شریعت کی سودے بازی

شریعت کی سودے بازی

تحریر: مولانا ذکی الرحمٰن غازی مدنی

ایک لمبے عرصے تک میں اس لائن پر سوچتا رہا ہوں کہ غالب تہذیب وثقافت کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے فکری مکاتب کے درمیان جو کہ اپنے طرزِ استدلال اور دلائل دونوں میں اہلِ سنت والجماعت کے منہج ومسلک سے ہٹ گئے ہیں،ان میں قدرِ مشترک کیا ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا کوئی ایسی مشترک تکنیک یا فکری بنیاد ڈھونڈی جاسکتی ہے جو اہلِ سنت والجماعت اور ان فکری دھاروں کے بیچ خطِ امتیاز کھینچ دے اور ایک گونہ حدِ فاصل قائم کر دے۔

دوسرے لفظوں میں اگر ایسا کوئی قاعدۂ کلیہ دریافت ہوجائے تو اس کے نتیجے میں ہم بہ آسانی یہ جان سکیں گے کہ تہذیبی غلامی کے پانی سے سیراب ہونے والے اور غوطہ زن ان فکری مکاتب اور اہلِ سنت والجماعت،دونوں کے نزدیک تشکیلِ معرفت یا تحصیلِ علمِ شرعی کی میتھڈلوجی میں کیا کچھ بنیادی اور جوہری فرق پایا جاتا ہے۔

سابقہ مضامین میں ہم ایک زریں اصول پر روشنی ڈال چکے ہیں اور یہاں بھی یہ کام دیتا ہے کہ جزئیات وفروعات کی چھان پھٹک کی جائے تو عین ممکن ہے کہ کچھ پوشیدہ قواعدِ کلیہ دریافت ہو جائیں جن میں یقینا کافی کچھ علمی وفکری دلچسپی کا سامان مل سکتا ہے۔

اب یہاں آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ فہمِ دین کے طریقۂ کار میں اہلِ سنت والجماعت کے خلاف جانے والے مکاتبِ فکر سے ہماری مراد کیا ہے۔کسی قدر توسع اور تغلیب کے ساتھ ہم کہنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ فی الوقت مسلم معاشروں میں اہلِ سنت والجماعت کے منہج کی مخالفت کرنے والے چار مکاتبِ فکر کار فرما ہیں:سیکولر مکتبِ فکر،لبرل ازم کا علم بردار طبقہ،روشن خیال طبقہ اور اشتراکیت پر ایمان لانے والا بائیں بازو کا طبقہ۔میں نے یہ بات نوٹ کی اور شاید میری طرح دوسرے لوگوں نے بھی نوٹ کی ہو کہ ان چاروں طائفوں کے درمیان ایک مشترکہ اساس اور عمومی فکری طریقۂ کار پایا جاتا ہے اور اسی کی وجہ سے یہ مکاتبِ فکر فہمِ اسلام میں اہلِ سنت والجماعت کے منہج ومسلک سے بھٹک گئے ہیں۔ یہ عقلی میکانزم یا فکری میتھڈلوجی جو ان چاروں مکاتبِ فکر میں یکساں طور پر رائج اور زیرِ عمل ہے اور دینِ اسلام کے فہم میں جسے مسلسل استعمال کیا جارہا ہے،وہ ہے وحیِ الٰہی کی جزبندی اور شریعت کی تعمیل میں مول بھاؤ۔

وحیِ الٰہی کی جزبندی یا سودے بازی تفہیم وتشریح کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے،مگر اس کے ذریعے ان چاروں مکاتبِ فکر کی نفسیات اور ذہنی ساخت کی تفہیم کا دعویٰ کرنا بہ ظاہر بہت بڑا دعویٰ لگتا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ تاویل وتفسیر کا یہ طریقہ جسے ہم نے وحیِ ربانی کی زمرہ بندی یا شریعت کی سودے بازی سے تعبیر کیا ہے، ہمارے ہاتھ میں وہ منطقی اورعقلی ٹارچ تھما دیتا ہے جس کی روشنی ڈال کر ہم بڑی آسانی سے اِن تمام فکری دھاروں کے خدوخال کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور باریک بینی سے ان کے حلیے بشرے کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔یہاں توضیحِ مدعا کی خاطر چند مثالیں دوں گا۔

پہلا طبقہ سیکولر مسلم مفکرین کا ہے۔حالانکہ یہ بات اپنے آپ میں کافی عجیب لگتی ہے کہ ایک شخص مسلمان بھی ہو اور سیکولر بھی ہو۔مفکرین کا یہ طبقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے اور اپنے سیکولرزم کو انکارِ دین یعنی لادینیت کے معنی میں نہیں لیتا،بلکہ اس معنی میں لیتا ہے کہ دین ہر انسان کا ایک پرائیویٹ معاملہ ہے، اور ملک کے اجتماعی معاملات کی باگ ڈور انسانوں کے اپنے حوالے ہے کہ وہ اپنی عقلیں استعمال کرکے جو مناسب معلوم ہو قانون وضع کر سکتے ہیں۔

اس طبقے کے مفکرین کو آپ دیکھیں گے کہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں خاص طور سے اُن شرعی نصوص کو بار بار بیان کریں گے جن کی روشنی میں تہذیبی وتمدنی علوم ومعارف کی بناء انسانی فکر واجتہاد پر رکھنے کا زریں اصول دریافت ہوتا ہے۔اسی لیے اس طبقے کا کوئی ایک مفکر بھی شاید آپ نہ پائیں جسے تأبیرِ نخل کے تعلق سے نبیِ کریمﷺ کا یہ ارشادِ گرامی زبانی یاد نہ ہو کہ تم لوگ اپنی دنیا کے معاملے کو زیادہ جاننے والے ہو۔ أنتم أعلم بأمر دنیاکم۔(صحیح مسلمؒ:۲۳۶۳ بہ روایت حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ بن مالک)مگر یہی لوگ کتاب وسنت کی اُن نصوص سے بدکتے اور بھڑکتے ہیں جن میں متعین طور سے بعض اجتماعی امور میں شریعت کو حاکم اور فیصل بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان حضرات کے مجموعی طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ شریعت کا کچھ حصہ لیتے ہیں اور کچھ حصہ چھوڑ دیتے ہیں۔ غالباً شریعت کی بعض نصوص کا حوالہ دے کر وہ اپنے دل کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ الحمد للہ وہ دائرۂ اسلام میں ہیں اور یہ کہ نئے زمانے میں اصل مسئلہ دینِ اسلام کا نہیں ہے،بلکہ اس کی مبنی بر تعصب تشریح کرنے والے چند قدامت پسند ملّا مولویوں کا ہے۔

دوسرا مکتبِ فکر اپنے آپ کو لبرل ازم کا علم بردار کہتا ہے۔ان مفکرین واربابِ قلم کو آپ دیکھیں گے کہ اُن کی تحریروں اور تقریروں میں سب سے زیادہ زور قرآن وسنت کی اُن نصوص پر دیا جاتا ہے جن میں انسانی آزادی کی بات کہی گئی ہے۔جن سے سماجی سرگرمیوں میں عورت کی شرکت اور حصے داری کا ثبوت ملتا ہے۔حضرت عمرؓ کا مشہور مقولہ ان میں سے اکثروں کو یاد ہوتا ہے کہ تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا،حالانکہ مائوں نے انہیں آزاد جنا تھا۔متی استعبدتم الناس وقد ولدتہم امہاتہم أحرارا۔(تفسیر الطبریؒ:۲/۲۴۴)مگر یہی لوگ قرآن وسنت کی ایسی کسی بھی نص پر چیں بہ جبیں ہوجاتے ہیں جس میں برائی کی روک تھام کا حکم دیا گیاہے یا شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں کی دنیاوی سزا متعین کی گئی ہے یا ایسی کوئی قرآنی آیت ہو جس میں مخالفینِ دین سے جہاد کرنے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم ملتا ہے۔اس طبقے کے مفکرین جب جب اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر آنسو بہاتے ہیں تو ان کی زبانوں سے لامحالہ یہی نکلتا ہے کہ ہمیں دینِ اسلام بہت پسند ہے،کیونکہ اسلام تہذیب وتمدن کو بڑھاوا دینے والا دین ہے،اصل مصیبت ان مولوی ملّائوں کی ہے جو دین کے نام پر نفرت کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں اور عہدِ نبوی کی جہادی سرگرمیوں کو اُس زمانے کی ایک عارضی ضرورت مانتے ہوئے نئے دور میں حکم جہاد کو منسوخ ماننے پر رضامند نہیں ہوتے۔

تیسرا مکتبِ فکر روشن خیالوں پر مشتمل ہے۔آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ اپنی گفتگوئوں اور کتابوں میں جگہ جگہ قرآن وسنت کی ایسی نصوص کا حوالہ دیں گے جن میں دنیا کی تعمیر وترقی پر زور دیا گیا ہے اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے اپنے زمانے میں دیگر اقوام کے تمدنی کارناموں اور معاشرتی اختراعات سے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔آپ کسی روشن خیال مفکر کو شاید نہیں پائیں گے جو اپنی بحث کی شروعات میں اور اس کے درمیان بار بار آیتِ کریمہ ’’واستعمرکم فیہا‘‘ کا حوالہ نہ دیتا ہو۔مگر یہی لوگ قرآن وسنت کی اُن نصوص کا ذکر تک نہیں کرتے اور حتی المقدور انہیں معرضِ بحث میں لانے سے گریز کرتے ہیں اور اگر ذکر آجائے تو فوراً مرکھ جاتے ہیں جن میں توحیدِ خداوندی کے اعتراف وتعظیم کا حکم دیا گیا ہے، دینی شعائر وعلائم کے احترام کی بات کہی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ شریعتِ حقہ صرف ایک ہے اور اسی کو انسانوں کے لیے قانون بننا ہے،اور یہ کہ اللہ رب العزت کی صفتِ الوہیت کے عظیم ترین مطالبات میں یہ بھی شامل ہے کہ تنہا اسی کو قانون ساز تسلیم کیا جائے۔

اسی طرح وہ نصوص جن میں تمدنی علوم کو ثانوی درجہ دیا گیا ہے اور ان میں مہارت وتفوق کی اصلی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ ان علوم سے کام لے کر دینِ حق کو جملہ باطل ادیان ومذاہب پر غالب کر دیا جائے،اس لیے اگر علومِ آلیہ کو حاصل کرکے کوئی انہیں اس مقصد میں لگاتا ہے تو اس کی سعی وجہد قابلِ داد اور مستوجبِ اجر وثواب ہے،ورنہ یہ علمی تبحر اس کے حق میں وبال اور خسران کا باعث ہوگا۔ اسی طرح شریعت کی وہ نصوص جو انسان کو دنیا سے بیزار اور آخرت کا طلبگار بناتی ہیں،وہ ان حضرات کی زبانوں پر کبھی جاری نہیں ہو پاتیں۔ یہ لوگ اسلام کے تعلق سے اپنی رائے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام ہے تو بڑا عظیم مذہب، تہذیب وتمدن کی افزونی اس کے خمیر میں شامل ہے،اصل پرابلم اس میں نہیں،بلکہ تعصب اور تنگ نظری کے اُس ذہنی سانچے میں ہے جو سلفی مولوی وملائوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

چوتھا مکتبِ فکر اشتراکیت پسندوں کا ہے۔ ان لوگوں کے سامنے اگر ’’امرہم شوریٰ بینہم‘‘ (مومنوں کا معاملہ مبنی بر شورائیت ہوتا ہے)اور ’’شاورہم فی الأمر‘‘ (اجتماعی امور میں ان سے مشورہ کرتے رہو)،یہ دونوں آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان پریک گونہ سرور اور خمار سا طاری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرعونی استبداد وآمریت کے خلاف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جد وجہد بیان کرنے والی آیات واحادیث انہیں بڑی پسند آتی ہیں۔ ناجائز اموال واملاک ہتھیانے اور ان کی ذخیرہ اندوزی پر حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم پر جو اظہارِ نکیر کیا تھا وہ انہیں بڑا بھاتا ہے۔ تقریباً ان سبھی لوگوں کو وہ حدیث یاد ہوتی ہے جس میں ظالم حکمراں کے سامنے حق بات کہنے کی پاداش میں قتل ہونے والے شخص کو ’’سید الشہدائ‘‘ یعنی شہیدوں کا سردار کہا گیا ہے۔سید الشہداء حمزۃ بن عبدالمطلب ورجل قام إلی إمام جائر فأمرہ ونہاہ فقتلہ (مستدرک حاکمؒ: ۳/۱۹۵۔ السلسلۃ الصحیحۃ، البانیؒ:۳۷۴)

مگر یہی لوگ اُن تمام شرعی نصوص سے بڑ ی رقابت رکھتے ہیں جن میں اسلامی عقیدے کی تعظیم پر ابھارا گیا ہے، یا جن سے فقہی فروعی احکام کی رہنمائی ملتی ہے۔ اس قسم کی نصوصِ شرعیہ کے بارے میں اِن کا خیال ہے کہ ُان کی حیثیت ثانوی درجے کی ہے اور ان پر ذہن فوکس کرنے سے انسانی سماج کے زیادہ ضروری اورزندگی سے زیادہ مربوط مسائل کی طرف سے دھیان بھٹک جاتا ہے۔ چنانچہ اس ارشادِ باری کو سنتے ہی ان کا اچھا خاصا موڈ آف ہوجاتا ہے:

{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ} (نسائ، ۵۹) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرواللہ کی اور اطاعت کرو رسول اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔‘‘

عجیب جرأت مندی،وقاحت اور بے ہودگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ صحیح بخاریؒ وصحیح مسلمؒ اور دیگر کتبِ حدیث میں وارد حدیثوں کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے جن میں مسلم حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت سے اُس وقت تک کے لیے روکا گیا ہے جب تک کہ وہ کھلے کفر کا ارتکاب نہ کریں اور کفرِ صریح(کفرِ بواح) کی علامت خود شارع نے یہ قائم کر دی ہے کہ وہ اپنے اثر ونفوذ کے علاقے میں لوگوں کو نمازپڑھنے سے روکیں۔جب تک وہ ایسا نہیں کرتے تب تک مسلمان پر شرعاً واجب ہے کہ معروف کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت بجا لائے۔ یہ حدیثیں انہیں اور ان کے ہم شاکلہ انقلاب پسندوں کو بڑی زِچ کرتی ہیں۔

یہ چاروں مکاتبِ فکر آپ کے سامنے ہیں۔دیکھیے سیکولرزم کے مدعی طبقۂ مفکرین نے سماجی نظم ونسق کے مسائل میں خود کو آزاد رکھا اور اس پہلو سے اسلام میں کٹوتی کی۔ لبرل طبقے نے حریتِ عامہ کے لیے بیڑی بننے والے احکام پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اسلام کو اپنا دین بتایا۔ روشن خیال اور ترقی پسند مفکرین نے تہذیب وتمدن اور علومِ عمرانیہ کے متعلقات میں اسلام کو باہر کی راہ دکھائی اور بائیں بازو کے انقلاب پسند طبقے نے سیاسی دھرنوں اور نعرے بازیوں اور مسلح بغاوت کے سلسلے میں شرعی موقف کو رد کرتے ہوئے مسلمانیت کا دعویٰ ٹھونکا۔ ان طبقوں کا مسئلہ وہ چیزیں نہیں ہیں جنہیں اسلام کی روشنی میں یہ ثابت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر وہ مسلمانوں میں رواج پاجائیں۔ ان لوگوں کا انحراف ان کے مطالبات اور نعروں کی فہرست میں مشکل ہی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ البتہ اسلام کے جن احکام وفروع کی یہ نفی کرتے ہیں وہ ان کی سب سے بڑی پرابلم بنے ہوئے ہیں۔اگر ہم ان چاروں فکری دھاروں کے قدیم وجدید مفکرین کی تحریروں پر نگاہ ڈالیں تو صاف مترشح ہوتا ہے کہ ہر طائفے نے بالادست کلچر کی کچھ شقیں پکڑی ہوئی ہیں۔ وقت کی غالب تہذیب وثقافت کے گودام سے ہر طبقے نے اپنے اپنے ظرف اور توفیق کے مطابق مصنوعات لے کر انہیں اسلامی قالب (Wrapper)میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

استنباطِ احکامِ شرعیہ اور فہمِ دین میں اہلِ سنت والجماعت کا ان طائفوں سے بالکل جداگانہ طریقۂ کار ہے جو عہدِ صحابہؓ سے آج تک بفضلہ تعالیٰ چلا آرہا ہے۔اہلِ سنت والجماعت نصوصِ شرعیہ کے اخذ ورد میں وقت کی غالب تہذیب وتمدن سے متاثر اورمرعوب نہیں ہوتے جیسا کہ ہمارے زمانے کے جدید مفکرین کا حال ہے۔ اہلِ سنت والجماعت کا منہج ہے کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو بالاستیعاب اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اس استقصاء کے نتیجے میں بہ ظاہر مختلف نظر آنے والی نصوصِ شرعیہ میں مناسب توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔چنانچہ آپ اہلِ سنت والجماعت کے یہاں پائیں گے کہ یہ لوگ بھی تہذیبی وسائنسی علوم ومعارف میں بشری اجتہاد کے اصول پر کاربند ہیں،مگر وہ اس اصول میں اور منصوص مسائل میں شریعت کے حاکم اور فیصل ہونے کے اصول میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ 

ہمارے علماء وفقہاء نے اپنی کتابوں میں حریتِ عامہ کے اصول کو خوب مدلل ومبرہن کیا ہے،مگر علی الاطلاق نہیں،بلکہ انکارِ منکر اور احتسابِ غیر کے اصولوں کی روشنی میں آزادی کی حدودِ اربعہ طے کرتے ہوئے۔اہلِ سنت والجماعت نے تسلیم کیا ہے کہ سماجی زندگی اور ملّی ارتقاء میں صنفِ نازک کا کردار غیر معمولی طور پر اہم ہے،مگر اسی کے ساتھ انہوں نے دونوں صنفوں کے بے محابا اختلاط پر نکیر کی ہے اور اس سلسلے میں تحفظ اور احتیاط کے پہلو کو مدِ نظر رکھا ہے۔ تہذیبی وتمدنی میدان میں سبقت لے جانے کے لیے انہوں نے سعی وجہد کو فرض مانا ہے،مگر ساتھ ہی تسلیم کیا ہے کہ توحیدِ ربانی اور فرائضِ دینی سے آگہی اور ان پر عمل کو اولیت وفوقیت حاصل ہے اور یہ کہ انسان کی اصل منزل یہ دنیائے دنی نہیں،بلکہ آخرت ہے،اس لیے زندگی کی ترجیحات میں اس کا اثر دِکھنا چاہیے۔اہلِ سنت والجماعت نے اربابِ سیاست وحکومت پر علانیہ زبانی تنقید کے اصول کو لیا ہے،مگر ان کے خلاف مسلح خروج کے قاعدے کو حرام قرار دیا ہے اور معروف کے دائرے میں مسلم حکمرانوں کی اطاعت کو واجب مانا ہے۔

آپ جتنا گہرائی سے تفریقِ شرع یا شریعت کی سودے بازی کی اس تکنیک اور استیعابِ شرع یا پوری شریعت کی تعمیل کے منہج پر غور کریں گے اسی قدر باریک سے باریک تفصیل اور چھوٹے سے چھوٹے مسئلے میں آپ کو اہلِ سنت والجماعت اور فکری گروہوں کے درمیان بنیادی ایپسٹیمولوجیکل ساختیاتی(Epistemological)فرق معلوم ہوتا چلا جائے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تفریقِ شرع کی یہ تکنیک صرف جدید فکری دھاروں کے انحراف کے تعلق سے ہی کافی وشافی علت العلل (Ground Cause)نہیں فراہم کرتی، بلکہ آپ اس تکنیک کی کھوج کرید کریں گے تو تاریخ میں رونما ہونے والے جملہ اعتقادی فرقوں کے یہاں بھی ان کے علمی استدلال اور طریقۂ تفکیر میں اسے بنیاد کا پتھر پائیں گے۔

صفاتِ الٰہیہ کے مسئلے میں اہلِ سنت والجماعت کی مخالفت کرنے والوں کو بہ طور مثال دیکھیں۔ عقیدے کی کتابوں میں ان کے لیے ایک جامع نام اہلِ تعطیل یا معطلہ رکھا گیاہے جس کے دائرے میں معتزلہ،اشاعرہ اور ماتریدیہ آتے ہیں۔ان کی اہلِ سنت والجماعت سے جدائی کی وجہ آپ یہ پائیں گے کہ یہ تنزیہِ رب پر دلالت کرنے والی نصوص کو دانتوں سے پکڑتے ہیں اور اثباتِ صفات پر مشتمل نصوص چھوڑ دیتے ہیں۔اسی طرح اہلِ تمثیل کا معاملہ ہے کہ یہ اثباتِ صفات والی آیات واحادیث کو لیتے ہیں اور ان کے مقابل میں تنزیہ ِ رب پر مشتمل نصوص نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر اہلِ سنت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ استیعابِ شرع کے منہج پر عمل کرتے ہوئے دونوں طرح کی نصوص کو نہ صرف لیتے ہیں، بلکہ دونوں میں حسین توازن پیدا کر لیتے ہیں۔

تقدیر کے باب میں اہلِ سنت والجماعت کی مخالفت کرنے والوں میں سرِ فہرست قدریہ ہیں جو کہ تقدیر کی نفی کرتے تھے۔ان لوگوں کی پرابلم یہ ہوئی کہ انہوں نے شریعت کی صرف اُن نصوص کو لیا جن سے انسان کے باارادہ اور مختار ہونے کا اشارہ ملتا ہے، اور اُن نصوص کو چھوڑ دیا جن سے ارادۂ الٰہی کی ہمہ گیری اور لزومیت وابدیت ثابت ہوتی ہے۔قدریہ کے برخلاف جبریہ فرقے نے انسان سے ارادے واختیار کو بالکلیہ سلب کرلیا اور اسے ایک تابعِ مہمل اور مجبورِ محض وجود بنا ڈالا۔ ان لوگوں نے ارادۂ خداوندی کو ثابت کرنے والی آیات واحادیث کو دانتوں سے پکڑا اور انسان کے صاحبِ ارادہ اور بااختیار ہونے پر دلالت کرنے والی نصوص کو ترک کر دیا۔مگر اہلِ سنت والجماعت نے استیعابِ شرع کے منہج پر عمل کرتے ہوئے دونوں طرح کی نصوص کو لیا اور ان میں حسین توازن قائم کرڈالا، جس سے نہ انسانی اختیار بالکلیہ ختم ہوتا ہے اور نہ ارادۂ خداوندی کا انکار لازم آتاہے۔ذاتِ باری تعالیٰ اور امورِ غیب کے تعلق سے عقائد وتصورات کے باقی ابواب میں بھی گمراہ فرقوں اور اہلِ سنت والجماعت کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے۔

امام ابن تیمیہؒ نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں تفریقِ شرع اور استیعابِ شرع کے اس منہاجی فرق پر روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے ’’العقیدۃ الواسطیۃ‘‘ کے نام سے اپنے مختصر سے رسالے میں اسلامی عقائد پر مشتمل قرآنی آیات پہلے درج کی ہیں، پھر احادیثِ نبویہ ذکر کی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اعتقادی مسائل کے سلسلے میں اہلِ سنت والجماعت کے موقف کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ اس خلاصے میں ضمنی طور سے ایک جگہ تفریقِ شرع اور استیعابِ شرع کا اصولی فرق زیرِ بحث آگیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:’’امت کے فرقوں میں اہلِ سنت کو وسطی مقام حاصل ہے،ٹھیک ویسے ہی جیسے کہ امتِ مسلمہ کو دیگر امتوں میں امتِ وسط کا مقام حاصل ہے۔ اہلِ سنت صفاتِ الٰہی کے باب میں اہلِ تعطیل جہمیہ اور اہلِ تمثیل مشبہہ کے درمیان جادۂ وسط پر قائم ہیں۔ افعالِ خداوندی کے باب میں بھی وہ جبریہ اور قدریہ وغیرہ فرقوں کے درمیان خطِ اعتدال پر کھڑے ہیں۔ وعیدِ الٰہی کے باب میں بھی اہلِ سنت کو مرجیہ اور قدریہ میں سے وعید کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والوں کے مابین وسطی پوزیشن حاصل ہے۔دین وایمان کے اسماء وعناوین کے تعلق سے ایک انتہاء پر حروریہ اور معتزلہ پہنچے ہیں اور دوسری انتہاء پر مرجیہ اورجہمیہ ہیں، اور ان دونوں انتہائوں کے درمیان اہلِ سنت والجماعت ہیں۔ صحابۂ کرامؓ کے تعلق سے ایک موقف خوارج کا ہے کہ انہیں کافر اور مستوجب القتل کہنے سے بھی نہیں چوکتے اور دوسرا موقف روافض شیعوں کا ہے کہ کچھ صحابہؓ کو الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا ہے۔ اہلِ سنت والجماعت دونوں قسم کے غلو وافراط سے محفوظ ہیں۔‘‘ (مجموع الفتاوی، ابن تیمیہؒ: ۳/۱۴۱)

درج بالا پانچ اعتقادی ابواب -صفات،افعال، وعید،اسمائے ایمان ودین،صحابہؓ- میں جمہور اہلِ سنت والجماعت کے مسلکِ توسط پر قائم رہنے کا راز کیا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ گمراہ فرقوں نے اہلِ سنت سے الگ ہٹ کر راہِ فکر وعمل اپنائی؟ اس پر آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اصل فرق تفریقِ شرع اور استیعابِ شرع کے منہج کا ہے،اس کے سوا کچھ نہیں۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید دور کے فکری رجحانات اور تاریخ میں رونما ہونے والے اعتقادی فرقوں، دونوں کے مابین یہ اصولی منہجی کلیہ مشترک طور پر کیوں ملتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ زمانہ الگ ہے اور حالات جدا ہیں،مگر دونوں جگہ غالب تہذیب وثقافت سے مرعوبیت اور ہزیمت کی نفسیات یکساں طور سے کارفرما ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کے یہاں تفریقِ شرع کی حکمتِ عملی پر پورے زوروشور سے عمل ہوا ہے۔تاریخ میں رونما ہونے والے اعتقادی فرقے اس دور کی یونانی تہذیب وثقافت -جس میں سارا زور عقلیات پر تھا-سے مرعوب ومتاثر تھے اور دوسری طرف انہیں ہندوستان کی ثقافت وتہذیب نے اپنا اسیر بنا لیا تھا جس میں روحانیات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ ہمارے زمانے کے فکری مکاتب اور ان سے وابستہ مفکرین بھی غالب مغربی تہذیب وثقافت کے آگے خود کو بونا اور بودا محسوس کرتے ہیں۔ ماضی اور حال میں فرق بس اتنا ہے کہ کس فرقے یا فکری گروہ نے اپنے زمانے کی غالب تہذیب وثقافت سے کتنی کمیت میں اخذ واستفادہ کیا ہے اور کس حد تک گرکراس کی کاسہ لیسی اور جاروب کشی کر رہے ہیں۔

متذکرہ بالا ان چاروں مکاتبِ فکر-سیکولر،لبرل،روشن خیال، اشتراکیت پسند- سے وابستہ لوگوں کے اندر سب سے خطرناک بات یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ رفتہ رفتہ یہ مشروط ایمان (Conditional Faith) والے بن جاتے ہیں۔مشروط ایمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کو اللہ کا آخری دین مانیں گے، محمدﷺ پر نازل ہونے والی وحی کا اقرار بھی کریں گے،بلکہ اگر آپ ان میں کسی کی مسلمانیت پر ذرہ برابر شبہہ ظاہر کردیں تو غصے میں لال پیلے ہو جائیں گے۔مگر تقریباً یہ تمام حضرات صرف اس قرآنی آیت یا نبوی حدیث پر ایمان لاتے ہیں جو ان کے فکری سانچے اور آئیڈیالوجی سے میل کھاتی ہو، اور ہر وہ قرآنی آیت یا نبوی حدیث یا شرعی حکم جو ان کی فکری ترجیحات یا آئیڈیالوجیکل تصورات کے پرامڈ(Pyramid) پر کدال چلائے اسے عجیب وغریب تاویلوں سے دوسرا معنی ومفہوم دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس میں بڑی خودرائی اور مکابرت کا ثبوت دیتے ہیں۔

ان میں کسی کے ساتھ آپ گفتگو کریں اور ایسی کوئی آیت یا حدیث ذکر کردیں جو اس کی خاص فکر اور آئیڈیالوجی سے میل کھاتی ہے تو اس کا چہرا کھِل جائے گا، بشاشت پھیل جائے گی اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مزید کی فرمائش کرے گا۔مگر جب آپ اس کے سامنے کوئی ایسا قرآنی فرمان یا نبوی ارشاد یا دینی حکم ذکر کردیں جو اُس کی فکر اور آئیڈیالوجی کے خلاف پڑتا ہے تو اُس کا ردِ عمل یکسر مختلف ہوگا۔کیا اللہ اور اس کی شریعت کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناقدری ہو سکتی ہے کہ حقیر قطرے سے پیدا ہونے والا انسان اپنے خالق کے فرمان کو اپنی خواہشِ نفس کے تابع اور اپنی فکر اور آئیڈیالوجی کی ہم نوائی کی شرط پر مانے؟ کیا دلوں سے اللہ رب العالمین اور اس کی شریعت کی تعظیم وتقدیس کا اس سے بھی کم کوئی درجہ ہے؟

کیا ان فکری دھاروں میں غوطہ زن مسلمانوں کا یہ مشروط ایمان اُس فریق کے ایمان سے ملتا جلتا نہیں ہے جس کا رویہ قرآنِ کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے:{وَإِذَا دُعُوا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ لِیَحْکُمَ بَیْْنَہُمْ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُم مُّعْرِضُونَ٭وَإِن یَکُن لَّہُمُ الْحَقُّ یَأْتُوا إِلَیْْہِ مُذْعِنِیْنَ} (نور،۴۸-۴۹)

’’جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسولؐ کی طرف تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے میں فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کتراجاتا ہے۔ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسولؐ کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آجاتے ہیں۔‘‘

کیا ان مکاتبِ فکر سے وابستہ ہمارے جدید مفکرین کا یہ مشروط ایمانی طرزِ عمل اُس گروہ کے مشابہہ نہیں ہے جس کے طرزِ عمل کو قرآنِ کریم نے خود انہی کی زبان میں یوں نقل کیا ہے:

{ یَقُولُونَ إِنْ أُوتِیْتُمْ ہَـذَا فَخُذُوہُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُواْ }(مائدہ،۴۱)’’اور کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو،نہیں تو نہ مانو۔‘‘ان دونوں فریقوں کے حال میں آخر کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟

تفریقِ شرع یا جزبندی کی تکنیک ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار ہمارے زمانے میں استعمال ہوئی ہے۔ باطل کی اس تخریبی حکمتِ عملی سے وحیِ الٰہی نے اسلامی تاریخ کے بالکل ابتدائی دور میں نقاب اُٹھا دیا تھا۔ارشادِ باری ہے:

 أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن یَفْعَلُ ذَلِکَ مِنکُمْ إِلاَّ خِزْیٌ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّونَ إِلَی أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (بقرہ،۸۵)’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اِس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔‘‘

نیز فرمایا گیا ہے:

{إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ بِاللّہِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُونَ أَن یُفَرِّقُواْ بَیْْنَ اللّہِ وَرُسُلِہِ وَیْقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُونَ أَن یَتَّخِذُواْ بَیْْنَ ذَلِکَ سَبِیْلا٭ أُٔوْلَـئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ حَقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَاباً مُّہِیْناا} (نسائ، ۱۵۰)’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر وایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں،وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لیے ہم نے وہ سزا مہیا کر رکھی ہے جو انہیں ذلیل وخوار کر دینے والی ہوگی۔‘‘

مشروط ایمان کا یہ طرزِ عمل امام ابن تیمیہؒ کی توجہ کا مرکز بھی بنا ہے اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ اصولی طور پر یہ اسلام کے خلاف ہے۔فرماتے ہیں:’’قصہ مختصر یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک سچا پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ رسولﷺ پر پختہ ایمان نہ لے آئے۔ایسا ایمان جو اس شرط کے ساتھ مشروط نہ ہو کہ ذاتی خواہش کے خلاف پڑنے پروہ اسے چھوڑ دے گا۔اگر کسی حدیثِ پاک کو سن کر وہ کہتا ہے کہ میں اس میں موجود حکم پر ایمان رکھتا ہوں،مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر مجھے اس کے معارض کوئی زیادہ مضبوط شرعی دلیل کبھی مل گئی تو اس پر ایمان لے آئوں گا، اگر کوئی اس طرح کی شرط لگا کر بھی اپنے ایمان کا اظہار کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہے۔ ایمان غیر مشروط اور مطلق ہونا چاہیے۔ یہ بڑا عظیم الشان اصول ہے اس لیے ضرور اسے سمجھ لو کیونکہ مشروط ایمان کی بات کرنا الحاد اور نفاق کا راستہ ہے۔‘‘(درج تعارض العقل والنقل:۱/۱۷۸)

آگے امام ابن تیمیہؒ نے مزید توضیح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس طرح کے مشروط ایمان والے شخص کی ایمانی حالت بہ تدریج کمزور پڑتی جاتی ہے اور ناممکن ہے کہ وہ آخر تک متدین اور متشرع باقی رہ جائے۔فرماتے ہیں:’’اسی لیے تم ایسے لوگوں کو دیکھو گے جو شرعی احکام کو عقل اور رائے کی بناء پر ردوقبول کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں ایمان جڑیں نہیں بنا پاتا۔‘‘(حوالۂ سابق)

اس کی مثال کے طور پر مشہور جدید مفکر محمد اسد(سابق لیوپولڈس) کا نام پیش کیا جاسکتا ہے جنہوں نے اخیر عمر میں نماز وغیرہ شرائعِ دین پر عمل آوری بالکلیہ چھوڑ دی تھی اور اسی حالت میں انتقال ہوا۔ (دیکھیں مولانا مودودی اور مریم جمیلہ کی خط وکتابت) “حیاتِ جاوید‘‘ میں سرسید کے بارے میں بھی مولانا حالی نے کچھ ایسا لکھ دیا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ وقت کی غالب تہذیب کی چکاچوندھ سے اندھے ہوجانے والے جملہ مکاتبِ فکر کے یہاں نصوصِ شریعت کے ساتھ تعامل میں تفریقِ شرع کی حکمتِ عملی لامحالہ کارفرما نظر آتی ہے۔ اس بندربانٹ کے ذریعے دراصل وہ اپنے دل کو مطمئن کرنا چاہتے کہ کسی نہ کسی صورت میں وہ اسلام سے وابستہ ہیں اور یہ کہ ان کی سرگرمیاں تمام کی تمام دینی سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں او ریہ کہ ہمارے باپ دادا جس دین پر مر مٹے اور جو موروثی طور پر ہمارے حصے میں آیا ہے،ہم اُس دین کے دائرے سے خارج نہیں ہیں۔ اپنی آئیڈیالوجیکل انفرادیت اور منہاجِ صحابہؓ سے جداگانہ طرزِ عمل پر ان کے دل میں اگر تاسف کے کچھ جذبات کبھی پیدا ہوتے ہیں، توان پردرج بالا توجیہات وتاویلات کی پٹیاں چڑھا کر وہ خود کو مطمئن کر لیتے ہیں۔وما علینا الا البلاغ۔

والسلام

اپنی راۓ یہاں لکھیں