مباحات صوم

مباحات صوم

(رمضان سیریز: 12)

مباحاتِ صوم
(روزہ نہ توڑنے والے کام)

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر، اور بالخصوص روزے دار بندوں پر بے حد وحساب رحمت ورافت کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ اس نے ان کے لیے بہ حالت ِ روزہ متعدد کاموں کو مباح اور جائز رکھا ہے تاکہ بندگانِ خدا کسی مشقت اور حرج میں نہ پڑنے پائیں۔

روزے دار کو حاصل رخصتوں میں سے بعض کا تذکرہ پچھلی پوسٹوں میں بھی ہو چکا ہے۔ جیسے مشقت سے بچنے کی خاطر روزہ نہ رکھنا یا رکھا ہوا روزہ توڑ دینا مسافروں کے لیے جائز کیا گیا ہے، یا حاملہ اور مرضعہ خواتین کے لیے روزہ کے حکم میں کافی رخصتیں ہیں۔ ذیل میں مزید چند رخصتوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے:

۱) روزے دار کے لیے ناپاکی کی حالت میں روزہ رکھنا جائز ہے لیکن اسے جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے۔ ہماری دو مائیں حضرت عائشہؓ اور حضرت امِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ ایسا ہوتا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ صبح کے وقت میں داخل ہوجاتے تھے حالانکہ وہ اپنے اہلِ خانہ سے ملنے کی وجہ سے حالت ِ ناپاکی میں ہوتے تھے، بعد ازاں آپﷺ غسل فرماتے تھے اور روزہ رکھے رہتے تھے۔ ‘‘ [أن النبی کان یدرکہ الفجر وھو جنب من أھلہ ثم یغتسل ویصوم] (صحیح بخاریؒ:۱۹۲۶۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۰۹)

۲) بھول کر حالت ِ روزہ میں کچھ کھاپی لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ اس کی قضا واجب ہوتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص بھول جائے کہ وہ روزے سے ہے اور کھا، یا پی لے تو اسے اپنا روزہ مکمل کر لینا چاہیے کیونکہ اللہ رب العزت نے اسے کھلایا پلایا تھا۔ ‘‘ [من نسی وھو صائم فأکل أو شرب فلیتم صومہ فإنما أطعمہ اللہ وسقاہ] (صحیح مسلمؒ:۱۱۵۵)

۳) روزے دار مرد وعورت کے لیے رمضان المبارک کے دنوں میں کسی بھی وقت زوال سے پہلے یا زوال کے بعد مسواک کرنا جائز ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ اگر میں اپنی امت پر اسے شاق خیال نہ کرتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ ‘‘ [لولاأن أشق علی أمتی لأمرتھم بالسواک عند کل صلاۃ] (صحیح بخاریؒ:۸۸۷)

اس حدیث کے عموم میں رمضان اور غیرِ رمضان، روزے دار وغیر روزے دارسب آجاتے ہیں۔ مزید یہ کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے لاتعداد بار اللہ کے رسولﷺ کو دیکھا ہے کہ روزے کی حالت میں مسواک فرمارہے ہیں۔ ‘‘ [رأیت النبیﷺما لا أحصی یستاک وھو صائمٌ] (مسند احمدؒ:۳/۴۴۵) مسواک کے حکم ہی میں مختلف ٹوتھ پیسٹ اور منجن وغیرہ آنے چاہئیے۔ البتہ ان کے لعاب کو نگلنا اسی طرح ناجائز مانا جائے گا جس طرح مسواک کے لعاب کو نگلنا جائز نہیں ہے۔

۴) روزے دار کے لیے کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا جائز ہے، تاہم روزہ کی حالت میں مبالغہ نہ کیا جائے کیونکہ پانی کے پیٹ تک پہنچ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’ناک میں خوب پانی ڈالو الا یہ کہ تم روزہ کی حالت میں ہو۔ ‘‘ [وبالغ فی الاستنشاق الاأن تکون صائماً] (مستدرک حاکمؒ:۵۲۵۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ:۹۸۴۴۔ سنن ابوداؤدؒ: ۲۳۶۸) معلوم ہوا کہ روزے کی حالت میں ناک کے راستے سے پانی داخل کرنے پر روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

۵) روزے دار کے لیے حرارت سے بچنے کی نیت سے نہانا یا سر پر پانی ڈالنا جائز ہے۔ اللہ کے رسولﷺبھی بسااوقات ایسا فرماتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ آپﷺ روزہ کی حالت میں پیاس اور گرمی سے بچنے کے لیے سرِ مبارک پر پانی بہاتے تھے۔ ‘‘ [کان یصب الماء علی رأسہ وھو صائم من العطش أو الحر] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۶۵، ۔ تصحیح البانیؒ فی تعلیق المشکاۃ:۲۱۱)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے کہ آپؓ روزہ کی حالت میں کسی چادر یا کپڑے کو گیلا کرکے اپنے جسم سے لپیٹ لیتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاقؒ: ۱۲۱۹۳۔ مصنف ابن ابی شیبہؒ:۱۳۷۱۴)

۶) روزے دار کے لیے زبان کی نوک سے کھانا چکھ کر تھوک دینا جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’روزہ کی حالت میں سِرکہ یا کسی اور چیز کو چکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حلق میں وہ چیز داخل نہ ہو۔ ‘‘ [لابأس أن یذوق الخل أو الشیء مالم یدخل حلقہ وھو صائم] (مصنف ابن ابی شیبہؒ:۹۳۶۹)

۷) روزے دار کے لیے آنکھ اور کان میں دوا کے قطرے ڈالنا یا سرمہ لگانا جائز ہوتا ہے، پھر چاہے اس دوا یا سرمہ کا اثر اور ذائقہ حلق میں محسوس کیا جائے یا نہیں، کیونکہ شریعت نے ان جگہوں کو پیٹ تک پہنچانے کا راستہ نہیں مانا ہے اور نہ ہی ان کے ذریعہ داخل ہونے والی کسی چیز کے روزہ توڑ دینے کا اعتبار کیا ہے۔ امام بخاریؒ، امام ابن تیمیہؒ وغیرہ ائمۂ کرام کا یہی موقف ہے۔ (فقہ السنۃ، سید سابقؒ:۲/۴۶۹)

۸) ضرورت پڑ جائے توسونگھ کر استعمال میں لائی جانے والی دوائیں یا سانس لینے میں مدد دینے والے پائپ (Inhaler)کی پچکاری استعمال کرنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، کیونکہ یہ سب چیزیں کسی اعتبار سے کھانے پینے کے حکم میں نہیں آتیں۔ سعودی عرب کی افتاء وارشاد کمیٹی سے وابستہ علمائے کرام کا یہی فتوی ہے۔ (۱۰/۷۹۹)

۹) غذائی ضروریات کی تکمیل کرنے والے انجیکشنوں کے علاوہ کوئی بھی انجیکشن لگوانا روزے دار کے لیے جائز ہے۔ اسی طرح طبی تحلیل وتجزیہ یاجانچ کے لیے تھوڑاخون دینا بھی جائز ہے اور اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔

نوٹ: درج بالا باتوں میں کوئی بات اگر کسی فقہی مسلک کے مطابق نہیں ہے اور کوئی دینی بھائی اس مسلک کے متبع ہیں تو انھیں اپنے مسلک کے مطابق ہی عمل کرنا چاہیے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں