شوکت واسطی کی شاعری
تحریر:۔ صابر حسین ندوی
ہم نبرد آزما تھے دشمن سے
دوست نے بھی محاذ کھول دیا
دنیا میں اگر ایک انسان کو اس کا ہمدم مل جائے، مصیبت اور مشکل میں کسی کاندھے کا سہارا حاصل ہوجائے، سخت اور تلخ تجربات میں کوئی ہم ساز و دم ساز کا ساتھ ہوجائے اور وہ آپ کے اس سوز کو چھیڑ کر بہترین نمائندگی کر جائےتو وہ سب سے زیادہ عزیز اور دوست لگنے لگتا ہے۔ انسان آخر اس دنیا کا حیران پریشان مخلوق ہے، اللہ تعالی کا ذکر اگر نہیں تو وہ یوں سمجھیے کہ ہمہ وقت ایک ماہئ بے آب ہے۔تڑپ، جلن، تپش اور سوز کی ایسی دنیا میں وہ رہتا ہے جہاں سے دل کی دھڑکن بھی سنائی نہیں دیتی۔ دل اپنے سینے میں ہی دھک دھک کرتا ہے، جو آپ کے کان سے بَس کچھ ہی فاصلے پر ہے؛ لیکن اس کا احساس مٹ جاتا ہے، بلکہ جس شہہ رَگ کی بار بار بات کی جاتی ہے، بسااوقات وہ شہہ رَگ بھی دائرہ حس سے باہر ہوجاتی ہے۔
آہ! زندگی کی ایسی کڑواہٹ کہ زبان کا سارا ذائقہ بگڑ جائے، اگر اسے سمندر میں ڈال دیا جائے تو سمندر کی نمکینی ختم ہوجائے اور کڑواہٹ ہی کڑواہٹ بھر جائے، پھر یہ کیا کہ انسان زمانے سے پچھڑ جائے خواہ اس کا پچھڑ جانا عمر رفتہ کی بنا پر ہو یا پھر کسی سے بچھڑ جانے اور اپنی جان و دل کے قربان ہوجانے پر ہو، انسان کے دل کا ٹکڑا اس وقت بھی تو الگ ہوجاتا ہے جب اس میں رہنے والا جدا ہوجائے، زمانہ کہیں جاپڑتا ہے، ایسا لگنے لگتا ہے کہ ہم کہیں کوسوں دور، بیابان میں تنہا ہی رہ گئے ہیں۔ اب دل کے تار چھیڑ والا کوئی نہیں، غم کے بادل میں امید کی شعاع بن کر طلوع ہونے والا کوئی نہیں، کبھی نہ کبھی انسان اس مرحلے سے ضرور گزرتا ہے۔ ایک شاعر بھی گزرا ہے، جس نے اس احساس کو زندگی میں محسوس کیا ہے، اسی لئے تو وہ کہتا ہے:
شوکت ہمارےساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ، ہمارا زمانہ چلا گیا
زندگی کی یوں نمائندگی کرنے والا شاعر کون ہے؟ اسے یہ قیمتی اثاثہ کہاں سے ملا؟ یہ جاننے کیلئے اس کی زندگی کا ایک مختصر خاکہ بھی تو جانیے! یہ شاعر جناب شوکت واسطی صاحب ہیں۔ شوکت واسطی کا پورا نام صلاح الدین شوکت واسطی تها اور والد کا نام سید نعمت علی واسطی تها۔وہ یکم اکتوبر 1922ء کو ملتان پاکستان میں پیدا هوئے اور 3/ستمبر 2009ء میں اس دارفانی سے رحلت فرما گئے۔انہوں نے گورڈن کالج راولپنڈی سے بی اے کے بعد ایڈورڈ کالج پشاور سے تاریخ میں ماسٹر کیا اور پهر اسی شعبہ سے منسلک رہے اور ادب کی خدمت کرتے رہے۔مرحوم بہت ساری کتابوں کے مصنف تهے جن میں گیت نظم طویل نظم غزل تراجم سوانح اور تاریخ کی کئی کتابیں شائع هو چکی ہیں۔ان کی کلیات بھی ” کلیاتِ شوکت واسطی ” کے نام سے چار جلدوں میں چھپ چکی ھے، واسطی صاحب دنیا اور دنیا والوں سے کس قدر نالاں تھے، اور اپنی بے بسی و بے کسی کا انہیں کس قدر احساس تھا کہ وہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے:
بڑے وثوق سے دُنیا فریب دیتی رہی
بڑے خلوص سے ہم اعتبار کرتے رہے
کیسا یہ شاعر کہ جس نے سینے پر خلوص کے زخم کھائے۔ انسان کو درد اس وقت بھی ہوتا ہے کہ جب وہ خلوص کا پیکر نہ ہو اور نیزے برداشت کرنے پڑ جائیں؛ لیکن یہ درد اس وقت دو آتشہ ہوجاتا ہے جب معلوم ہو کہ اس نے خلوص اور محبت کی سزا پائی ہے، اس نے بے دل اور بے جان لوگوں میں اپنی جان و عزیز کی قیمت چکائی ہے۔ ایسے وقت میں اس کا دل مزید روتا ہے، وہ حد سے زیادہ اپنے آپ کو کوستا ہے، اپنے خلوص پر ماتم کرتا ہے اور زبان سِل لیتا ہے، پھر حالات ایسے ہوجاتے ہیں کہ وہ بولنا نہیں چاہتا، ہونٹوں پر ہنسی نہیں آتی، دل میں بشاشت اور طبیعت میں نشان نہیں رہتی۔ وہ مرجھایا ہوا، وقت سے پہلے توڑ لیا جانے والا پھول بن جاتا ہے، اس کی خوشبو فضا میں پھیلنے سے پہلے ہی مسل دی جاتی ہے، اور اس کا وجود برائے نام رہ جاتا ہے؛ مگر اسی کے ساتھ ساتھ واسطی صاحب حوصلہ مند بھی ہیں، ان کے حوصلے کی اڑان بھی قابل دید ہے؛ کہ یہ شخص خلوص پر خنجر کھانے کے باوجود کہتا ہے کہ وہ پسپا نہیں ہوا، وہ اٹھے گا، بزم سجائے گا اور پھر لطف زندگی سے محظوظ ہوگا، چنانچہ ان کا کہنا ہے:
ہم زندگی کی جنگ میں ہارے ضرور ہیں
لیکن کسی محاذ سے __ پسپا نہیں ہوئے
ایک دوسرے شعر میں اپنے حوصلہ اور بلندی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:
حوصلہ پست ہی سہی شوکتؔ
ہم ارادے بلند رکھتے ہیں
*وہ اصل میں زمانے کے اندر رائج اصول کو سمجھ چکے ہیں، انہیں معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا کی نیرنگی اسی میں ہے، یہ دنیا ہمیشہ سے ایسوں سے بھری رہی ہے، کوئی آئے گا، کوئی جایے گا، ہر ایک اپنا اپنا تماشہ دکھائیے گا، اور سکون کی نیند موت کی آغوش میں سو جائے گا، مگر یہ بزم تاقیامت چلتی رہے گی، ستم رسیدہ، دل جلے اور شوقین اپنی اپنی محفلیں لگاتے رہیں گے، شمعیں روشن ہوتی رہیں گی اور پروانے اپنی جان نچھاور کرتے رہیں گے، انہیں کوئی کتنا ہی سمجھا جائے، عقل کی دہائی دے، ہاتھ ہاتھ پکڑ پکڑ کر روکے؛ لیکن وہ نہ رکیں گے؛ بلکہ سبقت کریں گے اور اپنی زندگی داؤ پر لگا کر ہی دم لیں گے، اس پیراہن میں واسطی صاحب کی زبانی ایک اصولی بات سنیے!
وہ بزم آرائی فرماتا رہے گا
کوئی آتا کوئی جاتا رہے گا
ہماری بات رہ جائے گی شوکت
زمانہ ہم کو دہراتا رہے گا
اور پھر انہیں اصولوں کے تحت انہوں نے ایک حسین زندگی بسر کی تھی۔شوکت واسطی نے زندگی کا ایک اور انمول واقعہ بیان کیا ہے، وہ دراصل سینے پر لگے زخم کی تڑپ میں ایک انوکھی بات کہتے ہیں، شاید وہ ماضی پر افسوس کرتے ہیں کہ بھلا کیوں وہ راہ کھلی؟ کیسے وہ اس دن کا سورج نکلا؟ وہ شب کیونکر بیت گئی؟ وہ لمحہ کیسے آگیا؟ چنانچہ وہ مخاطب کر کے نہ صرف اپنا کھلا زخم دکھاتے ہیں بلکہ مخاطب کو طعنہ بھی مارتے ہیں، اس کے دل پر بھی ایک ضرب لگتی ہے، اگر کوئی حساس شخص ہو اور وہ اس شعر کو سنے تو یقیناً چور چور ہوجائے گا، آپ بھی پڑھیے اور انداز بیان کی داد دیجئے!
راه میں رہرو ملا ہی کرتے ہیں
تم ہمیں دیکھ کر گزر جاتے
پھر شاعر کی زندگی کا ایک باب یوں کھلتا ہے کہ ہر کوئی اس سے اپنے آپ کو کو منسلک کر سکتا ہے، بالفاظ دیگر یہ ہر کسی کے دل کی آواز ہے، شاعر نے گویا دل پر دستک دی ہے اور اس راگ کو چھیڑا ہے جو ہر کسے کے سینے میں موجود ہے، انسان کی امیدیں، آرزوئیں اور تمنائیں تو لامتناہی ہیں، وہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے، اپنے آپ کو کھپا دیتا ہے کہ بس ایک آروز پوری ہوجائے؛ لیکن اکثر شوق زندگی کی شام ہوتے ہوتے صبح کی کرن دکھائی دیتی ہے، انسان اس وقت کیا کرے؟ کسی کا سلام تب آئے اسے سننے کی سکت نہ ہو تو بھلا کیا ہو؟
ہر بات زندگی میں بڑی دیر سے ہوئی
منزل پہ اؔ لیئے تو ہمیں ہمسفر ملے
اخیر میں یہ شعر تو سننے اور پڑھنے بلکہ نوشتہ دیوار بنانے کے لائق ہے؛ کہ ایک شخص کس طرح بستیاں اجاڑ کر اپنے گھر کی حفاظت، تیز و تند ہوا میں سلامتی کی خام خیالی پالتا ہے، آگ لگی ہوئی ہو اور وہ سوچے کہ سبھی جل جائیں اور اس کا آشیانہ بچ جائے، ان دنوں یہی تو حال ہے، ملک میں آگ لگی ہوئی، انسانیت جل رہی ہے، نفرت کے شیدائی گھوم رہے ہیں، مگر رفتہ رفتہ یہ آگ ان کے گھر کو پہنچ جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہائے یہ کیا ہوگیا؟ یہی انسانی زندگی کا رواج ہے، اس سے بغاوت نہیں کی جاسکتی ہے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
عجیب دوَر ہے ہر شخص یہ ہی سوچتا ہے
تمام شہر جلے، ایک میرا گھر نہ جلے