شبِ برائت

شب براءت

ولی اللہ مجید قاسمی

ماہ شعبان کی پندہویں رات کو ’’شب براءت ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’براءت‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں بری ہونا،نجات اوررہائی پانا۔ چونکہ یہ گناہوں سے معافی اور جہنم سے نجات کی رات ہے، اس لیے اسے ’’شب براء ت‘‘ کہاجاتا ہے۔ اس رات کے ساتھ شعبا ن کا پورا مہینہ ہی اللہ کی رحمت اور انواروبرکات کے نزول کا مہینہ ہے۔ اس میں اس سے زیادہ اہم بابرکت اور مقدس مہینے کے استقبال کی تیاری کرائی جاتی ہے۔اس لئے اس ماہ مبارک میں اللہ کی رحمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے تاکہ بندہ گناہوں سے دھل دھلاکر بالکل پاک وصاف ہوجائے اور مضان المبارک کی برکتوں سے صحیح معنی میں فیض یاب ہوسکے۔
اوریہی وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ بندہ جس کے متعلق فرشتے جاکر کہیں کہ بارالہا ! ہم ایک بندہ کو اس حال میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ تیری محبت اور یاد میں زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت(کھانے اور پینے سے) کنارہ کش تھا،چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
عن أسامۃ بن زید قال: قلت یارسول اللہ ﷺ! لم أرک تصوم فی شھر من الشھور ماتصوم من شعبان ۔ قال: ذالک شھر یغفل الناس عنہ بین رجب ورمضان وھو شھر یر فع فیہ الاعمال الی رب العالمین و احب ان یرفع عملی وانا صائم ۔ (اخرجہ النسائی وابوداؤد وصححہ ابن خزیمۃ)
’’حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ جس قدرشعبان کے مہینہ میں آپ روزہ رکھتے ہیں، میں آپ کو دوسرے مہینوں اتنا روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ رجب اورمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جسے لوگ غفلت میں گزاردیتے ہیں، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں رب العالمین کے حضور بندوں کے اعمال پیش کئےجاتے ہیں،لہذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حالت مین پیش کئے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔ ‘‘
(امام نسائی اور ابوداؤد نے اس کی روایت کی ہے اور محدث ابن خزیمہ نے اسے صحیح قراردیا ہے۔ )
خلوت وجلوت کی راز دار اور مزاج آشنائے رسول، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اس ماہ مبارک میں آپؐ کی سرگرمیوں کا ذکر ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
مارأیت رسول اللہﷺ استکمل صیام شھر قط الاشھر رمضان، وما رایت فی شھراکثر منہ صیاما فی شعبان ۔(متفق علیہ)

’’ میں نے رسول اللہﷺ کو رمضان کے سوا کسی دوسرے مہینے میں پورے مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا؛ اور شعبان کے مہینے میں جس کثرت سے روزہ رکھتے ہوئے انہیں دیکھا ہے اس طرح سے کسی دوسرے مہینے میں نہیں دیکھا۔ ‘‘(1)
(امام بخاری ومسلم نے اس کی روایت کی ہے۔)

حضرت عائشہؓ ہی سے منقول ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
ان النبی ﷺ کان یصوم الشعبا ن کلہ۔ قالت ، قلت یا رسول اللہﷺ احب الشھور الیک ان تصومہ شعبان :قال: ان اللہ یکتب فیہ علی کل نفس میتۃ تلک السنۃ فاحب ان یاتینی اجلی وانا صائم ۔
(رواہ ابویعلی وھو غریب واسنادہ حسن)(2)
’’نبی ﷺ پورے شعبان کاروزہ رکھتے تھے۔ میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! روزہ رکھنے کے لئے آپ کا سب سے پسندیدہ مہینہ شعبان ہے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس سال مرنے والے کا نام لکھ دیتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری موت جب آئے تو میں روزے سے ہوں۔ ‘‘
(ابویعلی نے اس کی روایت کی ہے اور سندحسن ہے۔)
اور آپﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں:
ان النبی ﷺ لم یکن یصوم من السنۃ شھر اتاما الا شعبان یصل بہ رمضان ۔(رواہ الخمسۃ) (3)
’’نبیﷺ سال کے کسی مہینہ میں پورے مہینہ روزہ نہ رکھتے تھے، البتہ شعبان میں مہینے بھر روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ رمضان آجاتا ۔‘‘
واضح رہے کہ آخر دونوں روایتوں میں پورے مہینے نفلی روزہ رکھنے کاتذکرہ موجودہے جب کہ پہلی روایت میں مہینے کے بیشتر دنوں میں روزہ رکھنے کا ذکر ہے۔ ان دونوں روایتوں کے پیش نظر شارحین حدیث کا خیال ہے کہ کبھی آپؐ شعبان کے پورے مہینے روزہ رکھتے تھے اور کبھی مہینے کے بیش تر دنوں میں۔
یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ شعبان کی عظمت کاتقاضا یہ ہے کہ اس میں کثرت سے روزہ رکھاجائے جیسا کہ آنحضور ﷺ سے منقول بھی ہے مگر امت کے ضعف کا خیال کرتے ہوئے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ:
اذا انتصف شعبان فلا تصوموا۔(4)
’’پندرہویں شعبان کے بعد روزہ مت رکھو ۔‘‘
تاکہ رمضان کے روزے کے لئے قوت اور نشاط باقی رہے اورضعف اورکمزوری پیدا نہ ہوجائے۔ چنانچہ مشہورمحدث ملا علی قاری اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
والنھی للتنزیہ رحمۃ علی الأمۃ أن یضعفوا عن القیام بصیام رمضان علی وجہ النشاط۔
’’یعنی پندرہ شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنے کا حکم تنزیہی ہے اور یہ آپؐ نے امت کے حق میں شفقت ورحمت کیوجہ سے منع فرمایا ہے تاکہ رمضان کے لئے جو نشاط مطلوب ہے ، اس میں کمی نہ آجائے۔ ‘‘
غرض یہ کہ شعبان کا پورا مہینہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس لائق ہے کہ اس میں کثرت سے روزہ رکھاجائے اور عبادتوں کا خصوصی اہتمام کیاجائے البتہ امت کی کمزوری کے پیش نظر رمضان کی تیاری کے مقصد سے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے گویا کہ ان کے روزہ کے لئے پندرہ شعبان آخری سرحد ہے اور اس آخری دن میں ایسی خصوصیت پیداکردی گئی ہے کہ اگر کوئی دوسرے دنوں میں غافل رہا تو صرف اسی ایک رات اور دن میں استغفار ، عبادت اور روزہ کے ذریعہ اللہ کی رحمتوں سے فیضیاب اورگناہوں کی آلائش سے پاک وصاف ہوسکتا ہے، جیسا کہ رسول کریمﷺ کاارشاد گرامی ہے:
عن معاذ بن جبل عن النبیﷺ قال: یطلع اللہ علیٰ جمیع خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ الالمشرک او مشاحن۔
’’حضرت معاذ بن جبل نبیﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ تمام مخلوق پر خصوصی توجہ فرماتا ہے اور سب کی مغفرت کردیتا ہے سوائے مشرک اور عداوت رکھنے والے کے ۔‘‘
علامہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ محدث طبرانی نے اس حدیث کو اپنی کتاب ’’المعجم الکبیر‘‘ اور ’’ المعجم الأ وسط‘‘ میں نقل فرمایا ہے اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں
(ورجالھماثقات) (5)ا لمعجم الکبیر،حمدی عبدالمجید سلفی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوچکی ہے۔ انہوں نے اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ ہمارے (شیخ علامہ البانی)نے پندرہ شعبان سے متعلق ایک رسالہ کی تعلیق میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے کیوں اس کے بکثرت شواہد موجود ہیں۔ اور اس حدیث کے مختلف سندوں سے جوشخص آگاہ ہوگااسے اس میں کوئی شک نہیں رہ جائے گا کہ حدیث صحیح ہے۔ (6)
اس حدیث کو علامہ بیہقی نے بھی ’’شعب الایمان‘‘(7) اور ’’فضائل الاوقات ‘‘ میں نقل کیا ہے اس کے محقق عدنان عبدالرحمن نے لکھا ہے کہ ’’اسنادہ حسن ‘‘ ۔(8)محدث ابن حبان نے بھی اس حدیث کی روایت کی ہے، اور محقق شعیب ارناؤط نے لکھا ہے کہ حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔ (9)
عن عبداللہ بن عمرو ان رسول اللہﷺ قال: یطلع اللہ عزوجل الی خلقہ لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لعبادہ الا الاثنین: مشاحن وقاتل نفس۔
’’حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات میں اپنی مخلوق کی طرف خصوصی نظر رحمت فرماتا ہے اور تمام بندوں کی مغفرت کردیتا ہے سوائے دشمنی کرنے والے اور قاتل کے۔‘‘
امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کی روایت کی ہے، اور محدث ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی قابل اعتماد ہیں، صرف ایک روای ’’ ابن لہیعہ ‘‘ (لین) کمزور ہے۔(10)
یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ابن لہیعہ ایک سچے اور صحیح راوی ہیں، عدالت و صداقت کے اعتبار سے ان پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ، لیکن ان کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ حدیث کی جو کتاب انھوں نے مرتب کی تھی وہ جل گئی اور پھر اس کے بعد یاداشت میں بھی کمی واقع ہوگئی جس کی وجہ سے زبانی روایت میں اختلاط کا شکار ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:صدوق من السابعۃ خلط بعد احتراق کتبہ‘‘ (11) لہذا دوسرے ذریعہ سے ان کی روایت کی تائید ہوجائے تو ا س میں قوت آجاتی ہے اور استدلال کے لائق ہوجاتی ہے، یہاں بھی صورت حال یہی ہے کہ ’’ابن لہیعہ‘‘ اس روایت کو تنہا نقل نہیں کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ رشدین بن سعد بن حیی بھی ہیں۔ لہذا یہ روایت درجہ حسن سے کمتر نہیں ہے۔ چنانچہ شیخ ناصرالدین البانی لکھتے ہیں:
قال الحافظ المنذری: واسنادہ لین ولکن تابعہ رشدین بن سعد بن حیی بہ اخرجہ ابن حیوۃ فی حدیثہ فالحدیث حسن۔(12)
’’حافظ منذری نے کہا کہ اس کی سند قدرے کمزور ہے لیکن رشد بن سعدنے ان کی متابعت کی ہے جس کی تخریج ابن حیوۃ نے کی ہے۔ لہذا حدیث حسن ہے۔ ‘‘
عن ابی بکر الصدیق عن النبی ﷺ قال: ینزل اللہ الی سماء الدنیاء لیلۃ النصف من شعبان فیغفر۔لکل شی الا رجل مشرک او رجل فی قلبہ شحناء۔
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ دنیاوی آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے۔ اور ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے۔سواء مشرک کے یا اس شخص کے جس کے دل میں عداوت ہو۔ ‘‘
علامہ بیہقی اور محدث بزار نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور حافظ منذری نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں کوئی حرج نہیں ہے۔(13) اور شیخ البانی کا بھی یہی خیال ہے۔ (14)
اسی طرح کی روایت حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت عوف بن مالک سے بھی منقول ہے لیکن سلسلہ سند کے بعض راوی ضعیف ہیں۔(15)نیز کثیر بن مرہ حضرمی بھی اسی جیسی روایت نبیﷺ سے نقل کرتے ہیں لیکن سلسلہ اسناد متصل نہیں ہے،تاہم روایت کرنے والے قابل اعتماد ہیں چنانچہ علامہ بیہقی لکھتے ہیں کہ ھذامرسل جید۔(16)
حضرت عائشہؓ سے منقول ایک طویل حدیث کاآخری ٹکڑا یہ ہے:
قال: ھٰذہ لیلۃ النصف من شعبان ۔ ان اللہ عزو جل یطلع علیٰ عبادہ فی لیلۃ النصف من شعبان فیغفر للمستغفرین ویرحم المستر حمین ویو خر اھل الحقد کما ھم۔
’’ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ تعالیٰ اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے۔ لہذا مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت اور رحم چاہنے والوں پررحم فرماتا ہے ۔اورکینہ وروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔
علامہ بیہقی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اور کہاکہ ’’ ھذا مرسل جید ‘‘ کیونکہ حضرت عائشہؓ سے نقل کرنے والے راوی حضرت علاء کاسماع ان سے ثابت نہیں ہے۔ (17)
حضرت عائشہؓ سے منقول ایک دوسری حدیث میں ہے کہ
ان اللہ تبارک وتعالیٰ ینزل لیلۃ النصف من شعبان الٰی سماع الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب ۔
’’اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرمادیتاہے۔ ‘‘
امام ترمذی وغیرہ نے اس حدیث کونقل کیاہے اور اسنادی حیثیت سے اسے ضعیف قراردیا ہے۔ لیکن متعدد ذرائع سے روایت کی تائید ہونے کی وجہ سے اس میں قوت آجاتی ہے جیسا کہ شیخ البانی کہتے ہیں:
وجملۃ القول ان الحدیث بمجموع ھذہ الطرق صحیح بلا ریب والصحۃ تثبت باقل منھا عدداً مادامت سالمۃ من الضعف الشدید کمال ہوا لشان فی ھذا الحدیث ۔ (18)
’’حاصل گفتگو یہ ہے کہ حدیث ان تمام طرق کی وجہ سے بلاشبہ صحیح اورحدیث کی صحت تو اس سے کم سے بھی ثابت ہوجاتی ہے جب کہ اس میں شدید ضعف نہ پایا جائے جیسا کہ اس حدیث کا معاملہ ہے۔ ‘‘

پندرہ شعبان کی فضیلت سے متعلق ایک روایت حضرت ابو موسیٰ اشعری سے بھی منقول ے جسے شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔(19) نیز صحابی رسول حضرت ابوثعلبہ خشنی نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے جس کے متعلق علامہ بیہقی نے لکھا ہے کہ یہ ایک عمدہ مرسل روایت ہے( مرسل جید)(20) ۔ اسی طرح حضرت عثمان بن ابی العاص سے بھی اس کی فضیلت سے متعلق حدیث مروی ہے جسے علامہ بیہقی نے ’’فضائل الأ وقات‘‘ میں نقل کیا ہے اور اس کے محقق عدنان عبدالرحمن نے لکھا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔(21)
غرض یہ کہ پندرہ شعبان کی فضیلت واہمیت سے متعلق اتنی احادیث ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ اس کی فضیلت سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے، جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے۔اور جیسا کہ گزرچکا ہے کہ اس سلسلہ کی بعض احادیث صحیح اور کچھ حسن ہیں، بعض روایتوں کا ضعف بھی ہمیں تسلیم ہے لیکن دیگر تائید ی روایتوں کی وجہ سے اس میں بھی قوت آجاتی ہے۔اور مجموعی طور پر ان سے پندرہ ہویں شعبان کی فضیلت ثابت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ مشہور اہل حدیث عالم دین شیخ عبدالرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں:
فھذہ الاً حادیث بمجموعھا حجۃ علی من زعم أ نہ لم یثبت فی فضیلۃ النصف من شعبان شیء۔(22)
’’ یہ احادیث مجموعی اعتبار سے ان لوگوں کے خلاف دلیل ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ پندرہ شعبان کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ ثابت نہیں ہے۔ ‘‘
اور علامہ عبیداللہ مبارک پوری لکھتے ہیں:
’’یہ تمام حدیثیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ پندرہ شعبان کی رات بڑی فضیلت کی رات ہے۔ اس کا مقام ومرتبہ بڑا بلند ہے۔عام راتوں کی طرح نہیں یہ ہے۔ لہذااس سے غفلت برتنا مناسب نہیں بلکہ مستحب ہے کہ عبادت اورذکر وفکر میں یہ رات گزارے۔ ‘‘(23)
متعدداحادیث کے سلسلہ میں شیخ البانی کی رائے گزرچکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں شب براءت سے متعلق احادیث کی صحت پر مکمل اطمینان ہے۔ چونکہ انہوں نے اس مسئلہ میں بڑی چھان بین کی ہے۔ اس لیے وہ بڑے واضح انداز میں کہتے ہیں کہ:
’’جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ پندرہ شعبان کی رات سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے، ان پراعتماد نہیں کرناچاہئے۔ اگر کسی نے یہ بات کہی ہے تو وہ جلد بازی کانتیجہ ہے اور اس نے اس طرح سے احادیث کے طریقوں کی جستجو اورتحقیق نہیں کی ہے جس طرح کی تحقیق تمہارے سامنے ہے۔(24)
ان احادیث کے ساتھ سلف کے عمل سے بھی اس رات کی فضیلت اوراہمیت کی تائید ہوتی ہے کہ وہ اس رات کو دیگر راتوں کے بالمقابل خصوصی اہمیت دیتے تھے اورشب بیداری کااہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
اما لیلۃ النصف من شعبان فقد روی فی فضلھا احادیث وآثار و نقل عن طائفۃ من السلف انھم کانو ا یصلون فیھا۔ فصلا ۃ الرجل فیھا وحدہ قد تقدمہ فیہ سلف ولہ فیہ حجۃ فلا ینکر مثل ھذا۔ (25)
’’شعبان کی پندرہویں رات کے متعلق بہت سی احادیث اورآثار مروی ہیں اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس رات میں نماز پڑھا کرتے تھے، لہٰذا اس رات میں تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سلف کا عمل بطور نمونہ موجود ہے،اس میں اس کے لیے دلیل ہے لہٰذا اس جیسے عمل کاانکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔‘‘
علامہ ابن الحاج مالکی سنت کے بڑے دلدادہ اور بدعت سے سخت متنفر تھے بلکہ اس سلسلہ میں ان کی اندر ایک گونہ شدت پائی جاتی تھی۔ ’’المدخل‘‘ کے نام سے انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے اور عوام کے درمیان رائج بدعات پر بڑی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور دلائل سے ان کو رد کیا ہے۔ اس کتاب میں شب براءت کی فضیلت واہمیت پر انھوں نے لکھا ہے:
’’بلا شبہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ کے یہاں بڑی عظمت والی ہے…….. ہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس کے آنے سے پہلے ہی تیاری کرلیتے اور جب یہ رات آجاتی تو وہ اس کی ملاقات اوراس کی حرمت و عظمت کو بجالانے کے لیے بالکل مستعد ہوتے ، کیوں کہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ وہ شعائر اللہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ (26)
حضرت خالد بن سعد ان بڑے درجے کے فقیہ اور محدث ہیں۔ ستر صحابہ کرام کی دیدار کا شرف انہیں حاصل رہا ہے۔ اسی طرح حضرت مکحول شامی ایک جلیل القدر تابعی ہیں۔ اس دور کے علماء اورفقہا ء آپ کی جلالتِ علمی کے معترف اور آپ کی شاگردی پر نازاں تھے۔ حدیث کی کتابوں میں سینکڑوں حدیثیں ان کے واسطے سے منقول ہیں، خود شعبان کی فضیلت سے متعلق حدیث کے وہ راوی ہیں۔ یہ دونوں حضرات شعبان کی پندرہویں شب کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس میں خوب عبادت کیا کرتے تھے(27)۔
ان حضرات کے علاوہ دوسرے تابعین اور تبع تابعین کا بھی یہی طرز عمل تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ تاریخ کے صفحات نے ان میں سے صرف چند افراد ہی کے نام کو محفوظ رکھا جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن الحاج مالکی کے حوالے سے نقل کیا جاچکا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ شعبان کا پورا مہینہ بڑی عظمت ،اہمیت اوربرکت کا حامل مہینہ ہے۔ اس پورے مہینے میں عبادت وغیرہ کااہتمام کرناچاہئے، خصوصی طور پر اس کی فضیلت کا مرکزی نقطہ پندرہویں شب ہے جس کی فضیلت کے سلسلہ میں دس صحابہ کرام سے احادیث منقول ہیں جن سے مجموعی طور پر اس شب کی فضیلت کااندازہ ہوتا ہے اور خود صحابہ کرام اور تابعین عظام کے دور میں اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیاجاتا رہا ہے،بلکہ ہر دور میں اس امت کے فقہا ء علماء کے یہاں اس رات میں ذکر وتلاوت اور عبادت وغیرہ کا معمول رہا ہے۔ اور یہ عملی تواتر بذات خود ایک دلیل ہے، کیوں کہ امت محمدیہ کااجتماعی طور پر کسی چیز کو قبول یارد کردینا دین کے مجموعی مزاج سے موافقت اور عدم موافقت کو ظاہر کرتاہے، یقیناًیہ عملی تواتر اور تاریخی تسلسل اس لائق ہے کہ اس وجہ سے روایت بھی قبول کی جائے جن کے راویوں میں کچھ کمزوری ہے کیوں کہ امت کا یہ باہمی تعامل اسے قوی سے قوی تر بنادے گا، یہ خود ایک قوی سلسلۂ اسناد ہے کہ اس کے سامنے وہ سلسلہ اسناد ہیچ ہے جس میں محض ایک ایک راوی ہوں جیسا کہ علامہ سخاوی لکھتے ہیں:

وکذااذا تلقت الأمۃ الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح حتی انہ ینزل منزلۃ المتواترفی انہ ینسخ بہ المقطوع۔(28)
’’ایسے ہی جب امت کسی ضعیف حدیث کو قبول کرلیتی ہے تو صحیح قول کے مطابق اس ضعیف حدیث پر عمل کیاجائے گا یہا تک کہ وہ متواتر کے درجے میں ہوجاتا ہے کہ اس سے قطعی حکم کو بھی منسوخ کیاجاسکتاہے۔
لہذااس رات کو غنیمت جان کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس شب میں بیدار رہ کر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں، زندگی جو معصیت میں گزری ہے، اس سے توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہدو پیماں باندھیں ، رزق حلال طلب کریں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ نفلی عبادتوں میں تنہائی افضل ہے لہذااس رات میں مساجد وغیرہ کے اندر اجتماعی عبادت مکروہ ہے۔(29) کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نوافل کے ذریعہ سے اپنے دربار میں خلوت اورتنہائی کا موقع فراہم کیا ہے،یہ اس ذات پاک کی طرف سے بندہ کے لیے ایک انعام ہے لہذا اس خلوت کے موقع کوجلوت سے بدل دینا، انفرادی ملاقات کو جماعت کی شکل دے دینااس انعام کی ناقدری ہے، اور سنت رسول اللہﷺ کی خلاف ورزی ہے کہ اس رات میں آپﷺ سے انفرادی عبادت ہی منقول ہے،اورسنت کے مطابق اخلاص کے ساتھ چند لمحے کی عبادت رات بھر کے اس عبادت سے بہتر ہے جس میں سنت کی خلاف ورزی ہورہی ہو۔ چنانچہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کاارشاد ہے کہ:
’’ (شب براءت میں) کوئی اپنے گھر میں صرف ایک سپارہ پڑھے، یہ اس کے لیے مسجد میں پورا قرآن ختم کرنے سے بہتر ہے۔ ‘‘(30)
لہذااس خیال کو ذہن سے نکال دیناچاہئے کہ تنہا عبادت کرنے میں نیند آنے لگتی ہے لہذا زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کے لیے اجتماعی نظم مناسب ہے۔ کیونکہ اللہ کے یہاں مقدار اور سائز کااعتبار نہیں ہے بلکہ وہاں اتباع سنت اوراخلاص دیکھاجاتا ہے۔
دوسرے یہ کہ جہاں بکثرت لوگ جمع ہوتے ہیں، وہاں شور وشغب سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ بھلا ایسے شوروشغب میں عبادت کے لیے مطلوب یکسوئی اورسکون کیسے میسرہوسکتاہے؟ اس طرح سے شب بیداری کرنا تو رات کو ضائع کرنا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رہناچاہئے کہ یہ رات جشن اورتہوار منانے کی رات نہیں ہے، اورنہ تو روحوں کے آنے کی رات ہے، لہذا عمدہ کھانے کااہتمام کرنا، برادری اور فقیروں میں تقسیم کرنا، گھروں کو سجانا ، چراغاں کرنا سب ناجائز اورممنوع ہے، کیونکہ یہ سب ہندوانہ رسم ورواج کی نقل ہے جسے وہ دیوالی کے موقع پر کیاکرتے ہیں۔(31)

پندرہویں شعبان کو روزہ رکھنا مستحب ہے کیونکہ حضرت علیؓ سے منقول ایک حدیث میں آنحضورﷺ نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔یہ حدیث گرچہ ضعیف ہے لیکن بقول محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ ، کسی ماہر حدیث عالم نے اس حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے۔(32)

لہذااس سے اس دن روزہ رکھنے کی ایک گونہ فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ 13، 14، 15،تینوں دن روزے رکھے جائیں کہ ہر مہینہ کے ان ایام میں روزہ رکھنے کی فضیلت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔
حواشی:

1۔ ایضاً ،4؍245
2۔الترغیب والترھیب للمنذری ،2؍79

3۔ نیل الاوطار 4؍245
4۔ امام ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے حدیث کی روایت کی ہے اور سند صحیح ہے۔ دیکھئے ۔بلوغ المرام، 139، تحقیق محمد حامد الفقی۔
5۔ مجمع الزوائد 8/56 ۔
6۔ المعجم الکبیر ، 20؍108
7۔ شعب الایمان ،7؍415
8۔ فضائل الاوقات ،119،
9۔ صحیح ابن حبان، 12؍481
10۔ مجمع الزوائد ، 8؍56
11۔ التقریب ، 1؍244
12۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ۔ 3؍ 136
13۔ الترغیب ، 3؍ 283
14۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، 3؍137
15۔ مجمع الزوائد ، 8؍ 65
16۔ شعب الایمان 7؍ 414
17۔ حوالہ مذکورنیز الترغیب ، 3؍284
18۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 3؍138۔ اس روایت کو علامہ بیہقی نے شعب الایمان میں نقل فرمایا اوراس کے محقق عبدالعلی نے لکھا ہے کہ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں البتہ راوی حدیث یحیٰ کا سماع حضرت عروہ سے ثابت نہیں ہے۔ (شعب الایمان ، 7؍410) واضح رہے کہ مشہور ناقد حدیث حضرت ابن معین کا خیال ہے کہ یحیٰ کا سماع عروہ سے ثابت ہے،۔دیکھئے معارف السنن ، 6؍98۔
19۔ دیکھئے صحیح ابن ماجہ ،1؍233۔
20۔ شعب الایمان 7؍414۔1۔
21۔ فضائل الاوقات، 125۔

22۔ تحفۃ الاحوذی، 2؍53
23۔ مرعاۃ المفاتیح، 4؍342
24۔ سلسلۃ الأ حادیث الصحیحۃ، 3؍138۔
25۔ فتاوی ابن تیمیہ، 23؍132

26۔ المدخل، 1؍292۔
27۔ لطائف المعارف ، 144۔

28۔ فتح المغیث، 140، تفصیل کے لیے دیکھئے،’’نماز کے بعد دعا‘‘ صفحہ 74۔75۔
29۔ دیکھئے ردالمحتار،1؍507 البحرالرئق 2؍52 وغیرہ
30۔ فوائد الفواد، 24،ط: نول کشور، 1326ھ
31۔ دیکھئے ماثبت بالسنۃ ،363
32۔ دیکھئے مجلہ المآثر، صفحہ :17، شمارہ جنوری تا مارچ 1994ء

 یہ بھی سنیں👇

https://youtu.be/TjbJN6wes7o

اپنی راۓ یہاں لکھیں