لا اله إلا الله: معنی اور مفہوم

(ایمانیات سیریز: 1)

لا إله إلا اللّٰہ: معنی اور مفہوم

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے جتنے انبیاء ورسل مبعوث فرمائے ہیں ان سب نے اپنی قوموں اور مخاطبوں کو توحید کی دعوت دی اور شرک سے روکا۔ وہ لوگوں کو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی طرف بلاتے تھے اور اللہ کے علاوہ پوجی جانے والی چیزوں اور ہستیوں کا برملا انکار کرتے تھے۔

کلمۂ طیبہ ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ، محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی حقیقت یہی ہے۔سچے دل سے اس کلمے کو پڑھ کر کوئی بھی انسان اللہ کے دین میں داخل ہوجاتا ہے۔

’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘ کلمۂ توحید ہے۔ دینِ اسلام میں اس کلمے کا مقام بے حد بلند اور عظیم ہے۔ اس کا زبانی اقرار اور تکلم ہر مسلمان کا پہلا فرض ہے۔ اس لیے جو شخص بھی اسلام قبول کرنا چاہتا ہے اسے اس کلمے کی صداقت وحقانیت تسلیم کرنا ہوگی اور زبان سے اسے بولنا ہوگا۔

جو شخص بھی یہ کلمہ پورے ایقان واذعان کے ساتھ اور باری تعالیٰ کی رضاجوئی کی نیت سے زبانی کہے تو یہ کلمہ آخرت میں جہنم کی آگ سے اس کے بچائو کا سبب بنے گا۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’اللہ تعالیٰ نے نارِ جہنم پر ہر ایسے شخص کو حرام کیا ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر ’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘ کہے۔‘‘ [فإن اللّٰہ حرّم علی النار من قال لا إلٰہ إلا اللّٰہ یبتغی بذالک وجہ اللّٰہ] (صحیح بخاریؒ:۴۱۵)

جو شخص بھی اس کلمے پر پختہ ایمان رکھتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوجائے وہ انشاء اللہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:’’جو یہ جانتے ہوئے مرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے، وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ [من مات وہو یعلم أن لاإلٰہ إلا اللّٰہ دخل الجنۃ](مسند احمدؒ:۴۶۴)

اسی لیے علمائے دین فرماتے ہیں کہ اس کلمے کی معرفت وادراک سب سے بڑھ کر ضروری اور لازمی امرہے۔

لاإلٰہ إلا اللہ” کا معنی ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سوا اس کائنات میں کوئی معبودِ حقیقی نہیں۔ اس کلمے میں اللہ کے سوا ہر شے کے معبود ہونے کی نفی کی گئی ہے اور الوہیت ومعبودیت کا حق تمامتر باری تعالیٰ کے لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔

’’الإلٰہ‘‘ کا مطلب ہے وہ معبود جس کے حضور دل جھک جائے، انسان اسی سے دعائیں مانگے، خوف کھائے اور اسی سے لو لگائے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی دوسری شے یا ذات کے سامنے اس درجہ جھکتا ہے، ذلیل وحقیربنتا ہے، یا اس سے انتہائی محبت رکھتا اور امیدیں باندھتا ہے تو اس نے گویا اس شے کو اپنا معبود اور خدا بنالیاہے۔

ایک معبودِ حقیقی کے سوا تمام معبودان باطل اور بے بنیاد ہیں۔ایک معبودِ حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔اللہ جل شانہ ہی انسانوں کی عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی نہیں۔ انسان غایت درجہ محبت، تعظیم واحترام، ذلت وخضوع، امید وبیم اور توکل واعتماد کے ساتھ صرف اللہ کی عبادت کرسکتا ہے اور یہی اسے کرنا چاہیے۔ اسی سے دعائیں مانگی جائیں کیونکہ اللہ کے سوا کوئی دعا قبول نہیں کرتا اور نہ بروقت امدادکی قدرت رکھتا ہے۔ توکّل اسی پر ہوناچاہیے۔ نماز اسی کی خاطر پڑھی جائے۔ اسی کی رضاجوئی اور خوشنودی کے جذبے سے جانور ذبح کیے جائیں۔

ہر عبادت کو صرف اللہ کے لیے کرنا اخلاص ہے اور اسی کا حکم انسانوں کو دیا گیا ہے:

{وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَائ}(بینہ،۴)’’اور انھیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنی اطاعت کو اس کے لیے خالص کرکے،بالکل یکسو ہوکر۔‘‘

جو بندہ بھی اللہ کی عبادت کرتا ہے، اخلاص کے ساتھ کرتا ہے اور لاإلٰہ إلا اللہ کا معنی ومفہوم اپنی زندگی میں اتار لیتا ہے وہ دنیا وآخرت میں عظیم سعادت سے ہم کنار وہم آغوش ہوگا۔ دنیا میں اس کی زندگی طمانیت، انشراح، مسرت اور پاکیزگی سے گزرتی ہے کیونکہ دلوں کو سچی خوشی اور حقیقی راحت وسکون اسی وقت ملتا ہے جب انسان تنہا باری تعالیٰ کو اپنا معبود اورمطلوب بنائے۔

ارشادِ باری ہے:{مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُون}(نحل،۹۷)

’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بہ شرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے بہترین عمل کے مطابق اجر بخشیں گے۔‘‘

اس عظیم کلمے کے دو رکن ہیں جن کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بغیراس کلمے کا معنی اور تقاضا واضح نہیں ہوتا۔کلمے کا پہلا رکن ’’لا إلٰہ‘‘ ہے۔ اس کے ذریعے اللہ کے سوا ہر شے کے سلسلے میں مستحقِ عبادت ہونے کا انکار کیا جاتا ہے اور اس طرح شرک کا بالکلیہ ردّوابطال ہو جاتا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر جن ہستیوں اور چیزوں کو بھی پوجا جاتا ہے،مسلمان ان سب کا باغی،مخالف اورانکاری ہے۔ یہ باطل معبود چاہے کوئی انسان ہو،جانور ہو، بت ہو یا ستارہ وغیرہ کچھ بھی ہو؛بندۂ مومن کی بے گانگی اور بے زاری ان سب سے یکساں ہے۔

اس کلمے کا دوسرا رکن ’’إلا اللّٰہ‘‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے عبادت کا مستحق صرف باری تعالیٰ کو مانا جائے اور نماز، دعا، توکل وغیرہ عبادت کی تمام شکلوں کو اسی سے خاص کر دیا جائے۔

اس کلمے کا تقاضا ہے کہ عبادت کی جو شکلیں بھی ہو سکتی ہیں ان سب کو باری تعالیٰ کے لیے وقف کر دیا جائے۔ جو شخص بھی عبادت کی کسی شکل کو اللہ کے علاوہ کسی اورکے لیے انجام دیتا ہے وہ شرک میں ملوث ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{وَمَن یَدْعُ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہُ بِہِ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِندَ رَبِّہِ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکَافِرُونَ}(مومنون،۱۱۷)’’اور جوکوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے،جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔‘‘

قرآن کی ایک آیت میں ’’لاإلٰہ إلا اللہ‘‘ کی تشریح اور اس کے ارکان کا اجمالی تذکرہ کیا گیا ہے:

{ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا}(بقرہ،۲۵۶)’’اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘

کفر بالطاغوت‘ یہ ’لاإلٰہ‘ یعنی پہلے رکن کا مفہوم ادا کرتا ہے اور ’ایمان باللہ‘ کلمے کے دوسرے رکن ’الّا اللہ‘کی ترجمانی ہے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں