مثنوی بکٹ کہانی

مثنوی بکٹ کہانی

(بارہ ماسہ)

تحریر: احمد

تعارف مصنف بِکٹ کہانی

’’مثنوی بکٹ کہانی‘‘ کے تخلیق کار افضل جھنجھانوی کا پورا نام محمد افضل افضل تھا۔ آپ افضل تخلص کرتے تھے۔ افضل کی تاریخ پیدائش،وطن اور ابتدائی زندگی کے حالات پردۂ خفا میں ہے۔ اسی وجہ سے بکٹ کہانی کی سنہ تصنیف کا بھی محققین کو صحیح علم نہ ہو سکا، لیکن اس بات پر تمام محققین اور تذکرہ نویس متفق ہیں کہ محمد افضل کا انتقال؁ ۱۶۲۵ء میں ہوا۔اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہ غالباً سترہویں صدی عیسوی کے ربعِ اوّل کی تصنیف ہے۔

افضل کا وطن

افضل کے وطن کے متعلق بھی محققین کی الگ الگ رائے ہے بعض انہیں ضلع میرٹھ کے جھنجھانہ کے علاقے سے منسوب کرتے ہیں ،تو بعض افضل کو پانی پت کا باشندہ قرار دیتے ہیں۔ مشہور تذکرہ نویس علی قلی خاں والہ اپنی تصنیف ریاض الشعراء میں افضل کو پانی پت کا باشندہ قرار دیتے ہیں۔ بکٹ کہانی کی زبان (جو کھڑی بولی پر مشتمل ہے) بھی افضل کے پانی پتی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

اشاعت و ترتیب و تدوین

بکٹ کہانی کی اشاعت اور اس کی ترتیب و تدوین کا کام پروفیسر مسعود حسین خان(صدر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد) اور پروفیسر نورالحسن ہاشمی(سابق صدر شعبۂ اردو وفارسی لکھنؤ یونیورسٹی) نے مل کر انجام دیا۔ یہ مثنوی ۳۲۱  ،اشعار پر مشتمل ہے۔

بکٹ کہانی

بکٹ کہانی محمد افضل افضل کی وہ مایہ ناز تصنیف ہے، جسے شمالی ہند میں اردو شاعری کا پہلا مستند نمونہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ امیر خسرو کی شاعری ’’جس کا عہد ۱۴ویں صدی عیسوی کا ہے‘‘ کے بعد بکٹ کہانی کےتصنیف سےقبل کوئی قابل قدر تصنیف کا پتہ نہیں چلتا۔ محمد افضل جھانجھانوی کی یہ مثنوی جو بارہ ماسہ کی ہیئت میں لکھی گئی ہے، اسے سب سے پہلے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے شعبۂ اردو کے علمی و تحقیقی مجلّے ’’ قدیم اردو‘‘ جلد اوّل میں ؁ ۱۹۶۵ء میں شائع کیا گیا۔

یہ مثنوی جو ایک بارہ ماسہ ہے بحر ہزج مسدس محذوف الاخر(مفاعیلن، مفاعیلن،فعولن) میں لکھی گئی ہے۔ بعض اشعار بحر ہزج مسدس مقصور الاآخر میں بھی ہیں۔

قصۂ مثنوی

اس مثنوی میں ایک فراق زدہ عورت کے جذبات اسی کی زبان میں پیش کئے گئے ہیں، جس کا شوہر اسے چھوڑ کر باہر چلا گیا ہے۔ اور وہ اس سے جدائی کے غم میں تڑپتی رہتی ہے۔ سال کے ہر ہر مہینے میں وہ اپنی تڑپ اور بے چینی اپنی زنانی بولی میں ظاہر کرتی ہے۔ 

بکٹ کہانی کے متعلق آراء و خیالات

۱) ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’تاریخ ادب اردو‘‘ میں بکٹ کہانی کو اپنے دور کی سب سے اہم اور نمائندہ مثنوی قرار دیا ہے۔

۲)شیخ محمد قیام الدین قائم (جسے پہلا تذکرہ نویس ہونے کا شرف حاصل ہے) نے مخزنِ نکات میں افضل کو طبقۂ اول میں سعدی، امیرخسرو اور ملّا انوری کے بعد جگہ دی ہے۔ افضل کی بکٹ کہانی کہانی کو قائم نے مثنوی کہا ہے۔

۳)میر حسن نے اسے بارہ ماسہ عرف بکٹ کہانی کے نام سے یاد کیا۔

۴)اسپرنگر کے نزدیک یہ ایک نظم ہے۔

بارہ ماسہ

 ’’مثنوی بکٹ کہانی‘‘ جسے بارہ ماسہ بھی کہتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ بارہ ماسہ کے متعلق بھی کچھ تحریر کا جائے۔

بارہ ماسہ ہندی صنفِ سخن ہے۔ جس میں ایک ایسی فراق زدہ ہندو عورت کے جذبات اسی کی زبان میں پیش کیے جاتے ہیں،جس کا شوہر اسے چھوڑ کر کہیں باہر چلا گیا ہو اور وہ اس کے فراق میں تڑپتی رہتی ہے۔ سال کے ہرمہینے میں وہ اپنی تڑپ طرح طرح سے اپنی زبانی بولی میں ظاہر کرتی ہے۔ اس کی زبان میں دیہاتی الفاظ کی کثرت پائی جاتی ہے۔ یہ بارہ ماسہ عموماً اساڑھ یا ساون کے مہینے سے شروع ہوتے ہیں۔

 بدلتے موسم کے ساتھ اس کا درد  و کرب بڑھتا جاتا ہے، جسے وہ اپنی زبان میں سناتی ہے۔ آخری مہینے میں اس کا شوہر اچانک واپس آجاتا ہے اس فراق زدہ عورت کا درد و غم، رنج و الم خوشی میں بدل جاتا ہے۔

صنف بارہ ماسہ کی سب سے اچھی تعریف عبد اللہ انصاری کے الفاظ میں یہ کہ جا سکتی ہے کہ زنانی پیاری بولی میں سوزِ نہانی کا ایسا تذکرہ ہوتا ہے جسے سن کر دل بے قرار ہو اٹھتا ہے۔

بکٹ کہانی کی زبان

بکٹ کہانی کی زبان کھڑی بولی پر مشتمل ہے۔ بعد میں یہی زبان ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ۱۸/ویں صدی عیسوی کے اخیر میں پہنچ کر ایک ادبی اور معیاری زبان اختیار کر لیتی ہے جسے اردوئے معلٰی اور اردو کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے۔

بکٹ کہانی کی زبان یوں تو کھڑی بولی پر قائم ہے لیکن اس میں برج بھاشا، اودھی، پنجابی اور گجراتی زبان کے اثرات بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

ماہر لسانیات ڈاکٹر مسعود حسین خان کا خیال ہے کہ بکٹ کہانی کی زبان عہدِ اکبری کی کھڑی بولی کا وہ روپ ہے جو دہلی اور اس کے نواح سے نکل برج، اودھی اور ہریانی کے علاقوں میں رائج ہو چکا تھا۔ حافظ محمود شیرانی(مولف پنجاب میں اردو) لکھتے ہیں اس کی زبان دکنی سے بہت مختلف اور صاف ہے۔

صرفی، نحوی اور صوتی خصوصیات

بکٹ کہانی کی زبان کا جائزہ لیا جائے تو اس کی اپنی صرفی،نحوی اور صوتی خصوصیات ہیں جو حسب ذیل ہیں:

صرفی خصوصیات 

(۱)اسمائے ضمیریں

تَیں  (تو)  تمری   (تمہاری)  تمن (تم)  ہَوں (میں)  ہَمن  (ہم)  کِنھیں  (کسی) وغیرہ

(۲)’’اں‘‘ کے ساتھ جمع کی بعض مثالیں:

دھوپاں( دھوپ کی جمع) سیراں (سَیر کی جمع)۔

(۳)افعال کی بعض شکلوں میں برج بھاشا اور اودھی کے اثرات نمایاں ہیں:

بھئی (ہوئی)  رُووَت،چَلَت، پھرَت،دیکھن، ہنسن،کھیلَن، وغیرہ۔

کیتا  (کیا) دیتا  (دیا) کی شکلیں بھی مل جاتی ہیں۔ کیتا کی شکل دکنی اردو میں بھی مستعمل ہے۔

(۵)افعال کے مصادر ’’و‘‘ کے اضافے سے بنائے گئے ہیں:

آونا، بھاونا، شرماونا وغیرہ۔

(۶)حروف کی بعض قدیم شکلیں ملتی ہیں جن میں سے بیشتر برج بھاشا کی ہیں:

سوں، سیں، سیتی،کوں،اجھوں، کِت(کہاں) مُوں (میں)، کہا (کیا)  کؤلو (کب تک) کاں لگ( کہاں تک)، کہوں (کہیں)۔

(۷)پنجابی کا بھی ایک حرف ’’نال‘‘ دوبار استعمال کیا گیا ہے:

پیا کے نال بیٹھیں ساریاں سب

بجاویں دف پیا کے نال ساری

نحوی خصوصیت

ایک آدھ مثال ایسی بھی ملتی ہے کہ اگر اسم مونث جمع ہے تو صفت بھی جمع لائی گئی ہے مثلاً:

بسایا تخت اوپر ناریاں سب

پیا کے نال بیٹھی ساریاں سب

بہ عال پھولیا پھولواریاں سب

صوتی خصوصیات

(۱)بعض الفاظ میں ’’ل‘‘ پر ’’ر‘‘ کو تجیح دی گئی ہے مثلاً:

 گر (گل) کاری (کالی) سانورا (سانولا) جرنا (جلنا) ڈارنا (ڈالنا) وغیرہ۔

(۲)عربی فارسی الفاظ کا ہندی تلفظ مثلاً:

لرجا (لرزہ) داگ (داغ) وغیرہ۔

(۳)طویل مصوتے ’’آ‘‘ کا اضافہ جیسے:

ہانسی (ہنسی) وغیرہ۔

بکٹ کہانی میں ہر مہینے کے اعتبار سے ایک عنوان قائم کیا گیا ہے۔ اور ایک عنوان بطور تمہید کے بکٹ کہانی کے نام سے ہے۔ مکمل مثنوی کا احاطہ طوالت کی وجہ سے ممکن نہیں چند اشعار دیکھیں۔ مکمل مثنوی کے لیے مطالعہ کریں ’’بکٹ کہانی‘‘ مرتبہ مسعود حسین خان۔

بکٹ کہانی(اس عنوان کےتحت ۵۷ /اشعار ہیں)

بکٹ کہانی کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے:

سنو سکھیو! بِکٹ میری کہانی

بھئی ہوں عشق کے غم سوں دِوانی

نہ مجھ کو بھوک دن، نا نیند راتا(۱)

بِرہ(۲) کے درد سوں سینہ پراتا(۳)

تمامی لوک(۴) مجھے بوری(۵) کہی ری

خرد گم کردہ، مجنوں ہو رہی ری

مشکل الفاظ کے تراجم:

(۱) رات (۲) جدائی (۳) درد کرنا (۴) دنیا (۵) باولی، پاگل

در بیان ماہ اوّل : ساون (۱۰ /اشعار)

رسیدہ بر سرِ ہنگامِ(۱) برسات

سجن پردیس میں ہیہات(۲)! ہیہات!!

چڑھا ساون، بجا مارو نقارہ

سجن بن کون ہے، ساتھی ہمارا

گھٹا کاری(۳) چہاروں اور چھائی

برہ کی فوج نے کینی(۴) چڑھائی

(۱) تیز آواز کے ساتھ (۲) دور (۳) کالی (۴) کی

در بیان ماہ دوم: بھادو(۱۵/ اشعار)

سکھی! بھادوں نپٹ(۱) تپتی) پڑے ری

تمامی تن بدن میرا جرے(۳) ری

سیہ بادر(۴) چہاروں اُور چھائے

لیا مجھ گھیر، پیو اجہوں(۵) نہ آئے

جھڑی پڑنے لگی اور رعد(۶) گرجا

تمامی تن بدن جیو جان، لرجا(۷)

(۱) بالکل (۲) گرم (۳) جل رہا (۴) بادل (۵) ابھی تک (۶) بجلی (۷)’’لرزہ‘‘ لرزنا

در بیانِ ماہ سوم: کنوار(۲۴ اشعار)

سنو سکھیو! کہ رت آسوج(۱) آئی

پیارے کی خبر اب لگ(۲) نہ پائی

ککہو کیسے جیویں پیو باج(۳) ناری

جنہیں رووت گئی ہے عمر ساری

لکھوں پتیاں(۴) ارے کاگ! لےجا

سلونے، سانورے، سندر پیا پا(۵)

(۱)’’آشون‘‘ کنوار کا مہینہ(۲) تک (۳)بغیر (۴)خط (۵)تک

در بیان ماہ چہارم: کاتک(۱۶/ اشعار)

گیا آسوج کاتک مانس(۱) آیا

سلونے شیام کوں پردیس بھایا

گئی برسات رُت، نکھرا فلک سب

نمی دانم کہ ساجن گھر پھریں کب

بھئی مجھ سیج، بن پیو ناگنی رے

ستاوے دوسرے، نِت چاندنی رے

(۱) ’’ماس‘‘ مہینہ

در بیان ماہ پنجم: اگہن(۱۷ /اشعار)

سکھی! اگہن سیہ رو مانس آیا

سجن آئے نہ کا گد(۱) لکھ پٹھایا(۲)

بھیا موسم خنک ، سردی بھئی رے

اجھوں لگ غم اگن تن موں رہی رے

پھروں بیاکل(۳) ندارم چین یک دم

اٹھوں، بیٹھوں، چڑھوں بر بام(۴)، ہردم

(۱) کاغذ (۲) بھیجنا (۳) ’’ ویاکل‘‘ بے چین (۴)بالاخانہ

در بیان ماہ ششم: پوس(۲۸ /اشعار)

اگھن دکھ دے گیا اب پوس آیا

پیا کی چاہ نے غلبہ اٹھایا

پڑے پالا کرے تھر تھر دیہ(۱)

سکھی! کسی بد گھڑی لاگا مرا نیہ(۲)

کریں عشرت(۳) پیا سنگ ناریاں سب

میں ہی کانپوں اکیلی، ہائے یا رب!

(۱) جسم (۲) ’’سنیہ‘‘ محبت (۳)خوشی، ایک دوسرے کے ساتھ مزے کرنا۔

دربیان ماہ ہفتم: ماگھ (۳۲/ اشعار)

گیا پوس اے سکھی! اب ماہ(۱) آیا

پیا نے جائے کر پردیس چھایا

فراق اب ماہ نے مجھ کو دیا ہے

پیا نے نئیں اجھو پھیرا کیا ہے

ارے نُس(۲) ماہ اپنا موڑیا ری

مجھے غم کی اگن از نو دیا ری

(۱) ماگھ (۲) منہ، رخ

در بیان ماہ ہشتم: پھاگن(۴۰/ اشعار)

گیا جب ماگھ پھاگن مانس آیا

سکھی! ہے ہے پیا اس  رُت نہ آیا

جو آیا وہ پھاگن کیا کروں ری

سجن پردیس، میں نِت(۱) دکھ بھروں ری

ارے اودھو! سنو یہ دکھ ہمن سوں

کہو ٹک جائے پردیسی سجن سوں

(۱) روز،روزانہ

در بیان ماہ دہم: بیساکھ (۹/ اشعار)

سنو سکھیو! کہ اب بیساکھ آیا

کویل نے انبہ(۱) پر چڑھ شور لایا

سنی آوازِ کویل اور پپیہا

رہے دن رین کیوں کر میرا جیّا(۲)

ارے سر پاؤں لگ میں ہوں اکیلی

ہِجَر کی آگ ہے مجھ پر دوہیلی(۳)

(۱) آم کا پیڑ (۲) جی،طبیعت (۳) مشکل

در بیانِ ماہ یازدہم: جیٹھ(۱۶/ اشعار)

لگا یہ جیٹھ اب دھوپاں(۱) پڑی ری

ہمن حیران و سرگرداں پھریں ری

ہمن اک آگ  غم کی میں جلت ہیں

علاوہ دوسرے لوواں(۲) چَلت ہیں

بسایا تخت اوپر ناریاں ری

 پیا کے نال بیٹھیں ساریاں(۳) ری

(۱) دھوپ (۲) ’’ لُو‘‘ کا چلنا (۳) سب کے سب

در بیانِ ماہ دوازدہم: اساڑھ (۳۸ /اشعار)

سنو آساڑھ ماس(۱) آیا سکھی ری

کرم میرے نہ جانوں کیالکھی ری

سنو دن رین(۲) کی میری کہانی

کمر کو توڑ کر بیٹھی نمانی

پیا کی چاہ نے غلبہ کیا ری

نئے سرسیں ہمن کوں دکھ دیا ری

(۱) مہینہ  (۲) رات

آخری شعر:

بہ یادِ دل رُبا خوش حال می باش

گہے افضل گہے گوپال(۱) می باش

(۱)  افضل کا وہ نام جس کو اس نے متھرا کے قیام کے دوران رکھا تھا۔

ماخذ:۔ ” بکٹ کہانی ” مرتبہ مسعود حسین خان و نورالحسن ہاشمی

نوٹ:۔یہ مضمون نیٹ جے آر ایف،سیٹ،ٹیٹ وغیرہ امتحان میں پوچھے جانے والے سوالوں کے پیش نظر تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا  ڈاٹ اِن‘‘          ilmkidunya.in      کو سبسکرائب کر لیں تاکہ ہماری ہر اپڈیٹ آپ تک بذریعہ   Notification پہنچ جائے۔ والسلام

2 ”مثنوی بکٹ کہانی

اپنی راۓ یہاں لکھیں