قضائے عمری
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو
نماز بندگی کی پہچان، کفر و اسلام کے درمیان وجہ امتیاز اور ایک اہم ترین فریضہ ہے،جسے ایک متعین اور محدود وقت میں ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:
اِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتًا۔ (سورۃ النسائ:۱۰۳)
بے شک نماز مسلمانوں کے ذمے ایسا فریضہ ہے جو وقت کا پابند ہے
اور ایک دوسری آیت میں ہے:
حَافِظُوْا عَلٰی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاۃِ الْوُسْطَی وَقُوْمُوْا لِلّہِ قَانِتِیْن۔ (سورۃ البقرہ: ۲۳۸)
تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا اور اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔
اور مومن بندے کی یہ صفت بیان کی گئی ہے :
وہم علی صلوتہم یحافظون۔ (سورۃ المؤمنون: ۹)
اور وہ جو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں۔
اور حدیث میں ہے کہ
إن للّٰہ ملکا ینادی عند کل صلاۃ یا بنی آدم! قوموا إلی نیرانکم التی أوقدتموہا فاطفئوہا۔ (رواہ الطبرانی و رجال اسنادہ کلہم محتج بہم فی الصحیح، الترغیب والترہیب للمنذری:۱/۱۳۸)
اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت اعلان کرتا ہے اے آدم کی اولاد! جس آگ کو تم نے جلا رکھا ہے اٹھو اور اسے بجھائو۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ
سالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أٔ العمل أحب إلی اللہ؟ قال: الصلاۃ علی وقتہا، قلت: ثم أي؟ قال: بر الوالدین، قلت: ثم أي؟ قال: الجہاد فی سبیل اللہ۔(بخاری،مسلم، ترمذی، نسائی، الترغیب:۱/۱۴۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دریافت کیا کہ اللہ کی نگاہ میں سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ فرمایا وقت پر نماز ادا کرنا، عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
اور حضرت عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خمس صلوات افترضہن اللہ عزو جل، من احسن وضوء ہن وصلا ہن لوقتہن وأتم رکوعہن وسجودہن وخشوعہن کان لہ علی اللہ عہد أن یغفر لہ، ومن لم یفعل فلیس لہ علی اللہ عہد إن شاء غفر لہ وإن شاء عذبہ۔(مالک، ابو داؤد، نسائی، ابن حبان، الترغیب: ۱/۱۴۸)
اللہ عز وجل نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو کوئی اچھی طرح سے وضو کرکے وقت پر ان کو ادا کرے اور رکوع، سجدہ، اور خشوع پوری طرح سے کرے تو اللہ کی طرف سے اس کی بخشش کا وعدہ ہے اور جو کوئی ایسا نہ کرے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ہے، اگر چاہے تو معاف کردے اور چاہے تو عذاب دے۔
نماز میں کوتاہی کرنا اور اسے جان بوجھ کر چھوڑ دینا منافقوں اور مشرکوں کا شیوہ ہے، چنانچہ قرآن حکیم میں منافقوں کے بارے میں کہاگیا ہے،
فویل للمصلین الذین ہم عن صلوتہم ساہون۔(سورۃ الماعون:۵)
پھر بڑی خرابی ہے ان نماز پڑھنے والوں کی جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں۔
اور ایک آیت میں ہے کہ آگ میں جلنے والے مجرموں سے جنتی پوچھیں گے کہ تم جہنم میں کیسے پہنچ گئے تو وہ جواب دیں گے:
’’لم نک من المصلین و لم نک نطعم المسکین وکنا نخوض مع الخائضین و کنا نکذب بیوم الدین‘‘ (سورۃ المدثر: ۴۳/۴۶)
ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے، اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور بے ہودہ بات کرنے والوں کے ساتھ شامل ہوجاتے تھے اور ہم بدلے کے دن کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔
اور حدیث میں ہے کہ
’’ بین الرجل وبین الشرک أو الکفر ترک الصلاۃ۔(صحیح مسلم :۸۲)
مسلمان اور کفر وشرک کے درمیان (فاصلہ بنانے والا عمل) نماز کا چھوڑنا ہے۔
ترک صلوۃ سے متعلق سخت وعیدیں اس بات کے لئے کافی ہیں کہ اسے جان کر انسان پر کپکپی طاری ہوجائے ہے اور غفلت و نادانی کی وجہ سے نمازیں چھوٹ گئی ہوں تو فوراً اللہ کے حضور توبہ کرے اور اس کی تلافی کی کوشش کرے کہ ایک مومن و مسلم کی یہی شان اور پہچان ہے ، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِم‘‘(سورہ آل عمران:۱۳۵)
اور جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجاتاہے یا وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو انہیں اللہ یاد آجاتاہے جس کے نتیجے میں وہ اپنے گناہوں سے معافی مانگنے لگتے ہیں۔
اس لئے غفلت اور نادانی کی وجہ سے جان بوجھ کر نماز چھوٹ جائے تواسے فوراً توبہ کرنا اور چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا چاہئے، اس لئے کہ توبہ میں یہ بات شامل ہے کہ جو حقوق اس کے ذمے واجب ہیں انہیں ادا کرے، بلکہ توبہ کی قبولیت کے لئے شرط ہے جہاں تک ہوسکے اپنی غلطی کی تلافی کرے محض شرمندگی اور اظہار ندامت کافی نہیں ہے، اور نماز کے تعلق سے بصراحت کہاگیا ہے کہ ـ اس کا کفارہ صرف یہی ہے کہ اسے پڑھا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’من نسی صلاۃ فلیصل إذا ذکرہا، لا کفارۃ لہا الا ذالک ‘‘ (صحیح بخاری:۵۹۷)
جو کوئی کسی نماز کو بھول جائے تو یاد آنے پر اس کو پڑھے، اس کے سوا اس کا کوئی اور کفارہ نہیں ہے۔
جب بھول کر نماز چھوڑدینے پر محض توبہ اور ندامت کافی نہیں ہے، بلکہ اسے ادا کرنا ضروری ہے تو جان بوجھ کر چھوڑنے پر تو بدرجہ اولی ادائیگی ضروری ہے، اور یہ ایک معقول بات ہے کہ اس نے جو چیز چھوڑی ہے پہلے اسے ادا کرے، کثرت نوافل اور استغفار کے ذریعے تلافی ایک دوسری چیز ہے۔
علاوہ ازیں جس طرح سے دوسرے قرض ہر حال میں ادا طلب ہوتے ہیں اسی طرح سے قضا شدہ نماز بھی ایک قرض ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ’’فدین اللہ احق أن یقضی‘‘ اللہ کا قرض اس کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔
نیز اگر کوئی فریضہ قطعی دلیل سے ثابت ہو تو اس کے سقوط کے لئے اسی طرح کی مضبوط دلیل کی ضرورت ہے، اور جان بوجھ کر نماز چھوڑنے یا بہت زیادہ نمازوں کی قضا کی صورت میں اس فریضے کے ساقط ہونے کے لئے کوئی کمزور دلیل بھی موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہا جا سکے جان بوجھ کر چھوڑنے کی وجہ سے یا زیادہ تعداد میں قضا ہوجانے کے باعث نماز ساقط ہوجاتی ہے۔ اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من نسی صلاۃ فلیصل إذا ذکرہا، لا کفارۃ لہا الا ذالک ‘‘(صحیح بخاری:۵۹۷/مسلم :۶۸۴)
جو کوئی نماز بھول جائے تو یاد آنے پر اسے پڑھ لے اس کا کفارہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
اور ان سے منقول بعض روایتوں کے الفاظ یہ ہیں:
إذا رقد أحدکم عن الصلاۃ أو غفل عنہا فلیصلہا إذا ذکرہا، فان اللہ یقول: أقم الصلاۃ لذکری۔(صحیح مسلم: ۶۸۴)
جب تم میں سے کوئی نماز کے وقت سوتا رہ جائے یا غفلت کی وجہ سے اس کا وقت گذر جائے تو یاد آنے پر اسے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میری یاد کے وقت نماز قائم کرو۔
جب بھول، غفلت اور نیند کی وجہ سے نماز چھوڑ دینے پر قضا ضروری ہے حالانکہ ان حالات میں اس پر نہ تو کوئی گناہ ہے اور نہ مواخذہ تو جان بوجھ کر چھوڑ دینے پر بدرجہ اولی قضا ضروری ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ والدین کو اف مت کہو، ظاہر ہے کہ جب اف کہنا منع ہے تو انہیں جھڑکنا ، گالی دینا اور مارنا بدرجہ اولی منع ہے بلکہ ان کا حکم اف کہنے سے بھی زیادہ سخت ہے ۔
اس لئے اگر کوئی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے اور پھر وہ غفلت کی نیند سے بیدار اور پچھلی زندگی پر شرمسار ہو تو پہلی فرصت میں اسے نمازوں کی قضا اور دوسرے حقوق کو ادا کرنا چاہئے ۔
مذاہب فقہاء:
چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا سے متعلق کتاب و سنت کے دلائل بالکل واضح ہیں جس کی بنیاد پر تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ ہر حال میں قضا ضروری ہے، خواہ بھول اور نیند کی وجہ سے چھوٹ گئی ہوں یا جان بوجھ کر لا پرواہی کی وجہ سے، اور خواہ ان کی تعداد کم ہو یا زیادہ ، چنانچہ موسوعہ فقہیہ میں ہے:
فأما المتعمد فی الترک فیری جمہور الفقہاء أنہ یلزمہ قضاء الفوائت، و مما یدل علی وجوب القضاء حدیث أبی ہریرۃ أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أمر المجامع فی نہار رمضان أن یصوم یوما مع الکفارۃ أي بدل الیوم الذی أفسدہ بالجماع عمداً، ولأنہ إذا وجب القضاء علی التارک ناسیا فالعامد أولی، ویری بعض الفقہاء عدم وجوب القضاء علی المتعمد فی الترک، قال عیاض: ولا یصح عند أحد سواء داؤد وابن عبد الرحمن الشافعی۔(الموسوعہ الفقہیۃ:۳۴/۲۶)
جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کے بارے میں جمہور فقہاء کہتے ہیں کہ اس کے لئے قضا ضروری ہے اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں دن کے وقت جماع کر لینے والے کو حکم دیا کہ وہ کفارے کے ساتھ اس دن کے روزے کی قضا بھی کرے جسے اس نے جان بوجھ کر جماع کر لینے کے ذریعے فاسد کردیا ہے، اور اس لئے بھی کہ جب بھول سے نماز چھوٹ جانے پر قضاء ہے تو جان بوجھ کر چھوڑ دینے والے کے ذمے بدرجہ اولی قضا ضروری ہے ، بعض فقہاء کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر قضا نہیں ہے، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ داؤد ظاہری اور ابن عبد الرحمن شافعی کے علاوہ کسی اور کی طرف اس قول کی نسبت ثابت نہیں ہے۔
ادائیگی کا طریقہ:
البتہ فقہاء کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ لاپرواہی کی زندگی سے توبہ کرنے اور غفلت سے بیدار ہونے کے بعد فوراً قضا ضروری ہے یا کچھ تاخیر کی بھی گنجائش ہے، امام احمد کہتے ہیں کہ تمام نمازوں کی قضا فوراً ضروری ہے، بشرطیکہ اس میں مشغولیت کی وجہ سے جسم کو کوئی ضرر نہ پہونچے اور نہ ہی ضروری معاشی نقصان ہو اور اگر ایسا ہے تو فوری ادائیگی کا حکم ساقط ہوجائیگا۔(الانصاف :۱/۴۴۳، المغنی:۱/۶۱۳)
اور شافعیہ کہتے ہیں کہ کسی عذر کی وجہ سے قضاء ہوئی ہو تو تاخیر کی گنجائش ہے اور اگر کسی عذر کے بغیر چھوٹی ہو تو فوراً ادا کرنا ضروری ہے ۔(المجموع:۳/۶۹)
مالکیہ کہتے ہیں کہ ضروریات زندگی اور اپنی طاقت کا خیال رکھتے ہوئے قضاء کرے(المدونۃ :۱/۲۱۵)
بعض لوگوں نے اس کی حد بندی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روزانہ کم سے کم دو دن کی نمازوں کی قضاء کرے محض ایک دن کی نماز کی قضا کرنا کافی نہیں ہے الا یہ کہ ایک دن سے زیادہ کی قضا کی صورت میں اہل و عیال کے ضائع ہونے کا خدشہ ہو۔(حاشیہ الدسوقی:۱/۲۶۳)
اور حنفیہ کہتے ہیں کہ چھوٹی ہوئی نمازوں کو فوراً ادا کرنا ضروری ہے البتہ اہل وعیال کے لئے معاش کے انتظام اور دوسری ضروریات کے عذر کی وجہ سے تاخیر کرنا جائز ہے ۔(الدرالمختار مع الرد:۲/۵۳۵) لہٰذا وہ ضروریات زندگی کی فراہمی میں مشغول رہے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہو پڑھے، اور اسی طرح سے کرتا رہے یہاں تک کہ تمام چھوٹی ہوئی نمازیں پوری ہو جائیں۔(رد المختار :۴/۵۳۶)
حاصل یہ ہے کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، نہ معلوم کب موت کا پیغام آجائے، اس لئے جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ ہی یہ وصیت بھی کردینی چاہئے کہ اگر وہ اپنی زندگی میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہ کر پائے تو اس کی طرف سے ان نمازوں کا فدیہ ادا کردیا جائے۔(الدر المختارمع الرد:۲/۵۳۲)
غلط طریقے:
قضاء شدہ نمازوں کے سلسلے میں بعض غلط تصورات اور طریقے رائج ہیں، چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جان بوجھ کر چھوڑ دی گئی نمازوں کی قضاء نہیں ہے بلکہ اس کے لئے صرف توبہ ہی کافی ہے، لیکن نہ تو قرآن و حدیث سے اس نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے اور نہ سلف کے اقوال و اعمال سے، قاضی عیاض کی رائے گذر چکی ہے کہ سلف میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں تھا، اور شاذ وساقط اقوال و نظریات کا کوئی اعتبار نہیں۔
اور بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت ساری نمازوں کی قضا دشوار ہے، اس لئے رمضان کے آخری جمعہ میں مخصوص طریقے سے چار رکعت پڑھ لینے سے قضا شدہ نمازوں کی تلافی ہوجائیگی اور اس سلسلے میں بالکل بے بنیاد اور موضوع روایتوں سے استدلال کرتے ہیں جیسے کہ یہ روایت کہ
من قضی صلاۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من رمضان کان ذالک جابراً لکل صلاۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ۔
جو شخص رمضان کے آخری جمعہ میں بطور قضا ایک فرض نماز پڑھ لے تو اس کے ذریعے ستر سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی تلافی ہوجاتی ہے۔
ملا علی قاری اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں:
باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیئاً من العبادات لا یقوم مقام فائتۃ سنوات، ثم لا عبرۃ بنقل صاحب النہایۃ ولا بقیۃ شراح الہدایۃ لانہم لیسوا من المحدثین ولا اسندوا الحدیث إلی أحد من المخرجین۔(تذکرۃ الموضوعات:۳۴۲، ردع الاخوان:۵۷)
یہ روایت یقینی طور پر باطل ہے، اس لئے کہ روایت اس اجماع کے خلاف ہے کہ کوئی بھی عبادت کئی سالوں کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہوسکتی ہے، اور صاحب نہایہ اور ہدایہ کے دوسرے شارحین کے نقل کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہ لوگ نہ تو محدث ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس روایت کے ماخذ کا کوئی ذکر کیا ہے ۔
اس طرح کی ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں
’’ من صلی فی آخر جمعۃ من رمضان الخمس الصلوات المفروضۃ فی الیوم واللیلۃ قضت عنہ ما اخل بہ من صلاۃ سنۃ‘‘
جو کوئی رمضان کے آخری جمعہ میں دن رات کی پانچ فرض نمازیں پڑھ لے تو سال بھر کی نمازوں میں جو خلل رہا ان سب کی تلافی ہوجاتی ہے۔
اس روایت کے متعلق علامہ شوکانی کہتے ہیں:
بلا شبہ یہ موضوع روایت ہے، اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ موضوع حدیث پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ، ان میں بھی یہ روایت مجھے نہیں مل سکی اور مجھے معلوم نہیں ہے کہ کس نے یہ روایت گھڑی ہے اللہ تعالی جھوٹوں کو رسوا کرے ۔(الفوائد المجموعہ:۱/۵۴)
اور بعض روایتوں میں ہے کہ جس کی قضا نمازیں اس قدر زیادہ ہوں کہ وہ اسے شمار نہ کر سکتا ہو تو وہ جمعہ کے دن چار رکعت نفل ایک سلام سے پڑھے، جس کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ آیۃ الکرسی اور پندرہ مرتبہ سورہ کوثر پڑھے تو وہ اس کی زندگی بھر کی قضا نمازوں کی طرف سے کافی ہے۔(ردع الاخوان عن محدثات آخر جمعۃ رمضان لعبد الحئی فرنکی محلی:۱۳)
یہ اور اس طرح کی قضاء عمری سے متعلق تمام روایتیں بے بنیاد اور گھڑی ہوئی ہیں، چنانچہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے موضوع حدیثوں کی علامات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پانچویں علامت یہ ہے کہ وہ عقل اور قواعد شرعیہ کے خلاف ہو جیسے کہ قضا عمری سے متعلق حدیث۔(عجالہ نافعہ:۲۴)
اور محدث ابن جوزی کہتے ہیں کہ تم جب کسی حدیث کو کتاب وسنت، عقل اور اصول کے خلاف دیکھو توسمجھ لو کہ وہ موضوع ہے، اور اصول کے خلاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کی مشہور کتابوں میں وہ روایت موجود نہ ہو۔(تدریب الراوی:۱/۲۷۷،ردع الاخوان:۵۵)
قضاء عمری سے متعلق روایتوں کا حدیث کی مشہور کتابوں میں ہونا تو بہت دور کی بات ہے،یہ خرافات تو ان کتابوں میں بھی جگہ نہیں پا سکیں جو متقدمین نے موضوع حدیثوں کے متعلق لکھی ہیں، غرضیکہ کسی خاص موقع پر مخصوص طریقے پر چند رکعتوں کو پڑھ کر کے یہ خیال کر لینا کہ اس کے ذریعے تمام قضا نمازوں کی تلافی ہوگئی نہایت غلط ہے، شریعت میں اس کی کوئی نظیر یا مثال موجود نہیں ہے کہ ایک عبادت بہت سی عبادتوں کی طرف سے کافی ہوجائے، علامہ زرقانی کہتے ہیں،
بعض شہروں میں ایک نہایت قبیح رواج یہ چل پڑا ہے کہ رمضان میں جمعہ کی نماز کے بعد پانچ وقت کی نمازیں پڑھی جاتی ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے ایک سال یا پوری عمر کی چھوٹی ہوئی نمازوں کا کفارہ ہوجائیگا،ایسا کرنا حرام ہے،اور حرمت کی وجہ بالکل واضح ہے۔(شرح المواہب اللدنیۃ:۷/۱۱۰، ردع الاخوان:۶۰)
اسی طرح سے یہ خیال بھی غلط ہے کہ محض توبہ کرنے اور کثرت سے نوافل پڑھنے سے قضا نمازیں ذمے سے ساقط ہوجائیں گی کیونکہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ قضا شدہ نمازوں کا کفارہ صرف یہی ہے کہ انہیں ادا کیا جائے۔
من نسی صلاۃ فلیصل إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا الا ذالک۔(صحیح بخاری:۵۷۲)
جو کوئی نماز کو بھول جائے تو یاد آنے پر اسے پڑھ لے اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔
یہ روایت اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ قضا نمازوں کو ادا کرنا ضروری ہے اور کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی ، نیز قضا ایک قرض کی طرح ہے اور قرض کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ ادائیگی یا معافی کے بغیر وہ ساقط نہیں ہوتا ہے۔