عمرہ احکام و مسائل

عمرہ، احکام و مسائل 

                           

محمد قمر الزماں ندوی 

استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

حج اور عمرہ کی سعادت درحقیقت اتنی عظیم نعمت ہے،جو اسلام کے سوا کسی مذہب کے پیروؤں کو نہیں دی گئی اور کعبة اللہ وہ واحد مقام ہے جہاں عبادت کبھی نہیں رکتی ،چوبیس گھنٹے مسلسل جاری رہتی ہے ۔ حج اور عمرہ ادا کرنے کا حکم براہ راست قرآن مجید سے ہے ،ارشاد خدا وندی ہے ،، واتموا الحج و العمرۃ للہ ،، اور اللہ کی رضا کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو ۔

جس طرح حج کے مسائل مخصوص ہیں، اسی طرح شریعت میں عمرہ کے احکام و آداب بھی تفصیل سے موجود ہیں ،عمرہ کو حج اصغر بھی کہتے ہیں ۔ ذیل کی تحریر میں عمرہ کے احکام و مسائل آداب و مستحبات ہم ذکر کر رہے ہیں، تاکہ اس مبارک سفر پر جانے والے کو اس کے مسائل اور آداب و مستحبات سے پوری واقفیت رہے اور اس مبارک سفر پر جانے سے پہلے وہ ایک نظر ان مسائل پر ڈال لے ۔

٫٫عمرہ٫٫ کے اصل معنی زیارت و ملاقات کے ہیں ۔۔۔ عربی لغت میں عمرہ کے اصل معنی ہیں کسی آباد جگہ کا ارادہ کرنا ، 

فقہ کی اصطلاح میں مخصوص شرائط کے ساتھ بیت اللہ شریف کی زیارت کا نام عمرہ ہے، یا دوسرے الفاظ اور تعبیر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میقات یا حل سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنا عمرے کے معنی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

      احادیث میں حج کی طرح عمرہ کی بھی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :- ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے گناہوں کے لئے کفارہ ہے، خاص طور پر رمضان المبارک کے عمرہ کو خصوصی درجہ و مقام حاصل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حج کے برابر ثواب کا حامل قرار دیا ہے،

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے پے در پے حج اور عمرہ کرو کہ یہ دونوں تنگ دستی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں، جیسے آگ کی بھٹی لوہا ،سونا اور چاندی کے میل کو دور کر دیتی ہے ،، ترمذی و نسائی۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے ایک عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہوتا ہے اور ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے(بخآری ومسلم)

جس کسی مسلمان کو مکہ مکرمہ پہنچنے کا مقدور ہو اس کے لیے تمام عمر میں ایک مرتبہ عمرہ کرنا سنت مؤکدہ ہے اور ایک سے زیادہ عمرہ مستحب ہے ۔لیکن نو ذی الحجہ سے تیرہ ذی الحجہ تک پانچ دنوں میں عمرہ کرنا منع ہے کہ یہ ایام حج کے لیے مخصوص ہوتے ہیں ۔

 رسول اللہ صلی اللہ نے واقعہ حدیبیہ کو لیکر چار عمرے فرمائے ہیں۔.

» پہلا ٦/ہجری میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ تشریف لائے اور وہاں صلح طے پائی،یہ عمرہ نامکمل رہا, کیونکہ مشرکین مکہ کی رکاوٹ کیوجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر پائے-

»دوسرا عمرہ آئندہ سال اس عمرہ کی قضا کے طور پر،اس عمرہ کو ٫٫عمرۃالقضاء ،، کہا جاتا ہے۔

» تیسرا عمرہ فتح مکہ کےموقع سے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین سے مدینہ جاتے ہوئے مقام جعرانہ سے احرام باندھ کر عمرہ کیا، یہ عمرہ ٨/ہجری میں ہوا-

» چوتھا حجۃالوداع میں:کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع سے حج قران کا احرام باندھا تھا،جس میں حج وعمرہ دونوں جمع ہوتا ہے،اور یہ تمام ہی عمرے ماہ ذی القعدہ میں کئے گئے تھے۔

عمرہ کا حکم

چنانچہ عمرہ کے مشروع ہونے پر امت کا جماع ہے۔۔

البتہ اس میں اختلاف ہے کہ عمرہ کا حکم کیا ہے، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک واجب ہے۔۔

 کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: *واتموالحج والعمرۃللہ*(یعنی حج اور عمرہ کو پوری طرح ادا کرو)

 حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے،تاہم احناف کے ہاں بعض مشائخ نے عمرہ کو واجب بھی قرار دیا ہے۔۔

 علامہ کاسانی نے اسکو واجب کہا ہے، صاحب جوہرہ نے بھی اسی کو ترجیح دیا ہے، تا ہم احناف کے یہاں فتویٰ عمرہ کے سنت مؤکدہ ہونے پر ہے، کیونکہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ کیا یہ واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں،

البتہ عمرہ کرنا افضل ہے۔۔۔

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ واجب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ عمرہ کرنا افضل ہے، *وان من یعتمروا ھو افضل* جہاں تک آیت قرآنی کی بات ہے تو اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ۔ حج وعمرہ کی ابتدا ہو جائے یعنی حج وعمرہ کا احرام باندھ لیا جائے تو پھر اس کی تکمیل واجب ہو جائیگی،اسکے قائل حنفیہ بھی ہیں، کیونکہ کوئی بھی نفل اپنے آغاز کے بعد حنفیہ کے یہاں واجب ہو جاتا ہے، جن حضرات کے یہاں عمرہ واجب ہے، انکے یہاں بھی زندگی میں ایک ہی بار واجب ہے،

اور اگر حج کے ساتھ عمرہ کر لیا جائے تو یہی عمرہ اس کے لئے کفایت کر جائیگا ۔

اوقات

مالکیہ کے یہاں ایک سال میں ایک سے زیادہ عمرہ کرنا مکروہ ہے،احناف، شوافع،اور حنابلہ کے نزدیک عمرہ کی تکرار میں کوئی قباحت نہیں،

کیونکہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک ماہ میں دو عمرہ کرنا منقول ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمرہ کے بعد دوسرے عمرہ کو درمیان کے گناہوں کے لئے کفارہ قرار دیا ہے ،نیز حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہر ماہ ایک عمرہ کیا جائے،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک سال میں کئی عمرہ کئے ہیں۔۔۔

      البتہ حنفیہ کے نزدیک نو،دس،گیارہ،بارہ،تیرہ،ذی الحجہ کو عمرہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، گو ان دنوں میں بھی عمرہ کرے تو عمرہ ہو جائے گا ،

زمانہ جاہلیت میں حج کے مہینے (شوال،ذو القعدہ ،ذوالحجہ) میں عمرہ کرنے کو ناپسند کیا جاتا تھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی اجازت مرحمت فرمائی ،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ عمرہ قیامت تک کے لئے حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔

ارکان واجبات

عمرہ کے دو ارکان ہیں ،احرام اور بیت اللہ شریف کا طواف ،اور واجبات دو ہیں، صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور بال کامنڈانا یا کٹانا۔

ضروری احکام

عمرہ کے سنن و آداب وہی ہیں جو حج کے ہیں، چار طواف کرنے سے پہلے جماع کیوجہ سے عمرہ فاسد ہو جاتا ہے، حج کے احرام میں جن چیزوں سے بچنا ضروری ہے عمرہ کے احرام میں بھی ان سے بچنا ضروری ہے، عمرہ میں تلبیہ پڑھنا مسنون ہے،جوں ہی طواف شروع کرے تلبیہ روک دے، تلبیہ کہتے وقت زبان سے لبیک بالعمرة کہے یا دل میں عمرہ کا ارادہ کرے۔

جو لوگ حدودِ میقات سے باہر کے رہنے والے ہوں اور عمرہ کے لئے آرہے ہوں، انکے لئے میقات سے احرام باندھنا واجب ہے، اور جو لوگ میقات کے اندر اور حرم سے باہر رہنے والے ہوں، ان کے لئے واجب ہے کہ حدود حرم میں داخل ہونے سے پہلے ہی احرام باندھ لیں، جو لوگ مکہ میں رہتے ہوں یا حدود حرم کے اندر واقع ہوں، انکے لئے بھی ضروری ہے کہ حدودِ حرم سے باہر جاکر مقام حل سے احرام باندھ کر آئیں، البتہ افضل ہے کہ تنعیم سے احرام باندھا جائے جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب حکم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے احرام باندھا تھا، اس وقت وہاں تمام سہولتوں سے آراستہ بڑی عظیم الشان مسجد ،مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام سے تعمیر ہوگئ ہے۔

حدود میقات سے بلا احرام گذرنا

اگر کوئی شخص حدود میقات کے باہر سے مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لئے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے، چاہے اس کی نیت حج وعمرہ کی رہی ہو یا نہیں، بہر حال اسے احرام باندھ کر عمرہ کرکے ہی حلال ہونا پڑیگا، اب کسی شخص کو بار بار اس طرح آنے کی ضرورت پیش آتی ہو تو اس کے لئے فقہاء نے یہ صورت بتائی ہے کہ وہ حدودِ میقات کے اندر علاوہ حل پر کسی مقام کی نیت کر لے اور بلا احرام وہاں آجائے پھر وہاں سے بلا احرام مکہ آجائے، کیونکہ حدود میقات کے اندر قیام پذیر لوگوں کے لئے۔بلا احرام مکہ میں داخل ہونا جائز ہے، میقات سے باہر رہنے والوں کے لئے بلا احرام میقات سے گذرنے کی ممانعت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔(ماخوذ و مستفاد قاموس الفقہ مادہ عمرہ)

اپنی راۓ یہاں لکھیں