شوہر کے حقوق

شوہر کے حقوق

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

بیوی کی مانند شوہر کے بھی کچھ حقوق شریعت نے بیان کیے ہیں:

۱-شوہر کا پہلا حق یہ ہے کہ بھلے اور مباح کاموں میں اس کی بات مانی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو بیوی کا نگہ بان اور ذمے دار بنایا ہے، یعنی وہ اس کی جسمانی وروحانی صحت وسلامتی کا جواب دہ ہے،ویسے ہی جیسے کوئی والی یا گورنر اپنی رعیت اور ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو چند خصوصی امتیازات بخشے ہیں اور انہی کی وجہ سے وہ گھر کی مالی ذمے داریوں کو اٹھانے کا مکلف بنایا گیا ہے۔ارشادِ باری ہے:{ الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ}(نسائ، ۳۴) ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘

اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’عورت پنچ وقتہ نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، شرمگاہ کی حفاطت کرے اور شوہر کی بات مانے تو اس سے آخرت میں کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے داخل ہونا چاہو، داخل ہوجائو۔‘‘[إذا صلت المرأۃ خمسہا وصامت شہرہا وحفظت فرجہا وأطاعت زوجہا قیل لہا ادخلی من أی أبواب الجنۃ شئت](مسند احمدؒ:۱۶۶۱)

۲-شوہر کو بیوی سے لطف اندوز ہونے اور جنسی تعلق بنانے کا حق حاصل ہے۔بیوی کو اس سلسلے میں ضد اور انکار کا رویہ نہیں اپنانا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے شرعاً مستحب اور پسندیدہ ہے کہ وہ شوہر کے لیے سجے اور سنورے۔ اگر طلب کے وقت بیوی انکار کرتی ہے تو اس نے حرام عمل کیا اور گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوئی۔ البتہ اگر اس کے پاس عذرِ شرعی ہو، مثلاً وہ پیریڈ سے ہو یا رمضان میں روزے سے ہو یا ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس میں یہ عمل تکلیف دے گا تو اس کے پاس شرعی عذر ہے۔

اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’جب شوہر بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے، جس کی وجہ سے شوہر اس سے ناراض ہوکر رات گزارے تو فرشتے صبح ہونے تک عورت پر لعنت بھیجتے ہیں۔‘‘ [إذا دعا الرجل امرأتہ إلی فراشہ فأبت فبات غضبان علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح](صحیح بخاریؒ:۳۰۶۵۔ صحیح مسلمؒ:۱۴۳۶)

۳-جن لوگوں کا گھر میں آنا جاناشوہر کوناگوار ہو، بیوی انھیں آنے سے منع کر دے۔ یہ شوہر کا بیوی پر حق ہے کہ جس مرد یا عورت کی آمد سے اس نے روکا یا اس پر ناراضی ظاہر کی، وہ دوبارہ اسے گھرمیں نہ بلائے اور نہ آنے دے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے:’’عورت کے لیے حلال نہیں کہ شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے،اور نہ یہ حلال ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے دے۔‘‘ [لا یحل للمرأۃ أن تصوم وزوجہا شاہد إلا بإذنہ ولا تأذن فی بیتہ إلا بإذنہ](صحیح بخاریؒ:۴۸۹۹)

۴-شوہر کا بیوی پر یہ حق بھی ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہرنہ نکلے۔ اجازت کسی خاص ضرورت کے لیے کسی خاص جگہ جانے کی بھی ہو سکتی ہے اور عمومی اجازت بھی ہو سکتی ہے کہ وہ روزانہ اپنی ملازمت یا فلاں فلاں کام کے لیے باہر جاسکتی ہے۔

۵-بیوی کے لیے مسنون اور پسندیدہ ہے کہ وہ معروف کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کی خدمت کرے۔ کھانا بنانا، کپڑے دھونا اور گھر کے دیگر کام کرنا اس کی ذمے داری ہے۔اس کے متعدد دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں