اماں جان حضرت عائشہؓ کی عمر کا مسئلہ
ذکی الرحمن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
نبوت ورسالت کی تاریخ پر جو شخص بھی تدبر کی گہری نگاہ رکھتا ہے وہ بہ خوبی سمجھتاہے کہ سابقہ ملتوں کا بگاڑ اور انحراف اس پہلو سے زیادہ نہیں تھا کہ ان کے اندر الفاظِ وحی سے اعراض یا ان کے انکار کی روش پیدا ہوگئی تھی،بلکہ ضلالت اور انحراف اِن ملتوں میں وحیِ الٰہی کے معانی کی بے جاتاویل وتشریح کے راستے سے در آیا اور یہ تان دھیرے دھیرے اتنی کھنچی کہ شارعِ حکیم کے نازل کردہ الفاظ کو ان کے مقصود ومطلوب معانی سے پھیر کر کچھ کا کچھ مفہوم بنا لیا گیا۔
امتِ مسلمہ کے اندر غلط تاویلات اور بے سروپا معانی کی پیدائش وافزائش کے تعلق سے اسلاف کا زمانہ بڑی حد تک ہمارے زمانے سے مختلف واقع ہوا ہے۔اسلاف کے زمانے میں اہلِ بدعت کی دورازکار تاویلات کا نشانہ زیادہ تر اعتقادی اصول تھے۔مثلاً صفاتِ الٰہی کی تاویل، عرش اور کرسی کی تاویل،تقدیر کی تاویل،بعث بعد الموت اور معاد کی تاویل، معجزات کی تاویل اور نبوت کی حقیقت اور کنہ کی تاویل وغیرہ۔ گمراہ فرقوں نے ان اعتقادی امور کو اپنی غلط تاویلات کا نشانہ بنایا تھاجس کا مقابلہ کرنے کے لیے -الحمد للہ- اس امت کے اسلاف کھڑے ہوئے اور انتھک جدوجہد کرکے دین کو کامل اور سالم (Intact)باقی رکھا۔
مگر اسلاف کے زمانے میں دین کے عملی احکام کی تاویل کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ گمراہ فرقے-باوجود گمراہی کے- شریعت کے عملی احکام کی تعظیم کرتے تھے،انھیں بجا لاتے تھے۔ مسلمانی نسبت رکھنے والے بہت سارے فلاسفہ جو اعتقادیات میں صراطِ مستقیم سے بہت دور نکل گئے تھے،لیکن شرائع واحکام کے تعلق سے ان کا یہی کہنا تھا کہ اس دنیا میں ناموسِ محمدیؐ جیسا کوئی ناموس آج تک نہیں آیا ہے اور ناموس سے ان کی مراد شریعتِ محمدیہؐ کے عملی احکام ہوتے تھے۔ امام ابن تیمیہؒ نے فلاسفہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ماہر فلاسفہ،ابن سینا وغیرہ کے اس قول کا اعتراف واقرار کرتے ہیں کہ اس عالمِ ناسوت میں ناموسِ محمدیؐ سے بڑھ کر کوئی ناموس اب تک نازل نہیں ہوا ہے۔بل اعترف حذاقہم بما قالہ ابن سینا وغیرہ من أنہ لم یقرع العالم ناموس أفضل من ناموس محمدﷺ۔(منہاج السنۃ النبویۃ، ابن تیمیہؒ:۱/۳۱۷ تحقیق: محمد رشاد سالم)
فلاسفہ کے اس قول سے مترشح ہے کہ وہ لوگ شریعتِ اسلامیہ کے احکامی وعملی پہلو کو پسند کرتے تھے،مگر اعتقادی امور میں سرِ تسلیم خم کرنے کے بجائے تاویل وتوجیہ کا دروازہ کھولے ہوئے تھے۔اس کی وجہ بالکل صاف ہے۔ دراصل وہ لوگ اُس زمانے میں سانس لے رہے تھے جس میں اسلامی ریاست کی فتوحات کا دائرہ روز بہ روز پھیلائو پر تھا، سیاسی اور قانونی پہلو سے سماج میں شریعت پر عمل ہورہا تھا اور الٰہی نظام کی برکتوں کا مشاہدہ وہ اپنے سر کی آنکھوں سے کر رہے تھے۔مابعد الطبیعاتی پہلوئوں سے یونانی فلسفے کے بالمقابل ان کی شکست خوردگی اور مرعوبیت صرف عقلی وذہنی نوعیت کی تھی،سیاسی غلامی یا دستوری چاکری کا شائبہ بھی ان کے یہاں نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دستوری اور عملی پہلو سے شریعت پر قائم رہے،جو کچھ بے چینی اور بے راہ روی ان کے اندر پیدا ہوپائی وہ عقائد اور غیبیات کے پہلو سے ہوئی۔
اُس زمانے کے برعکس ہمارے زمانے میں نئے اہلِ بدعت جو کچھ جدت طرازیاں اور بے جا تاویلیں کررہے ہیںان سب کا تعلق شریعت کے عملی پہلو سے ہے اور یہ صاف صاف غالب مغربی تہذیب وثقافت کے زیرِ اثر ہورہا ہے۔نئے مفکرین ومجتہدین کا زور اسلامی عقائد اور غیبی امور کی توجیہ وتاویل پر بالکل دکھائی نہیں پڑتا۔ ان کی بے جا تاویلوں اور مبتدعانہ رایوں کا تختۂ مشق صرف اور صرف شریعت کے عملی احکام بن رہے ہیں۔مصلحتِ مرسلہ سے متعلق امور ومسائل، مقاصدِ شریعت، تعزیرات وحدود، سود، پردہ، شوہر کی بیوی اور فیملی پر قوامیت، جہاد، غیر مسلموں سے ولاء وبراء کا تعلق، ذمیوں کے احکام، برائی پر احتساب وانکار، مخالفینِ دین کے ساتھ امت کا رویہ، خالص دنیوی علوم کی دینی حیثیت،کم عمری کی شادی وغیرہ وہ موضوعات ہیں جنھیں آج نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سب اسلامی شریعت کے عملی احکام ہیں۔
مغرب نواز مسلم طبقے کی تمام کوششوں اور کاوشوں کا محور ومرکز یہ بنا ہوا ہے کہ کسی طرح اِن عملی احکام کے سلسلے میں وارد شرعی نصوص کو ان کے اصل معانی سے پھیردیں اور دائیں بائیں جگت لگاتے ہوئے ایسے معانی پر محمول کریں جو غالب مغربی کلچر اور تہذیب کے موافق ہوں۔ اس غرض سے نئے نئے تصورات ومفاہیم کی ٹکسال قائم کر دی گئی ہے اور ہر مغربی تصور کو شریعت کی طرف منسوب کرنے کی جرأتِ بے جا کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دور ازکار تاویلات کا دروازہ نہیں، پورا پھاٹک ہے جو کھول دیا گیا ہے۔ یہ معنوی سطح پر اللہ پر کذب وافتراء نہیں تو کیا ہے؟
سلف کے زمانے کے فرقے جنہیں عقائد وغیبیات کی تاویل پر اصرار تھا تاکہ اسلام کو یونانی فلسفے کے موافق بنا لیا جائے،وہ اور ہمارے زمانے کے اس قماش کے اربابِ فکر ونظر دونوں یکساں اہلِ بدعت ہیں اور دونوں اللہ کے دین میں نئی چیزیں ایجاد کرنے والے ہیں اور دونوں شریعت کے ساتھ غیر شرعی تصورات ومعانی کا جوڑ لگانے والے ہیں۔بدعت کی حقیقت اس کے علاوہ کیا ہے؟ تاہم ان دونوں گروہوں میں حدِ فاصل یہ ہے کہ اسلاف کے زمانے میں جو اہلِ بدعت تھے انھیں یونانی ماڈرنیٹی (جدیدیت)کا چسکا لگا تھا،اس لیے وہ ایک طرف اسلامی عقائد اور غیبی امور اور بالمقابل یونانی میتھالوجی اور فلسفے کے مابین موافقت کی سبیل نکالنا چاہ رہے تھے۔ جب کہ ہمارے زمانے کے اہلِ بدعت کا معاملہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس وقت امریکہ کی زیرِ قیادت غالب مغربی تہذیب اور کلچر پر نثار ہوچکے ہیں اور ان کی تمام مساعی کا نقطۂ ارتکاز یہ بن گیا ہے کہ اسلامی شریعت کے عملی احکام کو توڑ مروڑ کر مغربی ذوق اور مزاج کے مطابق بنا دیا جائے۔ اسلام کا کوئی بھی حکم ایسا باقی نہ رہنے پائے جس پر مغربی انسان چیں بہ جبیں ہو یا جو اس کے طبعِ نازک اور ذوقِ لطیف پر بار پڑتا ہو۔گویا تاویلات کی دلدل میں کودنے کا ان کا محرک سابقہ اہلِ بدعت کی طرح شریعت میں پیوند کاری ہے،البتہ نشانہ اجداد واخلاف دونوں کا جداگانہ ہے۔
اسی ضمن میں ایک اعتراض کم عمری کی شادی پر کیا جاتا ہے اور حضرت عائشہؓ کے نکاح پر نشانہ سادھا جاتا ہے۔حالانکہ اماںؓ جان نے خود اپنے بارے میں بتایا ہے کہ میں چھے سال کی تھی تو اللہ کے رسول ﷺ سے میرانکاح ہوا اور نو سال کی ہوئی تو رخصتی ہوئی۔‘‘[تزوجنی رسول اللّٰہ لست سنین وبنی بی وأنا بنت تسع سنین](صحیح بخاریؒ:۵۱۳۳۔ صحیح مسلمؒ: ۱۴۲۲) صحیح مسلمؒ کی ایک روایت میں شادی کے وقت عمر سات سال بتائی گئی ہے۔ دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ وہ چھے سال کی ہو چکی تھیں اور ساتواں سال چل رہا تھا۔(دیکھیں الاصابۃ:۸/۲۳۲)
چودہ سو سال تک امت کو حضرت عائشہؓ کی شادی کی عمر پر نہ کوئی اعتراض ہوا اور نہ اس میں کوئی عجیب اور نامانوس بات نظر آئی۔ مگر جدید دور میں جب مغرب کی سامراجی طاقتوں نے عالمِ اسلام کے حصے بخرے کرکے مسلمانوں پر اپنے سیاسی اثر ونفوذ کے ساتھ تہذیبی وسماجی تسلط بھی قائم کرنا چاہا تو مسلمانوں ہی میں سے کچھ افراد کو آگے بڑھایا جو اس کارِ بد میں ان کا بھرپور تعاون کر سکتے تھے۔ چنانچہ ایسے نئے مفکرین نے مغربی تہذیب وثقافت سے ٹکرانے والے تمام اسلامی احکام کی توجیہ وتاویل شروع کر دی اور انھیں مغربی فکر ومزاج کے موافق ڈھالنا شروع کر دیا۔
جلد ہی احکام سے گزر کر یہ لوگ تواریخ ووقائع تک جاپہنچے۔چنانچہ رجم کی سزا کا انکار اس عظیم الشان دلیل کے ساتھ کیا گیا کہ اللہ کے رسول محمدﷺ رحمۃ للعالمین تھے اور رجم کرنا سنگ دلی کا مظہر ہے،اس لیے آپﷺ ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔ باقی تاریخ وحدیث کی متفق علیہ سیکڑوں روایات، قرنِ اول سے فقہائے دین کا اس پر عمل؛یہ سب دریابرد کرنے کے لائق ٹھیرا۔
اسی طرح ان مہارتھیوں نے حضرت عائشہؓ کی شادی کی عمر پر اعتراض اٹھایا۔دعویٰ کیا گیا کہ بہ وقتِ نکاح ام المومنین کی عمر اٹھارہ سال-جو مغربی ممالک میں بھی شادی کی عمر مانی جاتی ہے- تھی اور وفاتِ نبوی کے وقت عمر اٹھائیس سال تھی۔اس سلسلے میں کچھ دلچسپ آنکڑے ان حضرات نے پیش کیے جو تمام تر اس پر نقطے پرمبنی ہیں کہ حضرت عائشہؓ اور ان کی بڑی بہن حضرت اسمائؓ کے بیچ عمر میں کتنے سال کا فرق تھا۔
اس سلسلے میں پہلی بات تویہ سمجھ لیں کہ کم عمری کی شادی پر جن لوگوں کو اعتراض ہے وہ ڈاریکٹ اللہ سے بحث ومجادلہ کریں کیونکہ اسی نے جواز کا یہ رخنہ پیدا کیا ہے۔ ارشادِ باری ہے:{وَاللَّائِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِن نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَاللَّائِیْ لَمْ یَحِضْنَ}(طلاق،۴)’’اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملے میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو(تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے اور یہی حکم ان کا ہے جنھیں ابھی حیض نہ آیا ہو۔‘‘
حضرت عبدؓاللہ بن عباس کی طرف منسوب قول کے علاوہ تابعینؒ میں سے سدیؒ، قتادہؒ، ضحاکؒ اور مقاتلؒ بن سلیمان نے قرآنی الفاظ ’’لم یحضن‘‘ سے مراد کم عمر لڑکیاں لی ہیں جو حیض کی عمر کو نہ پہنچی ہوں۔ امام ابن جریرؒ طبری، امام قرطبیؒ، امام بیضاویؒ، امام بغویؒ، امام ابن کثیرؒ، امام سیوطیؒ، امام رازیؒ، امام نسفیؒ، امام ابوحیانؒ اندلسی، امام ابن عطیہؒ، امام شوکانیؒ، امام بقاعیؒ، امام ابو السعودؒ، علامہ ابن الجوزیؒ،علامہ زمخشریؒ، علامہ مراغیؒ، علامہ مظہریؒ، علامہ صدیق حسنؒ خاں، علامہ طنطاویؒ جوہری، علامہ الجزائریؒ اور سید قطبؒ شہید اور ان کے علاوہ لاتعداد مفسرین نے اس آیت سے مراد وہ بچیاں لی ہیں جنھیں چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے حیض نہ آیا ہو۔
سید مودودیؒ لکھتے ہیں:’’حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیا ہو یا اس وجہ سے کہ بعض عورتوں کو بہت دیرمیں حیض آنا شروع ہوتا ہے اور شاذ ونادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر حیض نہیں آتا۔ بہرحال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جو آئسہ عورت کی عدت ہے،یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے۔ اس جگہ یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ قرآن مجید کی تصریح کے مطابق عدت کا سوال اس عورت کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کر چکا ہو، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں۔(سورۂ احزاب: ۴۹) اس لیے ایسی لڑکیوں کی عدت بیان کرنا جنھیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے،بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز کو قرآن نے جائز قرار دیا ہو اسے ممنوع قرار دینے کا کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا۔‘‘ (تفہیم القرآن:۵/۵۷۱)
مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام کم سنی کی شادی کی وکالت کرتا ہے یا اسے ایک کارِ خیر تصور کرتا ہے۔ یہ صرف جواز اور اباحت کی بات ہے۔کچھ لڑکیوں کو کم عمری سے ہسٹریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں جن کے علاج کے لیے شادی کرناضروری ہوجاتا ہے۔ مگر عام حالات میں اسلام نے شادی کے جوڑے کی سن وسال میں باہم قربت ومطابقت کو مستحب اور مسنون قرار دیاہے۔ تاہم اس کی بخشی وسعت اور جواز کو کسی مادی تہذیب کی نقالی میں ناجائز قرار دینا ایک کفریہ حرکت ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جدید نام نہاد مفکرین آج یہی ناپاک حرکت کر رہے ہیں۔یہ تو کم سنی کی شادی کا مسئلہ ہوا۔ اب ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عمر کی طرف آئیے۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کے سن کی تحدید کوئی شرعی مسئلہ ہے یا یہ ایک تاریخی واقعہ ہے؟اور اجتہاد کیا صرف شرعی مسائل میں ہوتا ہے یا اس کے ذریعے سے تاریخی وقائع وحوادث میں بھی ردّ وبدل کیا جاسکتا ہے؟ یقینا یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور عقل اور شرع دونوں کے نزدیک واقعات کو جوں کا توں بیان کیا جانا چاہیے ہے۔ان میں جوڑ توڑ نہیں کی جاتی اور نہ ناقل کی پسند وناپسند کا خیال کیا جاتا ہے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تویہ تحریف کاری ہے۔ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عمر کا مسئلہ ایک ثابت شدہ تاریخی واقعہ ہے جسے اجتہاد کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا ہے۔پھر متعدد پہلوئوں سے اس کی صحت وصداقت مبرہن ہوتی ہے۔
۱-پہلی دلیل یہ ہے کہ خود صاحبِ معاملہ (یعنی حضرت عائشہؓ)نے یہ بات بیان کی ہے۔ ایسے میں کسی دوسرے کی بات پر اعتبار کرنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟صحیح بخاریؒ اور صحیح مسلمؒ میں مروی ان کی یہ حدیث گزرچکی ہے کہ وہ چھے سال کی تھیں جب آپﷺ نے ان سے شادی کی اور نو سال کی ہوئیں تو ان سے خلوت میں ملے۔اس پر کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ تو ان پربڑا ظلم ہوا۔مگر طرفہ تماشا یہ ہے کہ جس پر ظلم ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے،یعنی اماں جان حضرت عائشہؓ، ان سے کوئی نہیں پوچھ رہا۔ دوسرے لفظوں میں حضرت عائشہؓ نوسال کی عمرمیں رخصتی پر راضی اور خوش، ان کے والدِ بزرگ وار حضرت ابوبکرؓ اس سے راضی اور خوش،ان کی والدہ امِ رومان اس رشتے سے راضی اور خوش، خاندانِ تیم یا ان کے اعزہ واقارب میں سے کسی فرد کو اس پر اعتراض اور ناراضی نہیں، خود اللہ کے آخری نبی محمدﷺ اس سے راضی اور خوش۔ مگر جدید دور کے فکری دیوانوں کو اس پرائی شادی میں ظلم وستم نظر آتا ہے۔
۲-اماںؓ جان کا یہ بیان ان دو کتبِ حدیث میں آیاہے جنھیں کتاب اللہ کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتابیں ہونے کا شرف حاصل ہے اور جن کی اس حیثیت کو امتِ مسلمہ نے بہ حیثیتِ مجموعی تسلیم کیا ہے۔امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ اگر کسی حدیث کو قبول کرنے پر متفق ہوجائیں تو اس کے مستند ومعتبر ہونے میں کوئی شبہہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔صحیحین کتبِ حدیث میں سب سے مستند اور معتبر کتابیں ہیں۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے ان کتابوں میں اعلیٰ درجے کی صحیح حدیثیں یکجا کرکے دین کی عظیم الشان خدمت کی ہے اور ملت پر بہت بڑا احسان کیا ہے جس کی یہ امت ہمیشہ مقروض رہے گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے محسنوں کی شکرگزاری کی توفیق دے اور ان کتابوں سے امت کو جو فائدہ پہنچا ہے اس پر شیخین کو زیادہ سے زیادہ اجر وثواب عطا کرے۔(فی رحاب الکتب الستۃ:ص۹۷۔ الحدیث والمحدثون:ص۳۹۹-۴۰۳۔ کتب السنۃ دراسۃ توثیقیۃ، رفعت فوزی)
جو لوگ صحیحین میں ہونے کے باوجوداس حدیث کا انکار کر رہے ہیں اور حضرت عائشہؓ کے نکاح کو ظالمانہ بتارہے ہیں،بہ ظاہر ان کی بات نئے زمانے کی ہوا کے مطابق اور خوشنما ہے، لیکن کیا یہ علمی بھی ہے؟ ہم بلا تکلف کہیں گے کہ یہ لوگ مرعوبانہ جذبات کی رو میں بہہ رہے ہیں۔ ان کی شکست خوردہ ذہنیت نے انھیں اپنے قول کے عواقب ومضمرات کا پورا ادراک نہیں ہونے دیا۔ وہ درایت وتفقہ کے نام پر ایک حدیثِ صحیح رد کر رہے ہیں حالانکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے فقہ کے کسی مسئلے کو علمِ ہیئت کے قواعد سے ردّ کیا جائے۔ فقہاء ومجتہدین کا میدان وہ نہیں ہے جو فنِ روایت کے ائمہ کا ہے۔ حدیث صرف فنِ روایت ہی کے ضوابط سے ردّ یا قبول کی جاسکتی ہے۔ بڑے سے بڑے فقیہ حتی کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ صرف مضمونِ روایت کی بنیاد پر کسی روایت کو صحیح یا غلط قرار دیں۔ بلکہ انھیں قواعدِ فن کا تتبع کرنا ہوگا اور درایت صرف اسی حد تک معتبر ہوگی جس حد کوآئینِ فن نے آخری حد قرار دے دیا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر کسی نام نہاد علامۂ دہر یا بہ زعمِ خود شیخِ وقت کی بات مان لی جائے کہ حدیث کے نفسِ مضمون کی بنیاد پر کسی ایسے راوی کو جھٹلایا جاسکتا ہے جس کی ثقاہت وعدالت پر تمام ائمۂ فن اتفاق کر چکے ہوں اور جس کا حفظ وضبط استقراء سے ثابت ہو چکا ہو تو پھر تمام احادیث، حتی کہ صحیح بخاریؒ وصحیح مسلمؒ کی روایات سے بھی امان اٹھ جائے گا۔ ایک راوی کو جھٹلانا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ راویوں کو جانچنے کی وہ کسوٹی ناقص اور ناقابلِ اعتماد ہے جو ائمۂ روایت نے اتنی احتیاط، تدبر، ژرف نگاہی، مشقت اور اخلاص سے بنائی ہے کہ اس سے زیادہ انسانی دسترس میں نہیں ہے۔ پھر آخر انھی روایتوں کا کیا اعتبار ہوگا جو احکام وعقائد کے باب میں وارد ہوئی ہیں۔
اگر تم کہو کہ یہ روایتیں عقل کے مطابق، دین کی مجموعی ہیئت سے ہم آہنگ اور باہم ایک دوسرے کی ہم مزاج ہیں،تو ہم کہیں گے کہ دین کی مجموعی ہیئت اور مزاج اور ڈھانچے کی تشکیل تو تم نے روایاتِ صحیحہ کے ہی خام مواد اور اجزائے ترکیبی سے کی ہے۔ اگر آج یہ راز کھلے کہ صفِ اول کا ایک راوی غلط ثابت ہوگیا تو پھر یہ مجموعی ڈھانچہ ہی کہاں لائقِ اعتماد رہے گا جو اسے معیار اور مستدل بنایا جائے؟ پھر تو یہ امکان پوری قوت سے سر ابھارے گا کہ جن روایات واحادیث کو اصل مان کر ہم نے اپنے احکام وعقائد کی صورت گری کی ہے اور اصول سے فروع کا استنباط کیا ہے ان میں ہی نہ جانے کہاں کہاں نقص اور خلل واقع ہوگیا ہے۔
محض یہ بات کہ فلاں روایت عقل کے مطابق اور قیاس سے ہم آہنگ ہے صحت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ وقوع کے لیے دلیلِ وقوع چاہیے نہ کہ دلیلِ امکان۔ عقل وقیاس کے مطابق تو یہ بھی ممکن ہے کہ زید جمعہ کے دن دہلی سے بمبئی گیا ہو۔مگر کیا یہ ضروری ہے کہ وہ گیا ہی ہو؟ ٹھیک اسی طرح حدیثوں سے ثابت شدہ تمام اصولی احکام عقل وقیاس کی دلیل پر نہیں، بلکہ نقل وروایت کی شہادت پر مانے جاسکتے ہیں۔اگر یہ جائز ہے کہ مضمونِ حدیث کو اپنی دانست میں نامناسب پاکر ہم درجۂ اعلیٰ کے راویوں کو جھوٹا قرار دے سکیں تو پھر دین کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں بچے گی۔ صحیح بخاریؒ وصحیح مسلمؒ وغیرہ کتابیں سب افسانوں کا مجموعہ بن جائیں گی۔
ان لوگوں کے موقفِ مذکور نے محض ایک راوی کو مجروح نہیں کیا، بلکہ یہاں متعدد راوی زد میں آگئے ہیں۔ امام بخاریؒ نے مختلف سندوں سے (متحد المعنی) متن بیان کیے ہیں اور امام مسلمؒ نے بھی الگ الگ سندیں پیش کی ہیں۔ اگر کوئی مشخص اور متعین کرکے نہیں بتاسکتا کہ کس کس راوی پر غلط بیانی کا شبہ ہے تو پھر ان سندوں کا ہر ہر راوی حتی کہ حضرت عائشہؓ اور حضرت عروہؒ بن زبیر بھی مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ اور اگر وہ مشخص اور متعین کرکے بتا دیتا ہے تو پھر اسے یہ بہرحال ماننا ہوگا کہ احادیثِ صحیحہ کے دونوں سب سے بڑے امین امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے بھی اپنی کتابوں میں جو روایات پیش کی ہیں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتاہے۔ بخاریؒ اور مسلمؒ کے جن راویوں پر اہلِ فن نے جرح کی ہے ان کا یہاں حوالہ دینا بے کار ہوگا۔ کیونکہ انھوں نے یہ جرح بھی فن ہی کے رخ سے کی ہے۔ہم ذکر اس کسوٹی اور معیار کا کررہے ہیں جس کی صحت پر جرح کرنے والے بھی اتفاق کر چکے ہیں۔ زیرِ تذکرہ حدیث رد کرنے کا حاصل اُس متفق علیہ کسوٹی اور معیار کی شکست اور قدح ہے جو فی الاصل اعتماد علی الحدیث کے خاتمے کے سوا کسی اور انجام پر منتج نہیں ہوگا۔
فقہاء ومجتہدین دنیائے معانی کے شہسوار ہیں، انھیں اپنے ہی دائرے میں جوہر دکھانے چاہئیں اور انھوں نے وہ دکھائے بھی ہیں۔کیا امام ابو حنیفہؒ نے نہیں فرمایا ہے کہ ’’إذا صح الحدیث فہو مذہبی۔‘‘ کیا صحیح روایت کے سامنے قیاس کا ترک ایک طے شدہ معاملہ نہیں ہے؟ پھر آخر یہ قیاس کے سوا کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کا نکاح کے وقت اپنی عمر کے بیان کو درست نہ مانا جائے ؟ درست ونادرست کو ہم سے زیادہ اللہ اور اس کا رسولﷺ جانتا ہے۔
ہم بس یہ دیکھنے کے مجاز اور مکلف ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے فلاں بات کہی ہے یا نہیں کہی ہے، فلاں کام کیا ہے یا نہیں کیا ہے۔ اگر ممکنہ دستیاب ذرائع سے ظنِ غالب ہوجائے کہ ایسا ہوا ہے تو پھر قیاس ومنطق اور درایت وثقاہت کو اس کی تاویلِ حسن میں صرف کرنا چاہیے، نہ کہ اس کسوٹی کو مشتبہ بنانے میں جس کا اعتماد ختم ہوجائے تو پھر ہماری دنیا میں کوئی اجالا نہیں، کیونکہ ہم یقین کے ساتھ جان ہی نہیں سکیں گے کہ محمدﷺ نے کیا کیا تھا اور کیا نہیں کیا تھا۔
۳-پھر یہ روایت کسی ایک راوی یا ایک سلسلۂ سند سے ہم تک نہیں پہنچی ہے،بلکہ متعدد طرق سے نقل ہوئی ہے۔ حالانکہ علمِ حدیث سے بیر رکھنے والے جاہلوں نے بے سر پیر کا دعویٰ کیا ہے کہ یہ تمام طرق ایک راوی حضرت عروہؒ بن زبیر یا حضرت ہشامؒ بن عروہ پر جاکر اکٹھا ہوجاتے ہیں اور اخیر عمر میں انہیں دماغی خلل لاحق ہوگیا تھا اور یہ روایت اسی آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔مگریہ سب واہیات اور بے بنیاد دعوے ہیں جن کی تائید میں کوئی صحیح حدیث تو کجا، کوئی ضعیف روایت یا حکایت بھی پیش نہیں کی جا سکتی ہے۔پھر ان لوگوں کا یہ طرزِ عمل کس قدر مضحکانہ ہے کہ ایک طرف سلسلۂ سند وروایت کا انکار کرکے اپنی عقل کو سپریم اتھارٹی باور کراتے ہیں، چاہے وہ سلسلۂ سند صحیحین کے ثقہ راویوں پر مشتمل کیوں نہ ہو، اور دوسری طرف کسی بھی ضعیف یا بے سند روایت کو خبرِ متواتر یا حجتِ قاطعہ بنا کر پیش کرنے لگ جاتے ہیں۔ہمارا کہنا ہے کہ بھائی! تم خدا ہو یا رسول ہو یا کیا ہوکہ تم جس روایت پر انگلی رکھ دو اسے ہم قبول کرلیں اور جس روایت کو گھور کر دیکھو وہ مردود ونامقبول سمجھی جائے۔دین میں شخصی پسند اور ناپسند صرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کی معتبر ہے اور حجت ودلیل ہے۔ورنہ ہر ایرے غیرے کی یہ حیثیت اور قدروقیمت نہیں کہ بے دلیل وحجت، بس اس کی پسند اور ناپسندکی بنیاد پر دین کی صورت گری کی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اماں جان حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث متعدد طرق وسلاسل سے منقول ہوئی ہے جس کی تفصیل اس مسئلے پر لکھی گئی تحقیقی کتابوں میں بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔مثلاً شیخ احمد شاکرؒ کی کتاب ’’تحقیق سن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا‘‘، ڈاکٹر محمد عمارہؒ کی کتاب ’’الرد علی من طعن فی سن زواج عائشۃؓ‘‘، ایمن بن خالد کی کتاب ’’السہام الرائشۃ للذب عن سن زواج السیدۃ عائشۃ‘‘ اور فہد الغفیلی کی کتاب ’’السنا الوہاج فی سن عائشۃ عند الزواج‘‘ کا اس موضوع کے حوالے سے مراجعہ کیا جاسکتا ہے۔
۴-شادی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عمر کی صراحت عینی شاہدین اور ایسے لوگوں نے بھی کی ہے جو اس وقت زندہ تھے اور کافی بعد تک زندہ رہے۔ اگر حضرت عائشہؓ کی بات غلط ہوتی تو یہ لوگ اس کی تردید فرماتے،مگر ان کی خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عائشہؓ کا بیان اپنی عمر کے تعلق سے ان لوگوں کے نزدیک درست ہے۔
امام احمدؒ نے اپنی مسند میں بہ سند ’’محمد بن بسر قال حدثنا محمد بن عمرو قال حدثنا أبو سلمۃ ویحییٰ‘‘ نقل کیا ہے کہ جب حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوگئی تو حضرت عثمانؓ بن مظعون کی اہلیہ حضرت خولہؓ بنت حکیم آئیں اور اللہ کے رسولﷺ سے کہا:’’آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ آپﷺ نے پوچھا:’’کس سے؟‘‘ انھوں نے بتایا:’’اگر کنواری شریکِ حیات مطلوب ہے توبتائیں اور شوہر دیدہ مطلوب ہے تو بتائیں۔‘‘ آپﷺ نے باکرہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ دنیا میں جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے یعنی حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی عائشہؓ۔‘‘[لما ہلکت خدیجۃ جائت خولۃ بنت حکیم امرأۃ عثمان بن مظعون قالت یا رسول اللّٰہ ألا تزوج قال من قالت إن شئت بکرا وإن شئت ثیبا قال فمن البکر قالت ابنۃ أحب خلق اللّٰہ إلیک عائشۃ بنت أبی بکر](مسند احمدؒ:۲۵۸۰۱)
آگے اسی روایت میں دیگر تفصیلات کے ضمن میں یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ عقد کے وقت وہ چھے سال کی اور خلوت کے وقت نوسال کی دوشیزہ تھیں۔’’سیر أعلام النبلائ‘‘ [۲/۱۱۳] میں امام ذہبیؒ نے اس روایت کی سند کو مرسل کہا ہے۔ جب کہ امام ابن کثیرؒ نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ [۳/۱۲۹] میں لکھا ہے کہ بہ ظاہر یہ مرسل روایت ہے،مگر حقیقتاً متصل ہے۔ امام ہیثمیؒ نے ’’مجمع الزوائد‘‘ [۹/۲۲۸] میں لکھا ہے کہ اس کا بیشتر حصہ مرسل ہے،اس کی سند میں محمد بن عمرو بن علقمہ ہیں جن کی توثیق کئی محدثین نے کی ہے،ان کے علاوہ بقیہ تمام رُوات ثقہ اور رجالِ صحیح ہیں۔ علامہ شعیبؒ الارناؤوط نے مسند احمدؒ [۶/۲۱۰] کی تحقیق کرتے ہوئے اس سند کو حسن درجے کی مانا ہے۔
۵-صحیحین کی روایت میں ام المومنین حضرت عائشہؓ نے اپنی عمر کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے،تمام تاریخی مآخذ میں اور جملہ راویانِ حدیث کی طرف سے اس پر اتفاق کیا گیاہے۔ تواریخ وسیر اور تذکرہ وتراجم کی کسی بھی کتاب میں اس کے خلاف کوئی ایک روایت،بلکہ کوئی ایک قول بھی نہیں ملتا۔پھر یہ معاملہ اجتہادی نوعیت کانہیں ہے کہ اپنے من سے کسی کی عمر گھٹا اوربڑھا دی جائے۔ جب صاحبِ معاملہ نے خود اپنے بارے میں ایک بات کی صراحت کر دی ہے تو دوسروں کو اس بارے میں تخمینے اور اندازے لگانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
۶-جملہ تاریخی مصادر ومراجع میں متفقہ طور پر یہ بات ملتی ہے کہ اماں جان حضرت عائشہؓ کی ولادت بعثتِ نبوی کے بعد ہوئی۔ چار سال یا پانچ سال؛ اس میں اختلاف ہوا ہے جیسا کہ علامہ ابن حجرؒ کا کہنا ہے۔اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر آٹھ یا زیادہ سے زیادہ نو سال ہونی چاہیے اور یہی صورتِ واقعہ ہے جو صحیحین میں مذکور ان کے بیان سے میل کھاتی ہے۔
۷-اسی طرح تمام تاریخی مصادر میں بلا استثناء یہ ذکر ملتا ہے کہ وفاتِ نبوی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر محض اٹھارہ برس تھی۔ اس اعتبار سے ہجرت کے وقت ان کی عمر نو سال ہونی چاہیے جو کہ صحیحین اور دیگر تاریخی مصادر میں موجود معلومات کے موافق ہے۔
۸-سیرت،تاریخ اورتراجم کی کتابیں بتاتی ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی وفات ترسٹھ سال کی عمر میں سن ۵۷ھ میں حضرت معاویہؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔اس لحاظ سے بھی حساب لگائیں تو ان کی عمر ہجرت کے وقت چھے یاسات سال بنتی ہے۔عربوں کی عادت تھی کہ اضافی ایام کو سال مان کر عمر جوڑدیتے تھے،اگر اس اعتبار سے عمر دیکھیں تو ہجرت کے وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ آٹھ سال بنتی ہے۔ہجرت کے آٹھ ماہ بعد ہی انھیں شرفِ خلوت نصیب ہوا، ایسے میں خود کار انداز میں ان کی عمر نکاح ورخصتی کے وقت بالترتیب چھے اور نو سال بن جاتی ہے۔
۹-یہی حقیقت ہے جو حضرت اسمائؓ اور ان کی عمر کے تفاوت پر بھی صادق آتی ہے۔ امام ذہبیؒ کے مطابق بڑی بہن ان سے تیرہ سے انیس سال تک بڑی تھیں۔ انھوں نے ’’بضع عشر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔(سیر اعلام النبلائ:۲/۱۸۸)حضرت عائشہؓ کی ولادت بعثتِ نبوی کے چار یا پانچ سال بعد ہوئی ہے۔امام ابو نعیمؒ نے ’’معرفۃ الصحابۃ‘‘ [۶/ ۳۲۵۳] میں حضرت اسمائؓ کا بیان نقل کیا ہے کہ وہ بعثتِ نبوی سے دس سال پہلے متولد ہوئی تھیں۔ اس لحاظ سے دونوں قابلِ احترام بہنوں کی عمر کا فرق چودہ یا پندرہ سال رہ جاتا ہے۔ یہی امام ذہبیؒ کے قول ’’بضعۃ عشر‘‘ سے مراد ہے اور اسی پر تمام تاریخی مصادر متفق ہو جاتے ہیں۔
عمرِ عائشہؓ کے مسئلے پر علامہ سید سلیمانؒ ندوی نے ایک مضمون لکھا تھا جو ان کی کتاب ’’سیرتِ عائشہؓ‘‘ میں بہ طورِ ضمیمہ شامل ہے۔اس رسالے میں انھوں نے اپنے معاصرین میں سے منکرینِ حدیث اور متجددین کے اُن مزعومہ دلائل کی خوب خبر لی ہے جن کی بنیاد پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر بڑی تھی۔ منکرین ومتجددین نے اس مسئلے کے بارے میں صاحبِ مشکوٰۃ ولی الدین خطیبؒ کے ایک رسالے’’الإکمال فی أسماء الرجال‘‘ کی ایک عبارت کو بہ طورِ دلیل وحوالہ پیش کیا ہے جس کے مطابق حضرت عائشہؓ اپنی بہن حضرت اسمائؓ سے دس سال چھوٹی تھیں۔(سیرتِ عائشہؓ:ص۳۱۶) اس عبارت کے بارے میں علامہ ندویؒ کا کہنا ہے کہ صاحبِ مشکوٰۃ نے اس رائے کو ’’قیل‘‘ کے صیغے سے پیش کرکے اس کے مجہول اور ضعیف ہونے کی جانب اشارہ کر دیا ہے، لیکن منکرین اور متجددین نے اسی قول کو اپنے حق میں دلیلِ قاطع بنا لیا ہے۔ ورنہ صاحبِ مشکوٰۃ ولی الدین خطیبؒ کی اپنی رائے اس باب میں وہی ہے جو عام علمائے دین کی رائے ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کا نکاح چھے سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نوسال کی عمر میں ہوئی تھی۔(سیرتِ عائشہؓ:ص۳۱۷)
۱۰-حضرت عائشہؓ کی عمر کا مسئلہ اکلوتا نہیں ہے، اگر یہ غلط ہے تو اس کے ساتھ بہت سارے شرعی احکام بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔بچیوں کا گڑیوں سے کھیلنا،گڑیوں کا انسانوں اور جانوروں کی شکل پر ہونا،کم عمر بیوی سے نکاح کرناوغیرہ وہ مسائل ہیں جن کا مأخذ ومنبع حضرت عائشہؓ کی ذاتِ گرامی ہی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر اٹھارہ سال تھی،تب کیا یہ مانا جائے گا کہ اٹھارہ سال کی جوان العمر لڑکی گڈے گڑیوں کا کھیل کھیلتی تھی، اس کے کھلونوں میں پروں والے گھوڑے ہوتے تھے، اس کے شوہر بچیوں کو اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے اس کے پاس بھیجتے تھے۔ کیا امؓ المومنین کے ساتھ اس سے بھونڈا بھی کوئی مذاق ہو سکتا ہے؟
علامہ سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے کہ احادیث میں صرف نو کا عدد نہیں ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ یہ انیس تھا اور راویوں یا کاتبوں نے اسے نو سمجھ لیا، بلکہ حضرت عائشہؓ نے اپنے نکاح کے وقت کے احوال بھی بیان کیے ہیں کہ وہ ہنڈولے میں جھولتی تھیں، گڑیاں کھیلتی تھیں اور ایک روایت میں ’’جاریۃ حدیثۃ السن‘‘ کے الفاظ بھی ہیں، یعنی طرح طرح کے الفاظ اور قرائن سے نکاح کے وقت ان کے چھوٹے ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔ (سیرتِ عائشہؓ:ص۳۴۱)
یہ سب وہ دلائل ہیں جن پر امت اعتقاد رکھتی آئی ہے۔ ان میں بھی پہلی دلیل ہی سب سے مضبوط اور فیصلہ کن ہے،باقی سب دلائل تاکیدی وتوثیقی نوعیت کے ہیں۔ دلیلِ صحیح اور اجماعِ علمائے امت سے یہی حقیقت ثابت ہوتی ہے۔
حقیقتاً اسلامی تاریخ میں یہ ہیر پھیر کرنے کی ضرورت بعض لوگوں کو اس لیے پڑ رہی ہے کیونکہ مغربی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر یہ نام نہاد مفکرین باور کر بیٹھے ہیں کہ نبیِ اکرمﷺ کا کم عمر لڑکی سے شادی کرنا ایک بڑے عار یا عیب کی بات ہے اور اب اس دھبے کو دھونے اور مٹانے کا کام اللہ تعالیٰ نے ان مدعیانِ علم وتحقیق کے سپرد کردیا ہے۔حالانکہ اس میں عار اور خرابی کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔جزیرۃ العرب ایک گرم آب وہوا کا خطہ ہے اور گرم ممالک میں عام طور سے بچے سنِ بلوغ کو جلد پہنچ جاتے ہیں اور نتیجے میں ان کی شادی بھی جلد کرنا پڑتی ہے۔ماضی قریب تک جزیرۃ العرب میں جلد شادی کرنے کا رواج عام تھا۔علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں کہ عربوں میں نہ صرف کمسن بچیوں کے نکاح کا رواج تھا، بلکہ شیر خوار بچوں کا بھی وہ نکاح کر دیتے تھے، بلکہ ان بچوں کا بھی ان کے ہاں نکاح کر دیا جانا عام تھا جو ابھی حالتِ حمل میں ہوتے تھے۔ سنن ابوداؤدؒ میں تو باقاعدہ ایک باب ’’باب فی تزویج من لم یولد‘‘ کے عنوان سے موجود ہے جس میں ان بچیوں کے نکاح کا تذکرہ ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ سیدؒ صاحب نے امام رازیؒ سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت امِ سلمہؓ کے کمسن لڑکے سلمہ کا نکاح حضرت حمزہؓ کی نابالغ لڑکی سے پڑھایا تھا۔ سیدؒ صاحب نے علامہ عینیؒ سے نقل کیا ہے کہ حضرت قدامہؓ بن مظعون نے حضرت زبیرؓ بن عوام کی نومولود لڑکی سے نکاح پڑھوایا تھا۔(مرجعِ سابق:ص۳۳۹)
پھر اس حوالے سے معاصر دنیا کی صورتِ حال کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔مختلف ممالک میں لڑکی سے رضامندی کا تعلق (The Age of Consent) قائم کرنے کے لیے مختلف عمر کو قانونی حیثیت دی گئی ہے۔ شمالی امریکہ، فلپائن اور انگولا میں یہ قانونی عمر بارہ[۱۲] سال ہے۔ جاپان، ایران، نائیجیریا اور ارجنٹائنا میں یہ عمر قانونی طور سے تیرہ[۱۳] سال ہے۔ جرمنی، آسٹریا، بلغاریہ، ہنگری، پرتگال، مقدونیہ، ایسٹونیا، البانیا، بوسنیا، اسرائیل، چین، بنگلہ دیش وغیرہ میں یہ عمر چودہ [۱۴]سال ہے۔پندرہ[۱۵] اور سولہ [۱۶]سال کی قانونی عمر تو آدھی سے زیادہ دنیا میں رائج ہے۔(Minimum age of sexual consent, http:www.unicef.org/lac/2-20160308.)یہ تو آج کی متمدن دنیا کے حالات وکوائف ہیں، جب کہ مختلف قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قانونی عمر کا تقرر بھی اچھی خاصی جدوجہد اور مغربی طاقتوں کے دبائو کا نتیجہ ہے۔
غلامی کے بارے میں کتبِ حدیث میں جو روایات نقل ہوئی ہیں، اگر ان کا تقابلی مطالعہ آج کے تصورِ آزادی سے کیا جائے گاتو پھر ہر کس وناکس کو اسلام پر اعتراض اور طعن کرنے کا موقع ملے گا، لیکن اگر احادیث میں وارد غلامی کے تصور کا اُسی دور کی معاصر قوموں میں رائج نظامِ غلامی سے تقابلی مطالعہ کیا جائے تو غلاموں کے سلسلے میں اسلام کا موقف سب سے بڑی نعمت اور سرتاسر رحمت معلوم ہوگا۔
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس دور میں نکاح اور شادی بیاہ کے بارے میں کلچر اور رسم ورواج کیا تھا، اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج کے رسوم ورواج اور ثقافت اور کلچر اس بارے میں کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ دونوں میں فرق ہے اور ہونا چاہیے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ہی چیز کو دیکھنے کے متعدد زاویے ہو سکتے ہیں۔ ایک ہی زاویے سے کسی بات کو دیکھ کر اس پر کوئی قطعی حکم لگادینا مناسب نہیں ہے۔دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ جس دور کی بات ہے اس دور کے حالات میں اتر کر اس بات کے بارے میں کوئی مثبت یا منفی تبصرہ کیا جائے۔
حضرت عائشہؓ کی عمر کے مسئلے پر بعض وہ لوگ بھی دین کی بدنامی کا حوالہ دیتے ہیں جن کی خود کی زندگیوں سے دینی علائم وشعائر تک غائب ہیں۔ انھیں دیکھنا چاہیے کہ یہ جو ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں بارہ، تیرہ، اور یورپ میں چودہ سال کی عمر میں ملکی قانون ودستور کے زیرِ سایہ ہورہا ہے، کیا یہ لوگ کبھی اس پر بھی سوال یا اعتراض کی جرأت کر سکتے ہیں کہ اتنی کم عمر میں شادی کیسے ممکن ہے۔ تیرہ یا چودہ سال کی لڑکی شادی کے قابل کہاں ہوتی ہے؟اگر ہوتی ہے تو کون اپنی بیٹی کا نکاح اس عمر میں کرنا پسند کرے گا؟یہ وہ طرزِ تکلم اور اندازِ گفتگو ہے جو عام طور پر اس حدیثِ پاک پر اعتراض کرنے والے اختیار کرتے ہیں۔حالانکہ اللہ کی قسم، اگر آج حبیبِ کبریا محمد مصطفیﷺ ہوتے تو آج بھی لاکھوں امتی اپنی کم عمر بیٹی کو آپﷺ کے نکاح میں دینا اپنی سعادت سمجھتے۔
تمھیں ایک عام انسان اور نبیِ کریم محمدﷺ میں فرق سمجھنا ہوگا۔ ایک امتی کا نبیِ کریمﷺ سے جو ایمانی تعلق ہے، اسے کسی مرشد اور پیر سے جذباتی تعلق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عائشہؓ جو خود اپنی کم عمری کی شادی کا تذکرہ کرتی ہیں، انھوں نے کبھی اس پر افسوس کا اظہار نہیں کیا کہ وہ نوسال کی عمر میں کیوں اللہ کے رسولﷺ کی زوجیت میں آئیں۔آج کوئی بھی مدعیِ اسلام اپنے گریبان میں جھانک کر خود سے سوال کرے کہ اگر بالفرض اللہ کے رسول ﷺ مجھ سے میری بیٹی مانگ لیتے تو میرا ردِ عمل کیا ہوگا۔ پھر یہ امربھی ملحوظ رکھو کہ تمہارا ایمان کسی بھی درجے میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عائشہؓ کے ایمان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ جس کا ایمان ابوبکرؓ جیسا ہو اس کا ردِ عمل کیا ہوگا؟ سچی بات یہ ہے کہ بعض سوالوں کا جواب صرف ایمانی ہوتا ہے جو صرف ایمان سے دیا جاسکتا ہے اور ایمان ہی کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔(دیکھیں مکالمہ،ڈاکٹر حافظ محمد زبیر:ص۷۶۳-۷۶۶)
پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض عورتیں اپنی جسمانی ساخت اور قد کاٹھی اور حیاتیاتی نشوونما میں مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ بچیوں کا جسم فربہ اورصحت مند ہوتا اور کم عمری کے باوجود وہ بالکل جوان العمر معلوم ہوتی ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کی دیگر تمام ازواجِ مطہراتؓ کے حال پر غور کرو۔ تم پائو گے کہ اللہ کے نبیﷺ نے حضرت عائشہؓ کے سوا کسی کنواری خاتون سے شادی نہیں کی۔ آپ ﷺ کی ہر زوجۂ مطہرہؓ شوہر دیدہ تھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے نکاح شہوانی جذبات کی تسکین یا نسوانی حسن وجمال سے حظ اٹھانے کے لیے نہیں ہوئے تھے۔ یہ پست مقاصد جس آدمی کے پیشِ نظر ہوتے ہیں وہ اپنی تمام بیویوں میں،یا اکثر بیویوں میں ظاہری حسن وجمال کے پہلو کو ترجیح دیتا ہے اور جنسی اپیل سے بھرپور کنواریوں سے اپنا حرم بھرتا ہے۔یہ سب وہ مادی اور فنا پذیر پیمانے ہیں جو ایسے شخص کے سامنے رہ سکتے ہیں۔ مگر اللہ کے رسولﷺ کی پوری زندگی اور آپﷺ کی تمام شادیاں ان مفروضات کی کھلی تردید کررہی ہیں۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وازواجہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔