی مفادات وفوائد سے غافل ہوجاتاہے، اس کی سوچ بیحد محدود ہوجاتی ہے اور اس کی دنیا سمٹ کر صرف ظاہری وجنسی جمال میں محبوس ہوجاتی ہے۔ عشق ومحبت کا نام ہٹا دیا جائے تو ہمارے عرف میں ایسے انسانوں کو پاگل اور مجنون کہا جاتا ہے جو خود دلالت کرتا ہے کہ انسان اس حرام محبت کی دھن میں پاگلوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے اور ان سے بھی زیادہ اپنے دنیاوی اور اخروی فوائد ومصالح سے بے پروائی برتنے لگتا ہے۔
دینی احکام ومصالح کا تعلق بھی اسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے کہ انسان کا دل اللہ کی طرف کامل توجہ رکھتا ہے، اس کی فرماں برداری کو اپنے لیے مایۂ امتیاز خیال کرتا ہے۔ اب اگر یہی رویہ اور یہی صفات وہ کسی اور کو دے دے تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ باقی رہ سکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ حرام طریقہ سے کئے جانے والے عشق ومحبت میں انسان نہ دنیا کے کسی کام کا رہتا ہے اور نہ آخرت کے کسی لائق۔
مصیبت اس وقت بیحد سنگینی اور ہولناکی اختیار کرلیتی ہے جب کہ محبوب کا تعلق ملتِ کفر والحاد سے ہو۔ کہنے یا سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ کسی کافر وملحد سے اس اس درجہ محبت رکھنا کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام واوامر کی بھی پرواہ نہ ہو اور کسی کے لیے اس دنیا میںوہی سب کچھ بن جائے تو یہ چیز اپنے آپ میں انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کردیتی ہے۔ ائمۂ اہلِ سنت والجماعت میں سے شیخ الاسلام علامہ محمد بن عبدالوہابؒ وغیرہ نے اس قسم کی محبت کو ارتداد مانا ہے یعنی اس کی وجہ سے انسان مسلمان باقی نہیں رہتا۔ (فتح المجید لشرح کتاب التوحید، عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہابؒ: ص۳۷۹)
اسی طرح اس سے کچھ کم درجہ سنگینی وہولناکی کی بات تب ہوتی ہے جبکہ حرام محبت میں جس سے دل لگایا جائے وہ فاسق وفاجر اور دینی احکام کی خلاف ورزی کرنے والا اور غلط عقائد وافکار اور بدعات وخرافات کا ماننے والا ہو۔ ایسے لوگوں کی محبت انسان کو لازماً انہی کے رنگ میں رنگ جانے پر مجبور کردیتی ہے، اور ظاہر بات ہے کہ حق کو پاکر اسے ٹھکرا دینے والے ناشکروں کے لیے اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب اور پریشانیوں میں بری طرح مبتلا کر دیا جائے۔ ارشادِ باری ہے: (ابراہیم، ۷) ’’اور یاد رکھو کہ تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس حرام عشق ومحبت کا علاج کیا ہے؟ ذیل میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے:
۱) اس کا سب سے پہلا علاج یہ ہے کہ شادی بیاہ کے معاملہ میں خالص اسلامی اور فطری مزاج کو اختیار کرتے ہوئے مناسب عمرمیں پہنچتے ہی لڑکے لڑکیوں کی شادی کر دی جائے۔ وہ والدین جو بلا کسی عذر کے، محض جاہلانہ رسوم ورواج کی پابندی کی وجہ سے اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی کو موخر کرتے رہتے ہیں وہ جان لیں کہ اگر ان سے اس دوران کسی بدکاری یا گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے، تو وہ بھی اس کے گناہ میں برابر کے شریک مانے جائیں گے۔
۲) اس کا دوسرا علاج یہ ہے کہ اللہ کی محبت کو زیادہ سے زیادہ دلوں میں جاگزیں کیا جائے۔ اس بیماری میں مبتلا انسانوں کے لیے اللہ کی محبت ایک طرح کا اینٹی بایوٹک (مضاد حیوی) یا تریاق ہوتاہے کیونکہ اللہ کی محبت سے غافل اور جاہل د ل میں ہی کسی اور کی محبت اپناگھر بناپاتی ہے۔
۳) اسلام کی مشروع کردہ ظاہری وباطنی عبادات کی انجام دہی میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ یہ دلوں سے غیر اللہ کی محبت کو بیحد کم یا بالکل ختم کردیتی ہیں۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ اسلامی عبادات وطاعات کو انجام دینے کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے۔
۴) اس بیماری کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ کثرت سے روروکر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی جائیں اور اپنے دل کو غیر اللہ کی محبت سے خالی کرانے کی التجائیں کی جائیں۔ اللہ کے رسولﷺ کافرمان ہے کہ بندوں کے قلوب اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان میں ہوتے ہیں، وہ انہیں جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ ‘‘(سنن ابن ماجہؒ: ۳۸۳۴۔ صحیح مسلمؒ: ۶۹۲۱)
۵) قرآنِ کریم نے اس بیماری کا جو علاج تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اندر اخلاص اور خالص اللہ کی خاطر کام کرنے کی عادت پیدا کی جائے۔ حضرت یوسفؑ اور زلیخا کا واقعہ سبھی کو یاد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کو زلیخا کی کارستانیوں سے نجات دی تھی۔ اس بابت قرآن میں جو وجہ بتائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ چونکہ حضرت یوسفؑ ہمارے مخلص بندے تھے اس لیے ہم نے انہیں زلیخا کے دامِ فریب میں نہیں آنے دیا۔ فرمانِ الٰہی ہے: (یوسف: ۲۴) ’’وہ اس کی طرف بڑھی اور یوسف بھی اس کی طرف بڑھ جاتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا۔ ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کردیں، درحقیقت وہ ہمارے خالص کیے گئے بندوں میں سے تھا۔‘‘ آیتِ کریمہ میں صراحت کی گئی ہے کہ ہم نے حضرت یوسفؑ کو عشق اور بدکاری کی لعنت سے اسی لیے محفوظ رکھا تھا کیونکہ وہ ہمارے لیے اخلاص پر کاربند تھے۔ سچی بات بھی یہی ہے کہ جب دل میں اللہ کی محبت خالص ہوجائے اور سارے اعمال میں اخلاص کی خوبی پیدا ہوجائے تو ظاہر فریب صورتوں اور شکلوں کی محبت اس میں داخل نہیں ہوسکتی۔
۶) اس بیماری کا آخری علاج یہ ہے کہ انسان اپنی بصیرت اور عقل کو استعمال کرکے سوچے تو اسے نظر آجائے گا کہ جس شکل وصورت پروہ مرمٹا ہے، درحقیقت اس کے اندر کوئی جاذبیت نہیں پائی جاتی۔ ہر دلچسپ اور دل فریب صورت کے اندر ایسی کمیاں اور خامیاں ملتی ہیں جن سے انسان کی فطرتِ سلیمہ نفرت کرتی ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم بھی خدا کی خدائی میں اسی طور شریک مانے جاتے ہیں کہ حضرت مریم -معاذ اللہ- اللہ کی بیوی اور حضرت عیسیؑ-معاذ اللہ- اللہ کے بیٹے ہیں۔ قرآن نے ان کے اس مضحکہ خیز باطل عقیدہ کا ابطال کرتے ہوئے جو فرمایا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ ارشادباری ہے: (مائدہ، ۷۵) ’’مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول تھا، اس سے پہلے اور بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے، اس کی ماں ایک راست باز عورت تھی اور وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم کس طرح ان کے سامنے حقیقت کی نشانیاں واضح کرتے ہیں، پھر دیکھو یہ کدھر الٹے پھرے جاتے ہیں۔‘‘ فرمایا گیا کہ یہ دونوں خدا کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ یہ انسان تھے اور انسانوں میں جو عیب کی باتیں ہوتی ہیں وہ ان میں بھی پائی جاتی تھیں۔ دونوں عام انسانوں کی طرح ہی غذا کھاتے تھے اور عام انسانوں کی طرح سے ٹٹی پیشاب کی حاجات کو پوری کرتے تھے۔ کیا تمہیں گمان ہے کہ کوئی خدا بھی اس قسم کی قضائے حاجت کا محتاج ہوسکتا ہے؟
ہم ذرا اپنے تصور کو گھما کر یہ بھی دیکھیں کہ وہ شخص جس کے ظاہری حسن وجمال پر ہم فریفتہ ہیں، اگر کسی بیماری کی وجہ سے یا آگ میں جل جانے کی وجہ سے اس کا چہرہ مسخ ہوجائے، تو کیا تب بھی ہم اس کے لیے ایسے ہی تڑپیں گے؟ سوچیں کہ اگر یہی شخص ساٹھ ستر سال بعد ایک بوڑھے انسان کی شکل میں آجائے تو کیا تب بھی یہ ہمیں اتنا ہی پسند ہوگا؟ سچی بات تو یہی ہے کہ درست اور جائز جنسی محبت کا وجود شادی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اور اگر ممکن ہوتا اور اس میں کچھ نہ کچھ فائدہ ہوتا تو کیا ہم اپنے رحمۃ للعالمین نبیﷺ سے توقع کرتے ہیں کہ وہ قضائے حاجت کے آداب تو ہمیں سکھاکر جائیں، لیکن اتنی اہم فائدہ کی بات کی طرف ہماری رہنمائی نہیں فرمائیں؟
اخیر میں ان تمام بہنوں بھائیوں سے درخواست ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ظاہری حسن وجمال میں سے وافر حصہ دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بندوں کے لیے فتنہ نہ بنائیں کیونکہ ان کی وجہ سے آپ کے گناہ میں اضافہ ہوتا جائے گا اور کسی قسم کا کوئی اخروی فائدہ آپ کو اس سے نہیں پہنچے گا۔ اللہ سے خوف کھائیے کہ کہیں وہ آپ کو کسی بیماری یا حادثہ میں مبتلا کرکے اس حسن وجمال کو بدصورتی وقباحت میں نہ تبدیل کردے کہ اس کے بعد لوگ آپ کی شکل دیکھنے سے بھی گھبرائیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا میں اس کی تعلیمات کے مطابق درست زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین۔