(رمضان سیریز: 19)
لیلۃ القدر
(شب ِ قدر)
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت ورحمت کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ اس نے ان کے لیے کچھ ایسے اوقات اور زمانے مخصوص فرمادیے ہیں جن میں نیک عمل کرکے وہ تھوڑے وقت میں زیادہ اجروثواب کے مستحق بن سکتے ہیں۔ ایسے تمام فضیلت والے وقتوں میں سرِ فہرست شب ِ قدر ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے۔
سورہ دخان میں اس رات کو ’’لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے اور سورہ قدر میں ’’لیلۃ القدر‘‘ سے۔ ارشادِ ربانی ہے:{إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِیْنَ} (دخان، ۳) ’’ہم نے اسے ایک بڑی خیر وبرکت والی رات میں نازل کیا ہے کیونکہ ہم لوگوں کو متنبہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ ‘‘
شب ِ قدر کی فضیلت کی تفصیل میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: {إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْْلَۃِ الْقَدْرِ٭وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ٭لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ٭تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ٭سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ} (القدر:۱-۵) ’’ہم نے اس (قرآن) کو شب ِ قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب ِ قدر کیا ہے؟ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجر تک۔ ‘‘
چنانچہ اس رات کا حصول اور اس میں عملِ صالح کی توفیق پالینا بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’جس نے شب ِ قدرمیں ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے عبادت اور قیامِ لیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘ [من قام لیلۃ القدرایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۱۔ صحیح مسلمؒ:۱۷۵) ۔
ذیل میں اس رات کی فضیلت کے چند پہلو ذکرکیے جاتے ہیں:
الف) یہی وہ رات ہے جس میں تمام انسانوں کی دنیوی واخروی فلاح وکامیابی کا ضامن صحیفۂ رشد وہدایت اور نسخۂ فوز وسعادت قرآن کریم نازل کیا گیاتھا۔
ب) قرآنی سورت میں شب ِ قدر سے متعلق مخاطب سے استفسار{وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْْلَۃُ الْقَدْر؟ }کیا گیا ہے، جو قرآنی اسلوب کی روشنی میں عظمت وجلالت کی دلیل ہے۔
ج) یہ رات ہزار ماہ سے بہتر ہے۔ یعنی کل تیراسی سال (۸۳) چار ماہ کی عبادت وریاضت سے بہتر ہے کہ اس ایک رات میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے ساتھ عبادات وطاعات انجام دے لی جائیں۔ یاد رکھیے اس رات کو ہزار مہینوں کے برابر نہیں بتایا گیا ہے، بہتر بتایا گیا ہے، جس کی حقیقی بہترائی کا علم تو صرف اللہ رب العزت کوہی ہوگا۔
د) اس رات میں خیر وبرکت اور رحمت ومغفرت لے کر بزرگ فرشتے نزول فرماتے ہیں۔
ھ) یہ رات سلامتی کی رات ہے کیونکہ اس رات میں عبادت کا صلہ عذابِ دوزخ سے سلامتی اور نجات کی شکل میں ملتا ہے، جوکہ بیحد عظیم انعام ہے۔ {فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ}(آل عمران:۱۸۵) ’’کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے۔‘‘ حضرت مجاہد بن جبرؒ فرماتے ہیں کہ یہی وہ سلامتی کی رات ہے جب کہ شیطان کوئی برائی یا ایذاء رسانی پر قادر نہیں ہوپاتا۔ ‘‘ (لطائف المعارف، ابن رجبؒ:۲/۲۳۶)
و) اس رات کی فضیلت کا پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کریم میں اس کے بارے میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔
ز) یہ رات آخری عشرے کی طاق راتوں میں رکھی گئی، کیونکہ طاق (وتر) اللہ کا وصف ہے اور نیک اعمال میں طاق عدد کا التزام مستحسن ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ وترہے اور ہر معاملہ میں طاق عدد کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ [انّ اللہ وتر یحب الوتر فی الأمر کلہ] (سنن ترمذیؒ:۴۵۳۔ سنن ابن ماجہؒ: ۱۱۷۰)
ح) اس رات میں ہر حکیمانہ امر کا الٰہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔ لیلۃ القدر، اس کا نام اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اس میں انسانوں کی مدتِ حیات، رزق اور سال بھر کے حوادث وواقعات کو مقدر فرمایا جاتا ہے یعنی لوحِ محفوظ سے نکال کر کاتبینِ تقدیر فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو لیلۃ القدر اس لیے بھی کہا ہے کیونکہ اس رات کی قدر ومنزلت اور مرتبہ ومقام اللہ کے نزدیک بہت زیادہ ہے۔
اللہ کے رسولﷺ نے اس رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ لیکن حضرت عائشہؓ سے مروی روایت میں مزید بتایا گیا ہے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اسے تلاش کیا جائے۔ ‘‘ [تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر] (صحیح بخاریؒ:۲۰۱۷۔ صحیح مسلمؒ:۱۶۵)
علمائے کرام کے مابین شروعات سے ہی شب ِ قدر کی تحدید وتعیین میں اختلاف رہا ہے۔ بعض لوگوں نے اسے اکیسویں شب مانا ہے، جب کہ بعض نے تیئیسویں اوربعض نے پچیسویں، لیکن بیشتر صحابۂ کرامؓ وتابعینِ عظامؒ نے اسے ستائیسویں رات قرار دیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ قسم کھا کر کہتے تھے کہ: شب ِ قدر ستائیسویں رات ہوتی ہے اور اس قسم کو کھانے میں وہ ان شاء اللہ کہہ کر کوئی استثناء نہیں کرتے تھے۔(جامع العلوم والحکم،ابن رجبؒ:۱/۱۱۲)یعنی نہایت وثوق اور پختگی والی قسم کھاتے تھے۔ بعض علمائے کرام کے نزدیک یہ رات انتیسویں ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر قول کے کچھ دلائل ہیں جن کا تذکرہ بہت طویل ہے اور کچھ خاص سود مند نہیں ہوگا۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اکثر محققین علمائے کرام کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ یہ رات مختلف رمضانوں میں مختلف راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ تاہم اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے اور ستائیسویں شب میں اس کے ہونے کی سب سے زیادہ امید کی جاتی ہے۔
دراصل اس عشرے میں مقصود یہی ہے کہ بندگانِ خدا زیادہ سے زیادہ عبادات وطاعات کی انجام دہی کا التزام کریں، بس اسی لیے شب ِ قدر جیسی عظیم رات کو مشروع کیا گیا ہے اور اسی لیے اس رات کو مجہول اور غیر معین رکھا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔
اصل مقصود شب ِ قدر کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت واجتہاد کرنا ہے۔ اس رات میں زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونا گڑگڑانا چاہیے اور بالخصوص ماثور نبوی دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولﷺ سے دریافت کیا تھا کہ اگر میں شب ِ قدر پاجائوں تو کیا کہوں؟ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اس میں تم یہ کہا کرو: ’’اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عني‘‘ یعنی اے اللہ! یقینا تو معاف کرنے والاہے اور معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے اس لیے مجھے بھی معافی عطا فرمادے۔ ‘‘ [أرأیت إن وافقت لیلۃ القدر ماأقول فیھا۔۔۔] (سنن ترمذیؒ:۳۵۱۳۔ سنن ابن ماجہؒ:۳۸۵۰۔ تصحیح البانیؒ فی تعلیق المشکاۃ: ۲۰۹۱)
یہاں جان لینا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ شب ِ قدر کو پہچاننے کی کچھ علامات صحیح احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت ابی بن کعبؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ لیلۃ القدر کے بعد والی صبح اس طرح ہوتی ہے کہ اس کے سورج میں طلوع ہوتے وقت شعائیں نہیں ہوتیں، اور وہ ایک طشت کے مشابہ ہوتا ہے تاآنکہ وہ اچھا خاصا بلند ہوجائے۔ ‘‘ [صبیحۃ لیلۃ القدر تطلع الشمس لاشعاع لھا کأنھا طست حتی ترتفع] (صحیح مسلمؒ:۷۶۲۔ مسند احمدؒ:۵/۱۳۱۔ تصحیح البانی فی صحیح الجامع:۵۴۷۴)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ شب ِ قدر معتدل اور کھلی فضا والی ہوتی ہے، یہ گرم یا سرد نہیں ہوتی اور اس کی صبح کا سورج سرخ اور کمزور سا ہوتا ہے۔ ‘‘ [لیلۃ القدر سمحۃ طلقۃ لاحارۃ ولا باردۃ تصبح الشمس صبیحتھا ضعیفۃ حمرائ] (مسند طیالسیؒ:۳۴۹۔ تصحیح البانیؒ فی صحیح الجامع:۵۴۷۵)
اس رات کی ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس میں ستارے نہیں ٹوٹتے ہیں۔ ‘‘ [أنہ لا یرمی فیھا نجم] (مجمع الزوائد، ہیثمیؒ:۳/۱۷۸۔ تحسین البانیؒ فی صحیح الجامع: ۵۴۷۲)
یہ شب ِ قدر کے سلسلے میں وارد بعض صحیح علامات ہیں، اس کے علاوہ جو قصے کہانیاں اس رات کی علامتوں کے حوالے سے نقل کیے جاتے ہیں ان میں سے بیشتر کا شریعت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔