ماہِ محرم الحرام کی حقیقت

ماہِ محرم الحرام کی حقیقت  و یوم عاشورہ کی فضیلت

از۔۔۔محمدمحفوظ قادری

 9759824259

اسلامی سال نو (سن ہجری)کا آغازیکم محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ہم 1444ھ مکمل کرکے 1445ھ میں داخل ہوچکے ہیں۔ہمارے اُپر لازم ہے کہ ہم اپنے گزرے ہوئے سالوں کے بارے میں غوروفکر کریں کہ ہم نے اپنا وقت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں گزارا ہے یا اس کے خلاف۔اگر اللہ کی توفیق سے ہم اس کی اطاعت میں لگے رہے حقو ق اللہ اورحقو ق العباد کوادا کیا تو اپنے اعمال صالحہ کی قبولیت ساتھ آگے بھی اسی طرح ثابت قدمی کی اللہ سے دعائیں کریں۔اگر ہمارا وقت اللہ اور رسول کے فرمان کے خلاف گزرا ہے تو مسلمانوں کو چاہئے گزشتہ سالوں کے گناہوں کی معافی کیلئے اللہ سے توبہ استغفار کریں کیونکہ قرآن وحدیث میں گناہوں سے توبہ کرنے والوں کیلئے بہت زیادہ خوشخبری سنائی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ’’اور توبہ کرو اللہ کی طرف اے مومنوتاکہ تم فلاح پائو‘‘(قرآن) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ رات میں اپنی رحمت کو وسیع کرتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والے توبہ کریں اوراللہ ان کی توبہ قبول فرمائے اسی طرح دن میں اپنی رحمت کو د راز فرماتا ہے تاکہ رات کے گناہ گاروں کی تو بہ قبول فرمائے یہاں تک کہ مغرب سے سورج طلوع ہوگا۔
یہ بات بھی انسان کیلئے سعادت مندی کی ہے کہ اللہ انسان کو طویل زندگی عطا فرمائے اورساتھ ہی گناہوں پر توبہ و استغفار کی سعادت بھی نصیب ہو۔ دعاکریں کہ اللہ رب العزت گزشتہ سالوں کے گناہوں کی دل پر لگی گندگی کو آب رحمت سے دھوکر اپنے کرم سے سال نومیں حسد،بغض،کینہ،عداوت ونفرت،چغل خوری،جھوٹ اورمکروفریب جیسی تمام عادات قبیحہ و رذیلہ سے بچاکرسچائی وصبراور خیرخواہی کاعادی بناکردعا،توبہ،استغفار،عبادات کے ذریعہ اپنی طرف رجوع ہونے کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے اپنی مقدس کتاب کلام عظیم میں کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔یہ اللہ کی کتاب میں ہے(تعداد)ان میں سے چار عزت والے مہینے ہیں۔ان چار مہینوں میں سے محرم الحرام کا بھی ایک مہینہ ہے،جو اللہ کے نزدیک قابل احترام ہے۔اسی محرم الحرام کے مہینے میں یوم عاشورہ ہے۔
اس دن اللہ رب العزت کی اطاعت کرنے والوں کیلئے بہت بڑی خوشخبری سنائی گئی ہے۔اس دن بہت سے واقعات بھی رونما ہو ئے ہیں کہ جن کا مذہب اسلام اورتاریخ سے گہراتعلق ہے۔
دس محرم الحرام (یوم عاشورہ)کا روزہ بھی رکھا جاتا ہے جس کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشورہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹادیگا۔(مسلم شریف)
رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے یوم عا شورہ کا روزہ فرض تھا جب اللہ رب العزت نے رمضان کے روزے فرض کئے تو اس کو نفلی قراردیا،اورنفلی روزوں میں یوم عاشورہ کے روزہ کوسب سے زیادہ فضیلت واہمیت حاصل ہے کیونکہ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زندگی میں اس کو کبھی ترک نہیں کیا۔
یوم عاشورہ کی تاریخی فضیلت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے خاص فضل وکرم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریائے قلزم پار کرایااورفرعون کو غرق کیا تواس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ رب العزت کے خاص فضل وکرم کی عطاپر شکر ادا کرتے ہوئے عاشورہ کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے یہودی بھی عاشورہ کے روزہ کا اہتمام کرتے تھے،اوررسول اللہ وصحابہ کرام بھی مکہ میں عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے۔
لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی یہاں بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔آپ نے یہودیوں سے سوال کیا کہ آپ اس دن روزہ کا اہتمام کیوں کرتے ہو۔۔ ؟
تو ان لوگونے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات عطافرمائی تھی اس خوشی میں ہم روزہ رکھتے ہیں۔یہ سن کر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس روزہ کے ہم تم سے زیادہ حقدار ہیں،چنانچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھااور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال حیات(زندہ)رہا تو اس کے ساتھ نو محر م الحرام کا روزہ بھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو جائے۔بلکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود یوں کی مخالفت کرو،اس کےساتھ ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
ماہ محرم کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرما یا کہ جوشخص محرم کے کسی دن کا روزہ رکھے تو اس کو ہر دن کے بدلہ تیس دن کا ثواب ملتا ہے۔جو شخص عاشورہ کے دن کسی کا روزہ افطار کرا ئے گا تو اللہ رب العزت اس کو اس قدر ثواب عطا فرما ئے گا کہ گویا اس نے تمام امت کا روزہ افطا ر کرا یا اورانھیں سیر کرکے کھا نا کھلایا۔اگرکوئی عاشورہ کے دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھرے تو اللہ تعالیٰ اس بچے کے سر کے بالوں کی برابرجنت میں اس آدمی کے درجات بلند فرماتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ!کیا اللہ تعالیٰ نے ہمیں یوم عاشورہ کے ساتھ فضیلت نے بخشی ہے۔۔؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ اللہ رب العزت نے تمام آسمانو اور زمینوں کو عاشورہ کے دن پیدا فرمایا۔پہاڑوں اور ستاروں کو عاشورہ کے دن پیدا فرمایا۔
عرش و کرسی کو بھی اسی دن پیدا فرمایا ۔
حضرت آدم علیہ السلام کو بھی عاشورہ کے دن پیدا فرمایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی عاشورہ کے دن پیدا ہوئے،عاشورہ کے دن ہی اللہ نے ان کو نجات عطا فرمائی،ان کے صاحبزادے کا فدیہ بھی عاشورہ کے دن دیا گیا۔
فر عون کو عاشورہ کے دن غرق کیا گیا۔حضرت ادریس علیہ السلام کو عاشورہ کے دن آسمان پر اٹھایا گیا۔
حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفا ء عاشورہ کے دن عطا کی گئی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام عاشورہ کے دن پیدا ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ عاشورہ کے دن قبول فرمائی۔
حضرت دائود علیہ اسلام کی لغزش عاشورہ کے دن معاف کی گئی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کو باد شاہت عاشورہ کے دن عطا کی گئی۔
جو آدمی اپنی آنکھوں میں عاشورہ کے دن اثمد(سرمہ )لگا ئے سال بھر تک اس کی آنکھیں خراب نہیں ہونگیں۔
جو انسان عاشورہ کے دن کسی بیمار کی مزاج پرسی کرے تو وہ ایسا ہے کہ گویااس نے تمام اولاد آدم کی مزاج پر سی کی۔
جو شخص عاشورہ کے دن کسی کو ایک گھونٹ پانی پلا ئے تو ایسا ہے کہ گویا اس نے پلک جھپکنے کے برابربھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی۔
اورفرمایا عاشورہ کے دن گھر والوں پر کھانے میں فراخی کرو،جو یوم عاشورہ کے دن اپنے مال سے گھر والوں پر فراخی کرتا ہے(دسترخوان پر) تو اللہ تعالیٰ اس کو پوراسال فرا خی عطا فرماتا ہے۔(غنیتہ الطالبین)
اسی عاشورہ کے دن نواسئہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکے لخت جگر حضر امام حسین اورآپ کے جاں نثار ساتھیوں کی شہادت بھی واقع ہو ئی ہے اوریہ واقعہ تاریخ اسلام میں قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہے کیونکہ آپ کی یہ جنگ حق اورباطل کے درمیان رسول اللہ کے لائے ہوئے دین مبین کی بقاء کی خاطرتھی۔
اللہ نے آپ کے ذریعہ اس دین مبین کو ایسی بقاء عطافرمائی کہ آج تک نہ کوئی اس دین حق کو مٹا سکا ہے اور نہ کوئی صبح قیامت تک اس دین کو مٹانے کی جرأت کر سکتا ہے کونکہ اس دین حق کا حامی و ناصر اللہ رب العزت خود ہے۔اپنے دونوں نواسوں حسنین کریمین کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے تاجدا کائنات حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسن اورحسین دونوں جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں تھے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ داخل ہوئے میں نے دروازے سے دیکھا کی کہ حسین آپ کے سینے پر چڑھے ہوئے کھیل رہے تھے ۔حضور علیہ السلام کے دست مبارک میں مٹی کا ایک ٹکڑا تھااورآپ کے آنسوں جاری تھے جب حسین رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے،تو میں اندر داخل ہوئی اور میں نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ قربان ہوں۔
میں نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں مٹی کاایک ٹکڑا ہے اورآپ رو رہے ہیں۔
یہ سن کر آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جب میرے سینے پر حسین کھیل رہے تھے تو میں خوش تھا،اتنے میں حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے وہاں کی مٹی دی جہاں حسین کو شہید کیا جائےگامیں اس لئے رورہا تھا۔
یوم عاشورہ کے دن ہمیں اہل بیت سے بھی عقیدت و محبت کا اظہار کرنا چاہئے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ میرے اہل بیت سے محبت کرے،اور جو اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ مجھ سے محبت کرے۔
اللہ رب العزت سے دعاہےکہ ہمارے اندر بھی حسینی جذبہ ایمانی پیدا فرمائے کہ ہماراظاہروباطن ہر طرح کے لہوولعب،فسق وفجورسے پاک وصاف ہو اورحسینی مزاج وروح ہمارے اُپر غالب آجائے،یزیدیت جیسے نفس کا خاتمہ ہو جائے۔
یوم عاشورہ کے دن ہمیں تمام طرح کے خرفاتی کاموں سے بچنا چاہئے جن کا شریعت اسلامی سے دور دور تک تعلق نہیں،بلکہ اس دن ہمیں وہی کام کرنے چاہئیں کہ جن کے کرنے کا اللہ اوراس کے رسول نے حکم دیا ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں یوم عاشورہ کی فضیلتوں،رحمتوں وبرکتوں سے فیضیاب فرمائے اور دین حق کے مطابق زندگی گزارنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین

اپنی راۓ یہاں لکھیں