(رمضان سیریز: 9)
ماہِ رمضان: فضائل و برکات
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان اور اس میں روزے کی عبادت کو متعدد فضائل ومحاسن سے متصف قرار دیا ہے تاکہ اس کے بندے جس حد تک ممکن ہوسکے، اس ماہ کی برکتوں سے ہم کنار ہوسکیں۔ ذیل میں چند فضائل ذکر کئے جاتے ہے:
(۱) اس ماہ میں روزہ دار کے منھ کی بو (خلوف) اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔ خلوف سے مراد وہ بو ہے جو معدہ کے غذا سے خالی ہونے کی وجہ سے منھ میں پیدا ہو جاتی ہے۔
(۲) اس ماہ میں فرشتے تا وقت ِ افطار روزے داروں کے لیے محو ِ استغفار رہتے ہیں۔
(۳) اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کی آرائش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:عنقریب میرے نیک بندے اپنی مشقتیں اور تکالیف چھوڑکر تیرے یہاں آنے والے ہیں۔
(۴) سرکش شیطانوں کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں، اور وہ بقیہ دنوں کی طرح اثر انداز نہیں ہو پاتے۔
(۵) اللہ تعالیٰ اس ماہ کی آخری شب میں تمام روزے داروں کی مغفرت فرما دیتا ہے۔
مذکورہ بالا پانچوں باتوں کا تذکرہ ایک حدیث میں آیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ماہِ رمضان المبارک میں میری امت کو پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، اور یہ شرف کسی دوسری امت کو نصیب نہیں ہوا۔ روزے دار کے منھ کی بو (خلوف) اللہ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے، فرشتے افطارکے وقت تک روزے داروں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ روزانہ جنت کی آرائش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عنقریب میرے نیک بندے اپنی مشقتیں اور تکالیف چھوڑکر تیرے پاس آنے والے ہیں، سرکش شیطانوں کو بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں، اور وہ بقیہ ایام کی طرح اثر انداز نہیں ہو پاتے، اللہ تعالیٰ اس ماہ کی آخری شب میں تمام روزے داروں کی مغفرت فرما دیتے ہیں۔ سوال کیا گیا:کیا وہ آخری رات شب ِ قدر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:نہیں، بلکہ اس لیے کہ مزدور کو اس کی اجرت کام ختم کرلینے پر ملتی ہے‘‘ ۔
[أعطیت أمتی خمس خصال لم تعطھا أمۃ من قبلھم:خلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسک، وتستغفر لھم الملائکۃ حتیٰ یفطروا، و یزیّن اللہ عزّ وجلّ کل یوم جنتہ ثمّ یقول: یوشک عبادی الصالحون أن یلقوا عنھم المؤنۃ والأذی ویصیروا الیک، وتصفد فیہ مردۃ الشیاطین فلا یخلصوا الیٰ ما کانوا یخلصون الیہ فی غیرہ، ویغفر لھم فی آخر لیلۃ، قیل:یا رسول اللہﷺأ ھی لیلۃ القدر؟ قال:لا، ولٰکن العامل انّما یوفّیٰ أجرہ اذا قضیٰ عملہ] (مسند امام احمدؒ: ۲/۲۹۲)
اس حدیث کی روشنی میں چند باتیں قابلِ غور ہیں:
(أ) روزے دار کے منھ کی بو اللہ رب العزت کو مشک کی خوشبو سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ منھ کی یہ بو معدے کے غذا سے خالی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور عامۃ الناس میں اسے مکروہ اور ناپسندیدہ خیال کیاجاتا ہے۔ اللہ کے نزدیک اس کی پسندیدگی کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وجود اللہ کی طاعت وعبادت سے ہوتا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی بظاہر معیوب چیز اگر عبادت وطاعت ِ الٰہی کے باعث وجود میں آتی ہے تواللہ کو محبوب ہوتی ہے۔
کثرتِ سجدہ کی وجہ سے پیشانی پر پڑ جانے والے سیاہ نشان کی تعریف وتوصیف کی یہی وجہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی چیز دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ محبوب نہیں ہے؛ایک آنسو کا وہ قطرہ جو خوفِ الٰہی سے بہے اور ایک خون کا وہ قطرہ جو راہِ خدا میں بہایا جائے، اور دو نشانات میں سے ایک راہِ خدا میں لگ جانے والا دھبہ ہے اور دوسرا اللہ کے کسی فریضے کی ادائیگی کی وجہ سے پڑ جانے والا نشان ہے۔ [لیس شیء أحب الی اللہ من قطرتین وأثرین: قطرۃ من دموع في خشیۃ اللہ وقطرۃ دم تھراق في سبیل اللہ، وأما الأثران فأثر فی سبیل اللہ وأثر فی فریضۃ من فرائض اللہ] (سنن ترمذیؒ:۱۶۶۹ مع تحسین البانیؒ۔ کتاب الجہاد، ابن ابی عاصمؒ:۱۰۸)
اسی طرح روزِ قیامت شہدائے اسلام کا خونِِ شہادت سے شرابور میدانِ حشر میں آنے کا توصیفی بیان کہ وہ اس حالت میں آئیں گے کہ ان کے زخم رستے ہوں گے، خون کا رنگ تو خون جیسا ہوگا لیکن خوشبو مشک جیسی ہوگی۔ [جرحہ یثعب دماً، لونہ لون دمٍ وریحہ ریح المسک] (صحیح بخاریؒ:۵۵۳۳۔ صحیح مسلمؒ:۴۹۷۰)
اسی طرح عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کا غبارآلود وپراگندہ حال حجاجِ کرام کو دیکھ کر ملائکہ کے سامنے اظہارِ فخر کرنا کہ دیکھو میرے ان بندوں کو کہ غبار آلود وپراگندہ حال میرے پاس چلے آئے ہیں، [انظروا الیٰ عبادی ھؤلاء جاؤوني شعثاً غبراً] (مسند احمد:ؒ۷۰۸۹۔ صحیح ابنِ حبانؒ:۱۸۸۷، ۳۸۵۲) یہ سب دیکھا جائے تو اسی اصول کی توضیحی مثالیں ہیں۔
(ب) ملائکہ کے محو ِ استغفار رہنے کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے معزز ومکرم اورہر طرح کی سرتابی وعصیان سے معصوم بندے ہیں، اس لیے روزے داروں کے حق میں ان کی دعائے استغفار اس کی قبولیت کالازمی اشارہ ہے۔ مزید یہ کہ ملائکہ کا صائمین کے لیے استغفار پر مقرر کیا جانا روزے داروں کی بلندیٔ درجات کی دلیل بھی ہے۔ مغفرت کے معنی ہوتے ہیں دنیا وآخرت میں گناہوں کی پردہ پوشی۔ چونکہ تمام بنی آدم تھوڑے بہت خطاکار ضرور ہوتے ہیں اس لیے سترِ ذنوب یا مغفرت سے کسی متنفس کو استغناء نہیں ہو سکتا۔
(ج) اللہ رب العزت کا روزانہ جنت کی آرائش کرنا اس لیے ہوتا ہے کہ نیک دلوں اور پاکیزہ نفوس میں اس جنت تک رسائی کا جذبہ اور رغبت پیدا ہو جائے۔ مشقتوں اور تکالیف سے مراد دنیا کی تعب واذیت اور مشاغل ومصروفیات ہیں، اور ان کے ترک سے مراد ایسے اعمالِ صالحہ کی طرف متوجہ ہونا ہے جو دنیا وآخرت کی سعادت کے ضامن اور دائمی عزت وسلامتی کے کفیل ہیں۔
(د) شیاطین کو بیڑیاں پہنانے سے مراد یہ ہے کہ اس ماہ میں اللہ کی طرف سے خیر کی توفیق اور اس پر اعانت وتائید عام ہوجاتی ہے۔ اس کا عملی مشاہدہ صالحین واولیاء کی حیات اور معمولات میں نمایاں طور سے دیکھنے کو ملتا ہے۔
(ھ) اس ماہ کی آخری شب میں تمام روزے داروں کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ دوسری روایت میں پوری امت ِ محمدیہ کی مغفرت کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ [انّ اللہ یغفر لأمۃ محمدٍﷺ في آخر لیلۃٍ من ھذا الشھر] (اخبار مکۃ، الفاکہیؒ:۱۵۷۵۔ سنن بیھقیؒ:۱۱۸۷) دونوں احادیث کے الفاظ کی تطبیق سے مترشح ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان المبارک میں امت ِ محمدیہ کا مکمل وجود صائمین کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے اور یہ اپنے آپ میں غیر متصور بات ہے کہ کوئی شخص اس ماہ میں اسلام کا دعوے دار بھی ہو اور روزے دار نہ ہو۔
بندگانِ خدا کی عمومی مغفرت کا یہ انعامِ خداوندی تین طرح سے ہوا ہے:
اولاً:اللہ رب العزت نے اس ماہِ مبارک میں ایسے اعمالِ صالحہ مشروع فرمائے جو بندگانِ خدا کی مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بنتے ہیں۔
ثانیاً:عملِ صالح کی توفیق دینا خالصتاً اللہ رب العزت کے قبضۂ قدرت واختیار میں ہے، جس کی نوازش بذاتِ خود ایک بڑا احسان ہے۔
ثالثاً:نیک عمل پر کثیر اجر سے نوازنا، بایں طور کہ ایک نیکی دس سے لے کر سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ شمار کی جائے، صرف اور صرف فضلِِ خداوندی ہے۔
(۶) ماہِ رمضان المبارک کی اولین واہم ترین فضیلت یہ ہے کہ اسی ماہ میں اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب یعنی قرآنِ حکیم کو نازل فرمایا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ } (بقرہ، ۱۸۵) ’’رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پرمشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اورحق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔ ‘‘
(۶) اس ماہ میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے: ’’جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابجولاں کر دیا جاتا ہے‘‘ ۔ [اذا دخل شھر رمضان المبارک فتحت أبواب الجنّۃ وغلّقت أبواب جھنم وسلسلت الشیاطین] (صحیح بخاریؒ:۱۸۹۹۔ صحیح مسلمؒ:۱۰۷۹) ۔
(۷) ایمان، اخلاص اور بہ نیت ِ اجر و ثواب روزے رکھنے پر اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ آپ ﷺکاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان المبارک کے روزے ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘ [من صام رمضان المبارک ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۱۔ صحیح مسلمؒ:۱۷۵)
(۸) ایمان، اخلاص اور بہ نیت ِ اجر و ثواب عبادت اور قیامِ لیل کرنے پر اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ آپ ﷺکاارشاد ہے: ’’جس نے رمضان المبارک میں ایمان اوراجر و ثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘ [من قام رمضان المبارک ایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ] (صحیح بخاریؒ:۳۷۔ صحیح مسلمؒ:۱۷۴)
(۹) اس ماہ میں وہ مبارک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو لیلۃ القدر (سورہ قدر:۱) یا لیلۃ مبارکۃ (سورہ دخان:۳) کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔ شب ِ قدر کی فضیلت کی تفصیل میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ اس رات کا حصول اور اس میں عملِ صالح کی توفیق پا لینا بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے: ’’جس نے شب ِ قدر میں ایمان اوراجر وثواب کی نیت سے عبادت و قیامِ لیل کیا تو اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے گئے۔ ‘‘ [من قام لیلۃ القدرایماناً واحتساباً غفر لہ ما تقدّم من ذنبہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۰۱۔ صحیح مسلمؒ:۱۷۵)
(۱۰) رمضان المبارک میں صدقہ کرنا افضل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں: ’’اللہ کے رسولﷺلوگوں میں سب سے زیادہ فیاض تھے۔ اور آپﷺکی سخاوت اس وقت اپنے نقطۂ عروج پر ہوتی جب آپ رمضان المبارک میں حضرت جبریل ؑ سے ملاقات فرماتے تھے۔ آپﷺکا رمضان المبارک میں معمول تھا کہ آپﷺروزانہ جبریل ؑ کے ساتھ قرآن کا مذاکرہ فرماتے۔ ان ایام میں آپﷺ کی جود و سخا، بارش لانے والی ہوائوں کو مات دیتی تھی۔ ‘‘ [کان رسول اللہ ﷺأجود النّاس، وکان أجود ما یکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل، وکان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان فیدارسہ القرآن، فلرسول اللہﷺ أجود بالخیر من الرّیح المرسلۃ] (صحیح بخاریؒ:۶۔ صحیح مسلمؒ:۵۰)
دوسری روایت میں ہے کہ اس دوران آپﷺ سے کچھ بھی مانگا جاتا، آپﷺانکار نہ فرماتے تھے۔ [لا یسأل عن شیئٍ الّا أعطاہ] (مسند احمدؒ:۱/۲۳۱)
(۱۱) اس ماہ میں ایک عمرے کاثواب حج کے برابر ہے، حدیث شریف میں آیا ہے: ’’رمضان المبارک کا عمرہ، حج کے برابر ہے۔ [عمرۃ فی رمضان المبارک تعدل حجۃ] (صحیح بخاریؒ:۱۷۸۲) دوسری روایت میں اس حج کے مانند بتایا گیا ہے جو خود آنحضور ﷺکی رفاقت میں ادا کیا گیا ہو۔ [تعدل حجۃ معي] (سنن ابو داؤدؒ:۱۹۹۰)
(۱۲) رمضان المبارک کا مہینہ صبر کا مہینہ ہوتا ہے اور صبر کا بدلہ جنت سے کم نہیں۔ روزوں کے اس ماہ میں صبر کا جس انداز میں مظاہرہ ہوتا ہے، میدانِ جہاد کے سوا کہیں نہیں ہوتا۔ شاید اسی لیے روزے کو صبر کا آدھا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ روزہ صبر کا آدھا حصہ ہے۔ ‘‘ [الصوم نصف الصبر] (مسند احمدؒ:۴/۲۶۰۔ سنن ابن ماجہؒ:۱۷۴۵)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔