علامہ سید سلیمان ندویؔ کا شعری جہان
محمد علقمہ صفدر ہزاری باغ
علم و ادب، تاریخ و تحقیق کے میدان میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کا نام ایک تاباں و درخشاں آفتاب و ماہتاب کی طرح نمایاں ہیں، آپ کے گوناگوں خصوصیات و امتیازات سے دنیا واقف ہے، اور آپ کی تحقیقی و تاریخی تصانیف سے ایک دنیا مستفید و مستفیض ہے، سید صاحب نے بہار کی سرزمین ”دیسنہ“ میں آنکھیں کھولیں، دارالعلوم ندوۃ العلماء میں زیر تعلیم رہے، اور علامہ شبلی نعمانی کے زیر تربیت رہے، آپ جہاں ایک طرف باکمال عالم و مفتی، محقق، مورخ اور سیرت نگار تھے وہیں دوسری طرف آپ ماہر ادیب، انشاء پرداز اور بلند شعری ذوق کے حامل تھے، آپ کی خدمات کی جولانگاہ بالعموم تاریخ و ادب رہی ہے تاہم دیگر اسلامی موضوعات سے بھی چشم پوشی نہیں کی بلکہ اس میں بھی اپنی شخصیت کا جوہر، لیاقت و قابلیت کا ثبوت دیا ہے، سید صاحب نے بالعموم اپنی شعری دنیا کو اہلِ دنیا سے مخفی رکھا، بر ایں بنا آپ کی تحقیقی فضل و کمال کے آگے آپ کی شاعرانہ شخصیت گم ہو کر رہ گئی، اور اسی بنا پر اہلِ علم کے مابین آپ کے تخلص میں بھی اختلاف ہوگیا، بعض رفقا کا کہنا ہے کہ سید صاحب کا تخلص ”رمزی“ تھا، جبکہ بعض عدم تخلص پے ہی مصر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ”معارف“ میں جو بعض جگہ ان کے کلام کے بعد ”رمزی“ لکھا ہے وہ دراصل ایک مفروضہ تخلص پے، آپ کی شاعری تو آپ کے حیات میں یکجا طور پر شائع نہ سکی البتہ آپ ہی کے ایک مسترشد و شاگرد غلام محمد نے جولائی 1966ء میں دستیاب اشعار کو ارمغانِ سلیمان کے نام سے کراچی سے شائع کیا۔
یوں تو علامہ سید سلیمان ندوی اپنے صغر سنی و ایام نوخیزی سے ہی شعر و شاعری اور بیت بازی وغیرہ سے دلچسپی رکھتے تھے، اور اس میں پیش پیش بھی رہتے تھے، مگر جب دارالعلوم ندۃ العلماء میں بغرض تعلیم آے، تو گویا لکھنؤ کی علمی، ادبی اور شعری ماحول نے آپ کے ذوق سخنوری میں دو آتشے کا کام دیا، خود ندوہ میں بھی شعر و ادب کا خاصہ ماحول تھا، آپ اس شعر و سخن کے پر بہار ماحول میں بذات خود حصہ لیتے اور اپنا کلام بھی پیش کرتے، اس دور میں لکھنؤ میں داغؔ جلالؔ اور امیرؔ مینائی کا بکثرت شہرہ و چرچہ تھا، مگر سید صاحب امیر سے خاصے متاثر تھے، آپ امیر ہی کی نقل کرتے، اور ان کے سینکڑوں اشعار آپ کے نو کے زبان پر تھے، امیر مینائی کا دیوان ”مرآۃ الغیب“ برابر ان کے زیرِ مطالعہ رہتا تھا، جس سے رفتہ رفتہ عقیدت و دلدادگی میں مزید اضافہ ہوتا رہا، اور اسی کے باعث سید صاحب کے ابتدائی کلام میں جناب امیر مینائی کی رنگِ سخن کے واضح اور گہرے اثرات ملتے ہیں،
سید صاحب نے کئی زبانوں میں شاعری کی ہیں، جن میں اردو عربی فارسی شامل ہیں آپ کے عربی میں قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کے دوران تعلیم نواب محسن الملک جب ندوہ کی تعلیم کا معائنہ کرنے آے، تو آپ نے ان کی شان میں ایک عربی قصیدہ کہا، اسی طرح 1905ء میں جب علامہ شبلی نعمانی حیدرآباد سے ندوہ میں مستقل قیام کے ارادے سے وارد ہوئے تو آپ (سید صاحب) نے خیر مقدم میں ایک طویل فارسی قصیدہ پیش کیا، چند اشعار ملاحظہ ہو
بیانش ابرِ باراں است می بخشد چومی بارد
بیوم شور سبزی و سبزہ زار فراوانی
مسیحا دم باعجازِ قلم جاں زگر بخشد
بحکم قم باذن العلم آں تن را کہ شد فانی
بخوا ہم از خداوندے کہ ناش حی قیوم است
بماند زندۂ و جاوید ایں شبلی نعمانی
نوشتن چوں مدیح حضرت الاستاذ برخواندم
ندا آمد مرا از پردۂ ناموس ربانی
سید صاحب کے ذوقِ سخن کے تدریجی ارتقا کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے آپ کے پورے زمانۂ شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے،
پہلا دور زمانہ طالب علمی کے ابتدائی شاعری سے ہوتا ہے، یہ دور تربیتی قسم کا ہے، جس میں سید صاحب لکھنؤی رنگِ تغزل بالخصوص امیر مینائی کے شیدا و دلدادہ نظر آتے ہیں، اور امیر مینائی کی حسن و خوبی کے ساتھ نقالی و اتباع بھی کرتے نظر آتے ہیں، شستگی، سادگی، شوخی، سلاست، روانی، نزاکت و لطافت اور رنگ و آہنگ میں آپ کا ابتدائی کلام اسی کا اثر و عکس نظر آتا ہے، ملاحظہ ہو
دستِ نازک سے اٹھاتے ہیں وہ میّت میری
بعد مرنے کے تھکانے لگی محنت میری
چین سے بیٹھنے دے گی نہیں ہم دونوں کو
تجھ کو یہ شوخی تیری، مجھ کو یہ وحشت میری
سید صاحب کی شاعری کا دوسرا دور 1914ء قیام دارالمصنفین سے شروع ہوتا ہے، اس دور میں کافی تبدیلی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ اس میں عہد میں گل و بلبل، ہجر و وصال اور شعلۂ و شبنم کی داستان سرائی نہیں بلکہ حقائق کی ترجمانی، جذبات کی فراوانی، خیالات کی پاکیزگی اور افکار و نظریات کی گہرائی کا عنصر غالب نظر آتا ہے، ملاحظہ ہو
عجب طرح کا ایک پیچ گفتگو میں ہے
وگرنہ میں ”میں“ وہی بات ہے جو ”تو“ میں ہے
ہے کائنات کا ہر اک ذرہ گردش میں
پتہ جو مل نہ سکا تیری جستجو میں ہے
1914 میں جب سید صاحب کے استاذ و مربی علامہ شبلی نعمانی کا حادثۂ وفات پیش آیا، تو اس کا غم و الم سید صاحب پر برق بن کر گرا، چنانچہ سید صاحب نے ایک نہایت دلدود، پرسوز، رقت انگیز اور پرتاثیر باسٹھ اشعار پر مشتمل ”نوحہ استاذ“ لکھی، اس کے ایک ایک شعر سے غیر معمولی عقیدت و محبت ان کے دل میں علامہ صاحب کی قدر و منزلت اور ہجر و فراق کا درد و کرب ٹپکتا ہے، لفظ لفظ سے قلب و جگر کا سوز و گداز، اخلاص وفا تراوش ہوتی ہے، چند اشعار ملاحظہ ہوں
اے متاعِ عزّتِ پیشیں کے پچھلے کارواں
آہ وہ بھی مٹ گیا باقی جو تھا تیرا نشاں
جس کے لب کی جو صدا تھی نوحۂ اسلاف تھی
جس کی ہر فریاد تھی صورت وراے کارواں
کون اب بتلائے مجھ کو طرز اعجازِ بیاں
کون پھونکے اب مرے بے جان سے فقروں میں جاں
کون دیکھے گا میرا اب زورِ بازوے قلم
کون دیکھے گا میرا جولانیِ طبعِ رواں
کس کے نامے کا بناؤں اب میں عنوانِ خطاب
سیدی، مولائی، استاذی، غزالی الزماں
مولانا عبد الماجد دریابادی کے نکاح کے موقع پر آپ نے مندرجہ ذیل قطعات موزوں کیے،
لایا ہے پیام یہ خوشی کا قاصد
نو شاہ بنیں گے آج عبد الماجد
اللہ کرے وہ دن بھی جلد آ جاے
بن جائیں گے وہ جب کسی کے والد ماجد
سید صاحب نے نظم و غزل کے علاوہ کئی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے، جس سے اپ کی قدرت کلامی اور بو قلمونی کا ثبوت ملتا ہے، 1949ء میں جب آپ آخری بار حج کو تشریف لے گئے تو روضۂ رسول کے دیدار ہوتے ہی پیمانۂ عشق لبریز ہو گیا اور نعت کی شکل میں جذباتِ قلب صفحۂ قرطاس پر نقش ہو گیا، جس میں مقام نبوت کی قدر شناسی اور مرتبہ اگاہی بھی نمایاں ہے،
آہستہ قدم، نیچی نگہ، پست صدا ہو
خوابیدہ یہاں روح رسول عربی ہے
اے زائر بیت نبی یاد رہے یہ
بے قاعدہ یاں جنبش لب ادبی ہے
سید صاحب کی شاعری کا تیسرا دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب آپ نے آستانۂ اشرفی میں اپنا جبینِ نیاز خم کر دیا، اور علمی موشگافیوں سے خود کو آزاد کر کے معرفت و آگہی کے وادی کی سیر کو نکلے، حلقۂ مریدانِ اشرفی میں داخلے کے بعد اب تفنن طبع اور تفریحِ خاطر کے بجائے معرفت و تصوف کے مسائل بیان کرنے کے لیے مشغلہ سخن کو اپنایا، بادۂ عرفان اور مٔے تصوف سے سیرابی وسرشاری کے بعد واردات قلب اور مشاہداتِ حق کی کیفیات کو بیان کرنے لگے، جس میں طور کی تجلیاں اور وادیِ ایمن کی شعلہ فشانیاں نظر آتی ہیں، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں کہ وحدت الوجود کے مسئلے کو کس کیفیت کے ساتھ بیان کیا ہے
جہاں دیکھے وہیں پائیں جہاں دیکھے وہیں تو ہے
تجھے جو یاد کرتا ہے اسی کا ہم نشیں تو ہے
تیری ہی روشنی ہر چار سو پھیلی ہے عالم میں
کہیں مہرِ فلک تو ہے کہیں نورِ زمین تو ہے
سید صاحب نے وجدانی کیفیات اور عارفانہ حقائق کو متعدد اشعار میں بیان کیے ہیں جو معنوی اعتبار سے دقیق و عمیق بھی ہیں، ان میں سوز و گداز، شدت جذبات، صداقت و واقعیت کے نمونے پائے جاتے ہیں، آپ نے مدت دراز تک ایک شیخ کامل کی صحبت پائی اور جب آپ کا قلب و دروں انوار و تجلیات سے معمور ہو گیا، تو آپ نے مرشد کامل کی ضرورت و اتباع کو سمجھا اور اس کی ضرورت پر درج ذیل شعر کہے،
حیاتِ نو مجھے اس کی نگاہ ناز نے بخشی
بھرا ہے آبِ حیواں کاسۂ زہر ہلاہل سے
جو موسیٰ بھی ہوں تو بھی اتباع خضر لازم ہے
ہدایت منحصر ہے اتباع شیخ کامل میں
کثرتِ ورد اسم الہیٰ اور مدت ہاے دراز تک مراقبہ سے باطن اور شخصیت میں جب حق سرایت کر جاتا ہے، پھر رگ و پے سے صداے حق کی پکار اور ہر سو الہام حق سنائی دیتا ہے، گویا کہ بدن کا انگ انگ ساز حقیقت بن جاتا ہے
کسی نے پھیر دی یہ صداے دلنواز
ہر رگ جاں ساز الا اللہ
کوئی ہو آواز میرے کان میں
ہر صدا آواز الا اللہ
ذکر حق سے صیقلِ کامل ہوا
محو دل سے نقش ہر باطل ہوا
دیکھ کر سب نے اسی کو چن لیا
جو نگاہِ ناز کے قابل ہوا
سید صاحب نے کئی اصنافِ سخن میں اپنے اعلی ذوق کی جولانی و روانی دکھائی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی شاعری ان کی تحقیقی و تاریخی کارناموں کے سامنے فروتر نظر آتی ہیں، یعنی کہ سید صاحب جس پائے کے ادیب و مورخ تھے اس پائے کے شاعر نہ بننے کی کوشش کی اور نہ ہی تھے،۔