نماز سے متعلق نئے مسائل (قسط2)

نماز سے متعلق نئے مسائل (قسط2)

 

نماز سے متعلق نئےمسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی
موبائل: 9451924242

21-گلوکوز چڑھانے کی حالت میں نماز

اگر گلوکوز چڑھانے کی حالت میں نماز کا وقت آجائے اور وضو کرنے کی وجہ سے مرض میں اضافہ یامرض سے افاقہ میں تاخیر ہونے کااندیشہ نہ ہو تو وضو کرکے رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے۔اور اگر وضو کی وجہ سے بیماری میں اضافہ یا افاقہ میں تأخیر کااندیشہ ہو تو تیمم کرکے رکوع وسجدہ کے ساتھ نمازپڑھے اور اگر اس پر قدرت نہ ہو تو پھر اشارہ سے نماز ادا کرلے اور قضا نہ کرے بلکہ وقت کے اندر جس طرح سے ممکن ہو پڑھے۔ (1)

(1) ان کان بحال لو قعد بزغ الماء من عینہ فامر الطبیب بالاستلقاء ایاما ونھاہ عن القعود والسجود فانہ یجزیہ ان یستلقی ویصلی بالایماء،( البحر:114/2) امر الطبیب بالاستلقاء لبزغ الماء من عینہ صلی بالایماء لان حرمۃ الاعضاء کحرمۃ النفس، (الدر المختار:۲/۱۰۳، باب صلاۃ المریض301/1،)

22-کرسی پر نماز

قیام، رکوع اورسجدہ نمازکے ارکان وفرائض میں سے ہے اور قدرت کے باوجود ان میں کسی کو چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوگی، البتہ اگر ان میں سے کسی کی ادائیگی پر قادر نہ ہو تو پھر وہ رکن ساقط ہوجائے گا، البتہ دوسرے رکن کو اس کے مطلوب طریقے پر ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ:
’صلی قائما فان لم تستطع فقاعدا فان لم تستطع فعلی جنب‘‘(صحیح بخاری :1117)
کھڑے ہوکر نماز پڑھو ،اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر پڑھو ۔اس لیے اگر کوئی شخص کھڑے ہونے پرقادر نہ ہو تواس کے لیے بیٹھ کر نماز اداکرنا درست ہے، قادر نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ کھڑے ہونے پر سر چکراتا ہو اورگرپڑنے کا خطرہ ہو یا بیماری کے بڑھ جانے یا صحت یابی میں تأخیر کا اندیشہ ہو یااس کی وجہ سے کسی جگہ شدید درد ہو یاکسی بھی حیثیت سے اس کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہو، محض معمولی مشقت یا پریشانی کی وجہ سے اس فریضے کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (الہندیہ 136/1)
بلکہ فقہا ء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی تھوڑی دیر بھی یہاں تک کہ تحریمہ کے بقدر بھی قیام پر قادر ہو تو اس کے لیے اتنی دیر تک کھڑا رہنا ضروری ہے، نیز اگر کسی چیز سے ٹیک لگاکر کھڑا ہوسکتا ہے تو اس کے سہارے کھڑا ہوناضروری ہے۔ (مراقی الفلاح:235.الہندیہ 132/1.ردالمحتار 565/2)
اوراگر کوئی شخص رکوع اور سجدہ پرقادرنہ ہو لیکن قیام پر قدرت رکھتا ہو تواس کے لیے بھی قیام فرض ہے، کیونکہ قیام ایک مستقل رکن ہے اورجس رکن کی ادائیگی پر قدرت حاصل ہو اسے ترک کرنا صحیح نہیں ہے، بعض فقہائے حنفیہ اسی کے قائل ہیں اور اما م شافعی اور احمد بن حنبل کایہی مسلک ہے، (المغنی:572/2)دلیل کے اعتبار سے یہی رائے زیادہ قوی ہے، اس کے برخلاف دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ نماز میں سجدہ اصل مقصود ہے اور قیام ا س کے لیے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اورجب مقصو د ساقط ہوگیا تو وسیلہ بدرجہ اولیٰ ساقط ہوجائے گا، اس لیے اس صورت میں قیام ضروری نہیں ہے لیکن اس بات کوثابت کرنا مشکل ہے کہ سجدہ مقصود اور قیام اس کے لیے ایک وسیلہ ہے، بلکہ نماز کاہر ایک رکن مقصود ہے۔
اگر کوئی شخص قیام پرقادر نہ ہو تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنا صحیح ہے اور اگر زمین پر بیٹھنے کی صورت میں اس کے لیے سجد ہ اداکرنا ممکن ہے تو کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا کرنا درست نہیں ہے اور اگر سجدہ کرنے کی قدرت نہ ہو توپھر کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، تاہم اس حالت میں بھی زمین پر بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے، کیونکہ رسول اللہؐ سے یہی ثابت ہے۔اور یہی نماز کے مقصود کے مناسب ہے ۔اور کرسی پر پڑھنا نماز کے اصل وضع کے خلاف ہے ۔
سجدہ پرقادر نہ ہونے کی صورت میں کرسی پر نماز پڑھنا درست ہے، لیکن اگر قیام و رکوع پر قدرت حاصل ہے تواسے مطلوبہ کیفیت پر ادا کرنا ضروری ہے۔
کر سی پر نماز پڑھنے کی صورت میں مناسب ہے کہ اسے صف کے بالکل آخر میں رکھا جائے نہ کہ درمیانِ صف میں، کیونکہ ایساکر نے میں بظاہر صف کٹ جاتی ہے اور بعض لوگ اس میں گرانی محسوس کرتے ہیں اور جماعت کے دوران نمازیوں کو تنگی میں مبتلا کرنا درست نہیں۔

23-اسٹول پر سجدہ

اگر کوئی شخص زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ عذر اور مجبوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہے اور سامنے اسٹول وغیرہ رکھ کر اس پرسجدہ کرنا چاہتا ہے تو اس کی اجازت ہوگی، چنانچہ حضرت ام سلمہؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ آشوبِ چشم کی بیماری میں مبتلا تھیں جس کی وجہ سے پورے طور پر سجدہ نہیں کرپاتی تھیں تو سامنے تکیہ رکھ کر اس پر سجدہ کیا کرتی تھیں۔
’’عن الحسن عن امہ قالت رأیت ام سلمۃ زوج النبی ﷺ تسجد علی وسادۃ من ادم من رمد بھا‘‘(السنن الکبریٰ للبیہقی::3489نیز دیکھئے مصنف عبدالرزاق 4145۔ )
حضرت حسن بصری اپنی والدہ سے نقل کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے آنحضرت کی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ کو آشوب چشم کی وجہ سے چمڑے کے ایک تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔
بعض روایتوں میں جو اس کی ممانعت آئی ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو اٹھاکر اپنی پیشانی اس سے لگالی جائے لیکن اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھ دی جائے اور اس پر سجدہ کیاجائے تواس میں کوئی حرج نہیں بلکہ باعث ثواب ہے کہ اس نے ممکن حد تک اشارہ کے بجائے سجدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ (1)
بلکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی معذور اتنا سر جھکانے پر قادر نہ ہو جو زمین سے دواینٹ (۹؍انچ)کے بقدر ہو تو اس پر قادر ہونے کی حالت میں کوئی ٹھوس چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کرنا لازم ہے، کیونکہ ۹؍انچ کے بقدر اونچی جگہ پر سجدہ کرنا بھی حقیقی سجدہ کہلا تا ہے اور جب کوئی حقیقی سجدہ پر قادر ہو تو اس کے لیے اشارہ درست نہیں ہے۔ (2)

(1)ھذا محمول علی ما اذاکان یحمل الی وجہہ شیئا یسجدعلیہ بخلاف ما اذا کان موضوعا علی الارض، یدل علیہ ما فی الذخیرۃ حیث نقل عن الاصل الکراھۃ فی الاول ثم قال فان کانت الوسادۃ موضوعۃ علی الارض وکان یسجد علیھا جازت صلاتہ۔ ( ردالمحتار:568/2) وان وضع بین یدیہ وسادۃ او شیئا عالیاجاز اذا لم یمکنہ تنکیس وجھہ اکثرمن ذالک وحکی ابن المنذر عن احمد انہ قال اختار السجود علی المرفقۃ وھو احب الی من الایماء وکذالک قال اسحاق، وجوزہ الشافعی واصحاب الرای ورخص فیہ ابن عباس وسجدت ام سلمۃ علی مرفقۃ…وجہ الجواز انہ اتی بما یمکنہ من الانحطاط فاجزاہ کما لو اومأ فاما ان رفع الی وجھہ شیئا فسجد علیہ فقال بعض اصحابنا لایجزیہ وروی عن ابن مسعود وابن عمر وجابروانس انھم قالوا یومی ولایرفع الی وجہہ شیئا۔(المغنی 576/2)
(2)دیکھئے : ردالمحتار 569/2.الہندیہ 136/1)

24-موبائل بند کرنا

ٹیلیفون کا جواب دینے کے لیے نماز توڑنا درست نہیں ہے، کیونکہ کسی شدید مجبوری ہی میں نماز توڑ ی جاسکتی ہے، اس کے بغیر نہیں، جیسے کہ کسی کے چھت سے یا گڈھے میں گرجانے کا یا آگ وغیرہ لگ جانے کااندیشہ ہو، فون کے ذریعے عام طور پر اس طرح کی چیزوں کے بارے میں اطلاع نہیں دی جاتی اور اگر دی بھی جائے تو فوری طور پر نماز توڑ کر کوئی مدد بھی نہیں کی جاسکتی، اس لیے محض گھنٹی کی آواز سن کر نماز ختم کردیناجائز نہیں۔
اور اگر بہت زیادہ عمل اور حرکت کے بغیر اسے بند کیا جاسکتا ہو تو بند کردینا چاہیے تاکہ اس کی اور دوسرے لوگوں کی یکسوئی اورخشوع و خضوع متاثر نہ ہو۔
بہت زیادہ عمل اور حرکت کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ گمان ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے، اگر کوئی شخص ایک ہاتھ باندھے ہوئے دوسرے ہاتھ سے موبائل بند کردے تو دیکھنے والوں کو یہ خیال نہیں ہوگا کہ وہ نماز میں نہیں ہے، اس لیے اگر اس طرح سے موبائل کی گھنٹی کو بند کر سکتا ہو تو کرلینا چاہیے۔اور اگر معمولی عمل کے ذریعے موبائل کو بند کرنا ممکن نہ اور گھنٹی کی آواز ایسی ہو کو خود اس کو اور دوسرے نمازیوں کو وحشت ہورہی ہو اور نماز میں خلل پیدا ہورہا ہے تو نماز توڑ کر اسے بند کردینا چاہئے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ:
” إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ (صحيح بخاري:5463.صحيح مسلم: 557.ترمذي:353)
جب شام کا کھانا آجائے اور نماز کے لئے اقامت کہی جائے تو پہلے کھانا کھالو ۔
امام ترمذی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومَ الرَّجُلُ إِلَى الصَّلَاةِ وَقَلْبُهُ مَشْغُولٌ بِسَبَبِ شَيْءٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : لَا نَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَفِي أَنْفُسِنَا شَيْءٌ.
صحابہ کرام اور تابعین وغیرہ نے حدیث سے یہ مراد لیا ہےکہ کوئی نماز کے لئے اس وقت کھڑا نہ ہو جب کہ اس کا دل کسی چیز میں مشغول ہو اور حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ ہمیں اس حال میں نماز میں نہیں کھڑا ہونا چاہیے جب کہ ہمارے دلوں میں کچھ ہو۔
اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ "
(صحيح مسلم:560 ۔ ابوداؤد:89)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ کھانے کی موجودگی میں اور پیشاب پاخانہ کے شدید تقاضے کے وقت نماز نہیں ہے ۔
اس حدیث کی شرح میں لکھا گیا ہے کہ ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ دل اس میں اٹکا ہوا ہوگا اور خشوع وخضوع باقی نہیں رہیگا اور اس کے حکم میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو دل کو مشغول کردیں اور کمال خشوع باقی نہ رہے ۔(1)
اور ان احادیث کی روشنی میں فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر نماز شروع کرنے کے بعد بھی ضرورت کا تقاضا ہونے لگے تو وقت میں گنجائش ہوتو نماز توڑ کر پہلے ضرورت پوری کرے ۔اور زیادہ بہتر اور مناسب طریقہ یہ ہے کہ نماز کے وقت موبائل کو بند کر دیا جائے یا سائلنٹ موڈ پر کردیا جائے ۔

(1)لاشتغال القلب به وذهاب الخشوع، ويلحق به كل ما هو في معناه مما يشغل القلب ويذهب كمال الخشوع، (عون المعبود )
(2)وصلاته مع مدافعة الاخبثين او أحدهما … سواء كان بعد شروعه او قبله فان شغله قطعها ان لم يخف فوت الوقت (رد المحتار 408/2)

25-لاؤڈاسپیکر، ریڈیویا ٹیلی ویزن کے ذریعے اقتداء

اقتداء جائز ہونے کے لیے شر ط ہے کہ امام اور مقتدی کی صفوں میں اتصال ہو، اس لیے فقہاء نے لکھاہے کہ اگر امام اورمقتدی کے درمیان کوئی گذرگا ہ یا نہر وغیرہ حائل ہو تو اقتداء درست نہیں ہے، (دیکھئے: الہندیہ 87/1) اس لیے اگر صف متصل ہو تو پھر لاؤڈاسپیکریا ٹیلی ویژن کے ذریعے اقتدا ء درست ہے، جیسے کہ مسجد کی دوسری منزل پر یا مجمع زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹیلی ویژن لگادیا جائے جس کے ذریعے براہ راست امام کی نقل وحرکت اور آواز پہنچتی رہے۔
لیکن اگر صف میں اتصال نہ ہوتو اقتدا ء درست نہیں ہے، جیسے کہ کوئی اپنے گھر میں ہو اور لاؤڈاسپیکر یاریڈیو کے ذریعے امام کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو یا ٹیلی ویژن اسکرین پر امام کی نقل وحرکت دکھائی دیتی ہو اور وہ گھر میں رہتے ہوئے اس کی اقتداء میں نماز شروع کردے تو یہ درست نہیں ہے، کیونکہ جماعت کے لیے یہ ضروری ہے کہ امام کے ساتھ شریک مانا جائے اور امام و مقتدی کے درمیان دو صف کے بقدر فاصلہ نہ ہو اور اگرمسجد میں نماز ہورہی ہو تو وہ مسجد میں حاضر ہو، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’’من سمع النداء فلم یاتہ فلاصلاۃ لہ الا من عذر‘‘(ابن ماجہ:793)
جو شخص اذان کی آواز سنے اور مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو ۔
یاد رہے کہ امام کی نقل و حرکت کی اطلاع کے لئے مکبر یا لاؤڈ اسپیکر کافی ہے اس کے لئے ٹی وی وغیرہ کے لگانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لگانے میں کراہت ہے .

26-بیڑی اور سگریٹ وغیرہ پینے کے بعد جماعت میں شریک ہونا

بیڑ ی اور سگریٹ وغیر ہ پینے والوں کی منہ کی بدبو دوسروں کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے، اس لیے ایسے لوگوں کاجماعت میں شریک ہونامکروہ ہے، انہیں چاہیے کہ منہ کو خوب اچھی طرح سے صاف کرلیں اور اس کی بدبو زائل ہونے کے بعد ہی مسجد میں داخل ہوں کیونکہ کیونکہ حدیث میں پیاز اور لہسن کھانے والوں کو مسجد میں آنے سے منع کیاگیا ہے حالانکہ ان کی بد بو بیڑی کی بدبو سے کمتر ہوتی ہے، حضرت جابربن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ:
’’من اکل ثوماً او بصلا فلیعتزل مسجدنا ولیقعد فی بیتہ‘‘(صحیح بخاری:855.مسلم : 564)
جو کوئی لہسن یا پیاز کھالے تو وہ ہماری مسجد سے دور رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے ۔
اور فقہاء کرام لکھتے ہیں:حدیث میں جن چیزوں کی صراحت کی گئی ہے ان کے ساتھ ان چیزوں کو بھی لاحق کر دیا جائے گا جن میں ناگوار بدبو ہو خواہ وہ کھانے کی چیز ہو یا اس کے علاوہ اور بعض لوگوں نے اسی کے حکم میں اس کو بھی رکھا ہے جس کے منہ یا اس کے زخم سے بدبو آتی ہو (1)

(1)’’ویلحق بما نص علیہ فی الحدیث کل مالہ رائحۃ کریھۃ ماکولا وغیرہ، وکذالک الحق بعضھم بذالک من بفیہ بخراوبہ جرح لہ رائحۃ۔ (رد المحتار 435/2)

27-متعدی امراض کے حامل شخص کا جماعت میں شریک ہونا:

متعدی امراض جیسے کوڑھ وغیرہ میں مبتلا شخص کو جماعت میں شریک ہونے سے احتیاط برتنا چاہیے، اسی طرح سے ایسے شخص کو بھی جو کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس سے لوگ گھن محسوس کرتے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے کوڑھ میں مبتلا عورت کوطواف کرتے ہوئے دیکھ کرفرمایا:
’’یا امۃ اللہ لاتوذی الناس لوجلست فی بیتک، ففعلت ومربھا رجل بعد ذالک فقال لھا ان الذی نھاک قد مات فاخرجی فقالت ماکنت لاطیعہ حیاً واعصیہ منھا‘‘(المؤطا 424/1)
اللہ کی بندی ! لوگوں کو تکلیف مت پہونچاؤ ۔کاشکہ تم اپنے گھر میں رہتی ۔ اس خاتون نے ان کے حکم پر عمل کیا ۔کچھ عرصہ کے بعد ایک شخص اس کے پاس آیا اور کہا جس شخص نے تمہیں طواف سے روکا تھا وہ دنیا سے جاچکا ہے اس لئے اب تم جاکر طواف کرو ۔اس خاتون نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ میں ان کی زندگی میں ان کی اطاعت اور مرنے کے بعد ان کی نافرمانی کروں ۔
اورپیازکھاکر آنے کی ممانعت سے متعلق احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ:
اور بعض لوگوں نے اس کے حکم میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جن کے منہ یا زخم سے بدبو آتی ہو اور اسی طرح سے گوشت اور مچھلی بیچنے والے اور کوڑھ سفید داغ کے مریض کا بدرجہ اولی یہی حکم ہے ۔(1)

(1)’’وکذا الحق بعضھم بذالک من بفیہ، بخراوبہ جرح لہ رائحۃ وکذالک القصاب والسماک، والمجذوم والابرص اولیٰ بالالحاق‘‘(رد المحتار 435/2)

28-ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے تلاوت پر سجدۂ تلاوت

آیت سجدہ کے سننے والے پر سجدۂ تلاوت اسی وقت ہے جب وہ اسے کسی باشعور انسان سے سنے، اس لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر کسی پرندے کو آیت سجدہ سکھادی جائے یا صدائے بازگشت کے ذریعے سجدہ کی آیت سن لے توسجدہ واجب نہیں ہے۔(1)ٹیپ ریکارڈ ایک بے جان مشین ہے جو شعور واحساس سے عاری ہے، اس لیے اس کے ذریعے آیت سجدہ کی تلاوت سننے سے سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔

(1)’’انہ لایجب بالسماع من مجنون اونائم اوطیرلان السبب تلاوۃ صحیحۃ وصحتھابالتمییز ولم یوجد(ردالمحتار 581/2)

29-ریڈیواورٹی وی کی تلاوت

ریڈیو یاٹی وی کے ذریعے براہ راست کسی قاری کی تلاوت نشر کی جارہی ہو تواس کے ذریعے آیت سجدہ کے سننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہے، کیونکہ وہ ایک باشعور شخص کی تلاوت ہے اور اگر براہ راست نشر نہیں کیاجا رہا ہے بلکہ محفوظ کردہ تلاوت کی کیسٹ چلائی جارہی ہو تو سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہے اور اگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ براہ راست یا ریکارڈ کردہ تلاوت نشر کی جارہی ہے تواحتیاطاً سجدۂ تلاوت کرلینا چاہیے۔

30-الکٹرانک محراب

آج کل ایک ایسا محراب دستیاب ہے جس میں الکڑانک اسکرین لگی ہوتی ہے، جسے آن (On) کرنے پر بڑے حروف میں قرآن کا ایک صفحہ کھل جاتا ہے جسے دومیٹر کی دوری سے بھی نمازی آسانی سے پڑھ سکتا ہے اورصفحہ پلٹنے کے لیے بائیں ہاتھ میں گھڑی نما ایک مشین پہن لی جاتی ہے، جس کے بٹن کو دائیں ہاتھ سے دبانے پر پہلا صفحہ ہٹ جاتا ہے اور دوسرا ظاہرہوجاتا ہے، ا س میں پارہ یا سورہ کو منتخب کرنے کی بھی سہولت ہوتی ہے، کیا اس طرح کے الکٹرانک محراب کو گھروں یا مسجدوں میں استعمال کرنا اور نماز میں اس میں سے دیکھ کر قرآن پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
جواب یہ ہے کہ اس طرح کے محراب کولگانا اوراس میں سے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنادرست نہیں ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
’’صلوا کمارأیتمونی اصلی‘‘(صحیح بخاری:631)
ویسے ہی نماز پڑھو جیسے تم لوگوں نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔
اوراللہ کے رسولﷺ کی حیات مبارکہ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ آپؐ نے کبھی نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھا ہو، اور نہ ہی ایسا کرناکسی صحابی سے ثابت ہے، حالانکہ ابتدائی دور میں اس کی ضرورت بھی تھی کیونکہ نئے مسلمان ہونے والوں کو قرآن یاد نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے انہیں قرآن کی جگہ ۔الحمد للہ ، اللہ اکبر لاالہ الااللہ کہنے کا حکم دیا گیا( فَإِنْ كَانَ مَعَكَ قُرْآنٌ فَاقْرَأْ، وَإِلَّا فَاحْمَدِ اللَّهَ وَكَبِّرْهُ وَهَلِّلْهُ، ترمذی :302)لیکن قرآن سے دیکھ کر پڑھنے کی گنجائش فراہم نہیں کی گئی۔
اورحضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ:
نھانا امیرالمومنین عمر ان یوم الناس فی المصحف(کتاب المصاحف لابی داؤد :189)
امیرالمومنین حضرت عمر نے ہمیں قرآن میں سے دیکھ کر امامت کرنے سے منع کیا ہے ۔
اور حضرت عمار بن یاسرؓ کے متعلق منقول ہے کہ:
کان یکرہ ان یوم الرجل باللیل فی شھررمضان فی المصحف ھو من فعل اھل الکتاب(تاریخ بغداد 120/9)
وہ رمضان میں قرآن دیکھ کر تراویح پڑھانے کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ یہود ونصاریٰ کا طریقہ ہے ۔
مشہور تابعی حضرت مجاہد اورابراہیم نخعی سے بھی منقول ہے کہ نماز میں قرآن سے دیکھ کر پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ اہل کتاب کے ساتھ مشابہت ہے۔ (کتاب المصاحف:190)
نیز نماز میں مطلوب یہ ہے کہ قیام کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ ہو، اور قرآن سے دیکھ کر پڑھنے میں نظر اس پر ٹکی ہوگی، چنانچہ اللہ کے رسولﷺ کے متعلق منقول ہے کہ:
’’اذا صلی طاطأ راسہ ورمی ببصرہ الی الارض‘‘ (اصل صفۃ صلاۃ النبی 230/1)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا سر جھکالیتے اور اپنی نگاہ زمین کی طرف کرلیتے ۔
علاوہ ازیں اس کی اجازت دینے میں حفظ قرآن کے ساتھ بے اعتنائی پائی جائے گی اور حفظ کے رجحان میں کمی آئے گی ۔

31-رکعات کی تعداد بتانے والا مصلیٰ

بعض ایسے مصلے بنائے گئے ہیں جس میں سجدے کی جگہ پرایک مشین فٹ ہوتی ہے اور اس کے کنارے ایک چھوٹی سی اسکرین لگی ہوتی ہے جس کے ذریعہ سجدوں اور رکعات کی تعداد معلوم ہوتی ہے، کیااس مقصد کے لیے اس طرح کے جائے نماز کا استعمال درست ہے ؟
عبادتوں کے سلسلے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس میں اصل شریعت کی اتباع، آسانی اور سہولت کاحصول میں تکلف سے احتراز ہے اور نماز کامقصد اللہ کا ذکر اور اس سے تعلق کی مضبوطی ہے اور اس کاتقاضا ہے کہ انسان مکمل طور پر نماز میں حاضر رہے اور ادھر ادھر کے خیالات میں الجھانہ رہے، حضرت عمار بن یاسرؓ کہا کرتے تھے:’’لایکتب للرجل من صلاتہ ما سھاعنہ‘‘(کتاب الزھد لابن مبارک:1300)
کسی کی نماز کا وہ حصہ نہیں لکھا جائے گا جسے اس نے غفلت کی حالت میں گزارا ہے ۔
اور اگرکبھی ذہن بھٹک جائے اور اس کی وجہ سے سجدے یارکعات وغیرہ کی تعداد میں شک ہوجائے تو احادیث میں اس کی تلافی کی صورت مذکور ہے کہ غور و فکر کرنے کے بعد ظن غالب پرعمل کرے اور اگر کسی پہلو پر غالب گمان نہ ہو تو پھر یقین پر عمل کر ے، جیسے کہ یہ شک ہوجائے کہ اس نے دورکعت کی پڑھی ہے یا تین رکعت اور غور و فکر کے ذریعے کسی ایک کا گمان غالب ہوجائے تو اس پر عمل کرے، ورنہ اسے دو رکعت مان کر بقیہ مکمل کرے، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا شک احدکم فی صلاتہ فلم یدرکم صلی ثلاثا او اربعاً فلیطرح اشک ولیبین علی ما استیقن ثم یسجد سجدتین قبل ان یسلم فان کان صلی خمسا شفعن لہ صلاتہ وان کان صلی اتماما لاربع کانتا ترغیما للشیطان۔ (صحیح مسلم:۵۷۱)
اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے اور پتہ نہ چلے کہ بس نے تین رکعت پڑھی ہے یا چار ۔تو وہ شک کو ایک طرف کرکے یقین پر عمل کرے اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔اگر بس اس نے پانچ رکعت پڑھ لی ہے تو یہ دوسجدے اس ک جفت بنا دیں گے اور اگر چار رکعت ہی پڑھی ہے تو یہ دوسجدے شیطان کی ناک کو مٹی میں ملا دیں گے ۔
اس طرح کے مصلے پر نماز پڑھنے سے نمازکامقصد فوت ہوجائے گا اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے یکسوئی کی کیفیت برقرار نہیں رہے گی نیز یہ نماز کے باہر سے تلقین اور تعلیم ہے اور ایسا کرنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے عام حالات میں اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
البتہ اگر کوئی شک کا اس درجہ مریض ہوجائے کہ اسے تعدادبالکل یاد نہ رہے تو پھراس کے لیے اس کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے(1)

(1)ولواشتبہ علی مریض اعداد الرکعات والسجدات لنعاس یلحقہ لایلزمہ الاداء ولوادھا بتلقین غیرہ ینبغی ان یجزیہ‘‘( ردالمحتار:571/2)

32-مسجد میں ہیٹر رکھنا

مجوسی قوم آگ کی پوجا کرتی ہے اس لیے ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے آگ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے (1) جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورج نکلتے اور ڈوبتے ہوئے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ مشرک اس وقت اس کی پوجا کرتے ہیں، نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘(ابوداؤد:4031)
جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انھیں میں سے ہے ۔
اس لیے سردی سے بچنے کے لیے نمازی کے سامنے اس طرح کا ہیٹر رکھنا جو گرم ہونے کے بعد آگ کی طرح معلوم ہومکروہ ہے۔

(1)ان بعضهم قال تكره الى شمع او سراج كما لو كان بين يديه كانون فيه جمر او نار مؤقدة .ظاهره ان الكراهة في المؤقدة متفق عليها كما في الجمر.(رد المحتار 423/2)

33-ویڈیو کالنگ کے ذریعے مریض کی عیادت

مریض کی عیادت ایک عبادت ہے اور ایک مسلمان کا یہ حق ہے کہ جب وہ بیمار ہو تو دوسرا مسلمان اس کی عیادت کو جائے (دیکھئے صحیح بخاری ومسلم وغیرہ )
اور حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” فُكُّوا الْعَانِيَ ، وَأَجِيبُوا الدَّاعِيَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ "(صحيح بخاري:5174)
قیدی کو چھڑاؤ دعوت قبول کرو اور مریض کی عیادت کرو۔
اور حضرت ثوبان سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ عَادَ مَرِيضًا لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ (صحيح مسلم:2568)
جو کوئی کسی مریض کی عیادت کے لئے جائے تو وہ جنت کے پھلوں میں رہتا ہے یہاں تک کہ واپس آجائے
.اور حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ ". (ترمذی: 969)
جو کوئی کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح میں جاتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور جو کوئی شام میں عیادت کے لئے جاتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور جنت میں اس کے لئے ایک باغ ہوگا ۔
ویڈیو کالنگ کے ذریعے مریض سے گفتگو کرنے اوراسے دیکھنے کی وجہ سے بھی عیادت کا اجرو ثواب حاصل ہوسکتا ہے، کیونکہ عیادت کا مقصد ہے مریض اور اس کے گھر والوں کی دلجوئی اور تسلی اوراس کے دکھ درد میں شرکت ، اظہارہمدردی اوراسے دیکھنا اور اس کے لیے دعا کرنا، یہ تمام چیزیں ویڈیو کالنگ کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں، اس لیے اس پر عیادت کے اجرو ثواب کی امید کی جاسکتی ہے، یہ اور بات ہے کہ ہسپتال یا اس کے گھرجاکر براہِ راست عیادت کرنے کا ثواب اس سے زیادہ ہے۔ اور حدیث میں مذکور خاص ثواب کا مستحق وہی ہے

34-مریض کو پھول پیش کرنا

مریض کی عیادت کے وقت پھول لے جانے کا رواج بڑھتا جارہا ہے، یہ مغرب سے آئی ہوئی رسم ہے جس سے مریض کا کوئی فائدہ متعلق نہیں اوربلاوجہ عیادت کرنے والے کی جیب پر بوجھ پڑتا ہے اور جولوگ اس حیثیت میں نہیں ہوتے وہ عیادت کے لیے جانے سے کتراتے ہیں، اس لیے اس رسم سے بچنا ضروری ہے کہ اس میں غیروں کے ساتھ مشابہت ہے نیز عیادت کے مقصد کے خلاف ہے۔

35-وینٹی لیٹر لگانا اور ہٹانا

دماغ کے دوحصے ہیں، ایک بالائی حصہ اور دوسرا نچلا حصہ، بالائی حصہ جسم کے نظام کوکنٹرول کرتا ہے اور اگر اس تک خون نہ پہنچنے کی وجہ سے اس میں زندگی باقی نہ رہے تو پھر دیکھنا، بولنا، سوچنا اورسمجھنا ممکن نہیں، البتہ دل کی حرکت اور سانس کی آمدورفت برقرار رہتی ہے اور اس وقت انسان کوما کی حالت میں چلاجاتا ہے اورایسا ہوسکتا ہے کہ وہ اسی حال میں مہینوں اوربرسوں زندہ رہے۔
اوراگرنچلے حصے کی موت واقع ہوجائے تو پھرتھوڑی دیر میں جسم کے دیگر حصوں سے بھی زندگی کے آثار ختم ہوجاتے ہیں اورمکمل طورپر موت واقع ہوجاتی ہے۔
پہلی صورت میں اگر ماہر ڈاکٹر کی رائے ہو کہ مریض کے بچ جانے کا گمان غالب ہے اور مریض مالی حیثیت سے اس لائق ہو کہ وہ علاج کا خرچ برداشت کرسکتا ہو تو پھر بوقت ضرورت دل کی حرکت کو برقرار رکھنے کے لیے مصنوعی آلۂ تنفس (وینٹی لیٹر) کولگانا ضروری ہوگا، کیوں کہ جان کی حفاظت واجب ہے اور اگر استطاعت نہ ہو تو پھر اسے نہ لگانے یا ہٹالینے میں کوئی حرج نہیں ہے اس لیے کہ انسان وسعت کے مطابق ہی شرعی احکام کا مکلف ہوتا ہے اور اگر مصنوعی آلہ تنفس کے استعمال سے جان بچ جانے کا محض امکان ہو، ظن غالب نہ ہوتو پھر صاحب استطاعت کے لیے بھی مصنوعی آلہ تنفس کو لگانا ضروری نہیں ہے۔
اوراگر دماغ یا دل نے کام کرنا بند کردیا ہو اور ماہر ڈاکٹروں کی رائے ہو کہ معمول کے مطابق دل کی حرکت بحال ہونے کی کوئی امید نہیں ہے یا یہ کہ دماغ کی کارکردگی دوبارہ بحال نہیں ہوسکتی تو مصنوعی آلہ تنفس کو ہٹالینا درست ہے، گرچہ اس کی وجہ سے مریض کے دل کی حرکت برقرار ہو، البتہ اس کی موت اس وقت سے مانی جائے گی جب اسے ہٹانے کی وجہ سے دل کی حرکت بند ہوجائے۔

36-ٹیسٹ کے لیے مردہ کے جسم کا کوئی ٹکڑالینا

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم ومحترم بنایاہے اور اس کے ساتھ کسی ایسے عمل کی اجازت نہیں دی ہے جس میں اس کی اہانت ہو، ارشادِ ربانی ہے:
’’ولقد کرمنا بنی آدم‘‘(سورہ الاسراء:70)
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی ہے ۔
اور وفات کے بعد بھی اس کی کرامت وشرافت باقی رہتی ہے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ كَكَسْرِهِ حَيًّا "(أبو داود:3207.ابن ماجه:1616)
مردہ کی ہڈی کو توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے ۔
البتہ جس طرح سے ضرورت کی وجہ سے زندگی میں آپریشن کی اجازت ہے بلکہ بسااوقات ضروری ہے، اسی طرح سے مرنے کے بعد بھی کسی حقیقی ضرورت کی وجہ سے اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر الگ کرلیناجائز ہے، جیسے کہ کسی کی مشتبہ حالت میں وفات ہوجائے اور موت کی حقیقت جاننے کے لیے اس کے جسم کے کسی ٹکڑے کی ضرورت ہو تو پھر اسے کاٹ کر اس سے تحقیق میں مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

37-پلاسٹک میں پیک میت کو غسل دینا

بعض متعدی امراض کے حامل میت کو وفات کے بعد پلاسٹک کے تھیلے میں پیک کردیاجاتا ہے، کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس کے جراثیم زندوں میں منتقل ہوجائیں گے اور ایسی صورت میں نہ تو اسے غسل دینا ممکن ہوتا ہے اورنہ تیمم کرانا اور یہ معلوم ہے کہ میت کو غسل دینا فرض اور ا نمازجنازہ کے لیے شرط ہے کہ اس کے بغیر جنازہ کی نماز نہیں ہوگی، لیکن مذکورہ صورت میں اس شرط پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے غسل کی شرط ساقط ہوجائے گی، البتہ جنازہ کی فرضیت باقی رہے گی اورنماز جنازہ کے بعد اسے دفن کیاجائے گا،(1) کیونکہ جس واجب کو ادا کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی وجہ سے وہ واجب ساقط نہیں ہوگا جسے ادا کرنا ممکن ہو، اس لئے کہ انسان اپنی وسعت کے بقدر عمل کا مکلف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے:
’’فاتقوااللہ مااستطعتم‘‘ (سورہ التغابن :16)
لہذا جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’إذا امرتکم بامرفاتوا منہ مااستطعتم‘‘(صحیح بخاری:7288صحیح مسلم:1337)
’’جب میں تمہیں کسی چیز کاحکم دوں تواپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو‘‘۔

(1)وان دفن واھیل علیہ التراب بلاصلاۃ…صلی علی قبرہ وان لم یغسل لسقوط شرط طھارتہ لحرمۃ نبشه‘‘( حاشية طحطاوي على مراقي الفلاح:324)

38-میت کے جسم کو گلانے کے لیے کیمیکل کا استعمال

بڑے شہروں میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے بعض جگہوں کے بارے قبر میں ایسے کیمیکل کے استعمال کی اطلاع ملتی ہے جس سے میت کا جسم جلد گل کر مٹی میں مل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ طریقہ انسانی کرامت و شرافت کے خلاف ہے، اس لیے ایسا کرنا سخت ناپسندیدہ ہے اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

 

جواب دیں