موت کی یاد
(مولانا ذکی الرحمٰن غازی مدنی)
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی
موت شاید اس دنیا کی وہ سچائی ہے جس کا انکار کوئی نہیں کرتا۔ ہمارے اپنے سگے اور پیارے مر جاتے ہیں اور ایک دن ہمہیں بھی لقمۂ اجل بننا ہے۔ موت سے انسان ہمیشہ بھاگتا رہا اور ہر ہر جتن سے بچنے کی کوشش کرتا رہا، مگر آخر میں فتح ہمیشہ موت کی ہوتی رہی۔ موت ایسا انجام ہے جس سے کسی متنفس کو مفر نہیں۔ وہ ناقابلِ علاج ہے اور رہے گی۔
بستر مرگ کے گرد ہونے والے حقیقی جذباتی مناظر اور دکھاوٹی ڈرامے، یا نسبتاً کم پڑھے لکھے لوگوں میں پائی جانے والی سوگ اور ماتم کی رسومات ہمیں کم وبیش متاثر، سراسیمہ اور مضطرب کر دیتی ہیں، اور ہم -کچھ دیر کے لیے ہی سہی- اپنے انجام و اختتام کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مگر کیا کریں ہم اپنی سرشت سے مجبور جو ہیں۔ زندگی کی تکلیف دہ چیزوں اور تاریک پہلوؤں کے بارے میں ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ پریشانی کا خاتمہ کر ڈالیں یا پھر تجاہلِ عارفانہ کے طور پر یہ فرض کر ہیں کہ وہ موجود ہی نہیں ہیں۔ چونکہ موت کو روک پانا ہمارے بس میں نہیں ہے، اس لیے ناچار دوسرا راستہ اختیار کر لیتے ہیں، یعنی غفلت کی دبیز چادر اوڑھ لیتے ہیں۔
آئے دن ہمارے اپنوں میں سے کوئی مرجاتا ہے، مگر ہماری سرد مہری اور بے توجہی کی سل نہیں پگھلتی۔ ہم ایسے ٹھس اور غیر جانبدار بنے رہتے ہیں جیسے ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم کبھی نہیں مریں گے۔ موت اور زندگی کا کھیل محض دوسروں کے لیے ہے، ہمیں اس سے مطلق کوئی سروکار نہیں ہے۔
ویسے موت پر غور کیا جائے تو یہ بذاتہ ایسی حقیقت ہے جو انسان کی حیثیت اور اصلیت کے بارے میں بہت سے انکشافات کرتی ہے۔ ایسے حیرت بھرے انکشافات جنھیں نظرانداز کرنا یا فراموش کرنے کی کوشش کرنا اس اہم ترین حقیقت سے بے خبری کے مترادف ہے جو ایک جیتی جاگتی باشعور مخلوق کی حیثیت سے ہمیں اپنے بارے میں ضرور معلوم ہونی چاہیے۔
اپنی آنکھوں سے دوسرے انسانوں کو موت سے ہمکنار ہوتے دیکھنے اور اس موقع پر موجود رہنے سے انسان اپنے بارے میں بڑی حد تک یہ جان لیتا ہے کہ وہ خود کیا ہے، اور اگر اس میں ذرا بھی سمجھ بوجھ ہوتو وہ اس سے ایسے نتائج اخذ کر سکتا ہے جو اس کے ہر خیال اور ہر عمل کو کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر کریں گے۔
ہم کیا ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے، یہ بات ہم اس وقت تک نہیں سمجھ پائیں گے جب تک ہم اپنے جسم و جان اور قلب و ذہن میں یہ نہ جان لیں کہ ہمارا وجود فانی ہے اور موت اس دن سے ہمارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چل رہی ہے جس دن ہم نے دنیا میں پہلا سانس لیا تھا۔ یہ صرف اسلام ہی کی نہیں، تمام ادیان ومذاہب کی مشترکہ تعلیم رہی ہے کہ عقلمند شخص یہ سوچ کر سونے لیٹتا ہے کہ شاید اسے صبح دیکھنی نصیب نہ ہو، اور ہر صبح کا خیر مقدم وہ اس علم اور شعور کے ساتھ کرتا ہے کہ ممکن ہے وہ اس کی شام نہ کر پائے۔
وہ لوگ جو اس آگہی، ایقان واذعان اور شعور وتعقل کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز میں ایک ذائقہ، ایک لطف، ایک خوشی اور ایک جذبۂ تشکر پیدا ہو جاتا ہے جو بہرحال ان لوگوں کو نصیب نہیں ہوتا جو اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ انسان ہونے کا مطلب کیا ہے، زندگی کا انجام کیا ہے، اس دنیا کی راحتوں اور کلفتوں کی حقیقت کیا ہے۔ جب کہ انسان نما چوپائے اس سے ناآشنا اور غافل رہتے ہیں۔
اللہ ارشاد فرماتا ہے: یا ایہا الانسان انک کادح الی ربک کدحا فملاقیہ۔ “اے انسان تجھے یہ زندگی مشقتوں اور محنتوں میں گزار کر بالآخر اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے، اور اس سے ملاقات کرنی ہے۔”
اور ارشاد ہوا ہے: فمن کان یرجولقاء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ آحدا“تو جس کو اپنے رب سے ملنے کی آس ہو اسے نیک عمل کرنا چاہیے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ “
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھوں نے دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو لقائے رب کے لیے آمادہ اور تیار کر لیا۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین