(رمضان سیریز:20)
عید کی سنتیں اور آداب
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
عید کی مشروعیت کا مقصد قرآنِ کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:{ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ} (بقرہ، ۱۸۵) ’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا گیا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے ماہِ رمضان المبارک کے اختتام پر کیا کچھ مشروع قرار دیا ہے۔ اللہ کی تکبیر کرنا، اس کی کبریائی وبڑائی کا اعلان کرنا اس وقت سے جب کہ روزوں کی تعداد پوری ہوجائے۔ یہ وقت چاند رات شروع ہوتے ہی یعنی سورج غروب ہوتے ہی آجاتا ہے اور نمازِ عید تک باقی رہتا ہے۔ اس پوری مدت میں اللہ کی کبریائی بیان کرنا ہی عید الفطر کی مشروعیت کا سبب ہے۔
اللہ کی کبریائی بیان کرنے کا جو طریقہ اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں سکھایا ہے وہ یہ ہے: ’’اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلٰہ إلا اللّٰہ واللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد‘‘ ۔ مرد حضرات اس دعا کو بلند آواز میں پڑھیں گے جبکہ عورتیں اگر تنہائی میں ہوں تو بلند آواز میں اور اگر اجنبی مردوں کے آس پاس ہوں تو دھیمے سے پڑھیں گی۔ اصل حکم سب کے لیے زور سے پڑھنے کا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی کو علی الاعلان بیان کیا جاسکے اور اپنی بندگی وعبودیت کا اظہار کھلے عام کیا جائے، نیز روزہ وتراویح کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمت بخشی تھی اس کا کما حقہ شکر ادا ہو جائے۔
یقینا عید کا دن شکر گزاری اور اظہار فرحت ومسرت کا دن ہے۔ لیکن عید صرف نئے کپڑے پہننے اور اپنی شان وشوکت ظاہر کرنے کا نام نہیں ہے۔ عید کی بھی کچھ سنتیں اور آداب ہیں جن کی پیروی کرنا رمضان المبارک کی سنتوں اور آداب کی طرح ہی ضروری ہے۔
عید کے سنن وآداب میں سرِ فہرست یہ ہے کہ اس دن زینت وجمال سے آراستہ ہوا جائے۔ اچھے سے اچھے کپڑے پہنے جائیں، بہترین خوشبو لگائی جائے کہ اس طرح بندے پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کے اثرات دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ‘‘ [إن اللہ یحب أن یریٰ أثر نعمہ علی عبدہ] (سنن ابوداؤدؒ:۴۰۶۵۔ سنن نسائیؒ:۵۲۲۴)
عید کے سنن وآداب میں یہ بھی شامل ہے کہ اس دن نمازِ عید کے لیے نکلنے سے پہلے غسل کیا جائے۔
سنت یہ بھی ہے کہ عیدگاہ جانے سے پہلے طاق عدد میں کھجوریں کھائی جائیں۔ ہمارے یہاں کھجوروں کے بدلے میٹھا کھانے کا رواج ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ان ملکوں کے لیے ہو سکتا ہے جہاں کھجوریں بالکل یا بہ آسانی دستیاب نہیں ہوتیں، ہمارا ملک بہرحال ایسا نہیں ہے۔ اس لیے سنت کھجوریں کھانا ہی ہے، نہ کہ شیرنی یا کوئی اور میٹھی چیز کھانا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ عید کے دن اس وقت تک نہیں جاتے تھے جب تک کہ کھجوریں تناول نہ فرمالیتے، آپﷺ اس روز کھجوریں طاق عدد میں کھاتے تھے۔ ‘‘ [کان النبیﷺ لا یغدو یوم الفطر حتی یأکل تمرات ویأکلھن وترا] (صحیح بخاریؒ:۹۱۰)
عید کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ عیدگاہ تک پیدل چلا جائے، سوار ہوکر نہ جائے اور نہ ہی بلا کسی عذر کے عیدگاہ کی نماز کو محلہ کی مسجد میں ادا کرے۔ اس جانے آنے میں بھی راستہ بدل کر آمد ورفت ہو۔
عید کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ اس میں دوسرے مسلمان بھائیوں کو عید کی مبارک باد دی جائے کیونکہ اصحابِ رسول اللہﷺ عید کے دن آپس میں ملتے ہوئے عید کی مبارک باد دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اور ہم سے اسے (یعنی رمضان کی عبادت وروزہ کو) قبول فرمائے۔ ‘‘ [تقبل اللّٰہ منا ومنکم] (سنن بیہقیؒ:۶۵۱۹)
عید کا نام عید اس لیے پڑا ہے تاکہ اس کو منانے والے ایک دوسرے کی طرف عَود کریں، ملاقاتیں اور زیارتیں کریں اور صلہ رحمی وسلام پھیلانے کی کوشش کریں۔
عید سے ایک باشعور مومن کو قیامت کے دن کا وہ نظارہ بھی یاد آتا ہے جب کہ وہ اپنے رب کے حضور پوری امت کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ عید کے دن مختلف لوگوں کے لباس وانداز میں تفاوت دیکھ کر دیدۂ بینا قیامت کے دن بندگانِ خدا کے مابین واقع ہونے والے نیک اعمال کے تفاوت وتفاضل کو دیکھ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:{انظُرْ کَیْْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَلَلآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیْلاً} (بنی اسرائیل، ۲۱) ’’مگر دیکھ لو، دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں درجے اور بھی زیادہ ہوں گے اور فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔ ‘‘
اسی کے ساتھ ساتھ عید انعامات کی تقسیم کا دن ہے۔ جس نے رمضان المبارک کے روزے ایمان اور حسنِ نیت کے ساتھ رکھے ہوں گے اس کا انعام عظیم کامیابی ہوگا اور جس نے روزے نہیں رکھے ہوں گے یا ان میں تساہل وکوتاہی سے کام لیا ہوگا تو اس کا انعام ناکامی ونامرادی ہوگا۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ماثور قول ہے کہ عید کے دن لوگ عیدگاہ سے لوٹتے ہیں تو ان میں کوئی اجروثواب والا ہوتا ہے جس کی سعی وجہد قابلِ شکر گزاری وقدر افزائی ہوتی ہے، اور کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں رحمت ِ خداوندی سے کھدیڑ دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے گناہوں نے انہیں فضلِ خداوندی سے محروم کر دیا ہوتا ہے۔ ‘‘ [یعود الناس یوم العید من المصلی فمنھم المأجور المشکور ومنھم المطرود والمھجور] (مصنف ابن ابی شیبہؒ:۱۱۸۲۲)
عید کا دن گانے بجانے، تفریحات وکھیل کود کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مظہر ہے منعمِ حقیقی کی شکر گزاری کا اور اس کے فضل وکرم کے اعتراف کا۔ اسلامی عیدوں کی یہی خوبی ہے جو انہیں باطل ادیان کے تیوہاروں اور میلوں ٹھیلوں سے ممتاز وممیز کرتی ہے کہ ان میں ایمانی خوشیاں نمایاں ہوتی ہیں، شرعی واخلاقی حدود وضوابط کا پاس ولحاظ رکھا جاتا ہے، ادب واحترام کا ماحول تشکیل پاتا ہے۔
ایک باشعور امت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خوشیوں کے موقعہ پر اپنی مشکلات ومصائب کو یکسر نظر انداز نہ کرے۔ اسلامی عیدوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان میں معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقات یعنی غرباء ومساکین اور یتیموں اور بیوائوں کی پرسان حالی کی جاتی ہے۔ عید کی سچی خوشی یہی ہے کہ ہماری وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ اس خوشی وفرحت کے موقعہ پر خوشیوں سے اپنا دامن بھر سکیں۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔