مولانا ابوالکلام آزاد حیات و خدمات

مولانا ابوالکلام آزاد

حیات و خدمات

از:ابو نُعمیٰ

مولانا آزاد نے 11/نومبر 1888ء میں مکہ معظمہ میں ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی (آپ کا یومِ ولادت پورے ملک میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے )

آپ کے والد مولانا خیرالدین اپنے علاقہ کے معتبر عالم دین تھے ، مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ، چودہ سال کی عمر میں باضابطہ رسمی تعلیم کی تکمیل کی ، تکمیلِ تعلیم کے بعد آپ کے والد نے طلبہ کا ایک حلقہ آپ کے زیر تدریس کردیا آپ طلبہ کی اس جماعت کو بحسن و خوبی پڑھانے میں کامیاب ثابت ہوئے اور ایک کامیاب مدرس کا حق ادا کیا۔

چونکہ آپ کے والد محترم مع اہل و عیال بغرضِ علاج مکہ سے ہجرت کرکے کلکتہ چلے آئے تھے اور بتقدیرِ الٰہی کلکتہ ہی میں مستقل رہائش پزیر ہوگئے ، اس لئے مولانا آزاد نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز کلکتہ ہی کو بنایا ، اس طرح آپ کا علمی و سیاسی سفر پندرہ سال کی عمر میں جریدہ “لسان الصدق” جاری کرکے ہوتا ہے ، یہ رسالہ اپنی طرز کا انوکھا اور بے مثال کا تھا جس کی تعریف مولانا الطاف حسین حالی(1837ء-1915) نے بھی کی ہے ۔

مولانا آزاد کی شخصیت اتنی کثیرالجہت اور ہمہ گیر ہے کہ کسی قلم کارکے لئے جو آپ کی حیات و خدمات کے بارے میں کچھ اوراق سیاہ کرنا چاہتا ہو یہ انتہائی مشکل امر ہوتا ہے کہ آپ کی کن کن  خدمات پر لکھا جائے اور کیا کیا لکھا جائے اور زندگی کے کن کن پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائےاور کس کو نظر انداز کیا جائے ، چونکہ مکمل احاطہ ایک طرف مشکل کام ہے تو دوسری طرف طوالت سے بچنا بھی مشکل ہے، ذیل میں کچھ سرخیاں ملاحظہ ہوں  ۔

اصل نام : محی الدین احمد ۔  تاریخی نام : فیروز بخت ۔

کنیت : ابو الکلام ۔ تخلص : آزاد ۔

والد : محمد خیر الدین ۔ والدہ : عالیہ بنت محمد ۔ زوجہ : زلیخا بیگم ۔

تاریخ ولادت : 11/ نومبر 1888ء (ذوالحجہ ، ۱۳۰۵ ھ )  مقام ولادت : مکہ معظمہ

تاریخ وفات : 22 / فروری 1958ء  ۔ مقام وفات : دہلی ۔ مدفن : دہلی نزد جامع مسجد ۔

مکمل حیات : 69 / سال، 3 / مہینے، 11 / دن ۔

مادری زبان : عربی ۔  آبائی وطن : دہلی (ہندوستان)  مادری وطن: مدینۃ المنورہ (عرب)

اعزاز: بھارت رتن(1992 ء  بعد وفات  دیا گیا)

چند کارہائے نمایاں :

      15/اگست 1947ء تا یکم فروری 1958ء آزاد ہند کے سب سے پہلے وزیر تعلیم رہے ، وزارتِ تعلیم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بطور خاص تعلیمی میدان میں آپ کی سرگرمیاں بڑھ گئیں ، اور ممکنہ حد تک باشندگانِ ہند کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر دامن گیر رہتی تھی اور خاص طور پر مسلم معاشرہ میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کیلئے اہم رول ادا کیا ، جہاں تک تعلیمِ نسواں کی بات ہے تو آپ اس پر بہت زور دیا کرتے تھے کہ حدود میں رہتے ہوئے خواتین کے لئے بھی یکساں طور تعلیم کا نظم ہونا چاہئے اور انہیں بہتر سے بہتر تعلیم سے مزین کرنا چاہئے اور تاریکی و جہالت سے باہرآنا چاہئے ۔

عصری علوم (علوم جدیدہ) کو جزو لاینفک کے درجہ میں شمار کرتے تھے اور بالخصوص تعلیمِ صنعت و حرفت پر خوب زور دیا کرتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ آپ نے مختلف تعلیمی و تحقیقی مراکز قائم کئے جو آج بھی ملک میں موجود ہیں ، اس طرح آپ نے اپنی قوم کو تعلیم کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور بڑھانے کی کوشش میں لگے رہے ، آپ نے ترقی و زوال کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد کہا تھا کہ ؛  ہر حال میں سب سے ضروری کام عوام کی تعلیم ہے جس سے ہم دورہیں۔

جنگ آزادی میں آپ کا کردار بہت نمایاں نظر آتاہے ، تاریخ ِجنگ آزادی آپ کے ذکر کے بغیر ناقص ہے ، جس کے لئے آپ کی ایک بڑی اور اہم کوشش ہندو مسلم کے درمیان اتحاد کی رہی ہے ، ہندو مسلم اتحاد کے عَلم بردار تھے جس کے لئے زندگی بھر کوشش کرتے رہے ۔

تقسیمِ ہند کے وقت فرقہ وارانہ کشیدگی اپنی انتہاء کو پہونچی ہوئی تھی آپ اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے بہت اہم اقدامات کئے ۔

بہت سارے حالات سے گزرنے اور تجربہ و مشاہدہ کے بعد آپ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ؛

اگر دنیا دس ہزار سال یا دس لاکھ سال مزید قائم رہے تو پھر بھی دو چیزیں ختم نہیں ہوں گی : ایک تو ہندو قوم کی تنگ نظری ، دوسرے مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بد گمانی۔

مولانا آزاد ایک ہمہ گیر ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے ، یہ شخصیت مختلف پہلؤں پر محیط تھی ،ان کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے، وہ بیک وقت بے باک مجاہد آزادی   ہیں ،مصنف بھی ہیں، عظیم خطیب  بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں، ایک طرف ادب کے شہسوار ہیں تو دوسری طرف ماہر عالم دین ، ان تمام خوبیوں کے ساتھ ایک عظیم قومی لیڈر اور سیاسی میدان کے شہنشاہ ہیں ۔ مختصراً  ا گرہرفن مولا کہا جائے تو  بے جا نہ ہوگا ،  آپ کی ایک خاصیت تھی کہ شرعی معاملات کو چھوڑ کر دیگر معاملات میں تقلیدی  اور رواجی ذہن  نہیں رکھتے تھے بلکہ تخلیقی ذہن کے مالک تھے ۔

آپ کی پیدائش کے دو سال بعد  آپ کے والد محترم  مولاناخیرالدین نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ہندوستان کے مشہورشہر کلکتہ میں سکونت  پذیر ہوگئے۔،پھر ہندوستانی ہنگامہ  کے وقت واپس مکہ مکرمہ چلے گئے ۔

علامہ آزاد ایسے  تعلیم یافتہ گھر میں آنکھیں کھولتے ہیں جو قرآن و حدیث اور عربی زبان و ادب میں مشہور تھا  آپ کی تعلیم وتربیت اسی دینی اوراخلاقی گھر میں ہوتی ہے۔آپ  کی تعلیم و تربیت کے انتظام میں والد محترم  بہت محطاط تھے اس لئے جہاں تک ہوسکا  پہلے اپنے ہی ذمہ رکھی پھر بڑی جانچ پڑتال کے بعد کچھ ماہر فن اساتذہ  کے سپر د کیا ۔ آپ بہت ذہین و فطین اور نیک سیرت انسان اورغیر معمولی صلاحتیوں کے مالک تھے، ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ عمر کے پندرہویں سال میں درس نظامیہ سے فارغ ہوچکے تھے اور پھر طلبہ کے ایک حلقہ کو درس دینے لگے تھے ۔

مولانا ابو الکلام آزاد کی قلمی کاوشیں :

[1] ترجمان القرآن [2] تصورات قرآن  [3] قرآن کا قانون عروج و زوال [4]  یاجوج ماجوج [5]  رسول رحمت ( سیرت رسول ﷺ پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ) [6] سیرت رسول ﷺ کے عملی پہلو [7]  صدائے حق  [8] حقیقت زکوٰۃ [9]  حقیقت حج  [10] حقیقت الصلوٰۃ  [11] جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد [12]  تحریک آزادی  [13] ایمان اورعقل  [14]اولیاء اللہ و اولیاء الشیطان

[15]  انسانیت موت کے دروازے پر [16]  اسلام میں آزادی کا تصور [17] ارکان اسلام   [18] رسالہ عزیمت و دعوت  [19] ہجر و وصال  [20] ہماری آزادی [21] غبار خاطر  [22] حیات سرمد  [23]آزادئ ہند  (Indian wins freedom) [24] تحریک نظم جماعت  [25]اسلام اور نیشنلزم  [26]عروج و زوال کے فطری اصول [27] اسلام کا نظریہ جنگ  [28] شہادت حسین [29]  مسئلہ خلافت  [30] غضب ناک محبوبہ (ایک افسانہ کا ترجمہ) [31]صدائے رفعت [32]  ذکرٰی [33]  درس وفا  [34] قول فیصل  ۔

مولانا ابو الکلام آزاد کی حیات و خدمات پرچند کتابیں :

[1] مولانا ابو الکلام آزاد کی قرآنی خدمت (افضل حق قرشی)  [2] مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی و مفسر (عبد الرشید عراقی) [3] نقوش ابوالکلام و مقالات آزاد (عبد المجید سوہدروی)  [4] تذکرہ آزاد (عبد الرشید عراقی) [5]  ذکر آزاد (عبد الرزاق ملیح آبادی)  [6] امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد (ابوعلی اثری)  [7] خطوط ابوالکلام آزاد (مالک رام)  [8]مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت (ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری) [9] ابو الکلام آزاد (شورش کاشمیری ) [10]ملفوظات آزاد (محمد اجمل خان) ۔

اخبار و رسائل:

مولانا ابو الکلام آزاد  کے زیر ادارت چلنے والے مختلف اخبارو  رسائل ہیں ، اخبار : الہلال  اور البلاغ ۔ رسائل : لسان الصدق اور نیرنگ عالم۔وغیرہ

شاعری

مولانا آزادصرف نثر کے ہی بے تاج بادشاہ نہیں،انھیں شعر گوئی کا ملکہ بھی حاصل تھا۔مولانا کی ایک غزل بہ طور نمونہ پیش ہے۔

کوئی اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا
کوئی نالاں کوئی گرریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دِگر گوں رنگِ محفل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشتِ لیلیٰ کا محمل ہو گیا
انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گُلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کازائل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ      شامل ہو گیا

مختصرا ً آپ نے تقریبا ہر میدان میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں خواہ وہ شعر گوئی ہو یا نثر نویسی ، تقریر و خطابت ہو یا تصنیف و تالیف ، سیاسی میدان ہو یا علمی میدان الغرض آپ کی شخصیت مختلف پہلؤں پر محیط ہونے کی وجہ سے اس مختصر تحریر میں احاطہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ (یہ تحریر سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہے )۔

اسی طرح کے ادبی ،علمی ، دینی و اصلاحی مضامین کیلئے ویب سائٹ کو سبسکرائب کرکے جڑیں ۔جزاک اللہ 

اپنی راۓ یہاں لکھیں