محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)

محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)

محبتِ رسول ﷺ

ذکی الرحمٰن غازی مدنی

ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ اللہ کے رسولﷺ سے محبت رکھنے کا براہِ راست تعلق انسان کے ایمان کی تکمیل سے ہے۔ خود سرکارِ رسالتﷺ کی زبان سے اپنی محبت کا معنی ومفہوم جس جامعیت کے ساتھ منقول ہوا ہے وہ اپنے آپ میں کافی وشافی ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے کوئی فرد مومن نہیں ہو سکتا تاآنکہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور بقیہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ ‘‘ (صحیح بخاریؒ عن انسؓ) 

 اس طرح اللہ کے رسولﷺنے امت ِمسلمہ کو اپنی محبت کی تعلیم دی۔ دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمرؓ فاروق ترجمانِ حق کے لقب سے معروف ہیں اور متعدد بار آپﷺ کی موافقت میں قرآنِ کریم بھی نازل ہوا تھا۔ انھوں نے ایک مرتبہ اللہ کے رسولﷺ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ’’آپﷺمجھے میری اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے زیاد محبوب ہیں۔ ‘‘ یہ سن کر آپﷺ کاجواب تھا: ’’قسم اس ذاتِ برحق کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! نہیں، تاآنکہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجائوں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اب آپﷺ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ‘‘ تو ارشاد ہوا: ’’ہاں اب اے عمرؓ!ہاں اب اے عمرؓ!۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ) 

 حضرت ابوبکرؓ صدیق کو لیجئے جنہیں قرآنِ کریم نے ’’ثانی اثنین‘‘ (دو میں کا دوسرا) کے لقب سے یاد کیاہے۔ وہ مکی دور میں ایک روز کافروں کے بیچ اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ کفار اس کو برداشت نہ کر پائے اور انھیں بے پناہ زد وکوب کیا حتی کہ ان کے ہوش وحواس متاثر ہوگئے۔ بڑی مشکل سے جب ہوش آیا تو پہلی بات یہی زبان سے نکلی کہ دواعلاج سے پہلے مجھے اللہ کے رسولﷺ کا دیدار کرنا ہے۔

ان کی ماں انھیں لے کر دارِ ارقمؓ آئیں جہاں آپﷺ تشریف فرما تھے۔ آپﷺ کو دیکھتے ہی حضرت صدیقؓ کی زبان سے نکلا ہے کہ: ’’آپﷺ کا دیدار کرتے ہی میری ساری تکلیف دور ہوگئی۔ ‘‘ (البدایۃ النھایۃ: ۳/۲۹-۳۰) 

 اللہ ان سے راضی ہو۔ انھوں نے ساری اذیت وعذاب برداشت کیا، مگر دل میں یہی خیال رہا کہ اللہ کے رسولﷺ کو کوئی گزند نہ پہونچے۔ اور جب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر رسولِ خداﷺ کی سلامتی کا اطمینان کر لیا تب ہی ان کے دل کو آرام وراحت اور عافیت کا احساس ہوا۔ یہ کتنی سچی تصویر ہے اُس مخلصانہ محبت کی جو اللہ کے رسولﷺ کی سلامتی وحفاظت کو اپنی جان کی سلامتی وحفاظت سے بھی مقدم کردے۔ ان کی محبت کی مثال سے آنے والی نسلیں سیکھیں گی کہ محبتِ رسولﷺ کا عملی مظہر کیا ہوتا ہے۔ 

حضرت صدیقؓ کے اس رویہ میں حیرت وتعجب کی کوئی بات نہیں کہ انھوں نے ہی نے سب سے پہلے آپﷺ کی تصدیق کی تھی اور پھر بہترین طریقہ سے زندگی بھرآپﷺ کا ساتھ نبھایا تھا۔ آپؓ ہی سرکارِ رسالتﷺکے سچے دوست اور لائق ترین جانشین ہیں اورآپؓ کی پوری زندگی اور جملہ تصرفات وخواہشات اللہ کے رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے تابع وپابند رہے ہیں۔ 

 حیرت نہیں ہونی چاہیےکہ آپﷺ کی محبت ومودت کی راہ پر تمام صحابۂؓ کرام چلتے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان سبھی حضرات نے محبت ِ رسولﷺ کے ایک ہی منہج ومسلک کو اپنی زندگیوں میں تطبیق دیا تھا۔ ایک انصاری خاتونؓ جن کے باپ، بھائی، شوہر سب غزوۂ احد میں کام آجاتے ہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کی طرف سے لڑرہے تھے۔

جب انصاری خاتونؓ کوان کی شہادت کی خبر دی جاتی ہے تو ان کا سوال تھا کہ کیا اللہ کے رسولﷺ سلامت ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ وہ اپنے مصائب وآفات کو فراموش کر کے صرف یہی کہتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ کیسے ہیں ۔۔۔۔؟ جب لوگ ان سے کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺالحمد للہ خیریت سے ہیں، اس وقت وہ چین کی سانس لیتی ہیں اور آپﷺکو دیکھنے کی فرمائش کرتی ہیں۔ اور آپﷺ کو دیکھ کر ان کی زبان سے وہ تاریخی جملہ نکلتا ہے جو اس لائق ہے کہ سونے کے حرفوں میں لکھ کرجگہ جگہ آویزاں کیا جائے۔

اس ایک جملے میں انصاری خاتونؓ کے ایمان کی سچائی اور اللہ کے رسولﷺ کے لیے ان کی گہری محبت واضح نظرآتی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ: ’’اللہ کے رسولﷺ! آپ کے بعد ہر مصیبت آسان ہے۔ ‘‘ [کل مصیبۃ بعدک جلل] (غزوۃ أحد، ابو فارسؒ: ص۱۰۹) 

 انصاری خاتون کے اس عملی ایمانی نمونہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کی محبت کس قدر وسیع وہمہ گیر ہے۔ آج بھی ایسے واقعات کو پڑھتے ہوئے اس محبت کی عظمت وحرارت کا احساس ہوتا ہے اور معلوم پڑتا ہے کہ یہ سچی محبت پوری اسلامی تاریخ کوعطر بیز کیے ہوئے ہے۔ 

  حضرت غزیہؓ کو دیکھئے کہ ایک غزوہ میں اللہ کے رسولﷺ کی حفاظت کے لیے آپﷺ کے اوپر جھک کر ڈھانپ لیتے ہیں، تاکہ کفار کا پھینکا کوئی تیر بھی آپﷺ تک نہ پہونچ سکے۔ حضرت غزیہؓ کا پورا بدن تیروں سے چھلنی ہوتا رہا لیکن وہ بدستور اسی طرح جھکے رہے تاآنکہ روح نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا اور اسی حالت میں شہادت نصیب ہوگئی۔ (السیرۃ النبویۃ، عرض وقائع وتحلیل أحداث، علی الصلابی: ۲/۱۱۹) 

غزوۂ احد کا واقعہ ہے کہ حضرت طلحہؓ انصاری فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ! آپ سے پہلے میری گردن قربان ہوگی۔ اس غزوے میں اللہ کے رسول کے دفاع میں تیغ زنی کرتے ہوئے حضرت طلحہؓ کے ہاتھ شل ہوگیے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابودجانہؓ نے بھی یہی جملہ فرمایا تھا۔

ان کے ساتھ یہ ہوا کہ ایک تیر ٹھیک ان کی گردن میں پیوست ہوا جس سے ان کو شہادت نصیب ہوئی۔ حضرت قتادہؓ نے بھی جاں نثاری کا یہی جملہ دہرایا تھا، تو ایک تیر ان کی آنکھ میں لگا جس سے آنکھ کی گٹھلی باہر نکل آئی۔ اللہ کے رسولﷺ نے دستِ مبارک سے ان کی باہر نکلی آنکھ کو واپس اس کی جگہ لگا دیا۔ راوی کہتا ہے کہ بعد میں قتادہؓ کی یہ آنکھ بیحد حسین اور تیز بصارت والی ہوگئی۔ (السیرۃ النبویۃ، عرض وقائع وتحلیل أحداث، علی الصلابی: ۲/۱۳۷) 

 یہ چند اسمائے گرامی ہیں جن کا تذکرہ کیا گیا، ورنہ صحابہؓ کرام کی پوری جماعت کایہی حال تھا کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی خاطر جانیں قربان کرنے سے نہیں ہچکتے تھے۔ ان کی گفتگوکاعام اسلوب تھا کہ آپﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے کہ ’’میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں‘‘ اور یہ جملہ ان کے نزدیک حقیقی مفہوم رکھتا تھا۔ 

صحابہؓ کرام کا معمول تھا کہ وہ آپﷺ کی رضامندی اورراحت کاسبب بننے والے کسی بھی عمل میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھےاور انھیں ہرگز گوارا نہ تھا کہ اللہ کے رسولﷺ کو ان کے زندہ رہتے کوئی گزند پہونچے۔ یہی وہ مردانِ باوفا تھے جنہیں قرآن نے عہد کا پورا کرنے والا کہا ہے۔ 

 ان کی محبت ِ رسولﷺ کی سچائی کا ثبوت تھاکہ وہ اپنے اموال، اولاد اور جانوں تک کو اپنے محبوب رسولﷺ کی خاطر قربان کرنے میں دریغ نہ کرتے تھے۔ قافلۂ اسلام کی یہ پہلی کھیپ صدقِ وفا، ثبات واستقامت اور ایثار وقربانی کاعملی ترجمہ تھی۔ رضی اللہ عنھم اجمعین۔

 ان قدسی صفت نفوس نے رسول اللہﷺ کی محبت کی بہترین عملی تصویر رہتی دنیا کے سامنے رکھ دی ہے۔ ان کا ایمان تھا کہ ذاتِ رسالت مآب ﷺکے حقوق اہلِ ایمان پر اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ ہیں۔ ان کی ساری تگ ودو اورجہد وجستجو کا محور یہی تھا کہ کسی طرح ان کے تمام اعمال ومعاملات اللہ کے دین کے تابع ہوجائیں۔ ان کے نزدیک آپﷺ کی محبت اور حکمِ الٰہی دونوں کا امتثال اسی طور سے ممکن تھا۔

ارشادِ باری ہے: {قُلْ إِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ} (آلِ عمران، ۳۱)

’’اے نبی!لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘ 

چنانچہ صحابہؓ کرام کا معمول تھا کہ وہ ہر حالت میں، خواہ جنگ کی حالت ہو یا امن کی، منشائے رسالت کی تعمیل کو ہر آن مقدم رکھتے تھے۔ 

 سبھی سیرت نگاروں نے ذکر کیا ہے کہ قریش نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر بات چیت کے لیے جس قاصد کو بھیجا تھا اس کا نام سہیل تھا۔ یہ قاصد جس وقت آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ وضو فرما رہے تھے۔ اس نے دیکھا کہ صحابۂ کرام آپﷺکے وضو کا پانی اپنے جسموں پر مَل رہے ہیں۔

اس نے یہ ماجرا دیکھا اور واپس لوٹ کر قریشی سرداروں کے مجمع میں کہا: ’’اے اہلِ مکہ!تم کیسے امید لیے بیٹھے ہو کہ محمدؐ کا خون زمین پر بہا دوگے، حالانکہ میں نے دیکھا ہے کہ ان کے ساتھی ان کے وضو کا استعمال شدہ پانی بھی زمین پر بہنے نہیں دیتے۔ ان کے مابین محمدؐ کے وضو کا پانی لینے میں اس قدر ہوڑ ہوتی ہے کہ بسااوقات بات مخاصمت تک پہونچ جاتی ہے۔

اگر کسی کو محمدؐ کے وضوکا پانی نہیں مل پاتا، تووہ کسی ساتھی کے پانی میں بھیگے ہاتھ ہی کو اپنے بدن پرپھیر لیتا ہے۔ ‘‘ (مصنف عبدالرزاقؒ: ۹۷۲۰۔ سنن أبوداؤدؒ: ۲۷۶۵۔ صحیح بخاریؒ: ۲۷۳۴۔ مسند احمدؒ: ۱۸۹۲۸) 

حضرت علیؓ بن ابی طالب کہتے ہیں: ’’اللہ کے رسولﷺ ہمیں اپنے اموال واولاد اور والدین سے زیادہ محبوب تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ کہ جب کسی پیاسے کو لمبی مدت کے بعد ٹھنڈا پانی پینے کو دیا جائے۔‘‘ (شمائل، ترمذیؒ) 

 اللہ تعالیٰ کا درود وسلام ہو آپﷺپر کہ آپ رحمۃ للعالمین بنا کر دنیا میں مبعوث کئے گیے۔ اللہ رب العزت نے آپﷺ کو اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز کیاتھااور اہلِ ایمان کے لیے رحیم وشفیق باپ کی مانند بنایا تھا۔ {وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیْمٍ} (قلم، ۴) ’’اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبہ پر ہو۔ ‘‘

{لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْم} (توبہ، ۱۲۸) ’’دیکھو!تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کاوہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ ‘‘ 

 آپﷺکا یہ بلند مقام ومرتبہ ہونا حیرتناک نہیں ہے، کیونکہ اللہ رب العالمین نے آپﷺ کو دنیا جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجاہے اور خود، اور اپنے ملائکہ سے آپﷺ پر درود بھجوایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپﷺکے ذریعہ سے سابقہ تمام شریعتوں کو منسوخ قرار دیا، آپﷺکوشفاعتِ عظمیٰ سے نوازا اور وعدہ فرمایا کہ ان کی امت کے ساتھ اچھا معاملہ فرمائے گاجس سے آپﷺ راضی ہوں گے۔

ارشادِ باری ہے: {وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضَی} (ضحیٰ، ۵) ’’اور عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجائو گے۔ ‘‘ 

 ایسااس لیے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ سے مقامِ محمود اور حوضِ کوثرکی عطائی کا وعدہ فرمایا ہے اور وسیلہ کی وہ قسم عنایت فرمائی ہے جو صرف آپﷺ کے شایانِ شان ہوگی۔ خود اللہ رب العزت نے اپنے حبیبﷺ پر لامتناہی درود وسلام بھیجے ہیں جوقیامت تک جاری رہیں گے۔

مزید برآں آپﷺ پر درود وسلام بھیجنے کو ملائکہ کے لیے ایک عبادت قرار دیا ہے اور گروہِ مومنین کو بھی اس بارے میں ملائکہ کے اتباع کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: {إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْماً} (احزاب، ۵۶) ’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پردرود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود وسلام بھیجو۔ ‘‘ 

 امام مسلمؒ نے حضرت واثلہؓ بن اسقع سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اسماعیلؑ کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب کیا، پھر بنو کنانہ میں سے قریش کو منتخب کیا، پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب فرمایا اور پھر مجھ کو بنو ہاشم میں سے انتخاب کیا‘‘ ۔ (صحیح مسلمؒ۔ سنن ترمذیؒ) 

 اللہ کے رسولﷺ کی محبت وہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے حصول سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ اوران کے نہج اور طریقے پر چلنے والوں کے لیے اس محبت میں سرشار ہوکر جان ومال کی بڑی سے بڑی قربانی بے معنی اور بے اہمیت ہوجاتی ہے۔ یہ محبت ِ رسولﷺ کی چنگاری ہے جوبے دین وبد عمل مسلمان کو بھی اللہ کے رسولﷺ کے دفاع میں پیش پیش رہنے پر مجبور کردیتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی نیک عملی اور ایمانی کیفیت میں کمال وحسن اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے، جب کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی خاطر اپنے اہل وعیال اور ساری دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر راضی ہوجائے۔ ہر مسلمان مرد عورت سے مطلوب ہے کہ وہ اپنے ایمان میں حسن وکمال پیدا کرنے کی کوشش کرے اوراپنے فکر وعمل میں کسی قسم کے دینی نقص کو انگیز نہ کرے۔ واضح رہنا چاہیے کہ ایمان کا حسن وکمال پلک جھپکتے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا آغاز ظاہری خود سپردگی واطاعت سے ہوتا ہے۔

اگر انسان اپنے دعوائے ایمان میں سچا ہے اور اس نے اپنے وجود کو دینی تعلیمات کے تابع کر لیا ہے اوراس کے اعضاء وجوارح پرکلمۂ توحید اور شریعتِ محمدیہ کی حکومت قائم ہے، تو سمجھنا چاہیے کہ ایمان اس کے دل میں گھر کرگیا ہے۔ اس کے بعد ایمانی اصلاح وتربیت درکار ہوتی ہے جو قلب کی دنیا میں محبت ِ رسولﷺ کا اضافہ کرے اور ایسی ایمانی کیفیت پیدا کر دے جس میں انسان کا وجود اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت میں ڈوب جاتا ہے۔ 

 قرآنِ کریم متعدد مقامات پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر ایسے افراد ہوں گے جو زبانی دعوائے ایمان میں آگے رہیں گے لیکن حقیقتاً ایمان ان کے قلوب میں داخل نہیں ہوا ہوگا۔

{قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَإِن تُطِیْعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَا یَلِتْکُم مِّنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْْئاً إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ} (حجرات، ۱۴) ’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، اِن سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے۔ ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری اختیار کر لو تو وہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہ کرے گا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘ 

 ایمان کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب کہ حکمِ الٰہی کے بموجب اللہ کے رسولؓ کی محبت وتعظیم کی جائے۔ اللہ کے رسولﷺ کی تعظیم میں کسی قسم کے شرک یا ربوبیت کے اعتقاد کی آمیزش حرام اور اکبر الکبائر ہے۔ امام بخاریؒ کی صحیح میں آپﷺ کا ارشاد ہے: ’’حد سے زیادہ میری ثناخوانی مت کرو جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ کے ساتھ کیا۔ ‘‘ [لاتطرونی کما أطرت النصاریٰ عیسیٰ بن مریم] (صحیح بخاریؒ) مسند دارمیؒ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’مجھے حد سے زیادہ مت بڑھائو جیسا کہ نصاریٰ حضرت عیسیٰ کے ساتھ کرتے ہیں۔ ‘‘ (مسند دارمی) 

نصاریٰ کی گمراہی یہی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کو خدا، یا خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔

{لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَآلُواْ إِنَّ اللّہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَن یَمْلِکُ مِنَ اللّہِ شَیْْئاً إِنْ أَرَادَ أَن یُہْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ وَمَن فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً وَلِلّہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا یَخْلُقُ مَا یَشَاء ُ وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر} (مائدہ، ۱۷)

’’یقینا کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابنِ مریم ہی خدا ہے۔ اے محمدؐ!ان سے کہوکہ اگر خدا مسیح ابنِ مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کردینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟ اللہ تو زمین اور آسمانوں کا اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جو زمین اور آسمانوں کے درمیان پائی جاتی ہیں، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے۔ ‘‘ 

 {وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّہِ ذَلِکَ قَوْلُہُم بِأَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِؤُونَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَہُمُ اللّہُ أَنَّی یُؤْفَکُونَ} (توبہ، ۳۰) ’’اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ بے حقیقت باتیں ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ ‘‘ 

 {لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُواْ إِنَّ اللّہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلَـہٍ إِلاَّ إِلَـہٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَہُواْ عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ عَذَابٌ أَلِیْم} (مائدہ، ۷۳) ’’یقینا کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالاں کہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو دردناک سزا دی جائے گی۔ ‘‘

یہ غلط اعتقاد خود حضرت مسیحؑ پر ایک بہتانِ عظیم اور بڑا ظلم ہے اور اللہ رب العزت ایسے کسی بھی فاسد تصور سے برتر اور پاک ہے۔ ماہ ربیع الاول کا مہینہ ایک اچھا موقع ہے جس میں ہم اپنے ایمان کی تجدید کر سکتے ہیں اور اپنے اور اپنے بچوں کے قلوب کو محبت ِ رسولﷺ سے معمورکر سکتے ہیں۔

آپﷺ کی ولادت کا یہ مہینہ آپﷺ کی سیرت وعادات کے مطالعہ اوراتباع کے لیے بیحد سازگار ہے کہ اسی ماہ کی مبارک ساعتوں میں یہ کائنات پہلے پہل نورِ محمدی سے مستنیر ہوئی تھی اوروہ نبیِ رحمتﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے، جنھوں نے بھٹکتی انسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاکھڑا کیا۔ یہ ماہ اس مبارک تذکرہ کے لیے نہایت سازگار ہے، اگرچہ کسی مسلمان کو کسی وقت بھی محبت ِ رسولﷺ کے اکتساب واضافہ کی ضرورت سے استغنا نہیں ہوسکتا۔ 

 احادیث میں آیا ہے کہ کسی شخص نے پیر کے دن روزہ رکھنے کی بابت آپﷺسے سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا تھا: ’’یہی وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی تھی اور اسی دن مجھ پر وحی کے نزول کاآغاز ہواتھا۔ ‘‘ (سنن ترمذیؒ) اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خدائی افضال وانعامات کو ان کے ایام کے ساتھ یاد رکھنا مشروع ومستحسن ہوتاہے۔ 

وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ وسلم تسلیما کثیرا۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں