رمضان میں توبہ کا اہتمام

رمضان میں توبہ کا اہتمام

(رمضان سیریز: 16)

رمضان المبارک میں توبہ کا اہتمام

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

رمضان کے مبارک مہینے میں اللہ کے تائبین بندوں کے قافلے در قافلے رضائے الٰہی کی طرف لپکتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں خصوصیت کے ساتھ توبہ کا دروازہ چوپٹ کھول دیاجاتا ہے اور رحمت خداوندی بے حد وحساب بڑھ جاتی ہے۔ ویسے بھی ہر انسان پر ہر آن توبہ کرتے رہنا واجب ہے کیونکہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ ہر قسم کی کوتاہی اور معصیت سے محفوظ ومامون ہے۔

اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں ہمیں توبہ کرنے، اس کی طرف لوٹنے اور خضوع وانابت کا رویہ اختیار کرنے پر ابھارا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ} (نور، ۳۱) ’’اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پائو گے۔ ‘‘

حبیب ِ خدا سرکارِ رسالتﷺ کا فرمان ہے کہ اے لوگو! تم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو اور اس سے مغفرت چاہو کیونکہ میں دن میں سوبار اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں۔ ‘‘ [یاأیھا الناس توبوا الی اللہ واستغفروہ فإنی أتوب إلی اللہ فی الیوم مائۃ مرۃ] (صحیح مسلمؒ:۲۷۰۲)

ہم ذرا غور کریں کہ اب تک ہم نے کتنے سارے گناہوں کا ارتکاب دانستہ یا نادانستہ کیا ہے۔ معصیتوں اور برائیوں کے کتنے دروازے ہم دن رات کھٹکھٹاتے رہتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا حلم اور شفقت ہے کہ ہمیں جلد از جلد ان کرتوتوں کی پاداش میں سزا نہیں دیتا اور ہمارے سامنے توبہ کا دروازہ بند نہیں کردیتا۔

اس کی شانِ رحیمی وغفاری کا عالم یہ ہے کہ اس نے ہر گناہ سے توبہ کا دروازہ ہر انسان کے لیے ہر وقت کھلا رکھا ہے، بلکہ وہ اپنی طرف رجوع کرنے والے گناہ گار بندوں کا ہاتھ تھام کر ان کے لیے توبہ کی راہ ہموار کرتا ہے۔ وہ ساری رات اپنا ہاتھ دراز رکھتا ہے کہ شاید دن بھر میں برائیوں کا ارتکاب کرنے والا کوئی بندہ توبہ کر لے، اسی طرح وہ دن بھر دست ِ توبہ دراز رکھتا ہے تاکہ رات میں برائیوں کا مرتکب اسے تھام لے اور سدھر جائے۔

حدیث ِ قدسی میں وہ اپنے بندوں یعنی ہم سب انسانوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے بندو!تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کی مغفرت کرتا ہوں، تو تمہیں چاہیے کہ مجھ سے مغفرت طلب کرو تاکہ میں تمہاری مغفرت کردوں۔ ‘‘ [یاعبادی إنکم تخطئون باللیل النار وأنا أغفر الذنوب جمیعا فاستغفرونی أغفر لکم] (سنن ترمذیؒ:۳۵۴۵۔ تصحیح البانیؒ فی الاروائ:۶)

رمضان المبارک کی شکل میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمارے لیے توبۂ نصوح کا زریں موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔ اگر گناہوں سے توبہ کی توفیق اور مغفرتِ رب کی چاہت اس ماہ میں پیدا نہ ہو پائے تو آخر کب ہوگی؟ اللہ کے رسولﷺکا ارشاد ہے کہ ایسے انسان کی ناک مٹی میں ملے جسے رمضان المبارک کا موقعہ میسر آئے لیکن اس کے لیے مغفرت کا فیصلہ نہ ہوسکے۔ ‘‘ [رغم أنف من أدرکہ رمضان فلم یغفر لہ] (سنن ابن ماجہؒ:۴۲۵۲۔ مستدرک حاکمؒ:۴/۲۴۳۔ تحسین البانیؒ فی صحیح الجامع:۶۸۰۳)

جس شخص کو رمضان کا مہینہ ملا لیکن وہ اس میں توبہ نہ کرسکا اور اپنے گناہوں کی مغفرت نہ کراسکا تو اس سے بڑھ کر نامراد اور گھاٹا اٹھانے والا کوئی نہیں۔

یہاں توبہ کی شرطیں جان لینا بھی ضروری ہے۔ کسی بھی توبہ کے سچے اور صحیح ہونے کے لیے اس میں چھ شرطوں کا پایا جانا ناگزیر ہے۔ وہ چھ شرطیں درج ذیل ہیں:

۱) یہ کہ توبہ خالصتاً اللہ رب العزت کے لیے کی جائے اس میں کوئی اور غرض یا کوئی دنیاوی مطلب نہ ہو۔

۲) یہ کہ تمام گناہوں سے فوری طور پر علاحدگی اور کنارہ کشی اختیار کر لی جائے۔

۳) یہ کہ ماضی میں جن گناہوں کا ارتکاب ہوا تھا ان پر سچی ندامت اور افسوس ہو۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اپنی کوتاہیوں پر لمبے زمانے تک حزن وملال کا تاثر قائم رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اللہ کے رسولﷺ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ندامت ہی اصل توبہ ہوتی ہے۔ ‘‘ [الندم التوبۃ] (صحیح مسلمؒ:۲۵۷۷)

۴) اس بات کا عزم پایا جائے کہ سابقہ گناہوں کی طرف کبھی واپس نہیں جائیں گے۔

۵) یہ کہ توبہ ممکن وقت میں کر لی جائے۔ یعنی ایسے وقت میں توبہ نہ کی جائے جب کہ توبہ کا موقع ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ کسی فرد کے لیےتوبہ کی مدت ختم ہونے کا وقت وہ ہے جبکہ جان نکلنے لگے اور روح حلق میں آ پھنسے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتے ہیں جب تک کہ اسے موت کے خرخراہٹ نہ آنے لگے۔ ‘‘ [إن اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر] (سنن ترمذیؒ:۳۵۳۷۔ مسند احمدؒ:۲/۱۳۲۔ تحسین البانیؒ فی صحیح الجامع:۱۹۰۳)

اجتماعی طور سے توبہ کا وقت اس وقت ختم ہوجائے گا جبکہ قربِ قیامت میں سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہوجائے گا۔ فرمانِ رسالتﷺ ہے کہ جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ ‘‘ [من تاب قبل أن تطلع الشمس من مغربھا تاب اللہ علیہ] (صحیح مسلمؒ:۲۷۰۳)

۶) توبہ کی آخری شرط یہ ہے کہ معصیتوں اور گناہوں کے ذریعہ اگر کسی بندے کا حق مارا تھا تو اس کا حق اسے لوٹا دیا جائے یا مل کر معاف کرا لیا جائے، اور اگر ملنا ممکن نہ ہو تو حتی الامکان اسے تلاش کیا جائے اور زندگی بھر ان حقوق کی تلافی کے لیے نیک اعمال کیے جائیں۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی پر ظلم کرکے اس کی عزت ومال کا حق مارا تھا تو اسے چاہیے کہ آج ہی اسے حلال کرالے، قبل اس کے کہ وہ وقت آجائے جب کہ نہ دینار ہوگی نہ درہم۔ ہوگا یہ کہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس ظلم کے بقدر اس میں سے لے کر صاحب ِ حق کو دے دیا جائے گا، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہونگیں تو صاحب ِ حق کی برائیاں اُس سے ہٹا کر اِس پر لاد دی جائیں گی۔ ‘‘ [من کانت عندہ مظلمۃ لأخیہ من عرض أو مال فلیتحلل منہ الیوم قبل أن لا یکون درھم ولا دینار، إن کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وإن لم یکن لہ حسنات أخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ] (صحیح بخاریؒ:۶۵۳۴)

کہنے کا مدعا یہ ہے کہ رمضان المبارک کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی تطہیر اور بالیدگی کا خاص سیزن پیدا کیا ہے، اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کس حد تک الٰہی برکات وعنایات کی بارش میں شرابور ہو کر اپنے گناہوں اور روحانی گندگیوں کو دھوڈالتے ہیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں