آمدِ دجال اور نزولِ عیسیٰ علیہ السلام
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
آمدِ دجال اور نزول ِ مسیح ؑ کا انکار کرنے والے کھلے یا چھپے منکرینِ حدیث عام طور پر کہتے ہیں کہ اس تصور کو مان لینے سے امت كى قوتِ فکر وعمل ٹھٹھر جاتی ہے ،وہ ہاتھ پاؤں توڑ کر اس بھروسے پر بیٹھ جاتی ہے کہ دنیا کی اصلاح کا کام آنے والا مسيحا آکر خود کرے گا، ہمیں فکرِ جہاں کیوں ہو ؟
مگر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلافِ امت اور صحابہ کرام ؓ نے قربِ قیامت واقع ہونے والی ان حقیقتوں کو جان کر یہ طرزِ عمل اختیار نہیں کیا تھا_اگر آج بعض یا کُل مسلمانوں کا رویہ ایسا ہے تو یہ ان کی غلطی ہے ،اس عقیدے کی نہیں۔
آخر تقدیر الہی کے عقیدے کى وجه سے بھی تو بعض مسلمان اس قسم کا passive طرزِ عمل اختیار کرلیتے ہیں ، تو کیا ہم ان کے غلط interpretationکی وجہ سے عقیدۂ تقدیر (والقدر خیرہ و شرہ )کا بھی انکار کردیا جائے؟
قرآن وسنت میں درجنوں مقامات پر اہل ایمان کے کرۂ ارضی پر مادی غلبے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان خدائی وعدوں کو بنیاد بنا کر ملت کے کچھ افراد اگر اپنے لیے بے کاری اور کاہلی کا جواز پیدا کرتے ہیں اور غلبۂ دین کی جد وجہد میں کوئی حصہ نہیں لیتے تو کیا ہم ایسی آیات واحادیث کا انکار کرنے لگ جائیں گے ؟
ٹھیک اسی طرح برائی کے نقطہ عروج “دجالِ اکبر” کی آمد ہے اور اس کے مقابلے میں اچھائی کی نمائندے کے طور پر حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول اور غلبے کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی فرد يا گروه ان دینی حقائق سے غلط نتیجہ اور غلط راہِ عمل اخذ کر رہا ہے تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے ، نہ کہ ان دینی حقائق کی۔
بہ ظاہر حالات ایسے ہیں کہ ہماری زندگی میں نہ دجال خروج کرے گا اور نہ حضرت عیسیٰ ؑ نزول فرمائیں گے۔ مگر اس عقیدے کو حرزِ جاں بنالینے کا كم سے كم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ باطل کی بڑی سے بڑی عارضی جیت اور چند روزہ فتح ہمیں ڈرا اور سہما نہیں پاتی_غلبۂ حق کے لیے اللہ کے بندے اپنی بساط بھر کوشش کرتے رہیں گے اور انھیں شرحِ صدر ہوگا کہ ان شاء اللہ آخرش جیت حق کی ہوگی اور باطل طاقتیں سرنگوں ہوں گی۔
اس عقیدے کو نہ ماننے کی وجہ سے پورا امکان اس بات کا ہے کہ انسان نفسیاتی اور ذہنی طور پر باطل سے مرعوب و مغلوب ہو جائے ،یا باطل کی تگ و تاز کے مقابلے میں سپر ڈال دے اور مایوسی کی چادر اوڑھ لے۔
آج اس عقیدے کا انکار کرنے والے لوگ جس طرح ہر اسلامی حکم کی تاویل و توجیہ کرکے اسے غالب مغربی تہذیب کے مطابق بنانے میں لگے ہوئے ہیں ،اس کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
بہ الفاظِ دگر، نزول ِ مسیح کا عقیدہ راہِ حق میں قربانی دینے والوں کے لیے سامانِ تسلی اور ڈھارس ہے_
بالفرض یہ عقیدہ غلط ہوا اور کل میدانِ حشر میں احکم الحاکمین رب نے باز پرس کی تو کم از کم ہم یہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ ’’ میرے رب ! جن ذرائع سے تیرےدین کی چھوٹی بڑی جزئیات ہم تک پہنچیں، انہی ذرائع سے یہ عقیدہ بھی پہنچا ،ہمیں نہیں معلوم کہ گڑ بڑ کہاں واقع ہوئی اور کس کے ذریعے ہوئی، تیرے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی امت کی ننانوے پوائنٹ نو فیصد تعداد ساڑھے چودہ سوسال سے یہ عقیدہ مانے ہوئے تھی ،امت ِمحمدیہؐ کے تمام اکابرین و مشاہیر اس کا دم بھرتے تھے ، پس ہم نے بھی اس عقیدے کو گلے لگا لیا _ اکا دكا جو لوگ بھی اس كے خلاف بولے تو ان كى عملى زندگىاں اسلام سے دور تهیں، مولىٰ! تو علام الغیوب ہے ، حقیقت ِ حال سے زیادہ واقف ہے ، ہمارے ساتھ عفو ودر گزر کا معاملہ فرما ،کیونکہ تو ارحم الراحمین ہے_ ‘‘
یقینی طور سے نہیں معلوم کہ اس پر رحمٰن ورحیم رب کا کیا جواب ہوگا ، تاہم پُر امید ہوں کہ وہ ہمارا یہ عذر قبول فرمائے گا۔
اور اگر یہ عقیدہ واقعتاََ سچا ہوا جیساکہ ہمارا ایقان بھی ہے، تو ابھی سے سوچ کر رکھو کہ اوپر اپنے معبودِ حقیقی کو کیا جواب دے پاؤ گے۔
ویسے ہر نبی اور اس کی امت نے اس فتنے سے بچنے کی دعاکی ہے اور ہمیں بھی دعا کرنی چاہیے ،کچھ دیر کے لیے فرض کر لو کہ دجال کا خروج اور حضرت عیسیٰ کا نزول ہماری زندگی میں ہو گیا ہے۔ اب ہم کیا کریں گے ؟ جو پہلے سے اسے حق مانتا ہے وہ کوشش کرے گا کہ لپک کر اہلِ حق کے خیمے میں، یعنی حضرت عیسیٰ کا ساتھ دینے والوں میں شامل ہو جائے۔
اس گھڑی کے لیے دست بستہ گزارش ہے کہ اللہ کے واسطے بات کی پچ اور انانیت اور ضد میں مخالفت اور عناد کا راستہ اختیار مت کرنا، اس وقت صرف دو کیمپ ہوں گے ،دجال كا كيمپ اور حضرت عیسیٰ ؑ کا کیمپ۔کسی ایک کا انتخاب ناگزیر ہوگا۔ اس کے بعد آخرت میں کیا ہوگا، ہم نہیں جانتے۔ ہم تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں اور اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں۔
حضرت ابوہریرہ سے مروی ایک حدیث ہمیشہ یاد رکھیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری عمر دراز ہوئی تو امید ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم سے ملاقات ہوجائے گی، اور اگر موت پہلے آگئی تو تم میں سے جو انھیں ملے وہ میری جانب سے انھیں سلام عرض کردے۔[إنی لأرجوا إن طال بی عمر أن ألقی عیسیٰ بن مریم فإن عجل بی موت فمن لقیہ منکم فلیقرئہ منی السلام]((مسند احمدؒ:۲/۲۹۸) امام ہیثمی نے اس حدیث کو مجمع الزوائد[کتاب الفتن، باب نزول عیسیٰ ابن مریم:۸/۵] میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام احمد نے یہ حدیث دو سندوں سے ذکر کی ہے، ایک سند میں یہ حدیث مرفوع ہے اور دوسری میں موقوف ہے اور دونوں سندوں کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔
اس حدیث سے مترشح ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کو اس معاملے کے وقوع پر مکمل یقین تھا۔ یہی ایقان واذعان صحابۂ کرام کے اندر بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت ابوہریرہ نے مرض الوفات میں فرمایا: “اے میرے بھتیجو، اگر تم حضرت عیسیٰ کو دیکھو تو کہنا کہ ابوہریرہ سلام پیش کرتے ہیں۔”[أی بنی أخی إن رأیتموہ فقولوا أبو ہریرۃ یقرئک السلام](مستدرک حاکمؒ، کتاب التاریخ، باب ذکر نبی اللہ وروحہ عیسیٰ بن مریم:۲/۶۵۱۔ امام حاکم نے اسے صحیح الاسناد بتایا ہے اور امام ذہبی نے اپنی موافقت ظاہر کی ہے۔)
یہ حدیث اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ قرنِ اول کے مسلمانوں نے نزولِ عیسیٰ کے بارے میں اپنے محبوب رسول محمدﷺ کے ایقان وایمان کو پورے طور سے اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔
آئیے ہم بھی اپنے بچوں، شاگردوں اور دینی بھائیوں کو وصیت کریں کہ اگر وہ حضرت عیسیٰ کا زمانہ پائیں اور ان سے ملاقات کریں تو ہماری طرف سے سلام ضرور عرض کریں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین