آج ملک و ملت دونوں خطرے میں
محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 6393915491
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ایک عالمی شخصیت کےحامل انسان تھے، وہ زمانہ شناس عالم دین تھے، ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لئے فکر مند اور ملت کی سربلندی کے لئے کوشاں رہتے تھے، ملت کے مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے ، مولانا نے کبھی حالات سے چشم پوشی اور خالص گوشہ نشینی اختیار نہیں کی ،جب بھی جو حکمت عملی ممکن ہوئی، اس کو اختیار کیا اور ملک و ملت کے مفاد میں اپنی آخری سانس تک کوشاں و پریشاں رہے ،مولانا اگر چاہتے تو آرام سے کسی گوشہ میں اپنا علمی اور تصنیفی کام کرتے ،مگر ملک و ملت، حقائق و واقعات اور حالات و مشاہدات نے ان کو مجبور کردیا کہ وہ مسلم اور غیر مسلم دانشوروں اور سماجی کام کرنے والوں کے ساتھ مل بیٹھ کر معاشرہ اور ملک کو تباہی اور اس کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے جس پر ہم سوار ہیں بے تکلفانہ تبادلئہ خیال کریں اور اس بحران Crisis سے کامیابی سے گزرنے کی تدبیریں سوچیں ۔
ہمارے ملک کی صورت حال اور بالخصوص مسلمانوں کے لیے اس ملک میں پھیلائی جانے والی منافرت اور مستقل چلائی جانے والی ہندو احیائیت کی تحریک سے مولانا ہر وقت مسلمانوں کے مستقبل کو لیکر کس قدر مضطرب و بے چین رہتے تھے، اس کا اندازہ ناگپور میں ایک ڈائیلاگ کے بعد پریس کانفرنس میں جو الفاظ ادا کیے ان سے ہوتا ہے ،،
آپ نے کہا تھا : کہ آپ اس ملک اور اس کے مستقبل کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے ،جہاں ایک خاندان کے بزرگ اپنے گھر کے بچوں کو دیکھ کر بجائے خوش ہونے کے فکر مند اور مغموم ہو جائیں ،یہ سوچ کر کہ معلوم نہیں کس وقت جنون کی کوئی لہر آئے اور ان کلیوں کو پھولنے سے پہلے مسل کر رکھ دے اور کہنے والے کو کہنا پڑے ۔
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
(کاروانِ زندگی ج،3ص،204)
ایک مرتبہ محترمہ اندرا گاندھی جی سے، ان کی وزارت عظمیٰ کے زمانہ میں جب ایمرجنسی نافذ تھی اور بعض جگہ اقلیتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوئی تھیں، مولانا نے بہت بے باکانہ انداز میں کہا تھا کہ اندرا جی !
اس سے زیادہ شرم کی کوئی بات نہیں کہ لوگ انگریزوں کے دور کو جو غلامی کا دور تھا یاد کرنے لگے ہیں ،مجھے یقین ہے کہ ہمارے جنگ آزادی کے رہنماؤں کو اس کا کسی وقت اندازہ ہوتا یا تصور بھی آتا کہ ملک کے آزاد ہونے کے بعد ایک ایسا وقت آسکتا ہے کہ ملک کے ذمہ داروں کی تنگ نظری اور غلط کاری کی بنا پر انگریزوں کی حکومت کا دور یاد آنے لگے گا اور وہ اس کی تمنا کرنے لگیں گے ،تو آپ یقین مانیے کہ ان کے عزم و ہمت اور جوش و خروش میں(جو ملک کو آزاد کرانے کے لیے ظاہر ہورہا تھا) کمی آجاتی ،اور ان کے دل اور قوت عمل( Vigour ) کو بڑھا دھکا لگتا ،اور ان کی تقریروں میں وہ زور اور ان کی جد و جہد میں وہ جوش و خروش نہ رہتا اور جنگ آزادی اس آسانی کے ساتھ اور نیک نامی کے ساتھ کامیاب نہ ہوتی اور اپنی منزل کو نہ پہنچتی جس پر پہنچی ۔۔ (کاروان زندگی 5/ 143-144)
مولانا نے آگے لکھا ۔۔۔
ایک ایسا زمانہ جس میں آدمی اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش نہ ہو ،اپنے مدرسوں اور کتابی ذخیروں کو دیکھ کر مطمئن نہ ہو ،اپنی محنتوں کے حاصل ،اور اپنے جوہر و قابلیت کے نتیجہ میں افتخار کیا ، اعتماد کا بھی جذبہ پیدا نہ ہو ،انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے مستقبل سے مشکوک و متردد ہو، اس میں زندگی کا کیا مزہ؟ اور ایسے ملک میں کس معنی میں آدمی اپنے کو آزاد شہری ،ملک کی زندگی میں دخیل اور اس کی تعمیر و ترقی میں شریک اور سرگرم ہو ؟ پوری انسانی تاریخ میں انسان کا ضمیر اس بات کو پکار پکار کر کہتا سنائی دیتا کہ غلامی سے بڑھ کر عیب و ذلت اور شرم کی کوئی بات نہیں ،خدا نہ کرے کہ ایسی عدالت قائم ہوکہ مجھے گواہ پیش کرنے کی نوبت آئے ،لیکن سیکنڑوں کو پیش کیا جاسکتا ہے ،جو یہ کہتے تو نہیں ہوں گے ،لیکن سوچتے ضرور ہوں گے ،گھر بیٹھ کر بھی باتیں کرتے ہوں گے ۔ (کاروان زندگی 5/ 143-144)
ایک موقع پر ملک و ملت دونوں خطرے میں اس عنوان پر خطاب کرتے ہوئے اپنے کلیجہ کو نکال کر رکھ دیا اور بہت ہی درد کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :
اس وقت ہمارا ملک اور ہماری ملت دونوں ایسے خطرات ومصائب اور ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہیں جو ملکوں اور ملتوں کی زندگی اور تاریخ میں بعض اوقات صدہا برس کے بعد اور بعض اوقات اس سے بھی زائد عرصہ کے بعد پیش آتی ہے، اگر اس کی جلد خبر نہ لی گئی تو پہلے یہ ملت اپنے تشخص، اپنی مذہبی آزادی، اپنی ثقافت وتہذیب اور اپنے عزیز سرمایہ (معابد ومدارس، علمی ذخیرہ اور زبان وادب) سے محروم ہوگی، پھر یہ وسیع اور شاندار ملک مکمل طریقہ پر تباہ ہوکر رہ جائے گا۔ بغض وعناد، بدگمانی اور بے اعتمادی کی فضا، انسانی جان اور عزت وآبرو کی بے وقعتی مردم آزاری وآدم بیزاری، عقل پر جذبات کی حکمرانی، دور اندیشی پر کوتاہ اندیشی کا غلبہ، ملکی مفاد پر ذاتی اغراض کی ترجیح، جذبات کے پیچھے بہہ جانے اور کھوکھلے نعروں کے پیچھے دیوانہ بن جانے کی عادت، ایک ایسا زہر ہے جو بڑی سے بڑی قوم اور ملک کی ہستی کا خاتمہ کردیتا ہے اور اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات، تنگ نظری، مفاد پرستی، حد سے بڑھا ہوا احساس برتری، جذبات سے مغلوب ہوجانے، روئی کی طرح جلد آگ پکڑ لینے اور بارود کی طرح بھک سے اڑ جانے کی صلاحیت، کسی ایک میدان میں محدود اور کسی ایک فرقہ کے ساتھ مخصوص نہیں رہ سکتی، نفرت واقتدار کی بڑھتی ہوئی ہوس کی آگ کو اگر جلانے کے لیے ایندھن نہ ملے تو وہ خود کو کھانے لگتی ہے۔
ملک کی سیاسی جماعتیں ہر مسئلہ کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنے، جماعتی نفع ونقصان اور انتخابات میں ہار جیت کے پیمانے سے ناپنے کی عادی اور پابند ہوچکی ہیں، وہ تخریب میں اپنی تعمیر، تفریق میں اپنا اتحاد اور دوسروں کے نقصان میں اپنا فائدہ اور اپنی ترقی سمجھتی ہیں۔ جس ملک میں انسانی جان اتنی ارزاں ہو کہ موہوم سیاسی مقاصد، محدود ذاتی اغراض اور عارضی اور مشکوک اقتدار کی خاطر سینکڑوں ہزاروں ہم وطنوں کی جان لی جاسکتی ہو، جہاں ایک نعرہ‘ ایک تقریر اور ایک اشتہار دیکھتے دیکھتے بیسیوں گھر بے چراغ اور سینکڑوں بچے اور عورتیں لا وارث کی جاسکتی ہوں، تنگ نظر اور مفاد پرست فرقہ وارانہ قیادت، احیاء پرستی کے جذبہ، غلط تاریخ اور غلط تعلیم وتربیت، غیر دیانت دار اور وطن دشمن صحافت (پریس) روزانہ نفرت وعداوت کے زہر کی ایک بڑی مقدار اس ملک کے علاقوں، کروڑوں باشندوں کے دل ودماغ میں اتارتی رہتی ہے، اس نے تصویر کا صرف ایک ہی رخ پیش کرنے کی قسم کھائی ہے، اس نے ہماری نئی نسل کے دماغوں کو اتنا مسموم کردیا ہے اور اس کو اتنا بے برداشت، غضب ناک اور زود رنج بنا دیا ہے اور اس میں مشتعل ہوجانے کی ایسی صلاحیت پیدا کردی ہے کہ سارا ملک بارود کی ایک سرنگ کی طرح ہوگیا ہے، جس کو ایک ذرا سے اشارے سے ہر وقت اڑایا جاسکتا ہے۔
اس سلسلہ کی ہندو احیائیت کی تحریک ہے، سینکڑوں اور ہزاروں برس کی سوئی ہوئی بلکہ مری ہوئی تاریخ کو دوبارہ جگانا اور زندہ کرنا، جو تبدیلیاں صدیوں پہلے (اچھی یا بری) ہوئیں اور ان کو اس ملک کے حقیقت پسند، فراخ دل اور غیرت مند شہریوں نے صدیوں گوارہ کیا، ان کے سفر کو پہلے قدم سے شروع کرنا اور ان کی تلافی کی کوشش اس ملک کو نئے مسائل ومشکلات سے دوچار کرے گی، جن کا مقابلہ کرنے کی اس ملک کو نہ فرصت ہے نہ ضرورت اور اسی طرح حکومت، انتظامیہ اور دانشور طبقہ کی توانائی بے محل صرف ہوگی، جس کی ملک کو اپنے تعمیری کاموں، سا لمیت اور استحکام میں ضرورت ہے۔ تاریخ ایک سویا ہوا شیر ہے، اس کو جگانا نہیں چاہیے، اس کے پاس سے خاموشی سے نکل جانا چاہیے، تاریخ کو الٹا سفر کرانا اور ماضی کے گڑھے ہوئے مردوں کو اکھاڑنے کی کوشش کرنا (عبادت گاہوں کی تبدیلی وغیرہ) کوئی عاقلانہ فعل نہیں ہے اور اس وقت ملک کو جن حقائق اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس میں اس کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے، اس سے ملک نئی نئی مشکلات اور غیر ضروری نزاعات میںپڑ جائے گا اور وہ ترقی پذیر زمانہ کا ساتھ نہیں دے سکے گا۔ (ماخوذ از؛ ملک وملت دونوں خطرے میں)
دوستو !
ضرورت ہے کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے جس درد کے ساتھ حکومت و قیادت اور ملک کے باشندوں کو خطاب کیا اور ملک کی صحیح صورت حال اور مستقبل کے خطرناک صورت حال سے متنبہ کیا ہم بھی پورے درد کے ساتھ سوز کے ساتھ تڑپ کے ساتھ اپنی بات رکھیں ، افراد سازی کریں لوگوں سے مل مل کر بتائیں کہ ملک اگر تباہ ہوگا پرباد ہوگا تو ہم سب بھی تباہ اور برباد ہو جائیں گے ۔۔۔
خدا کرے یہ باتیں ہماری سمجھ میں آجائیں اور ہم سب اپنی ذمے داریاں ادا کرنے کے لئے پورے طور پر اپنے کو تیار کرلیں ۔