(چوتھی قسط)
دین کی نئی تفہیم وتعبیر
شیخ محمد صالح المنجد
ترجمہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اس مکتبۂ فکر کا تیسرا اصول یہ ہے کہ نصِ شرعی کی تاریخیت (Historical Relevance/ Historicity)کو تسلیم کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ نصوصِ شرع میں جو کچھ بھی احکام وہدایات اور اوامر ونواہی اور اخلاقی تعلیمات ملتی ہیں وہ سب نزولِ قرآن کے زمانے کے لوگوں کے لیے مخصوص تھیں یا پھر وہی لوگ ان کے پابند ہوسکتے ہیں جن کے معاشی، معاشرتی اور تمدنی حالات بالکل وہی ہوں جو عہدِ نبوی میں عرب صحراء نشینوں اور بدوئوں کے حالات تھے۔ورنہ جو نسلیں اس زمانے کے بعد آئی ہوں اور جن کی عملی زندگی اس سے بہت کچھ مختلف ومغایر ہے تو ایسے نسلیں ان تعلیمات وہدایات کی پابند تو دور، مخاطب (Addressee)بھی نہیں ہیں۔
اگر اجتماعی زندگی میں بدلائو آگیا ہے جیسا کہ بالفعل آج ہم دیکھ رہے ہیں تو زمانۂ نزول کے احکامِ شرعیہ اب نئے دور کے لوگوں سے متعلق نہیں ہیں۔ نہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کی تعمیل کے آج ہم پابند ہیں اور نہ ان چیزوں سے رکنے پر مجبور ہیں جن سے قرآن وسنت کی نصوص نے بہ ظاہر ہمیں روکا ہے۔آج لوگ چاہیں تو ان احکام وتعلیمات کے برعکس راہِ عمل اختیار کرکے بھی دیندار بنے رہ سکتے ہیں۔ اس وقت مانا جائے گا کہ نئے لوگوں کے حق میں یہی دینِ صحیح ہے، ویسے ہی جیسے زمانۂ نزولِ قرآن میں قرآن وسنت کے لفظی احکام اہلِ زمانہ کے حق میں صراطِ مستقیم کا درجہ رکھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے شراب نوشی حرام کی ہے کیونکہ اس دور میں شراب کے اجزائے ترکیبی (ingredients) مضرِ صحت اور نقصان دہ تھے اور عام طور سے لوگ بھی اتنے ہوش مند واقع نہیں ہوئے تھے کہ اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اعتدال کے ساتھ شراب نوشی کرتے۔ مگر آج معاملہ کچھ اور ہے، اس لیے آج شراب نوشی کو جزوِدین سمجھا جاسکتا ہے اور دین کے طور پر اسے برتا بھی جا سکتا ہے۔ یہی حال جوئے، بدکاری، سود خوری اور دیگر برائیوں کی حرمت کا بھی ہے۔
ڈاکٹر حسن ترابی لکھتے ہیں:’’آج ہمیں بہت زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئے نقطۂ نظر سے طلاق اور شادی بیاہ کے احکام تراشیں اور اس سلسلے میں معاصر علومِ اجتماعیہ سے فائدہ اٹھائیں اور انھیں بنیاد بناکر اپنی موروثی فقہ تیار کریں۔‘‘[ونحن بأشد حاجۃ لنظرۃ جدیدۃ فی أحکام الطلاق والزواج نستفید فیہا من العلوم الاجتماعیۃ المعاصرۃ ونبنی علیہا فقہنا الموروث](تجدید اصول الفقہ الإسلامی، حسن الترابی:ص۲۱)
ڈاکٹر اقبال برکہ لکھتے ہیں:’’قرآنِ کریم نے صنفِ نازک کے حوالے سے جو رویہ (Attitude)اختیار کیا ہے وہ ایک متعین زمانے کے لیے تھا اور جو اصول قرآن نے وضع کیے ہیں وہ بھی ایک مخصوص دور میں قابلِ عمل (Applicable)تھے۔آج بہت ممکن ہے کہ اس جیسی چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت یہ جدید زمانہ نہ دے جس میں بالفعل ہم زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘ [موقف القرآن الکریم من المرأۃ کان موقفا فی عصر معین ووضعت تلک القواعد لعصر معین ومن الممکن جدا أن مثل ہذہ الأشیاء قد لا یسمح العصر الذی نعیش فیہ بتطبیقہا](حوار حول قضایا إسلامیۃ، إقبال برکہ:ص۱۰۲)
محمد ارکون کہتے ہیں:’’ہم جانتے ہیں کہ قدیم نصوص پوری طرح سے قدیم سماجی تانے بانے سے گندھی ہوئی تھیں۔ ان نصوص میں نظامِ حکمرانی، عورت کے مقام ومرتبے، انسانی حقوق اور ذمے داریوں، نیز دین اور سیاست کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو کچھ بھی ملتا ہے وہ ماضی کی عملی زندگی کی تعبیر پیش کرتا ہے، ایسا ماضی جو اب چلا گیا اور اب ہمیں اسے دوبارہ لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ [ونحن نعرف أن النصوص القدیمۃ لیست مقطوعۃ الصلۃ بالمجتمعات القدیمۃ وأن نظام الحکم ومکانۃ المرأۃ وحقوق الإنسان وواجباتہ وعلاقۃ الدین بالسلطۃ فی ہذہ النصوص تعبیر عن واقع قدیم لم یعد موجودا ولم نعد فی حاجۃ إلیہ] (الفکر الإسلامی نقد واجتہاد:ص۳۷۸)
عبدالمجید الشرفی کی رائے ہے کہ قرآن وسنت میں عبادات ومعاملات کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ دراصل قدیم حجازی ماحول کے تقاضوں کے زیرِ اثر بیان ہوئی ہے، وہی تقاضے جو عہدِ رسالت میں موجود تھے۔ مگر دوسرے کسی ماحول یا سماج میں انھیں لانے کی کوشش حماقت (Stupidity)کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔[أن ما یوجد من تفاصیل العبادات والمعاملات ہو أثر لمقتضیات البیئۃ الحجازیۃ البسیطۃ فی عصر الرسول دون غیرہا من البیئات] (الإسلام بین الرسالۃ والتاریخ، عبدالمجید الشرفی:ص۵۱)
لہٰذا آج کا انسان ان تمام پابندیوں سے آزاد ہے کیونکہ اب وہ حالات نہیں رہے۔ قرآن میں جہاں بھی ’’یاأیہا الناس‘‘ کہہ کر نوعِ انسانی کو مخاطب کیا گیا ہے تو محمد ارکون کے الفاظ میں اسے سمجھنے میں پوری امت کو مغالطہ ہوا ہے۔ ان مواقع پر ’’الناس‘‘ سے مراد وہ پہلی انسانی جماعت ہے جو نبیِ کریمﷺ کے گردوپیش آباد تھی اور جس نے پہلی بار رسولؐ کے منھ سے قرآن سنا تھا۔ [المقصود بالناس ہنا الجماعۃ الأولیٰ التی کانت تحیط بالنبی(ﷺ) والتی سمعت القرآن من فمہ لأول مرۃ](الفکر الأصولی، ارکون:ص۳۰)
اس مکتبۂ فکر سے وابستہ ایک صاحب لکھتے ہیں:’’اس لیے مناسب ہے کہ بعض فقہی احکام وشرائع پر نظرِ ثانی کی جائے کیونکہ یہ احکام اپنے زمانے کے ساتھ خاص تھے اور آج جب کہ عالمی پیمانے پر سیاسی افکار میں ارتقاء ہوچکا ہے،توان دینی تعلیمات کو زیرِ عمل لانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسے احکام ومسائل میں سرِ فہرست اہلِ ذمہ سے متعلق فقہی موشگافیاں ہیں۔ ایسی فقہ جو ماضی کے حالات کی دست نگر اور خوگر تھی، اسے نئے دور میں جاری وساری کرنے کی اب کوئی گنجائش نہیں رہ گئی ہے۔ اسی طرح ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ معیشت سے متعلق فقہی احکام پر بھی نظرِ ثانی ہونی چاہیے کیونکہ یہ بھی ایک ایسے قدیم سماجی معاشی ڈھانچے کو سامنے رکھتے ہوئے نازل ہوئے تھے جو کلی طور سے ہمارے جدید حالات سے مختلف ہے۔ یہاں سرِ فہرست بینک کی فراہم کردہ رعایتوں کا مسئلہ ہے۔ موجودہ عالمی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یہ بینک بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر جمع شدہ سرمائے پر جو انٹرسٹ آتا ہے، یا قرض دی گئی رقموں پر جو انٹرسٹ لیا جاتا ہے، اُس دور میں اسے حرام قرار دیا گیا تھا اور مقصد یہ تھا کہ کمزوروں اور محتاجوں کی مالی ضرورتوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جاسکے۔ اُس دور میں روزانہ کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے، خوردونوش کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے قرض لیے جاتے تھے،اُس دور میں سود کو حرام کیا گیا تاکہ مقروض کے اوپر سود چڑھتا نہ جائے اور قرض دہندہ یا ساہوکار ایسے غریبوں اور ناداروں کے گھروں اور کھیتوں پر قبضہ نہ جمائے۔‘‘
[کذلک من الملائم ہنا إعادۃ النظر ببعض التشریعات الفقہیۃ الملازمۃ لزمانہا والتی لا یمکن تصور تطبیقہا حالیا بعد تطور الفکر السیاسی العالمی وعلی رأسہا ما یعرف بفقہ اہل الذمۃ فلا مجال لإعمال مثل ہذا الفقہ المرتبط بظروف سالفۃ۔۔۔وأطالب بإعادۃ النظر ببعض التشریعات الفقہیۃ الاقتصادیۃ التی کان تشریعہا ملازما لواقعہا الاجتماعی المختلف کلیۃ عن واقعنا المعاصر ویأتی علی رأسہا ما یتعلق بعملیات البنوک التی تمثل عصب الاقتصاد المعاصر مثل العوائد علی رؤوس الأموال المقرضۃ والتی کان الہدف من تحریمہا آنذاک حمایۃ الضعفاء والمحتاجین م أن تستغل حاجتہم إلی الأموال لتمویل قوتہم الیومی فتتراکم علیہم الدیون ویستولی المقرضون علی بیوتہم ومزارعہم](تجدید الخطاب الدینی، مقال فی جریدۃ الریاض، بتاریخ ۲۴/۹/۱۴۲۷ھ)
اس انداز میں یہ لوگ سودخوری کی وکالت وحمایت کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کی اکثریت سود خوری کرتی ہے اور اسی سے اپنا اور اپنی اولاد کا پیٹ بھرتی ہے۔ لہٰذا حرام کھانے کی جو نحوست ہونی چاہیے تھی وہ مسلط ہوکر رہی اور روح پر جو تاریکی اور پژمردگی چھانی چاہیے تھی وہ طاری ہوئی۔یہ لوگ سود کی وکالت کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ سماج اور انسانی فطرت پر اس کے کیا مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس پر ہم زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہیں گے کیونکہ اہلِ علم نے اس پہلو سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھایا ہے۔ تاہم شدید مالی بحران (Recession)جس کی موجیں بار بار درِدنیا پر دستک دے رہی ہیں اور جس کے مہیب سائے چہار سو پھیلتے جارہے ہیں، اس صورتِ حال کو پیدا کرنے میں بینک کے حرام طریق ہائے معاملت اور سودی کاروبار کا جو رول ہے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے، بلکہ جگ ظاہر ہے۔
اسی طرح مختلف النوع جرائم پر دینِ اسلام نے جو سزائیں طے کی ہیں، ان پر بھی یہ لوگ بڑے جزبز ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سزائوں کے یہ احکام ایک خاص دور کے منفرد سماجی حالات کی آئینہ داری کرتے ہیں۔اس وقت لوگ بہ حیثیتِ مجموعی گنوار اور غیر مہذب ہوتے تھے، عربوں میں ایسی کوئی حکومت وریاست نہیں تھی جو امن وامان قائم کرتی، اس جاہلی سماج میں لوگ انتقام کے جذبے سے اندھے ہوکر ایک دوسرے پر قاتلانہ حملے کرتے تھے۔ چنانچہ رنجشوں اور عداوتوں کی روک تھام کے لیے سخت سزائیں نافذ کی گئیں اور یہ ایسی سزائیں تھیں جن میں کم سے کم برائی پائی جاتی تھی اور مضرت کا پہلو نسبتاً دبا ہوا تھا۔ یہ سزائیں اگرچہ اپنے آپ میں وحشیانہ ہیں، مگر اس دور کے سماجی حالات جو بہت زیادہ دگرگوں، ابتر اور شناعت وقباحت سے بھرپور تھے،اس دور میں جرائم کا انسداد ایسی ہی سخت سزائوں سے ممکن تھا۔مگر اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آگے چل کر جب سماجی حالات بدل گئے اور ریاستی نظم قائم ہوگیا اور جیل خانوں کا پوراسسٹم وجود میں آگیا تو اب شرعی سزائوں کے وہ احکام جو قرآن میں ملتے ہیں،وہ اب نئے دور کے انسان پر لازم ولابدنہیں رہے اور نصِ قرآنی کا روئے تخاطب اب ہم سے پھر گیا ہے۔
[أحکام الحدود إنما أملتہا الظروف التی کان علیہا المجتمع آنذاک حیث کان المجتمع بدائیا لیس فیہ دولۃ تقوم علی استتباب الأمن وإنما یتواثب فیہ الناس بعضہم علی بعضہم للانتقام فتکون إقامۃ الحدود التی ہی أقل الحلول شرا وأدناہا مضرۃ لأنہا علی ما فیہا من وحشیۃ تمثل وقایۃلمجتمع تلک الفترۃ مما ہو أسوأ وأعنف وأکثر فظاعۃ وہذا یعنی أنہ إذا تغیرت أحوال المجتمع ووجدت الدولۃ الی تضبط الأمن وتوفرت السجون أصبحت أحکام الحدود التی تضمنہا القرآن غیر ملزمۃ للمخاطبین بہذا النص القرآنی](الإسلام والحریۃ، عبدالمجید الشرفی:ص۸۹)
عملاً اب یہی ہورہاہے۔ مغربی طاقتوں کے دبائو میں اور پٹھو مسلم حکمرانوں کی وجہ سے بہت سارے مسلم ممالک نے شرعی سزائوں کا اجراء ونفاذ موقوف کر دیا ہے اور ان کی جگہ جرائم کی وہ سزائیں تجویز کر رکھی ہیں جو مغربی ممالک میں رائج ہیں۔ مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ نتیجہ یہ ہے کہ آج جیل خانے چوروں، ڈاکوئوں اور زنا بالجبر کرنے والوں سے بھر گئے ہیں اور وہ محنت کش عوام کے پیسے پر مفت خوری کر رہے ہیں اور حد یہ ہے کہ خود جیلوں کے اندر بھی یہی جرائم مسلسل ہورہے ہیں جن کی روک تھام کی ہر کوشش نامراد وناکام ثابت ہورہی ہے۔ایسا کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نام نہاد مسلم حکمرانوں نے جرائم کی وہ سزائیں دینا بند کر دیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جاری فرمائی ہیں اور ان کی جگہ جو سزائیں دی جارہی ہیں وہ اتنی مؤثر نہیں کہ فساق وفجار کو جرائم سے باز رکھ سکیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جرائم پسندی (Crimenalism) اور مجرموں سے ہمدردی کا ایک سرطان (Cancer)ہے جو سماج کے رگ وپے میں پھیلتا چلا جارہا ہے۔
اس مکتبۂ فکر کے لوگوں کو اسلامی پردے سے بھی بڑی دقت (Trouble)ہوتی ہے۔ ان کے دعوے کے مطابق آج کے دور میں مروّجہ اسلامی پردہ سازگار نہیں رہ گیا ہے۔ آج جس طرح مغربی تہذیب کے زیرِ اثر ہر چہار جانب سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ عورت کو آزادی بخشی جائے، اسے اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھایا جائے، اسکولوں، یونیورسٹیوں، کارخانوں، دفتروں اور تجارتی منڈیوں وغیرہ میں نوکریاں دی جائیں اور اس مغربی منصوبے پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے، ایسے میں ہم مسلمانوں کا قدیم روایتی تصور پر اڑے رہنا اورکہنا کہ مرد وعورت کا دائرۂ کار الگ الگ ہے؛ یہ ایک قسم کی ہٹ دھرمی اور پسماندگی شمار ہوگی۔ اگر ہم خود کو ماڈرن اور زمانہ شناس دکھانا اور بتانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم اپنی مستورات کو بے شرمی اور حیا باختگی کی تعلیم دیں اور اجنبی مردوں کے بیچ میں جانے، رہنے اور ہنسی مذاق کرنے اور گاہے اس سے بھی آگے بڑھ جانے کی تلقین کریں اور اسی نہج پر ان کی تربیت ہو۔
یہ سب باتیں ہیں جو اس مکتبۂ فکر کے ایمان فروش افراد دن رات گاتے اور گنگناتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق گویا پردہ (Veil)ہی اصلاً ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ مگر عملی شہادتیں موجود ہیں اور واقعاتی مثالیں فراہم ہیں کہ حجاب کی پابندی کرتے ہوئے بہت سی بہنوں نے علم وعمل کے ہر میدان میں اپنی افادیت(Utility) اور مہارت (Skill)کا لوہا منوایا ہے اور کبھی معاشی ومادی فائدوں کے لالچ میں اپنی عزتِ نفس، اخلاق مندی اور دین داری کا سودا نہیں کیا۔
ان بد بختوں کی مانیں تو نئے دور میں اسلامی عبادات بھی لائقِ اصلاح ہیں۔ عہدِ رسالت سے آج تک تمام مسلمان جس انداز میں نماز پڑھتے آئے ہیں اب وہ طریقہ نئے زمانے میں نہیں چل سکتا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ اور صحابۂ کرامؓ کا طریقۂ عبادت آخری(Finel) اور حتمی (Decisive)نہیں تھا۔ آج جب کہ زندگی کے حالات بدل چکے ہیں تو اب ضرورت ہے کہ کچھ نئی عبادتیں متعارف کرائی جائیں جو ہمارے جدید طرزِ زندگی سے ہم آہنگ ہوں اور پرانی نمازوں، روزوں اور حج وزکوٰۃ کو ہٹاکر ان کی جگہ ان تراشیدہ عبادتوں کو انجام دیا جائے۔
عبدالمجید الشرفی نام کا ایک ملحد شخص کہتا ہے کہ ’’اگر اللہ کے نبیﷺ نے ایک خاص انداز میں نماز ادا کی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ، ہر زمانے اور ہرمختلف الحال مسلمان پر بہر کیف لازم ہے کہ وہ اسی طریقے سے نماز پڑھے۔‘‘[إذا کان النبی یؤدی صلاتہ علی نحو معین إلا أن ذلک لا یعنی أن المسلمین مضطرون فی کل الأماکن والأزمنۃ والظروف للالتزام بذلک ] (الإسلام بین الرسالۃ والتاریخ:ص۶۲-۶۳)
اس اصول کی کارفرمائی کے بارے میں اس گروہ کے ایک رکنِ رکین “نصر حامد ابو زید” نے کہا ہے:’’اس کا مطلب یہ ہے کہ نصوصِ شرعیہ کے کسی بھی فہم ومطالعے کو فائنل اور غیر مبدّل نہیں مانا جائے گا۔ کسی ایک دور کے لوگ ان نصوص کی روشنی میں اگر کسی کام کو ضروری اور مطلوب سمجھتے تھے تو کسی دوسرے زمانے میں وہ غیر مطلوب اور فالتو(Futile) بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی دور میں جس چیز کو غیر مطلوب اور حرام سمجھا گیا، عین ممکن ہے کہ دوسرے کسی دور میں اسے مطلوب اور حلال سمجھ لیا جائے۔ یہ سب ادوار وازمان کے درمیان پیدا ہونے والے علمی وفکری وثقافتی تغیر کا نتیجہ ہوگا۔‘‘[ستنتہی القرأۃ إلی أن لا یکون للنصوص الشرعیۃ معنی ثابت فما یفہم عند اہل زمن علی أنہ مطلوب یصبح عند غیرہم غیر مطلوب وما یفہم عندہم علی أنہ غیر مطلوب یفہم عند غیرہم علی أنہ مطلوب نتیجۃ تغیّر الثقافات بین الأزمان] (النص السلطۃ الحقیقۃ، نصر حامد ابوزید:ص۱۳۹)
ان لوگوں کے زیغ وضلال کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ وحیِ ربانی کی نصوص کو جو قرآن وسنت کی شکل میں موجود ہیں، انسانی آراء واقوال کا درجہ دیتے ہیں اور جس طرح کسی بھی انسانی رائے اور خیال کو قبول یا ردّ کیا جاسکتا ہے، ویسا ہی ان کے نزدیک نصِ شرعی کا معاملہ بھی ہے۔ تاریخی تقاضوں اور زمانے کے تغیرات کا جو اثر عام آراء وافکار پر مرتب ہوسکتا ہے، وہی اثر قرآنی آیات اور نبوی ارشادات پر بھی مرتب ہوگا۔ یہی نصر حامد ابوزید کہتے ہیں:’’نصِ قرآنی اگرچہ مقدس ومتبرک ہے، مگر وہ بہرحال ایک نص ہی ہے، اس لیے ادبی تنقید کے جن اصولوں کی روشنی میں دیگر ادبی فن پاروں کو جانچا جاتا ہے، انہی کے تابع قرآنی آیات کو بھی رکھا جانا چاہیے۔‘‘ [إن النص القرآنی وإن کان نصا مقدسا إلا أنہ لا یخرج عن کونہ نصا فلذلک یجب أن یخضع لقواعد النقد الأدبی کغیرہ من النصوص الأدبیۃ] (مفہوم النص دراسۃ فی علوم القرآن، نصر ابوزید:ص۲۴)
نصر ابو زید نے اپنی کتاب ’’نقد الخطاب الدینی‘‘ میں پوری صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ ’’قرآن ایک انسانی کلام ہے، یہ اللہ کا کلام بالکل نہیں ہے۔‘‘[القرآن بشری ولیس من کلام اللّٰہ فی شییٔ](نقد الخطاب الدینی،نصر ابوزید:ص۱۳۹)
محمد ارکون کہتے ہیں: ’’دیگر نصوص کی مانند قرآن بھی بس ایک متن ہے۔ اس کے اندر بھی پیچیدگی (Complexity)کے اسی درجے کے ساتھ معانی ومدلولات کا دریا موجزن ہے جیسا ہمیں تورات، انجیل اور ہندومت اور بدھ مت کی دیگر مذہبی کتابوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان تمام بڑی نصوص میں سے ہر بنیاد گزار نص کو تاریخ کے متعین ادوار میں کافی پھیلائو نصیب ہو ا تھا اور مستقبل میں بھی ان کی وسعت پذیری کی امید لگائی جاسکتی ہے۔‘‘[إن القرآن لیس إلا نصا من جملۃ نصوص أخری تحتوی علی نفس مستوی التعقید والمعانی الفوارۃ الغریزۃ کالتوراۃ والإنجیل والنصوص المؤسسۃ للبوذیۃ والہندوسیۃ وکل نص تأسیسی من ہذہ النصوص الکبریٰ حظی بتوسعات تاریخیۃ معینۃ وقد یحظیٰ بتوسعات أخری فی المستقبل] (الفکر الأصولی، محمد أرکون:ص۳۶)
ان باتوں میں تلبیس وتدلیس سے کام لیا گیا ہے۔ بڑی جرأت کے ساتھ اللہ کی کتاب قرآن مجید کو سابقہ کتبِ محرفہ کی صف میں کھڑا کر دیا گیا، یا اس سے بھی نیچے لاکر انسانوں کی لکھی گئی کتابوں کے زمرے میں رکھ دیا گیا۔وہ اللہ جو رب العالمین ہے، جس کا علم ازل وابد کو محیط ہے، جس کی قدرتِ مطلقہ اس کائنات کے ذرے ذرے پر حاوی ہے، بھلا کیسے اس کے کلام کو انسانی کلام کہا جاسکتا ہے؟اُسی انسان کا کلام جسے علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے؟{وَمَا أُوتِیْتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلا}(بنی اسرائیل،۸۵)’’اور تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایا ہے۔‘‘
{یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ یَؤُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ}(بقرہ، ۲۵۵) ’’جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفتِ ادراک میں نہیں آسکتی الا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہ بانی اس کے لیے تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ وبرتر ذات ہے۔‘‘
{یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُونَ بِہِ عِلْما}(طہ،۱۱۰)’’وہ لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے۔‘‘
اللہ کے کلام کو کسی خاص زمانے اور متعین دور کے لیے مخصوص ومحصور کر دینا ممکن نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو اس لیے اتارا ہے کہ یہ ہر زمانے اور خطے کے انسانوں کے لیے دستورِ زندگی اور منشورِ عمل بن سکے۔ اللہ اپنے بندوں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے۔ اسے خبر ہے کہ کیا چیز ہے جو ہر زمانے اور ہر حال اور ہر علاقے کے لیے سازگار اور مناسب ہے۔ اس کا علم لامتناہی (Boundless Knowledge)ہے۔ اس سے کوئی چیز صیغۂ راز نہیں۔ وہ ہر بات سنتا ہے اور ہر خبر جانتا ہے۔
ہم ایسے دریدہ دہن ملحدوں (Atheists)سے وہی کہنا چاہتے ہیں جو باری تعالیٰ نے کہا ہے:{ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللّہُ}(بقرہ،۱۴۰)’’کہو:تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟‘‘
{أَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} (ملک،۱۴)’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیاہے؟ حالانکہ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(جاری)