عدالتِ صحابہ

عدالتِ صحابہ

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
 جمہور اہلِ علم کا متفق علیہ اصول ہے کہ صحابۂ کرامؓ سب کے سب عدول(یعنی کردار کی راستی سے متصف) ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ان کی تعدیل وتوثیق فرمائی ہے۔ قرآن میں اجمالی طور سے یہ حکم بیان ہوا ہے اور اللہ کے نبیﷺ نے مفصل انداز میں اسے بتایا ہے۔
 صحابہؓ کی عدالت وصداقت کا معاملہ اب بحث وتحقیق کے دائرے سے اوپراٹھ چکا ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعدیل وتوثیق کے بعد ہمیں کسی دوسرے کی رائے جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔ سچے مومن کا شعار یہی ہونا چاہیے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ جو فیصلہ فرمادے بے چوں چرا اسے مان لے۔ارشادِ باری ہے:{وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَمْراً أَن یَکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَن یَعْصِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِیْناً} (احزاب،۳۶)’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔‘‘
 اس قدر دو ٹوک اور صریح حکم ہونے کے باوجود مختلف گمراہ فرقوں نے اپنی عادت کے مطابق اس مسئلے کو بھی اختلاف کی آماجگاہ بنانے کی کوشش کی اور صحابۂ کرامؓ کی عدالت وصداقت اور پایۂ استناد مجروح کرنے کے لیے نوع بہ نوع کے شکوک وشبہات ابھارے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں صحابۂ کرامؓ کی عدالت وثقاہت کے حوالے سے چند دلائل ذکر کر دیں۔
 سب سے پہلی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے{کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ} (آلِ عمران،۱۱۰)’’اب دنیا میں وہ خیر امت یا بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔‘‘بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس آیت کے پہلے مخاطب صحابۂ کرامؓ تھے کیونکہ وہی اس امت کے سرگروہ اورسرخیل ہیں۔ بعض مفسرین تو یہ مانتے ہیں کہ اس آیت میں مذکور خیرِ امت کا لقب صرف صحابۂ کرامؓ کی نسل کے ساتھ خاص ہے۔
 دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:{وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء  عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً}(بقرہ،۱۴۳)’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں ایک امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘وسط کا مطلب ہی عدالت وصداقت ہے۔امتِ وسط کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے مراد ایسا اعلیٰ اور اشرف انسانی گروہ ہے جو عدل وانصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو اورجس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق وناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ 
کہنے کی ضرورت نہیں کہ جو گروہ اپنے آپ میں راستی اورایمان داری سے متصف نہیں ہوگا وہ دوسروں کے لیے امتِ وسط کی حیثیت اور مقام بھی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔اگر صحابۂ کرامؓ مشکوک کیریکٹر والے تھے تو -معاذ اللہ ثم معاذ اللہ- قرآن کی یہ آیت جھوٹی ہے۔
علامہ ابن الصلاحؒ نے اپنے مقدمۂ اصولِ حدیث میں لکھا ہے کہ اس آیت میں خطاب ان لوگوں سے کیا گیا ہے جو عہدِ نبوی میں بہ حالتِ ایمان موجود تھے اور وہ کوئی اور نہیں، صحابۂ کرامؓ تھے۔
 تیسری جگہ فرمایا گیا ہے:{لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْباً} (فتح،۱۸)’’اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے۔ان کے دلوں کا حال اس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی اور ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی۔‘‘
غور کرو کہ اس سے بڑھ کر تعدیل وتوثیق اور مقبولیت وپسندیدگی کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اعلان فرمادے کہ وہ صحابۂ کرامؓ سے راضی اور خوش ہے۔آیت میں اشارہ اس بیعت کی طرف ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابۂ کرامؓ نے حضورﷺ کے دستِ مبارک پر کی تھی۔ اس بیعت کو بیعتِ رضوان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنھوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگادینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسولﷺ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کرکے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا۔یہ بیعت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق ومخلص اور اللہ اور رسولؐ کی وفاداری میں درجۂ کمال پر فائز تھے۔ اسی بنا پرتو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی سندِ خوشنودی عطا فرمائی ہے اور اللہ کی سندِ خوشنودی عطا ہوجانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو یا ان پر زبانِ طعن دراز کرے تو اس کا معارضہ ان سے نہیں، بلکہ اللہ سے ہے۔
چنانچہ جو لوگ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے یہ آیت نازل کی اور اپنی خوشنودی کا اعلان کیا اس وقت تو صحابۂ کرامؓ مخلص اور صادق وامین تھے، مگر بعد میں یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بے وفا ہوگئے، ایسے لوگ شاید اللہ کے بارے میں یہ بدگمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت صحابۂ کرامؓ کے مستقبل کی کوئی خیر خبر نہیں تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ کر اور اس سے متاثر ہوکر اس نے پروانۂ رضامندی عطا کر دیا اور غالباً اسی بے خبری کی وجہ سے اسے اپنی کتابِ پاک میں بھی درج فرمادیا تاکہ بعد میں بھی جب یہ لوگ بے وفا ہوجائیں توان کے بارے میں ساری دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس ربِ حقیقی کے علمِ غیب اور احاطۂ مطلقہ کی داد دیا کرے جس نے -معاذ اللہ- نادانی میں ان بے وفائوں کو پروانۂ خوشنودی عطا کیا تھا۔کیا اللہ رب العزت کے علام الغیوب ہونے کا اس سے بڑھ کر انکار کچھ ہو سکتا ہے؟
 جو لوگ صحابۂ کرامؓ کی نسبت سے یاوہ گوئی کرتے ہیں اور انھیں خائن اور کذاب ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کیا انھیں خبر ہے کہ ان کی ذہنی پینک اور دماغی ترنگ کے کتنے برے اثرات اسلامی عقائد اور پورے نظامِ دین پر پڑتے ہیں؟
 سورۂ حشر میں تو صاف صاف صحابۂ کرامؓ کو سچا کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری ہے: {لِلْفُقَرَاء  الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیْارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّہِ وَرِضْوَاناً وَیَنصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ}(حشر،۸)’’یہ ان غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی حمایت پر کمربستہ رہتے ہیں۔ یہی سچے لوگ ہیں۔‘‘کسی کو سچا اور راست باز کہنا اس کی تعدیل وتوثیق نہیں ہے تو کیا ہے؟
 اس قسم کی آیات اچھی خاصی ہیں جن میں صحابۂ کرامؓ کی تعریف وتوصیف کی گئی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کی قیادت میں ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں اور قربانیوں کو سراہا گیا ہے۔ ایمان کی خاطر اپنے اموال واسباب اور امصار ودیار چھوڑ کر ہجرت کا ذکرِ خیر ہوا ہے۔ دراصل اللہ کے رسولﷺ کی تربیت اور نگہ داشت کی وجہ سے صحابۂ کرامؓ کے دلوں میں ایمان کا ملکہ جڑ پکڑ گیا تھا۔ ایقان واذعان میں وہ درجۂ کمال تک پہنچ گئے تھے اور دین کی اقامت اور پھر اس امانت کو بے کم وکاست آئندہ نسلوں کے حوالے کرنے میں ان کا کردار آئیڈیل اور بے مثل ہے۔
 اللہ کے رسولﷺ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اُن سے راضی تھے اور دین کی امانت کے تحفظ کے سلسلے میں چنداں فکرمند نہ تھے۔آپﷺ نے ایسے لوگوں کی سختی کے ساتھ سرزنش فرمائی ہے جو کسی صحابیِ رسولؐ کے قول وفعل میں کسی امکانی غلطی کو دیکھتے ہی سبّ وشتم کرنے لگ جاتے ہیں۔ایسا عین ممکن ہے کہ کسی صحابی کے جس عمل کو ہم غلطی اور خامی باور کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں اس کا اجتہادی موقف ہو۔ اجتہادی رائے کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ حق کی یافت کرنے والے کو دوگنا اجر ملتا ہے اور تلاشِ حق میں غلطی کر جانے والے کو ایک اجر ملتا ہے کیونکہ اس کی نیت خالص تھی۔ کسی مجتہد کو ہرگز اس کی اجتہادی رائے اور موقف پر قابلِ سرزنش نہیں سمجھا جائے گا۔اجتہادواستنباط کے حوالے سے یہ حکم پوری امت کے بارے میں عام ہے، پھر صحابۂ کرامؓ کو اس میں کیوں نہ شامل سمجھا جائے حالانکہ وہ اس امت کے سرگروہ اور رہنما ہیں؟ 
 صحیحین میں اللہ کے رسولﷺ کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ ’’میرے صحابہؓ کو برا مت کہو، کیونکہ اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا (اللہ کے راستے میں)خرچ کر دے تو کسی صحابی کے ایک مُد(گیہوں) یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں پہنچے گا۔‘‘[لا تسبوا أصحابی فوالذی نفسی بیدہ لو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبا ما بلغ مد أحدہم ولا نصیفہ](صحیح بخاریؒ:۳۶۷۳۔صحیح مسلمؒ:۲۵۴۱۔ سنن ابو داؤدؒ: ۴۶۵۸ ۔سنن ترمذیؒ:۳۸۶۱۔مسند احمدؒ:۱۱۰۷۹، ۱۱۵۱۶)
 سنن ترمذیؒ میں حضرت عبدؓاللہ بن مغفل کی روایت ملتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: ’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ انھیں میرے بعد نشانۂ تضحیک وتحقیر نہ بنانا۔ جو ان سے محبت رکھے گا تو وہ حقیقت میں میری محبت میں ایسا کرے گا، اور جو ان سے نفرت رکھے گا وہ حقیقت میں میری دشمنی میں ایسا کرے گا۔ جو انھیں تکلیف پہنچائے اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جو اللہ کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے گاتو قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ کرلے۔‘‘[اللّٰہ اللّٰہ فی أصحابی لا تتخذوہم غرضا بعدی فمن أحبہم فبحبی أحبہم ومن أبغضہم فببغضی أبغضہم ومن آذاہم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللّٰہ ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ] (سنن ترمذیؒ:۳۸۵۲۔ مسند احمدؒ:۴/۸۷)
 امام غزالیؒ نے تعدیلِ صحابہؓ کے حوالے سے اپنی کتاب ’’المستصفیٰ‘‘ میں متعدد آیات واحادیث ذکر کی ہیں۔ بعد ازاں فرماتے ہیں:’’اب بتائو علام الغیوب رب اور اس کے رسولﷺ کی تعدیل وتوثیق کے بعد ہمیں کسی دوسرے سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ اگر باری تعالیٰ نے ان کی تصدیق وتائید نہ فرمائی ہوتی تومحض ان کے حالات جوہمیں تاریخ کی روشنی میں معلوم ہوئے ہیں، ان کی ہجرت وجہاد، ان کا اللہ کے نبیﷺ کی نصرت وحمایت میں اپنی جان، مال، رشتوں اور گھروالوں کو قربان کرنا، یہ سب کارنامے اور خدمات اس بات کا یقین دلانے کے لیے کافی ہیں کہ صحابۂ کرامؓ عدول تھے۔‘‘(المستصفیٰ:ص۱۹۰)
 ان روشن دلائل کی وجہ سے جمہور اہلِ علم جن میں صحابہؓ وتابعینؒ اور بعد کے ادوار کے جملہ فقہاء ومحدثین شامل ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے اصحاب ورفقاء عدالت وصداقت سے متصف تھے۔امام خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ میں تعدیلِ صحابہؓ کے تناظر میں امیر المومنین حضرت عمرؓ کا ایک قولِ زریں نقل کیا ہے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: ’’عہدِ رسالت میں لوگوں کو وحی کی بنیاد پر مأخوذ کیا جاتا تھا۔ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ میں اب تمہارے ظاہری اعمال کے مطابق مواخذہ کروں گا۔ تم میں سے جو خیر ظاہر کرے گاتو ہم اسے امان دیں گے اور قریب رکھیں گے۔ اس کے باطن کی ذمے داری ہماری نہیں ہے۔ اللہ اس سے اس کی نیت اور ارادے کا احتساب کرے گا۔ اور جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاتو ہم اس کے تئیں کھٹک جائیں گے اور اسے سچا نہ سمجھیں گے، چاہے وہ کہے کہ اس کی نیت اچھی ہے۔‘‘[إن أناسا کانوا یؤخذون بالوحی فی عہد رسول اللّٰہ وأن الوحی قد انقطع وإنما آخذکم الآن بما ظہر من أعمالکم فمن أظہر لنا خیرا آمناہ وقربناہ ولیس إلینا من سریرتہ شییٔ اللّٰہ یحاسبہ فی سریرتہ ومن أظہر لنا سوئا لم نأمنہ ولم نصدقہ وإن قال إن سریرتی حسنۃ](الکفایۃ:ص۴۹)
 اللہ کا شکر ہے کہ کسی صحابی کے بارے میں ہم ایسے کسی گناہ کا علم نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر اس کی عدالت ساقط کر دی جائے۔ اسی لیے تو امام ابو زرعہ رازیؒ فرماتے تھے:’’تم جب کسی کو دیکھو کہ صحابہؓ میں کسی کی عیب جوئی کر رہا ہے تو جان لو کہ وہ زندیق ہے، کیونکہ اللہ کے رسولﷺ ہمارے نزدیک حق لے کر آئے تھے، قرآن حق ہے اور ہم تک یہ قرآن اور سنتِ پاک صحابہؓ نے ہی پہنچائی ہے۔ زندیق اور ملحد لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے گواہوں کو مجروح کر دیں تاکہ اس کے بعد آسانی سے قرآن وحدیث کا خاتمہ کر ڈالیں، حالانکہ جرح وتوبیخ کے حق دار یہی لوگ ہیں کیونکہ یہی اصلاً زندیق ہیں۔‘‘ (شرح سنن ابی داؤدؒ، عبدالمحسن العبادؒ:۱/۷۵) 
 علامہ ابن حجرؒ نے ’’الإصابۃ‘‘ کے مقدمے میں امام ابن حزمؒ کا قول نقل کیا ہے کہ تمام صحابہ جنتی ہیں جس کی دلیل یہ قرآنی آیت ہے:{ لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنَی}(حدید،۱۰)’’تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘ اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے:{إِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُم مِّنَّا الْحُسْنَی أُوْلَئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ٭ لَا یَسْمَعُونَ حَسِیْسَہَا وَہُمْ فِیْ مَا اشْتَہَتْ أَنفُسُہُمْ خَالِدُونَ} (انبیائ، ۰۱ا-۱۰۲) ’’بیشک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا وعدہ ہو چکا ہے تو وہ یقینا اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے، اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔‘‘
 پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جملہ صحابۂ کرامؓ سے حسنیٰ کا وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں بتادیا کہ اس وعدے کے بہ موجب وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے جس کا صاف مطلب ہے کہ سب اہلِ جنت ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہیں جائے گا کیونکہ دونوں آیتوں کا روئے سخن سب سے پہلے انہی حضرات کی جانب ہے۔
 امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:’’الحمد للہ تمام صحابۂ کرامؓ زبان کے سب سے بڑھ کر سچے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں ملتا کہ اس کی زبان سے کبھی ارادتاً جھوٹ نکلا ہو۔ اگرچہ ان میں کسی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں یاکچھ گناہوں کا ارتکاب ہوگیا ہے، اس کے باوجود کسی کے بارے میں کذب بیانی اور دروغ گوئی کاالزام ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔صحابۂ کرامؓ اپنی انفرادی حیثیت سے معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ اس کے باوجود جانچ پڑتال کرنے والوں نے ان کی احادیث کو خوب آزما کر دیکھ لیا ہے اوران کی روایات کا باہم تقابل وموازنہ بھی کیا ہے جسے اصطلاحِ محدثین میں “اعتبار” کہتے ہیں، اس پوری چھان پھٹک کے بعد بھی کسی محدث نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کسی صحابی کا جھوٹ پکڑا ہے۔ مگر عہدِ صحابہؓ گزرتے ہی حالات یک لخت تبدیل ہوگئے۔ زمانۂ تابعینؒ میں ہی کوفہ میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہوئی جو احادیث کے نام پر جھوٹ پھیلاتے تھے اور بعد کی صدیوں میں تو امانت ودیانت کا گراف نیچے ہی آیا ہے۔ اس لیے حدیث اور فقہ سے اشتغال رکھنے والے تمام علماء وماہرین کا اجماعی فیصلہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ سب کے سب ثقہ اور عدول تھے۔‘‘(منہاج السنۃ النبویۃ:۱/۳۰۷)
 یہ عدالتِ صحابہؓ کے بارے میں اللہ کی کتاب کی آیات، اللہ کے رسولﷺ کی سنت اور ائمۂ دین کے چند اقوال وفرمودات ہیں جو سطورِ بالا میں پیش کئے گئے۔اتنا سب ہوتے ہوئے کیا ہم صحابہؓ کی تعدیل وتوثیق کے لیے کسی دوسرے کی جانب ہاتھ پھیلائیں گے؟ شکوک وشبہات ابھارنے والے دشمنانِ دین کے ایجنٹوں کو ذرہ برابر اہمیت دیں گے جو اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں، حالانکہ اللہ نے اپنی روشنی کے اتمام وتوسیع کا فیصلہ فرمارکھا ہے؟
 صحابۂ کرامؓ کی یہ عدالت اور یہ صداقت مسلّمہ ہے، الایہ کہ ان میں سے کسی کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ اس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا تھا اور ارادۂ گناہ کے علاوہ کسی دوسرے احتمال کی گنجائش نہ مل سکے اور کسی تاویل وتوجیہ کا موقع بھی نہ ہو۔ تو ایسے میں اس کے بارے میں کماحقہ حکم لگایا جائے گا۔ مگر ہم بتادیں کہ یہ بات صرف نظریے کی حد تک ہے، عملاً ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
 دشمنانِ دین اور ان کے پروردہ مفکرین قرنِ اول میں رونما ہونے والی آپسی جنگوں اور فتنوں کو دلیل بنا کر صحابۂ کرامؓ کی شبیہ خراب کرنا چاہتے ہیں۔ان فتنوں اور خانہ جنگیوں میں یقینا بعض کبارِ صحابہؓ شریک ہوئے تھے اور مسلمانوں کی تلواریں ایک دوسرے کے خلاف بے نیام ہوئی تھیں،مگر مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی علامہ ابن کثیرؒ نے بہ خوبی فرمادی ہے۔ 
’’اختصار علوم الحدیث‘‘ میں لکھتے ہیں:’’نبیِ کریمﷺ کے بعد صحابۂ کرامؓ کے مابین جو مشاجرات ہوئے تو ان میں کچھ وقائع وہ تھے جو بلا ارادہ اور بغیر کسی پلاننگ کے بس رونما ہوگئے جیسے کہ جنگِ جمل کا معاملہ ہے۔ اور کچھ وہ تھے جو مختلف فیہ اجتہادی موقف کی وجہ سے پیش آئے جیسے جنگِ صفین کا معاملہ ہے۔ اجتہادی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط، مگر دونوں حالتوں میں مجتہد معذور اور قابلِ معافی، بلکہ مستحقِ اجر وثواب سمجھا جاتا ہے چاہے وہ غلطی پر کیوں نہ ہو۔ جب کہ درست موقف اختیار کرنے والے کو دوگنا اجر ملتا ہے۔ صفین وغیرہ میں حضرت علیؓ اور ان کے ہم نوا بہرحال حضرت معاویہؓ اور ان کے ہم نوائوں کے مقابلے میں حق سے قریب تر تھے۔صحیح بخاریؒ میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علیؓ کو گود میں اٹھایا اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس سے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرادے گا۔‘‘[إن ابنی ہذا سید و سیصلح اللّٰہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین](صحیح بخاریؒ:۲۷۰۴۔سنن ابو داؤدؒ:۴۶۶۲۔سنن ترمذیؒ:۱۴۱۰۔ مسند احمدؒ:۲۰۳۹۲) 
اس پیش گوئی کا تحقق اور وقوع اس طرح ہوا کہ حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہؓ کے حق میں خلافت سے علاحدگی اور دستبرداری اختیار کر لی اوراس طرح امت حضرت معاویہؓ کی امارت وخلافت پر متحد ومتفق ہوگئی اور اسی اتحاد ومصالحت کی وجہ سے وہ سال عام الجماعت کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ یہ سن چالیس ہجری کا واقعہ ہے۔ اب دیکھو اللہ کے رسولﷺ نے اپنی پیش گوئی میں دونوں جماعتوں کو مسلمان قرار دیا تھا۔اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کبھی مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جنگ کی نوبت بھی آسکتی ہے، ایسے میں دونوں کے مابین مصالحت اور جنگ بندی کی کوشش ہونی چاہیے،مگر اس کے باوجود انھیں دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کیا جائے گا۔ ارشادِ باری ہے:{وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْْنَہُمَا}(حجرات،۹)’’اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔‘‘دیکھو اللہ تعالیٰ نے باہم جنگ کرنے کے باوجود دونوں گروہوں کو زمرۂ مومنین میں شامل رکھا ہے۔‘‘(اختصار علوم الحدیث:ص۱۲۸)
 علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں:’’مشاجراتِ صحابہؓ کے سلسلے میں حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کا موقف نہایت خوبصورت اور مناسب ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ ان جنگوں میں جو خون بہا، اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کو اس سے دور رکھا، تو اب ہم اپنی زبانوں کو اس میں ملوث کیوں کریں؟‘‘ [تلک دماء طہر اللّٰہ منہا سیوفنا فلا نخضب بہا ألسنتنا](فتح المغیث:۳/۱۰۶)
  امام آمدیؒ نے ’’أصول الأحکام‘‘ میں لکھا ہے:’’دونوں احتمالوں کے باوجود(یعنی مشاجرات میں کس کا اجتہاد درست اور کس کا غلط تھا)فریقین میں سے کسی کی بھی گواہی اور روایت پر حرف نہیں آتا ہے۔ اگر کسی فریق کو ہم درست مانتے ہیں تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوتا، اور اگر ہم اسے اجتہادی غلطی پر مانتے ہیں تب بھی بہ اجماعِ امت اجتہادی غلطی کی وجہ سے کسی کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوا کرتی۔‘‘(اصول الاحکام:ص۱۱۲)
 صحابہ دشمنی میں اندھے ہوکر بعض لوگ علمی تحریف کاری سے بھی نہیں چوکتے۔ عوام الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جو لوگ عدالتِ صحابہ کا دم بھرتے ہیں وہ صحابہؓ کو معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں اور معصوم عن الخطا صرف نبی ہوتا ہے۔ صرف نبی سے کوئی بھول چوک یا غلطی اور کوتاہی نہیں ہو سکتی۔ مگر یہ دشمنانِ دین اور آستین کے سانپوں کا فریب ہے۔عدالت اور عصمت مرادف الفاظ نہیں ہیں۔ اگرچہ بعض کتابوں میں انھیں ایک دوسرے کے مرادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، مگر وہاں ہمیشہ سیاق انبیاء ورسل کا رہا ہے۔ صحابہؓ اور غیرِ انبیاء لوگوں کے حق میں عدالت کا مطلب یہ ہے کہ متعلق شخص جان بوجھ کر گناہ نہیں کرتا اور اگر اس سے گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر لیتا ہے۔ صحابہؓ کی عدالت کا یہی مطلب ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے ساری نوعِ انسانی کی نسلوں کو چھوڑ کر ان حضرات کا انتخاب فرمایا اور انھیں اپنے آخری رسولﷺ کی رفاقت ونصرت کی توفیق بخشی۔ اللہ کے نبیﷺ نے خدائی نگرانی میں ان کی تربیت فرمائی اور اپنے بعد دین کی امانت اٹھانے کی اہلیت ان کے اندر پیدا کی۔محدثین کے نزدیک فرد کی عدالت کا مطلب ہے کہ وہ جان بوجھ کر نقل وروایت میں جھوٹ نہیں بولتا یا اس میں تحریف نہیں کرتا۔اس سلسلے میں عرض کرنا ہے کہ صحابۂ کرامؓ بالاجماع گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتے اور نہ گناہ کا ارتکاب ہوتے دیکھ کر خاموش بیٹھ سکتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی صحابی ایک عمل کرتا ہے اور دیگر صحابہ خاموش رہتے ہیں تو یہ جواز کی دلیل ہے۔اور اگر کسی مسئلے میں ان کے متعدد موقف مل جائیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فلاں مسئلہ اجتہادی ہے اور اس میں توسع اور اختلاف کی گنجائش ہے۔ انفرادی سطح پر کسی صحابی سے غلطی ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے،مگر وہ گناہ پر جم نہیں سکتا، بلکہ یاددہانی ہونے پر فوراً اللہ کی جانب رجوع کر لیتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کسی صحابی کی نسبت سے ہمیں ایسا کوئی گناہ یا غلطی نہیں معلوم ہے جسے بنیاد بناکر اس کی روایتوں اور حدیثوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا جائے۔
 علامہ ابن الانباریؒ فرماتے ہیں:’’صحابہؓ کی عدالت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک رسول کی مانند معصوم عن الخطا ہوتاہے اور اس سے معصیت کا صدور محال اور ناممکن ہے۔ عدالتِ صحابہؓ کا مطلب بس یہ ہے کہ ان کی روایتوں کو من وعن قبول کر لیا جائے گا اور ان کے سلسلے میں تقویٰ وتزکیہ کے اسباب وعوامل کی کھوج کرید نہیں کی جائے گی، الا یہ کہ واقعتا کسی کی سیرت میں ایسا پہلو سامنے آجائے جو قادحِ عدالت اور منافیِ تزکیہ ہو تو بات دوسری ہے،مگر اللہ کا شکر ہے کہ کسی صحابی کی نسبت سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے۔‘‘(فتح المغیث:۳/۱۰۶)
  اس کی وجہ سمجھ میں بھی آتی ہے۔ دراصل صحابۂ کرامؓ اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے اور دینی مسائل میں جھوٹ بولنے سے حد درجہ نفور تھے۔ متعدد ائمۂ دین نے سیرتِ صحابہؓ کے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاًحضرت شاہؒ ولی اللہ دہلوی ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’استقراء وتتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ جملہ صحابۂ کرامؓ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹ بولنا شدید ترین گناہوں میں شامل ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ:۲/۷۵)
  اس لیے صحابۂ کرامؓ سے حسنِ ظن اور ان کے تئیں جذبۂ شکرمندی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی بیان کردہ احادیثِ نبویہ پر اعتماد کریں اور انھیں جھوٹا نہ سمجھیں اور نہ معتزلہ اوررافضی شیعوں کی مانند ان کی غلطیوں اور لغزشوں کی وجہ سے انھیں کافر اور فاسق کہنا شروع کر دیں۔ شیعہ اور معتزلہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سوائے سترہ یا چار صحابۂ کرامؓ کے-جن کے نام یہ لوگ بیان کرتے ہیں-جملہ صحابۂ کرامؓ -معاذ اللہ-اسلام سے مرتد ہوگئے تھے اور وفاتِ نبوی کے بعد دین میں کتربیونت کرنے لگے تھے۔ اگر واقعتا یہ بات ان روسیاہوں کی کتابوں میں درج نہ ہوتی تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ خود کو مومن کہنے والا کوئی شخص اللہ کے رسولﷺ کے جاں نثار صحابہؓ کے بارے میں ایسی غلیظ اور متعفن بات زبان سے نکال سکتا ہے،بلکہ ایسا سوچ بھی سکتا ہے۔ 
 علامہ ابن کثیرؒ اس دعوے کی تردید میں فرماتے ہیں:’’ان بد بختوں کی ہرزہ سرائی کے خلاف دلائل وبراہین بے شمار اوربے حد مشہور ہیں۔ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ صحابۂ کرامؓ نے نبیﷺ کی وفات کے بعد بھی آپؐ کے احکام وفرامین کی اطاعت بہ درجۂ اتم فرمائی اور دین کا پیغام اور دعوت لے کر اقالیم وآفاق کو مفتوح ومسخرکر لیا۔ انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کی نیابت میں خلقِ خدا تک قرآن وسنت کو پہنچایا اور نوعِ انسانی کو جنت کے راستے پر ڈالا۔ یہ حضرات نمازوں کے پابند تھے، زکوٰۃ وخیرات نکالنے والے تھے اور ہر وقت اور موقعے کی مناسبت سے اللہ سے قریب کرنے والے اعمال واذکار کا اہتمام فرماتے تھے۔اس کے علاوہ ان کی شجاعت وبسالت، ان کی جنگی مہارت وصلاحیت، ان کا کرم وایثار،ان کا جذبۂ انفاق فی سبیل اللہ، ان کے اخلاقِ حمیدہ اور خصائلِ جمیلہ اس قدر زیادہ ہیں کہ پچھلی کسی امت میں کسی نبی کے رفقاء واصحاب کے اندر نہیں ملتے اور نہ اس امت میں ان کے بعد ایسی کسی جماعت کے ظاہر ہونے کا امکان ہے۔اللہ ان سب سے راضی ہو! اور جو لوگ صادق ومصدوق نبیﷺ کو جھٹلاتے ہیں اور جھوٹوں کی بات سچ مانتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت پڑے۔‘‘(اختصار علوم الحدیث:ص۱۳۰)
 پھر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ عدالت کا تعلق احادیث کی نقل وروایت سے ہے اور اس معاملے میں صحابۂ کرامؓ بڑے محتاط اور ژرف بیں تھے۔وہ اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹ بولنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ ارشاداتِ نبویہ کی حفاظت وصیانت کا ان سے بڑھ کر کوئی حریص نہیں تھا۔ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ جو بات جن الفاظ میں اللہ کے رسولﷺ سے انھوں نے سنی ہے، من وعن اسے اپنے تلامذہ اور عام مسلمانوں کے سامنے بیان کر دیں۔ انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کی زبان سے یہ وارننگ سن رکھی تھی کہ ’’جو شخص جان بوجھ کر میری نسبت سے جھوٹ بولے تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالینا چاہیے۔‘‘[من کذب علیّ متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار](صحیح بخاریؒ:۱۲۹۱۔ صحیح مسلمؒ:۴۔ مسند احمدؒ:۱۸۱۴۰)
 احادیثِ نبویہ کے مجموعوں اور دواوین میں کہیں نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے کبھی اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹ بولا ہو۔ بعض علماء نے صراحت فرمائی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے نام سے جھوٹ بولنا کفر ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ اکبر الکبائر گناہوں میں سے ایک ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا تھا اور اس کی روشنی میں سب سے پہلے اپنا جائزہ لیا تھا: {وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاء ہُ أَلَیْْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکَافِرِیْنَ}(عنکبوت،۶۸)’’اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آچکا ہو؟ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے؟‘‘ دینی امور میں اللہ کے نبیﷺ کے نام سے جھوٹ بولنا درحقیقت اللہ کے نام سے جھوٹ بولنے کے مرادف ہے۔محدثین اورماہرینِ جرح وتعدیل نے کتبِ حدیث کی تنقیح وتمحیص کے بعد صاف فرمایا ہے کہ کسی ایک صحابی کے بارے میں بھی نہیں ملتا کہ اس نے اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹی بات بیان کی تھی۔ یقینا بعض صحابہؓ سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، مگر دروغ گوئی اور کذب بیانی کی آفت سے اللہ تعالیٰ نے انھیں بالکل محفوظ رکھا ہے۔
 اگر کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ کتبِ حدیث میں تو ایسی ایسی روایات ملتی ہیں جو سراپا خرافات واساطیر ہیں،جنھیں عقلِ صریح قبول نہیں کرتی اور جن کی تائید علمِ جدید بھی نہیںکرتا۔ ان روایات کی وجہ سے غیرمسلم تعلیم یافتہ طبقہ دینِ اسلام کو خرافات واوہام کا دین کہنے لگا ہے۔ وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرناچاہتے ہیں کہ موجودہ علم وتہذیب کے دور میں اسلام قابلِ عمل نہیں ہے۔ اسلام کی بدنامی کا سبب بننے والی یہ حدیثیں کسی اور نے نہیں، صحابۂ کرامؓ نے بیان کی ہیں۔(اضواء علی السنۃ المحمدیۃ، محمود ابو ریہ:ص۳۴۰)
مگر اس جاہلانہ اعتراض کے جواب میں ہم کہنا چاہیں گے کہ خرافات وجہالات پر مشتمل روایتوں سے صحابۂ کرامؓ کا دامن پاک ہے۔ یہ روایتیں ان کے نام پر کذابوں، وضاعوں، رافضیوں اور زنادقہ وملاحدہ نے گھڑی ہیں۔ یہ آستین کے سانپ تھے جو بہ ظاہر اسلام کا اعلان کرتے تھے مگر سینوں میں اسلام سے نفرت وعداوت کا لاوا چھپائے ہوئے تھے اور ان کی ہر کوشش وکاوش کا محورومدار اسلام کی بیخ کنی تھا۔ انہی لوگوں نے صحابۂ کرامؓ کے نام سے غلط سلط روایتیں سماج میں پھیلائی ہیں۔ اللہ ہمارے محدثین کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے ان بدبختوں کے دجل کا پردہ چاک کیا اور سنتِ نبویہ کے تناظرمیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھایا۔ اس مقصد کی طلب میں محدثین نے علوم ومعارف کی تاریخ میں ایک نئے علم کا اضافہ کیا جسے آج ہم علمِ جرح وتعدیل یا علمِ تراجم یا علمِ اسماء الرجال کے نام سے جانتے ہیں۔ جاہلوں اور اوباشوں کی کذب بیانی کا ذمے دار اگر کوئی شخص صحابۂ کرامؓ کو گردان رہا ہے تو یہ اس کے اپنے دل کا مرضِ نفاق ہے۔ صحابۂ کرامؓ بہرحال ضعیف اور موضوع روایتوں کی شکل میں پھیلی حماقتوں اور خرافات سے بری الذمہ ہیں۔ دینِ اسلام تو علم وتحقیق کا دین ہے۔
 البتہ صحیح حدیثوں میں اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں جن امورِ غیب اور اخبارِماضیہ کے بارے میں بتایا ہے ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں اور انھیں سچ مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے کہ اس کا رسولﷺ ہمیشہ سچ بولتا ہے، اس کی کوئی بات بھی وحی(متلو یا غیر متلو) کے دائرے سے باہر نہیں ہوتی۔{مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی٭وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی٭إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَیٰ}(نجم،۲-۴)’’تمہارے ساتھی (محمدؐ)نہ بھٹکے ہیں اور نہ بہکے ہیں،وہ اپنی خواہشِ نفس سے کبھی نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جاتی ہے۔‘‘
تو جس طرح قرآن کے بتائے ہوئے ماضی کے واقعوں اور مستقبل کی خبروں کو ہم سچا مانتے ہیں، اسی طرح اللہ کے رسولﷺ کی بتائی باتوں اور خبروں کو بھی سچ مانتے ہیں۔
 یہ کہنا کہ بعض صحابہؓ ازروئے قرآن وسنت منافق تھے، ایک جھوٹ ہے۔ منافقین کبھی صحابہؓ نہیں ہو سکتے۔ صحابی کی تعریف ہی یہ ہے کہ جو ایمان کی حالت میں اللہ کے رسولﷺ سے ملے اور اسی پر وفات پائے۔ منافقین نے اللہ کے رسولﷺ سے ایمان کی حالت میں ملاقات ہی نہیں کی اور نہ وہ ایمان پر مرے ،اس لیے صحابہؓ کے زمرے میں وہ نہیں آئیں گے۔
والسلام
اپنی راۓ یہاں لکھیں