ہزار خوف ہو،لیکن زبان ہو دل کی رفیق

ہزار خوف ہو ، لیکن زباں ہو دل کی رفیق 

   محمد قمرالزماں ندوی

استاد/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 6393915491

   انسان کے دل میں اگر صرف خدا کا خوف و ڈر ہو اور خدا کی خشیت اس کی دولت،پونجی اور سرمایہ ہو، جس خوف خدا اور خشئیت الہی کو رأس الحکمتہ یعنی حکمت و دانائی کی بنیاد اور اساس کہا گیا ہے،، رأس الحکمتہ مخافة اللہ،، اور جس کی نظر میں عہدہ و منصب ،زر زن زمین کی طمع،لالچ اور حرص ذرہ برابر نہ ہو اور جو اپنے اندر براہمی اوصاف اور خوبی پیدا کرلے اور ہوس کو چھپ چھپ کر سینوں میں تصوریں بنانے کا قطعا موقع نہ دے ،تو ایسا انسان دنیا میں کسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوگا اور اس کو کبھی کسی کی دریوزہ گری کرنی نہ پڑے گی اور ادھر ادھر کے آستانوں پر جھکنے اور باطل کی ہمنوائی کی ضرورت نہیں پڑے گی، جو صرف ایک در کا ہوجاتا ہے، اس کو کبھی دردر نہیں ہونا پڑتا، آج دیکھا جارہا ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی جب دل میں کسی اور کا خوف اور ڈر بٹھا لیتے ہیں، تو ان کو در در بھٹکنا پڑتا ہے۔ ضرورت ہے کہ انسان اپنے اندر جرأت و بہادری حق گوئی و بے باکی اور حوصلہ و شجاعت کے اوصاف پیدا کرے اور یہ تبھی ممکن ہے، جب اس کے دل میں صرف اللہ کا خوف ہو اور دنیا کی تمام چیزوں کو ، عہدہ و منصب،شہرت و ناموری،مال و دولت اور شان و شوکت کو خدا کی مرضی، خدا کی چاہت،اور خدا کے منشا کے سامنے پر کاہ کی بھی حیثیت نہ دے، اگر انسان کے اندر خدا کا خوف اور ڈر پیدا ہوجائے، بندوں سے اور خدا سے اپنے معاملات درست اور ٹھیک کرلے، تو ایک عام آدمی اور دفتر کا معمولی کلرک اور ادنی ملازم بھی بادشاہ وقت کو لاجواب کردے گا اور اس کو شاہراہ ہدایت پر گامزن کردے گا، اس کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلا دے گا اور یہ ثابت کردے گا کہ حقیقی بادشاہ کے سامنے عارضی بادشاہ کے رعب و سطوت اور شان و شوکت کوئی حیثیت اور معنی نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔۔۔ 

   حق گوئی و جرأت و بے باکی تاریخ اسلام کا ایک خاص عنوان رہی ہے ۔ جب سے خلاق ازل نے اس عالم ناسوت کو وجود بخشا، اس وقت سے آج تک ایسے افراد اور لوگوں سے دنیا خالی نہیں رہی، ایسے افراد ہمیشہ معاشرے میں موجود رہے ، جنہوں افضل الجھاد كلمة حق عند سلطان جائر(سب بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہہ دینا ہے ) کا فریضہ انجام دیا ۔ 

       آئیے آج ہم ،،آج کا پیغام،، کالم میں اپنے قارئین کو ایسے ہی ایک مرد مجاہد کا واقعہ سناتے ہیں ، جس نے بادشاہ وقت کے سامنے اظہار حق میں ذرا کمی اور ادنیٰ کوتاہی نہیں کی ،اور یہ ثابت کر دیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق 

یہی رہا ہے، ازل سے قلندروں کا طریق

 

     ،،ملا واحدی،،ممتاز حیثیت کے ایک سماجی انسان تھے ۔ ان کا اصل نام ارتضی واحدی تھا، لیکن لوگوں میں ملا واحدی کے نام سے معروف و مشہور تھے۔ ۱۸۸۸ء میں آپ دلی میں پیدا ہوئے اور ۱۹۴۷ءکے بعد ہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلے گئے ۔ قیام پاکستان سے پہلے دلی میں ملا واحدی ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے ۔وہ کئ برس تک منتخب میونسپل کونسلر رہے۔ وہ ادیب بھی تھے اور مدیر و صحافی بھی۔ صوفی بھی تھے، اور سماجی و فلاحی کارکن بھی ۔ ان کے دوستوں ،یاروں اور تعلق والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ۔ وہ دلی کے مشہور علاقے ۰۰ کوچئہ چیلان۰۰ کے رہنے والے تھے ۔ ہندوستان کی مشہور و ممتاز اور مقبول ادبی شخصیت خواجہ حسن نظامی ان کے نہایت قریبی دوست تھے ۔ ملا واحدی اور خواجہ حسن نظامی ایک زمانے تک ایک ہی مکان میں مقیم رہے ۔ خواجہ صاحب کا سنایا ہوا ایک واقعہ ملا واحدی صاحب نے اپنے خاص انداز میں اس طرح بیان کیا ہے :

” نظام دکن ( حیدرآباد) میر عثمان علی اپنے مصاحبوں کے جلو اور گھیرے میں نماز جمعہ ادا کرنے،،مکہ مسجد،،(حیدرآباد دکن) تشریف لے گئے ۔ مسجد میں بادشاہ دکن کے لئے بیٹھنے کا خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔ جہاں جگہ ملی ،بیٹھ گئے۔ ان سے اگلی صف میں کوئی صاحب قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے ۔ بادشاہ (میر عثمان علی مرحوم) نے بیٹھتے ہی مصاحبوں سے گفتگو شروع کردی ۔ ان صاحب نے قرآن مجید پڑھتے پڑھتے کہا: ۰۰ ہوں۰۰ ۔ بادشاہ نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ ان صاحب نے تھوڑی دیر بعد پھر ۰۰ ہوں۰۰ کہا اور ذرا بلند آواز سے کہا ۔ بادشاہ نے دوسری دفعہ بھی دھیان نہیں دیا ۔ تیسری دفعہ وہ صاحب قرآن مجید بند کرکے مڑے اور بولے : “اعلا حضرت ! قرآن مجید میں ہے کہ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر (دھیان سے) سنو اور خاموش رہو ،تا کہ تم پر رحم کیا جائے” ۔

      یہ سنتے ہی بادشاہ کو سانپ سونگھ گیا اور منھ کو مہر لگ گئ ۔ ان صاحب نے اطمینان سے تلاوت جاری رکھی ۔ نماز ہوچکی تو بادشاہ باہر نکلے اور گاڑی میں بیٹھ کر ان صاحب کو طلب فرمایا، نگرانوں اور محافظوں کی نگاہ میں تھے ۔ فورا حاضر کر دئے گئے ۔

بادشاہ نے کہا: ۰۰ ہم تمہاری جرآت و ہمت سے بہت خوش ہوئے۰۰ (میں تمہاری جرآت و بہادری کو سلام کرتا ہوں)

ان صاحب نے گردن جھکا لی۔ 

بادشاہ (میر عثمان علی) نے پوچھا : ۰۰ کیا کام کرتے ہو؟۰۰ 

جواب دیا ۰۰ ریاست کے فلاں محکمے (شعبے) میں کلرک و ملازم ہوں ۰۰۔ 

پوچھا : ۰۰ کیا تنجواہ پاتے ہو ؟۰۰ 

عرض کیا : ۰۰ پچاس روپے۔۰۰

فرمایا: ۰۰ ہم ایک صفر بڑھاتے ہیں۔ آیندہ سے پانچ سو ملیں گے ۰۰۔ عرض کیا : نہیں حضور!  

میں اپنی جرآت و بہادری کا معاوضہ آپ سے نہیں، اللہ تعالی سے لوں گا ۔ 

(ماہنامہ پیام تعلیم دسمبر ۲۰۱۷ء / مضمون نگار افضال احمد خاں)

محترم قارئین باتمکین! 

حق گوئی، بے باکی، اور جرآت رندانہ یہ مومنانہ اوصاف اور خوبیاں ہیں ، جن کو یہ دولت اور خوبی نصیب ہو جائے ، وہی اسلام کا حقیقی ترجمان اور پاسبان و محافظ اور بے لوث خادم ہے ۔ اگر دنیا میں ایسے اوصاف و کمالات اور خوبیوں کے لوگوں کی کثرت ہوجائے، جو مداہنت چاپلوسی اور اور ذاتی اغراض و مفاد کو چھوڑ کر اور دنیاوی مفاد اور انعام و اکرام اور معاوضہ سے بالا تر ہوکر دین اسلام کی بلندی اور اس کے مفاد کو سامنے رکھ کر کوئی کام کرے تو دنیا سے بہت سی برائیاں اور گناہ کے اعمال خود بخود مٹ جائیں ۔ لیکن مفاد اور ذاتی اغراض و مفاد کی اس دنیا میں حق گوئی ،اور احقاق حق و ابطال باطل کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور ان اوصاف کے لوگ عنقا ہوتے جارہے ہیں ۔ دیکھا یہ جا رہا کہ انسان کا جن سے مفاد وابستہ ہے ان کے جرم ، غلطی،لغزش اور بھول چوک پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی بے جا تاویل کی جاتی ہے ، ان قول و عمل کو درست اور صحیح ثابت کرنے کے لئے سینکڑوں لنگ اور کمزور دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور اگر وہی غلطی ان کے ممدوح و محبوب سے ہٹ کر کسی اور سے ہوجائے تو سر عام بدنام کرنے میں کوئی کسر اٹھا کر نہیں رکھتے اور وہ سارے دلائل اور ثبوت جس کو اپنے ممدوح و محترم کے دفاع میں استعمال کر رہے تھے اس کو نگل جاتے ہیں ۔ اسی دہرے معیار نے اور دو رخا پن نے سینکڑوں برائیوں کو جنم دیا ہے ۔ آج اگر ہم طے کرلیں کہ اپنا ہو یا غیر قریبی ہو دور کے،دوست ہو یا دشمن، ہمارا حامی ہو یا مخالف ہم ہر جگہ ہر ایک لئے اور ہر ایک کے سامنے سچ بولیں گے اور اسی کا اظہار کریں گے اور جرآت و بہادری اور حق گوئی و بے باکی کا انعام اور بدلہ و معاوضہ دنیا کے حقیر اور معمولی بادشاہ سے نہ لے کر دنیا کے حقیقی بادشاہ جو کہ لوگوں کو دنیاوی بادشاہت عطا کرتا ہے، جس کے ہاتھ ہی میں عزت و ذلت ہے،اس سے لیں گے تو سچ مانئے وہ شخص دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب و کامران اور سرفراز ہوجائے گا ۔ ایسے ہی باکمال لوگوں ہی کے لئے تو اقبال کہہ کر چلے گئے کہ۔

آئین جواں مرداں حق گوئ و بے باکی 

اللہ کے شیروں کو ، آتی نہیں روباہی  

ہائے کاش یہی ہمت ،جرآت اور بے باکی و حق گوئی ہمارے اندر بھی پیدا ہو جائے ۔ آج امت کو پھر امام احمد بن حنبل رح جیسی ثبات امام مالک رح کی جیسی جرآت احمد سرہندی کی حق گوئی، محمد علی جوہر کی بیباکی کی ضرورت ہے اور مولانا علی میاں ندوی رح جیسی غیرت و حمیت اور بے لوثی کی حاجت ہے۔

یارب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے 

جو قلب کو گرما دے جو روح کو ٹڑپا دے 

رفعت میں مقاصد کے ہمدوش ثریا ہو 

    خود دارئی ساحل دے آزادی دریا دے   

۔۔۔۔۔۔۔

ناشر/ مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

اپنی راۓ یہاں لکھیں