ولی دکنی حالاتِ زندگی اور کارنامے

ولی دکنی حالات زندگی اور کارنامے

تحریر: احمد

تعارف ولی دکنی

            ’’ ولی دکنی‘‘ جسے مولانا آزاد نے اردو غزل کا بابائے آدم کہا ہے۔ولی کی پیدائش ۱۶۶۷ء گجرات میں ہوئی۔ ولی کے نام کے بارے میں مختلف اقوال ہیں،مولانا محمد حسین آزاد نے ولی کا پورا نام شمش ولی اللہ دکنی لکھا ہے۔(آب حیات ص:۷۸) نصیر الدین ہاشمی نے ولی دکنی کا صحیح نام ولی محمد لکھا ہے۔(دکن میں اردو ؛ص:۳۰۱) اس کے علاوہ اور بھی نام کتابوں میں ملتے ہیں مثلاً محمد ولی، ولی الدین، ولی وغیرہ۔

ولی دکنی کا وطن

ولی کے نام کے بارے میں جس قدر اختلاف ہے اسی طرح ولی کی جائے پیدائش اور وطن کو لیکر محققین کی الگ الگ رائے ہے۔ بعض محققین ولی کا وطن گجرات کو بتاتے ہیں، تو بعض ولی کے دکنی ہونے کے قائل ہیں۔ چنانچہ نصیرالدین ہاشمی لکھتے ہیں ’’مہاراشٹر کے چند ادیب ولی کو گجرات کا شاعر قرار دیتے ہیں، مگر ہم کو اس سے اتفاق نہیں ہے، کیونکہ ولی کے ہم عصر اور دوست شاہ ابوالمعالی کے فرزند کا جو قلمی دیوان ہے اس میں انہوں نے ولی کو دکھنی شاعر تسلیم کیا ہے، اور گجرات کو دکن میں شامل نہیں کیا جا سکتا‘‘۔(دکن میں اردو) دوسری طرف محمد حسین آزاد ولی کے متعلق لکھتے ہیں’’ ولی احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے اور شاہ وجیہ الدین کے مشہور خاندان سے تھے‘‘۔ میر تقی میر اپنے تذکرے میں ولی کو اورنگ آبادی لکھتے ہیں۔

            ان مختلف اقوال اور خود ولی کے اس شعر کے سبب:

ولی ایران و توران میں ہے مشہور

وطن گو اس کا گجرات و دکن ہے

ولی کے صحیح مولد و منشاء کا علم نہ ہو سکا۔ ولی دکنی گجرات کے مشہور صوفی شاہ وجیہ الدین کے خاندان سے تھے۔ ولی نے اپنی تعلیم اپنے گھر، خاندان میں ہی حاصل کی اور ایک لمبا عرصہ گجرات میں گزارا شاید یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے ولی کو گجراتی مانا ہے۔ لیکن ولی کی شاعری میں صرف اور صرف دکنی محاورات و الفاظ مستعمل ہیں گجراتی الفاظ کا کہیں نام و نشان نہیں۔

چند اشعار دیکھئے:

ہر ایک رنگ میں جو دیکھا ہوں چرخ کے نیرنگ

ہوا ہے غنچہ صفت جگ کے باغ میں دل تنگ

جہاں کے گل بدناں جلوہ گر ہوئےہیں جہاں

اُڑا ہے ان کی تجلی سوں عاشقاں کا رنگ۔

اسی طرح:

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ

کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ

وفاداری نے دل بر کی بجھایا آتش غم کوں

کہ گرمی دفع کرتا ہے گلاب آہستہ آہستہ ۔

مذکورہ اشعار میں موجود الفاظ  بدناں، عاشقاں، کوں وغیرہ دکنی اردو کے الفاظ  ہیں۔ لہذا ولی کے کلام کو دیکھ کر میر تقی میر کا قول کہ ’’ولی اورنگ آبادی تھے‘‘ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ مولانا حسین آزاد لکھتے ہیں ’’ولی کو اردو شاعری میں وہی مقام و مرتبہ حاصل ہے جو انگریزی میں چاسر،فارسی میں رود اور عربی میں مہلہل کو ۔ وہ کسی کے شاگرد نہ تھے اور یہ ثبوت ہے فصیح عرب کے قول کا کہ الشعراء تلامیذ الرحمٰن کو،دانائے فرنگ کہتا ہے کہ شاعر اپنی شاعری ساتھ لیکر پیدا ہوتا ہے‘‘۔

شمالی ہند میں اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز

شمالی ہند میں ولی کے دیوان کی آمد سے ہی اردو شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اردو سوائے ہندی دوہوں کے اور کہیں نہیں ملتی۔۱۷۲۰ءمیں ولی کا دیوان جب دہلی پہنچا تواہل دہلی حیران و ششدر رہ گئے کہ زبان ریختہ میں ایسا کلام بھی کہا جا سکتا ہے۔ اہل دلّی نے ولی کے دیوان کو ہاتھوں  ہاتھ لیا، ولی کے طرز پہ غزلیں کہی جانے لگیں۔ ولی کے کلام کو میر سے پہلے وہی مرتبہ حاصل تھا جو آج میر کے کلام کو ہے۔ ولی نے اس وقت کی زبان میں عربی، فارسی الفاظ شامل کر کے زبان اردو کو ایک نئی شکل عطا کی۔

ولی نے اپنی ذہانت سے ردیف، غزلیں،مخمس، مثنوی اور رباعیات ایسے انداز میں تحریر کی کہ انہیں پڑھ کر کوئی یہ نہیں کہ سکتا ہے کہ یہ آج سے تین سو پچاس سال پہلے کی زبان ہے۔ یہ خیال رہے کہ ولی نے کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی، چند شعرملاحظہ فرمائے:

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا                           

ہے مطالع مطلع انوار کا

یاد کرنا ہر گھڑی تجھ یار کا                          

ہے وظیفہ مجھ دل بیمار کا

آرزوئے چشمۂ کوثر نہیں

                               تشنہ لب ہوں شربت دیدار کا

ولی دکنی کی وفات

ولی نے شاہ سعداللہ گلشن سے اصلاح لی۔ ولی کی شاعری میں عربی، فارسی الفاظ بقدر ضرورت ہے، ولی اس بات کے بالکل قائل نہیں تھے کہ شاعری کو عربی، فارسی لفظیات کی کتاب یا لغت بنا دیں۔ ولی کی تاریخ پیدائش کی طرح صحیح تاریخ وفات بھی تاریخی دھندلکے میں ہے۔ بعضوں  کا خیال ہے کہ ولی کا انتقال ۱۱۵۵ھ میں ہوا اور بعض ۱۱۴۳ھ کو صحیح مانتے ہیں۔ مگر مولانا عبد الحق صاحب کی تحقیقات کے مطابق ولی کی پیدائش ۱۱۱۹ھ ہے۔ عیسوی لحاظ سے ایک قول کے مطابق ولی کی تاریخ وفات ۱۷۰۷ء ہے۔ ولی نے ایک دیوان اور ایک کلیّات چھوڑی۔

نوٹ:۔ یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا‘  ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ   Notification پہنچ جائے۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں