اکبر الہٰ آبادی کی شاعری

اکبر الہ آبادی کی شاعری

(مولانا صابر حسین ندوی) 

اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ شعر و شاعری مشکل الفاظ، فصاحت و بلاغت کے نام پر لغت سے چُن چُن کر لفظوں کو پرونا اور ایسے انداز و اسلوب میں اپنی بات کہنا کہ سننے والا سن کر مبہوت ہوجائے، وہ سب سے پہلے جملہ کا وزن ہی برداشت نہ کر پائے اور داد دینے لگے۔اردو کی مشکل تراکیب، فارسی کی قدیم زبان اور محاروں کا پیچیدہ استعمال بھی ایسوں کیلئے بہت کشش رکھتا ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ شعر و شاعری دراصل وہ زبان ہے جس میں دل سے دل تک کوئی بات پہنچائی جاتی ہے، تجربات، خیالات، احساسات اور فکری پرواز سے منتخب عناصر لوگوں کے دلوں تک لاکر چھوڑ دیا جائے؛ تاکہ وہ خود اسے سنبھالیں، اسے ورثہ اور قیمتی اثاثہ سمجھ کر سینے سے لگائیں، نہ صرف اس پر سر دھنتے پھریں اور عش عش کرتے جائیں بلکہ زندگی کی عظیم حقیقت اور تلخی سے روشناس ہوجائیں، جو ان کیلئے مشعل راہ ہو، ایسے شعراء یقیناً بہت کم پیدا ہوئے جنہوں اس طرز کو اپنایا، اور اگر اپنایا تو اس صنف میں وہ ترقی کی کہ لوگ انہیں سننے اور سمجھنے پر مجبور ہوجائیں، لوگوں کو یہ لگے ہی سماج کا آئینہ ہے، یہی وقت کی پکار ہے، یہی دل کی داستان کہنے والا ہے، یہی تیز چھری اور تلوار کی نوک پر اپنی بات الفاظ کے جادو میں پرو کر کہہ سکتا ہے، زمانے کی تنگی اور دلی بے دردی میں یہی جملوں کے پیچ و خم میں ہماری نمائندگی کر سکتا ہے، چنانچہ اس صنف میں بعض اور بھی شعراء مل جاتے ہیں؛ مگر ان میں یہیں باتیں نہیں ملتیں، وہ عموماً ظرافت، نیک طبیعت، اچھی شرست اور اچھی نمائندگی کرنے اور نمایندہ کہلانے سے دور ہیں، اس معیار پر اگر کوئی شاعر پوری طرح اترتا ہے تو وہ اکبر الہ آبادی ہیں، واقعی عجیب شخصیت، حیران کن افکار اور جملوں کی بندش والا شاعر جس کے سامنے بڑے بڑے نامور شعراء پانی مانگیں، مگر کیا خوب کہتے ہیں، وہ سادہ زبان میں ہی سب کچھ کہتے ہیں، ایک عام سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی جنہیں سمجھ سکتا ہے، ایک شعر تو سنیے! کہتے ہیں:

اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے

اس شعر کو سمجھنے والوں پر کسی تشریح و توضیح کی ضرورت نہیں ہے، باریک بینی، لطافت اور فکر میں تیکھا پن یہ اکبر کا ہی حصہ تھا، جو انسان فوج سے بھی نہ ڈرتا ہو اسے بیوی کی نوج سے ڈرانے والے وہی تھے، وہی تھے جو سماج اور وقت کی کڑواہٹ کو میٹھا گھونٹ بنا کر پیش کرتے تھے، یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اس کے حقیقی معنی مراد ہوں، مگر جو بھی ہو یہ بھی کم نہیں ہے، ویسے تو کتابوں میں ان کا تعارف یہی لکھا ہوا ہے کہ اکبر الٰہ آبادی اردو کے معروف شاعر اکبر الہ آبادی تھے، جن کی تاریخ پیدائش ١٦/نومبر ١٨٤٦ء ہے۔ اور ٩/ سمتبر ١٩٢١ء کو وفات پائی، اکبر الٰہ آبادی کا اصل نام اکبر حسین تھا۔ ١٨٦٦ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا اس کے بعد نائب تحصیلدار ہوئے۔ ١٨٨١ء میں منصف، ١٨٨٨ء میں سب جج اور ١٨٩٤ء میں سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اکبر الٰہ آبادی کی تصانیف میں چار جلدوں پر مشتمل کلیاتِ اکبر ، گاندھی نامہ، بزمِ اکبر اور گنج پنہاں کے نام سرفہرست ہیں۔ شعر گوئی کا شوق بچپن سے ہی تھا، وہ اردو شاعری میں ایک نئی طرز کے موجب بھی تھے اور اس کے خاتم بھی۔ انہوں نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اولین اثرات کی تنقید میں اپنی طنزیہ شاعری سے خوب کام لیا۔ ان کے متعدد اشعار اردو شاعری میں ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں، مگر ضرورت ہے کہ البر کو کتابوں تلاش کیا جائے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی زندگی میں یا کم از کم ان سے مستفیدین کی بارگاہ میں دستک دی جائے؛ لیکن وقت تو ہوا کے دوش پر گزر گیا، اب ان کی کتابوں کو ہی پڑھ لیا جائے ضرب المثل کے حوالے سے ان کا ایک شعر دیکھئے:*
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
*یہ شعر اس قدر مشہور ہے کہ بلاکسی تفریق مذہب، ذات پات اور سرحدی پابندی وغیرہ یہ ہر کہیں اور ہر کسی کی زبان سے سنا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ انسان کے دل کی وہ نمائندگی کی ہے جس کا سامنا ہندوستان جیسے ماحول میں ہر کسی کو ہوتا ہے، بالخصوص اکبر کا جو دور تھا وہ تو برٹش راج کا تھا، جس میں مسلمانوں اور مذہبی طبقے کو منتشر کرنے کی سازش زوروں پر تھی، اور اکبر تو سرکاری نوکری کے ذریعے ان میں اندر تک سرایت کئے ہوئے تھے، وہ انگریزوں کے سیاہ و سپید سے خوب واقف تھے، اس کے علاوہ موجودہ دور میں بھی ذاتی و انفرادی، معاشرتی اور ملکی زندگی اس پر گواہ ہے کہ سماجی تفاوت نے لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا، کسی کو آہ پر سولی دی گئی اور لگاتار انہیں تختہ دار تک پہنچایا جارہا ہے؛ تو کوئی قتل کر کے بھی وفاؤں کا تاج پہنے ہوا ہے، یہ سر عام ناانصافیوں کی وہ کہانی ہے جو کسی بھی بازار، گلی نکڑ میں سنی سنائی جاسکتی ہے، پھر اکبر کو کیسے نہ یاد کیا جائے گا، اور کیوں نہ انہیں سماج اور معاشرے کا نمائندہ شاعر کہا جائے؟! اسی طرح کا ایک اور شعر سنیے! جس میں مرحوم سماج کی ایک اور حقیقت کو کھول کر رکھ دیتے ہیں، زمانہ حاضر کی ترقی و تعمیر کے نام پر رشتوں کی ڈور کو کھودینا اور اپنے آپ کو بہت زیادہ مثقف بنا کر تمام حدود سے آزاد ہوجانا بھی عام بات ہے، اکبر الہ آبادی کو اس کا احساس تھا دیکھیے کیا ہی خوب پیرایے میں یہ بات کہی ہے:

ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

اکیسویں صدی بلکہ بیسویں صدی میں فلسفے کا غلغلہ تھا، آج بھی سائنس کے ذریعے ہی سب کچھ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے، ہر زمانے کی ایک زبان ہوتی ہے؛ لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے جب انسان زمانے کی گتھی سلجھائے اور اپنے دل میں پڑی الجھن کی گرہ نہ کھول پائے، چاند، تاروں اور سیاروں میں نقب زنی کرنے لگے، فضاؤں کو چیرنے لگے، سمندر کی چھاتی پر نشتر لگادے؛ لیکن دل میں پڑی منجمد فکر میں روانی نہ لا پائے، وہ آفاق و انفس میں غور و خوض کرنے کے بعد بھی ان کے حقیقی مالک و رب کو نہ پہنچانے سکے، اکبر الہ آبادی کو اس پر افسوس ہوتا تھا، اسی لئے تو کہتے تھے:

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

مرحوم کا یہ شعر سنئے! جس میں انہوں نے شیطان کا حقیقی وارث ایک وکیل کو قرار دیا ہے، آخر کیوں نہ ہو؟ جنہیں کورٹ کچہری کا سامنا ہے، جنہوں نے عدالت اور وکلاء کے چکر لگائے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ وہ شیطان کی نیابت میں کوئی کمی نہیں کرتے، اور اکبر تو خود وکیل بھی تھے، ایسے میں ان سے بہتر کون جانتا تھا کہ یہ کس کی نیابت کرتے ہیں، یہ بھی غور کرنے والی بات ہے ایک شخص جس میدان سے جڑا ہوا ہو اس کی حقیقت کو یوں بیان کر دینا ہر کسی کے بَس کی بات نہیں ہے، مگر اکبر کی ظریف طبیعت نے سادگی میں کیا سے کیا کہہ دیا!:

پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

ایک اور شعر سننے کے قابل ہے جو دراصل اکبر الہ آبادی کی زندگی کا آئینہ ہے، آپ نے سرکاری نوکری اور پینشن والی زندگی گزاری، حقیقی معنوں میں وہ عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے تھے، مگر ان کی خدا شناسی، انسانیت نوازی نے اس کی اجازت نہ دی، وہ سرکاری بابو ہونے کے باوجود زہد و تقوی کو ہی اپنا زاد راہ سمجھتے تھے، وہ جانتے تھے کہ یہ سب کچھ فانی ہے، ایک نہ ایک دن ہر کو کو موت کے منہ میں جانا ہے اور دنیا کی تکتی ہی رہ جائے گی، وہ حقیقت شناس تھے، اور طبعی طور پر خداترس بزرگ بھی تھے، کیا خوب کہا ہے:

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

اکبر کی سوانح سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نام نہاد اور کٹر ملاؤں سے بہت وحشت محسوس کرتے تھے، انہیں علماء کے اس طبقے سے سخت چڑ تھی جو قدامت کی ڈگر پر ڈال کر لوگوں کو ترقی و تعمیر سے دور رکھتے تھے، اس لیے ان کی شاعری میں ایک صنف اس طنز پر مشتمل ہے جس میں ایسے مولویوں کی بخیہ ادھیڑی گئی ہے، ان کے نامور فتاوی اور ظاہر بینی کو نشانہ بنایا گیا ہے، یہاں اس طرز کے دو اشعار پیش کئے جارہے ہیں، ذرا دیکھئے کیا ہی طنز کیا ہے، زبان کی چاشنی اور انداز سے لطف اندوز ہوئیے!

مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں
شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

اپنی راۓ یہاں لکھیں