بدحال کشمیر آخر امن کب؟

 بدحال کشمیر آخر امن کب؟

سرفرازاحمد قاسمی،حیدرآباد
(جنرل سیکریٹری کل ہند معاشرہ بچاو تحریک)
          گذشتہ کئی ماہ سے میں یہ مسلسل لکھ رہاہوں کہ ملکی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے  ہیں۔ نہ اس ملک میں لوگوں کی زندگیاں محفوظ ہیں،اور نہ ہی انکا کاروبار،نہ ہی بینک بیالنس۔لیکن اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ مسلسل دروغ گوئی میں مصروف ہیں اوربڑے پیمانے پر جھوٹ پھیلارہے ہیں اسکے ساتھ  ساتھ یہ تاثر بھی دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ملک میں سب ٹھیک ٹھاک ہے،سب چنگاسی ہے۔حالانکہ ملک کے موجودہ حالات اور اسکی حقیقت کچھ اور ہی چغلی کررہےہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اقتدار کے لالچی لوگ آخر کیوں ملک اور قوم کو گمراہ کررہے ہیں؟آنے والی ہرصبح ملکی مسائل میں تشویشناک حدتک اضافہ کررہی ہے۔اور حکومت خوش فہمی میں مبتلاء ہے۔نفرت کی سیاست اورمذہبی بلیک میلنگ عروج پر ہے کیوں کہ حکمراں پارٹی کےلئے یہ ایک ایسا نشہ ہے کہ جسکے بغیر وہ اقتدار کی کرسی تک نہیں پہونچ سکتے۔لہذا اسی ایجنڈے کوآگے بڑھاؤ،اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالو،عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکو اور ہرقیمت پر اقتدار حاصل کرو۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ کب تک چلے گا؟ اور یہ سلسلہ کہاں جاکر رکےگا؟ جن ریاستوں میں بی جے کی حکومت ہے وہاں تو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔لوگوں کے درمیان افراتفری اوربے چینی انکے چہرے سے عیاں ہے۔
کشمیر بھی انھیں ریاستوں میں ہے جہاں ہر روز آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے،لوگوں کے جمہوری حقوق کوبری طرح کچلا جارہاہے اور کشمیریوں کی زندگیاں اجیرن بنادی گئی ہے۔کشمیری  لیڈران مسلسل وہاں کے حالات سے باخبر کررہےہیں لیکن جہاں میڈیا اداروں  پر پابندی ہے وہاں کے لوگوں کی چینخ وپکار دنیاکو کون سنائے گا؟ اور کون نشر کرےگا؟ جہاں انٹر نیٹ پر پابندی ہو،کرفیو کاماحول ہو،لوگوں میں ڈروخوف کی فضاء ہو،سیاسی قائدین کئی کئی ماہ سے گھروں پر نظر بند ہوں،عام آدمی کا گھروں سے نکلنا مشکل ہو۔کیا آپ کو لگتاہے کہ ان حالات میں وہاں سب کچھ ٹھیک ہے؟ یہ حال صرف جنت نما کشمیر کا ہی نہیں بلکہ بلکہ تری پورہ  اور ناگالینڈ وغیرہ میں بھی یہی سب ہورہاہے۔کشمیر کی شیرنی اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی جس طرح گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل آواز اٹھارہی ہیں اورحالات سے واقف کرارہی ہیں۔اصل تصویر کشمیر کی وہی ہے،کشمیر کے دوسرے قائدین غلام نبی آزاد،فاروق عبداللہ،عمر عبداللہ وغیرہ نے وہاں کے حالات پر جس طرح کی خاموشی اختیار کی اور مودی حکومت کے ڈرسے بھیگی بلی بنے رہے۔محبوبہ مفتی تن تنہا آواز بلند کرتی رہی اور کررہی ہیں۔
ملک میں  بڑے بڑے لیڈران کو جس طرح خاموش کردیاگیاہے ایسے میں محبوبہ مفتی کا حقیقت سے پردہ اٹھانا لائق تحسین ہے۔بغیر کسی ڈر اورخوف کے وہ مسلسل کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق کےلئے آواز اٹھارہی ہیں۔یہ بڑی بات ہے،پی ڈی پی صدر،اورمفتی سعید کی بیٹی شیرنی کی طرح گرج رہی ہیں اورمودی حکومت کو للکارہی ہیں کہ جموں وکشمیر کا خصوصی  موقف اوراسکی ریاستی حیثیت بحال کی جائے۔اس سے کم کسی بات پر کشمیری عوام مودی حکومت سے راضی نہیں ہونگے۔غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا کی میعاد کی تکمیل پر وزیر اعظم نریندر مودی نے انکی تعریف وتحسین کا جومنتر پڑھا تھا،غلام نبی آزاد ابھی تک اس سحر سے آزاد نہیں ہوئے ہیں۔کشمیری لیڈر کو قوم یاد دلارہی ہے کہ جموں کشمیر نے مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باوجود مذہب کی بنیاد پر تقسیم کے نتیجے میں قائم ہوئے پاکستان کے ساتھ جانا ہرگز پسند نہ کیا اور اپنا مقدر ہمیشہ ہمیش کےلئے اپنے بھارت کے ساتھ وابستہ کرلیا۔آزاد بھارت کے دستور سازوں نے کشمیری عوام کے اس  احسان کو یاد رکھتے ہوئے اس احسان کے بدلے میں یہ احسان کیاکہ دستور کی دفعہ 370اور 35A جموں وکشمیر کو خصوصی موقف عطاکیا۔اس ضمن میں کشمیریوں کو خصوصی مراعات اورسہولتیں دی گئیں۔
مودی حکومت نے جموں وکشمیر کے ساتھ احسان فراموشی کرتے ہوئے،سرحدی ریاست کی خصوصی حیثیت اور خصوصی مراعات سے متعلق دستوری دفعات منسوخ کردیئے اور ستم بالائے ستم یہ کہ جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت بھی ختم کردی گئی۔یہیں پر بس نہیں کیاگیا بلکہ اس سرحدی ریاست کو تقسیم کرتے ہوئے جموں وکشمیر اور لداخ دومرکزی علاقے قرار دیئے گئے۔آرایس ایس کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست برداشت نہ ہوئی اسلئے سنگھی حکومت نے اس تعلق سے ظالمانہ فیصلے سنادیئے۔اس دوران بغیر کسی جرم اور قصور کے بے شمار افراد کو جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے،جیلوں میں بندکردیاگیا۔عوام کے بنیادی حقوق بری طرح پامال کئے جارہے ہیں۔جموں ،کشمیر اور خاص کر وادی میں خوف وہراس کی کیفیت ہے،عوام کو پولس اور سیکوریٹی فورسس کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا۔غیر جماعتی اساس پر کرائے گئے مجالس مقامی کے چناؤ میں کشمیری پارٹیوں کے تائیدی امیدواروں کی جیت اور بھگوا پارٹی امیدوار کی ناکامی سے مودی اور امیت شاہ اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ اب اسمبلی الیکشن کرانے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
محبوبہ مفتی جرأت وہمت کے ساتھ حالات کاسامنا کررہی ہیں اور وہ مسلسل دوسال سے زائد عرصہ قبل کئے گئے تمام ظالمانہ اقدامات سے دستبرداری کامطالبہ کررہی ہیں۔جبکہ غلام نبی آزاد اور دوسرے کشمیری قائدین،خصوصی موقف کی بحالی سے زیادہ الیکشن کے انعقاد میں دلچسپی دکھارہے ہیں۔ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ وہاں امن امان کی بحالی  کیسے ہوگی؟ کشمیر کا اصل مسئلہ انتخاب کا انعقاد نہیں بلکہ اصل مسئلہ خصوصی دفعات 370اور35A کی بحالی کاہے۔خصوصی دفعات کی بحالی کے بغیر چناؤ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اگر خصوصی موقف کی بحالی کے ساتھ مرکز کی راست حکمرانی رہے تو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا اور خصوصی موقف کی بحالی کے بغیر جموں وکشمیر کا اقتدار کشمیری قائدین کو حاصل ہونے سے وہاں کی عوام کو بھی کچھ خاص فائدہ نہیں ہوگا۔اس وقت کشمیری قائدین میں کشمیریت کا جذبہ صرف محبوبہ مفتی میں نظر آرہاہے۔کشمیر کے مردوں کو اس کشمیری خاتون سے عزم وہمت کا سبق لینا چاہئے۔5اگسٹ 2019 کو مودی حکومت نے کشمیر کے خصوصی موقف کو منسوخ کیاتھا،دوڈھائی سال گذرجانے کے بعد آج تک وہاں امن قائم نہیں ہوسکا۔آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟
کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے گذشتہ دنوں مرکز پر یہ الزام عائد کیاتھاکہ وہ جموں کشمیر کو پر امن ریاست کے طور پر پیش کررہا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسکی سڑکوں پر خون بہہ رہاہے اوراپنی رائے کا اظہار کرنے پر لوگوں پر انسدادِ دہشت گردی قوانین نافذ کئے جارہے ہیں۔انھوں نے”نیا کشمیر”کی اصطلاح کے استعمال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس نئے کشمیر کی تشہیر کی جارہی ہے،وہ سچ نہیں ہے بالکل جھوٹ ہے۔آج ایک 18ماہ کی لڑکی اپنے باپ کی نعش حاصل کرنے دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہے،جسے سیکوریٹی فوسس نے شہید کردیاتھا۔آج ایک کشمیری پنڈت کو دن دہاڑے گولی ماردی جاتی ہے۔سڑک ایک بہاری شخص کے خون سے لال ہوجاتی ہے۔کیا ہم اسے نیا کشمیر کہیں گے؟ کیالفظ نیا کشمیر سے ہمیں یہی توقع تھی؟ہرجگہ صورتحال بہتر بتائی جارہی ہے تو پھر نیم فوجی فورسس کی تعداد میں اضافہ کیوں کیاجارہا ہے؟نئے بنکر کیوں بنائے جارہےہیں؟انھوں نے مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاکہ نیا کشمیر بھول جائیں،نئے ہندوستان کی بات کریں۔نئے ہندوستان میں دستور کے بارے میں بات کرنے والوں کو ٹکڑے ٹکڑے گیانگ قرار دیاجاتاہے۔اقلیتوں کو چاہے وہ سڑک کنارے سبزی بیچنے والا ہو یافلم اسٹار ہو،اسکا سماجی و معاشی بائیکاٹ کیاجاتاہے۔،ہوسکتاہے یہ نیا ہندوستان ہو لیکن یہ میرا ہندوستان نہیں ہے۔یہ مہاتما گاندھی کا ہندوستان نہیں،ایسا معلوم ہوتاہے کہ یہ ناتھورام گوڈسے کا ہندوستان ہے۔اور وہ گوڈسے کا کشمیر بنارہے ہیں،جہاں لوگوں کو بات کرنے تک کی اجازت نہیں۔مجھے ہفتے میں کم ازکم دودن گھر پر نظر بند رکھاجاتاہے۔انھوں نے کہاکہ کشمیریوں نے 1947میں قومی ترنگا کو اپنایا اور ہندوستان میں شامل ہوئے۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ اسوقت بھی اگر آج کی حکومت برسراقتدار ہوتی تو نتائج یکسر مختلف ہوتے”فاروق عبداللہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آرٹیکل 370کی بحالی تک کشمیر میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
کئی سیاسی جماعتوں نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ مودی حکومت نے کشمیرکا خصوصی موقف منسوخ کرنے کے بعد جوبھی دعوے کئے تھے وہ ہرروز تنکے کی طرح بکھرتے نظر آرہے ہیں۔عمر عبداللہ نے کہاکہ بی جے پی نے دنیا بھر میں کہاکہ دفعہ 370منسوخ کرنے کے بعد کشمیر میں بندوقیں خاموش ہوجائیں گی۔لیکن اسکی منسوخی کے بعد بھی تشدد جاری ہے۔انھوں نے کہاکہ جموں کشمیر کا موجودہ انتظامیہ صورتحال سے نمٹنے اور عوام کو سلامتی کا احساس فراہم کرنے میں پوری طرح سے ناکام ہے۔انھوں نے کہاکہ میرے دور میں ہم اسقدر مطمئن تھے کہ ہم نے کئی مقامات سے بنکر ہٹادئے تھے۔لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ان علاقوں میں بنکرس قائم کئے گئے ہیں بلکہ اضافی بنکرس بنائےگئے ہیں۔اگر آرٹیکل 370 بندوق کے پیچھے کی وجہ تھی پھر حملوں کاسلسلہ پورے کشمیر میں بند کیوں نہیں ہوا؟انکاؤنٹر اورپولس کے ذریعے عوام کے قتل کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟”جموں کشمیر میں دہشت گردی کے مسلسل بڑھتے واقعات پر تشویش کااظہار کرتےہوئے اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث کا مطالبہ کیاگیاہے۔لوک سبھا میں نیشنل کانفرنس کے رہنما حسنین مسعودی نے خصوصی طور پر جموں وکشمیر میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردانہ حملوں کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے اور ان میں جان ومال کابڑا نقصان ہورہاہے،انھوں نے کہاکہ وہاں حالات سنگین ہوتے جارہےہیں،اوراسطرح کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
لہذاایوان میں اس معاملے پر خصوصی بحث ہونی چاہئے،انھوں نے کہاکہ ریاست میں آئے روز کوئی نہ کوئی دہشت گردی کاواقعہ رونما ہورہاہے اوربے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں،غورطلب ہے کہ جموں کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کے مضافات میں کل شام بھی جنگجوؤں نے پولس کی ایک بس پر حملہ کیا جسکے نتیجے میں دوپولس اہلکار شہید اور 12جوان زخمی ہوئے تھے، خبر یہ بھی ہے کہ کشمیری پنڈت بھی بڑی تعداد میں کشمیر چھوڑچکے ہیں گویا کہ پنڈت بھی وہاں محفوظ نہیں،حکومت نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ کتنے پنڈتوں نے کشمیر چھوڑا اسکے اعدادوشمار ہمارے پاس نہیں ہیں،آخر اس سنگھی حکومت کے پاس نہ شہید کسانوں کی لسٹ ہے نہ لاک ڈاؤن اور کورونا سے جان گنوانے والوں کی لسٹ ہے توپھر حکومت کے پاس کیاہے؟ ہندوستانی تاریخ کی انتہائی بے شرم،بے غیرت اورناکام حکومت،مودی حکومت ثابت ہوئی ہے،ایسے لوگ ملک وقوم کا تحفظ کیسے کریں گے؟ ملک کے انصاف پسند عوام اور مذہبی وسیاسی قائدین کا فریضہ ہے کہ وہ کشمیر کے خصوصی موقف کی بحالی کےلئے جدوجہد کریں،اس سے اظہارِ یگانگت کریں،اورحکومت سے پوچھیں کہ جب آرٹیکل 370 ہٹانے کے بعد مقصد پورا نہیں ہوا تو آخر اسکا فائدہ کیاہوا؟ اوریہ کہ وہاں امن وامان کی بحالی کیسے اور کب ہوگی؟
اپنی راۓ یہاں لکھیں