مثنوی سحر البیان

مثنوی سحر البیان

(میر حسن)

تحریر: احمد

مثنوی سحر البیان کے تخلیق کار میر حسن کا اصلی نام ’’غلام حسن‘‘ تھا۔’’حسن ‘‘تخلص اختیار کرتے تھے اس لیے’’ میر حسن‘‘ کے نام سے شہرت پائی۔ آپ کے والد کا نام میر ضاحک تھا جو اپنے وقت کے بڑے ہجو گو شاعر تھے۔ میر ضاحک کا شمار میر تقی میر اور سودا کے ہم عصر شعراء میں ہوتا ہے۔ قدیم تذکرہ نگاروں نے میر حسن کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے ان کی تاریخ ولادت کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلتا۔

ولادت و وفات

           ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کی تحقیق کے مطابق میر حسن کی ولادت پرانی دلی کے محلہ سید واڑہ میں۱۱۴۰؁ ھ میں ہوئی۔(تاریخ ادب اردو،ص:۸۹)۔ڈاکٹر وحید قریشی نے بعض قرائن سے میر حسن کی سالِ پیدائش ۱۱۵۴؁ ھ کے قریب قرار دیا۔ بہر حال وفات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ انکی وفات ۱۲۰۱؁ ھ  مطابق۱۸۷۴؁ ء ہے۔تاریخ وفات کے متعلق مصحفی کا مصرعہ ’’شاعرِ شیریں زبان تاریخ یافت‘‘ بہت مشہور ہے جس سے تاریخ وفات۱۲۰۱؁ ھ نکلتی ہے۔ میر حسن تقریباً ۵۰ سال کی عمر پائی۔

تعلیم و تعلم

میر حسن نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر اپنے والدِ محترم کے پاس سے شروع کی اور انہیں کو اپنا کلام دکھلایا، بعد میں خواجہ میر درد کی شاگردی اختیار۔ لکھنؤ  آنے کے بعد میر ضیاء اور میر سودا کی شاگردی اختیار کی۔ عربی زبان پر میر حسن کی دسترس خاطر خواہ نہیں تھی، لیکن فارسی زبان پہ عبور حاصل تھا، جس کا جیتا جاگتا نمونہ ’’  تذکرہ شعرائے اردو‘‘کی شکل میں موجود ہے جو اعلیٰ درجہ کی فارسی تصنیف ہے۔

ترکِ وطنِ دہلی

میر حسن لڑکپن میں ہی تقریباً ۱۲ سال کی عمر میں دہلی کو خیرآباد کہ کر اپنے والد کے ہمراہ فیض آباد آئے اور نواب سرفرازجنگ خلف نواب سالار جنگ کے یہاں مالازمت اختیار کی۔ کچھ عرصہ فیض آباد میں گذارنے کے بعد لکھنو آگئے اور اخیر عمر تک یہیں رہے۔

میر حسن کے صاحبزادے

میر حسن کے چار بیٹے میر مستحسن خلیق،میر احسن خلق، میر محسن محسن اور چوتھے لڑکے میر احسان حسن مخلوق تھے۔ انہیں بھی شعر و شاعری سے خاصی دلچسپی تھی۔ میر خلیق کو مرثیہ سے زیادہ رغبت تھی انہیں کے لڑکے میر ببر علی انیس نے مرثیہ گوئی میں کمال حاصل کیا۔

میر حسن کی علمی خدمات

میر حسن نے تمام اصناف سخن غزل، قصیدہ، مرثیہ، ہجو، مثنوی، رباعی، مخمس وغیرہ پر طبع آزمائی کی لیکن آپ کو شہرت مثنوی سحرالبیان کی وجہ سے ملی۔ آپ کی مثنویوں کی تعداد ۱۲ کے قریب بتائی جاتی ہیں جن کے نام حسب ذیل ہیں:

(۱) نقل کلاونت

(۲) نقل زن فاحشہ

(۳) ہجو قصائی

(۴) نقل قصائی

(۵) مثنوی شادی آصف الدولہ

(۶) مثنوی رموز العارفین

(۷) مثنوی ہجو حویلی

(۸) مثنوی گلزار ارم

(۹) مثنوی در تہنیتِ عید

(۱۰) مثنوی قصرِ جواہر

(۱۱) مثنوی در خوانِ نعمت

(۱۲)  مثنوی سحر البیان

لیکن ان میں شہرت سحر البیان، رموز العارفین اور گلزارِ ارم کو ملی۔ ان کے علاوہ میر حسن نے شعرائے اردو کا یک تذکرہ’’ تذکرۃ الشعرا‘‘ فارسی زبان میں لکھا۔ اس میں تقریباً تین سو شعراء کے مختصر حالات قلمبند کیے گئے ہیں۔

مثنوی سحر البیان

اردو زبان میں جن دو مثنویوں کو سب سے زیادہ قبولیت اور شہرت ملی ان میں میر حسن کی ’’سحر البیان‘‘ اور دیاشنکر نسیم کی’’ گلزارِ نسیم ‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ دونوں مثنویاں اپنی اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مماثل قرار دی گئی ہیں۔ مولانا حسین آزاد لکھتے ہیں ’’ ہمارے ملکِ سخن میں سینکڑوں مثنویاں لکھی گئی مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے ہیں جنہوں نے طبیعت کے موافقت سے قبول عام کی سند پائی ایک سحر البیان دوسرے گلزارِ نسیم اور تعجب یہ کہ دونوں کے راستے بالکل الگ الگ ہیں‘‘۔

میر حسن کی یہ مثنوی اسم با مسمٰی ثابت ہوئی، جس نے بھی اس مثنوی کو پڑھا اس کی سحر بیانی کو یقیناً محسوس کیا۔ اس کی زبان اتنی صاف اور عام فہم ہے کہ یہ کہ پانا مشکل ہے کہ یہ آج سے دوسو سال پہلے کی زبان ہے۔ مولانا آزاد مرحوم لکھتے ہیں ’’ اس کی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کچھ ایسی سناوٹ رکھی تھی کہ معلوم ہوتا ہے اسے سو برآگے کی باتیں سنائی دیتی تھیں۔ جو کچھ اس وقت کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو ہے جو آج ہم اور تم بول رہے ہیں‘‘۔

سن تصنیف

میرحسن نے اس مثنوی کو ۱۱۹۹؁ ھ مطابق ۱۷۸۴-۸۵ء میں تحریر کیا۔ میر حسن کی اس مثنوی  کو ڈاکٹر گلکرسٹ کی فرمائش پر میر حسن کے دوست میر شیر علی افسوس نے اپنے مقدمے کے ساتھ ۱۸۰۳؁ ء میں ترتیب دیا، جسے ۱۸۰۵؁ ء میں فورٹ ولیم کالج کی طرف سے پہلی بار شائع کیا گیا۔

یہ مثنوی تقریباً ڈھائی ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں ۳۸ اشعار حمد کے ۲۶ اشعار نعتِ نبیﷺ کے، حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شان میں ۱۹ اور اصحابِ پاک کی مدح میں ۴ اشعار کہے گئے ہیں۔( اردو کی بہترین مثنویاں، ص:۳۲) یہ بحر متقارب مثمن مقصور یا محذوف یعنی فعولن، فعولن، فعولن، فعول یا فعل کے بحر میں لکھی گئی ہے۔

سحر البیان کی وجہ تالیف

مثنوی سحر البیان تحریر کرنے سے پہلے میرحسن نے ؁۱۱۹۲ھ میں مثنوی گلزارِ ارم تصنیف کی، اس مثنوی میں میرحسن نے فیض آباد کی خوب مدح سرائی کی اور لکھنو کی مذمت۔ اس وقت لکھنو اودھ کا دارالخلافہ قرار دیا چکا تھا اور نواب آصف الدولہ نے زر کثیر خرچ کر کے لکھنو کو آراستہ کیا،لکھنو کی مذمت میں اشعار سن کر نواب بہت رنجیدہ ہوئے،جو میر حسن سے خفگی کا سبب بنا۔ بعض لوگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اسی وجہ سے میر حسن کو شہر سے آوارگی اختیار کرنی پڑی۔

میر حسن نے نواب کے اسی غم و غصہ کو کم کرنے کے لیے مثنوی سحر البیان تحریر کی اور نواب کے حضور میں پیش کیا، تب جاکے ان کا قصور معاف ہوا۔ لیکن میر کو اس مثنوی سے جتنی توقع تھی پوری نہ ہو سکی۔ نواب کی طرف سے محض ایک دوشالہ جس کو نواب نے اپنے استعمال کے لیے رکھا تھا عطا کیا۔ میر حسن کا مرتبہ تو بڑھا لیکن دلی مراد پوری نہ ہو سکی۔ میر حسن کے دل میں ہمیشہ یہ ملال رہا کہ نواب آصف الدولہ جیسا سخی آدمی کہ جس کے بارے میں مثل مشہور تھا ’’ جسے نہ دے مولا اسے دے آصف الدولہ‘‘ اس نے اس کے کئی سالوں کے محنت کا یہ صلہ دیا۔

مثنوی گلزارِ ارم سے لکھنو کی مذمت میں کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:

جب آیا میں دیارِ لکھنؤ میں

نہ دیکھا کچھ بہار لکھنؤ میں

کیا تھا غم نے از بس دل پہ ڈیرا

لگا اس جاپہ ہر گز دل نہ میرا

بہت ہے گرچہ اہل اللہ اس جا

ولے جا گہ جو بد ہو تو کریں کیا

زبس یہ ملک ہے بیہڑ پہ بستا

کہیں اونچا کہیں نیچا ہے رستا

خلاصہ قصہ سحر البیان

کسی شہر میں کوئی بادشاہ رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہر طرح کی عیش و عشرت سے نوازا تھا، مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ مایوسی اور نا امیدی میں اس نے ترکِ وطن کا ارادہ کیا۔ نجومیوں اور جیوتشیوں کو بلاکر مشورہ کیا تو انہوں نے اس کے یہاں اولاد ہونے کی بشارت دی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتلایا کہ بچہ بارہویں سال میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوگا۔ بچے کی جان کو کوئی خطرہ نہیں لیکن کوئی پری اس پر عاشق ہوگی اور اسے اپنے ساتھ اٹھا لے جائے گی۔

نجومیوں کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی کچھ دنوں بعد بادشاہ کے یہاں ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام بے نظیر رکھا گیا۔ پورے ملک میں جشن و سرور کی محفلیں سجائی گئی۔ چوتھے سال بچے کا دودھ چھڑا کر ایک خوبصورت باغ میں شہزادے کی تعلیم و تربیت کا بند و بست کیا گیا، لیکن تقدیر کا لکھا کون بدل سکتا ہے۔ بدقسمتی سے تاریخ ٹھیک ٹھیک یاد نہ رہی، بادشاہ اس خیال سے کہ بارہ سال پورے ہو گئے شہزادے کو محل کے بالاخانے پر  شب باشی کی اجازت دے دی، جبکہ یہ رات بارہویں سال میں شامل تھی۔

بے نظیر کا غائب ہو جانا

چنانچہ نجومیوں کے کہنے کے مطابق ماہ رخ نامی پری کا ادھر سے گزر ہوا، شہزادے کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گئی اور اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ یہ خبر جیسے ہی پھیلی محل میں کہرام مچ گیا، چہار جانب سے آہ و بکا کی آوازیں آنے لگی۔

ادھر ماہِ رخ نے شہزادے کا دل بہلانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ شہزادہ ہمہ وقت ملول و رنجیدہ رہتا۔ ماہ رخ کو شہزادے کی حالت پہ رحم آیا اس پر ترس کھا کر اے’’ کل ‘‘ کا گھوڑا دیا اور سیر و سیاحت کی اجازت دے دی۔ شہزادہ گھوڑے پہ سوار ہو کر صبح کو نکلتا اور شام کو واپس آ جاتا۔

بےنظیر اور بدر منیر کی ملاقات

ایک دن اتفاق سے شہزادہ بدر منیر کے محل کے قریب سے گزرا اور اس کے خوبصورت باغ میں جا اترا۔ بدر منیر سے اس کی ملاقات ہوئی، دونوں ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں۔ ماہ رخ سے بچ کر شہزادہ اکثر بدر منیر سے ملنے لگا۔ شہزادے کے ملنے کی خبر جب ماہِ رخ کو ملی تو وہ مارے غصے کے اسے چاہِ الم میں قید کرا دیتی ہے۔ اُدھر شہزادے کی جدائی میں بدر منیر کا برا حال ہوگیا، اسےسوتے جاگتے صرف شہزادے کا خیال رہتا۔

اسی دوران ایک دن اس نے خواب میں دیکھا کہ شہزادہ ایک کنویں میں مقید ہے۔ شہزادے کو قید میں دیکھ کر بدرِ منیر بے چین ہوگئی۔ بدرمنیر کی یہ حالت دیکھ وزیر زادہ نجم النساء جوگن کا بھیس کا اختیار کر کے شہزادے کی تلاش میں نکل پڑی۔ راستے میں جنوں کے بادشاہ فیروزشاہ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ فیروزشاہ اس کی حسن و جمال دیکھ کر اس کو دل دے بیٹھتا ہے۔ لیکن نجم النساء فیروز شاہ اس شرط پر ملنے کا وعدہ کرتی ہے کہ پہلے وہ شہزادہ بے نظیر کو ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرے۔

بے نظیر کی قید سے رہائی

 فیروزشاہ نے جنوں کو بلا کر شہزادے کو تلاش کرنے پر معمور کر دیا۔ تھوڑے ہی قفے میں فیروز شاہ نے جنوں کی مدد سے بے نظیر کو ماہ رخ پری کے قید سے آزاد کرا لیا۔اب فیروز شاہ اور نجم النساء دونوں شہزادے کو لیکر بدرِمنیر کے محل میں آئے۔ بدرِ منیر کے باپ مسعود شاہ کو شادی کا پیغام دیا گیا۔ بدرِ منیر اور بے نظیر کی شادی ہوگئی، ساتھ ہی ساتھ فیروزشاہ اور نجم النساء کی بھی شادی ہو گئی۔ بے نظیر بدرِ منیر کو لیکر اپنے ملک واپس آیا، نجم النساء فیروزشاہ کے ساتھ پرستان چلی گئی۔ اس طرح قصہ اختتام کو پہنچتا ہے۔

کرداروں کے نام

سحر البیان کے کرداروں کی بات کریں تو اس کا سب سے جاندار اور متحرک کردار ’’نجم النساء‘‘ کا ہے۔ جو ایک باہمت وفاشعار اور بہادر خاتون رہتی ہے۔ اپنے فرضِ منصبی کیلئے تمام مشکلات سے ٹکرانے کی ہمت اور حوصلہ رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے بعض ناقدین نے اسے ہی اس مثنوی کا سب سے فعّال اور متحرک کردار قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ اس مثنوی کے دیگر کردار حسبِ ذیل ہیں:

بادشاہ: شہزادہ بے نظیر کا باپ

بے نظیر:بدرِ منیر کا عاشق، جسے ماہ رخ اپنے ساتھ اٹھا لے جاتی ہے،اس مثنوی کا ہیرو۔

بدرِ منیر: شہزادہ بے نظیر کی محبوبہ، اس مثنوی کی ہیروئن۔

ماہ رخ: پری جو بے نظیر کو اپنے ساتھ پرستان اٹھا لےجاتی ہے، اس کا کردار ایک ویلین کا ہے۔

نجم النساء: وزیر زادی اور بدرِ منیر کی سہیلی۔

فیروز شاہ:جنوں کا بادشاہ جس کی مدد سے نجم النساء بے نظیر کو ڈھونڈتی ہے اور بعد مین اس کی شادی اس سے ہوجاتی ہے۔

مسعود شاہ: بدرِ منیر کا باپ۔

نوٹ:۔یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ‘‘  ilmkidunya.in کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ   Notification پہنچ جائے۔ والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں