رمضان میں دعاؤں کا اہتمام

رمضان میں دعاؤں کا اہتمام

(رمضان سیریز: 15)

رمضان میں دعاؤں کا اہتمام

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُونِیْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُونَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ} (غافر، ۶۰) ’’تمہارا رب کہتا ہے:مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بیشک جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے۔ ‘‘

ایک موقعہ پر صحابۂ کرام نے بارگاہِ رسالت میں سوال رکھا کہ کیا ہمارا رب ہم سے بیحد قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کرسکیں یا پھر وہ دور ہے کہ اسے زور سے پکاریں؟ اس پر یہ آیت ِ کریمہ نازل ہوئی کہ:{وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُواْ لِیْ وَلْیُؤْمِنُواْ بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُونَ} (بقرہ، ۱۸۶) ’’اور اے نبی، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ بات تم انہیں سنادو، شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔ ‘‘ (تفسیر ابن کثیرؒ:۱/۱۲۷)

روزے دار بندے کو جان لینا چاہیے کہ ماہِ رمضان المبارک میں کثرت سے کرنے کا ایک کام یہ ہے کہ بارگاہِ رب میں دعائیں مانگی جائیں اور مناجاتیں کی جائیں۔ اس کی وجہ بھی سمجھ آتی ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جیسا مشہور حدیث میں آیا ہے۔

اسی تناظر میں یہ حدیث بھی پڑھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ یقینا اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایاتھا کہ افطار کے وقت روزہ دار کی دعا مستجاب یعنی مقبول ہوتی ہے۔ ‘‘ [للصائم عند فطرہ دعوۃ مستجابۃ] (مسند احمدؒ:۱/۴۸۷)

مزید بتایا گیا ہے کہ تین لوگوں کی دعا کبھی رد نہیں کی جاتی؛روزے دار کی دعا افطار کے وقت، انصاف کرنے والے بادشاہ کی دعا اور مظلوم کی دعا۔ ‘‘ [ثلاثۃ لاترد دعوتھم الصائم حتی یفطر والإمام العادل ودعوۃ المظلوم] (سنن ترمذیؒ:۲۵۲۸۔ سنن ابن ماجہؒ:۱۷۵۲۔ تصحیح البانیؒ فی صحیح الجامع:۳۰۳۰)

قرآنِ کریم کے انداز واسلوب پر غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت کو خاص روزے سے متعلق احکام والی آیات کے درمیان (بقرہ، ۱۸۳-۱۸۷) رکھا گیا ہے۔ روزہ ورمضان سے متعلق آیات کے بیچ میں دعا کی تاکید کرنے والی اس آیت کا رکھاجانا خود بتارہا ہے کہ ان ایام میں دعا کرنا کس درجہ محبوب، پسندیدہ اور ضروری کام ہے۔ رمضان المبارک اور روزوں کی وجہ سے ماحول میں روحانیت اور بندگی کی مہک پھیل جاتی ہے اور تقویٰ وخداترسی کا جذبہ زوروں پر ہوتا ہے، ایسے میں دعا کی تاکید اپنے آپ میں ایک خیر سے دوسری خیر کی طرف رہنمائی کے مرادف ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ افطار سے پہلے یعنی غروبِ آفتاب سے متصل وقت دعا کے افضل ترین اوقات میں شامل ہے اور قوی امید ہے کہ اس وقت کی جانے والی دعائیں بارگاہِ رب میں شرفِ قبولیابی پائیں گی۔ یہی وقت ہے جب روزے دار کی عبادت وطاعت اپنے عروج پر ہوتی ہے، ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں، گلا پیاس کی وجہ سے سوکھ جاتا ہے اور پیٹ بھوک کی شدت میں بے چین ہوتا ہے۔ اگر یہ تمام تکالیف محض رحمت ِ خداوندی کے لیے اٹھائی جارہی ہیں تو ضروری ہے کہ رحمن ورحیم رب اپنے بندوں کی حالت ِ زار دیکھ کر ان پر رحم فرمائے اور ان کی دعائیں قبول کرے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس وقت کی صحیح قدر وقیمت کا احساس نہیں پایا جاتا اورخوش گپیوں اور بے کار چلت پھرت میں اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ گھروں کا ماحول یہ ہوتا کہ خاص اسی وقت کھانوں کی تیاری، ان کی تقسیم اور دیگر بے کار یا کم حیثیت کے کاموں کی مصروفیت رہتی ہے۔ اس پہلو سے توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے۔

اسی طرح روزے دار کے لیے سحری کھانے کا وقت دعا کا افضل ترین وقت ہے۔ رات کا آخری پہر ہی وہ وقت ہے جب کہ اللہ رب العزت سمائے دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور ایسے بندوں کو تلاش کرتے ہیں جو استغفار، دعا یا سوال کریں اور ان کا مدعا پورا کردیا جائے۔

دعا کے باب میں سمجھ لینا چاہیے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے، لیکن کوئی بھی ہتھیار اسی وقت مؤثر ہوتا ہے جب کہ اسے اٹھانے والے میں قوت وصلاحیت پائی جائے۔ اگر ہتھیار بے عیب ہے اور اٹھانے والا بازو توانا اور طاقتور ہے اور کوئی مانع بھی نہیں پایا جاتا، تولازماً دشمن منہ کی کھائے گا۔ لیکن اگر ان چیزوں میں سے کوئی ایک چیز بھی نہیں پائی جاتی یعنی ہتھیار میں عیب ہے، یا بازو شل ہے یا کوئی اور رکاوٹ ہے تو ہتھیار بے اثر ہوجاتا ہے۔ بس یہی حال دعا کا ہے۔

دعا کے بھی کچھ آداب ہیں جن کی پیروی کرنے سے امید کی جاتی ہے کہ ہماری دعائیں بارگاہِ رب میں شرفِ قبول کے لائق ہوجاتی ہیں۔

دعا کا سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ اللہ سے دعا مانگی جائے اور حضورِ ذہنی اور ارتکازِ قلبی کے ساتھ مانگی جائے۔ دعا مانگتے وقت دل کی دنیا میں خشیت وانابت اور تواضع وکسر نفسی کے جذبات موجزن رہیں۔

دعامانگتے وقت اپنا رخ قبلہ کی جانب رکھا جائے۔

دعا کے آغاز میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا، تمجید وتقدیس اور الطاف وعنایات کا اعتراف کیا جائے۔ بعد ازاں رسولِ اکرمﷺ کے اوپر درود وسلام کا نذرانہ بھیجا جائے۔ اس کے بعد اپنے لیے جو دنیا وآخرت کی خیر مانگنی ہو مانگی جائے۔

دعا میں اپنے ساتھ ساتھ اپنے اہل وعیال اور پوری امت ِ مسلمہ کو یاد رکھا جائے۔ اس کے بعد دعا ختم کرنے سے پہلے دوبارہ درود وسلام بھیجا جائے۔

دعا کے قابلِ قبول ہونے میں بڑی اہمیت اس بات کی ہے کہ ارادہ کرکے ایسے اوقات میں دعائیں مانگی جائیں جو قرآن وحدیث کی رو سے اجابت وقبولیت کے اوقات مانے گئے ہیں۔ ان میں رات کا آخری پہر، روزے دار کے افطار سے پہلے، نماز اور خارجِ نماز سجدے کی حالت میں، فرض نمازوں کی ادائیگی کے بعد، جمعہ کے دن کی آخری ساعت میں اور عرفہ کے دن کی حیثیت نمایاں تر ہے۔

دعا کے قابلِ قبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ قبولیت سے روکنے والے جملہ اسباب وعوامل ختم کردیے جائیں۔ جن اسباب کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں کی جاتیں ان میں نمایاں ترین سبب حرام خوری ہے چاہے وہ جس طریقہ سے بھی کی جائے۔

صحیح مسلمؒ میں اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی آدمی لمبا سفر کرکے غبار آلود اورپراگندہ حال آئے گا اور آسمان کی جانب ہاتھ دراز کرکے اے میرے رب، اے میرے رب کی صدائیں لگائے گا، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہوگا، اس کا پینا حرام ہوگا، اس کا لباس حرام ہوگا، اس نے حرام مال سے غذا پائی ہوگی، پھر کیسے اس کی دعا قبول کی جاسکتی ہے؟ ‘‘ [ذکر الرجل یطیل السفر أشعث أغبر یمد یدیہ إلی السماء یارب یارب ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام وغذی بالحرام فأنیٰ یستجاب لہ] (صحیح مسلمؒ:۱۰۱۵)

دعا کرنے والے بندۂ مومن کو اچھی طرح یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اللہ رب العزت حیادار اور کریم ہے، اسے شرم محسوس ہوتی ہے کہ کوئی بندہ اس کے سامنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔اللہ کے رسولﷺ کا اپنے رب کے بارے میں بیان ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ شرم کرنے والا اور کریم ہے،وہ شرماتا ہے کہ کوئی انسان اس کے آگے ہاتھ پھیلائے اور وہ اسے خالی ہاتھ واپس کر دے۔‘‘[إن اللہ حیی کریم یستحیی إذا رفع الرجل یدیہ أن یردھما صفرا خائبین](سنن ترمذیؒ:۳۵۵۶۔سنن ابن ماجہؒ:۳۸۶۵)

اس لیے جس قدر ممکن ہوسکے الحاح وزاری اور اصرار ویقین کے ساتھ دعائیں مانگی جائیں، تاہم قبولیت ِ دعا کے بارے میں جلد بازی نہ مچائی جائے۔ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ بندے کی دعائیں قبول ہوتی رہتی ہیں جب تک کہ وہ کسی گناہ کی،یا رشتہ داری کاٹنے کی دعا نہ کرے یا پھر وہ دعا میں جلدی نہ مچانے لگے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ جلدی مچانا کیا ہوتا ہے اے اللہ کے رسولﷺ؟ فرمایا کہ بندہ یہ کہنے لگے کہ میں نے بہت دعائیں کیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میری دعا قبول کی جائے گی۔ اُس وقت وہ حسرت ویاس کا شکار ہوکر دعا کرنا بند کردیتا ہے۔ ‘‘ [یستجاب للعبد مالم یدع بإثم أوقطیعۃ رحم ما لم یستعجل۔۔۔یقول دعوت فلم أرہ یستجاب لی فیتحسر عند ذالک ویدع الدعائ] (صحیح مسلمؒ:۲۷۳۵)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں