(رمضان سیریز: 7)
صومِ رمضان کا حکم
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
ارشادِ باری ہے:{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ٭أَیَّاماً مَّعْدُودَاتٍ فَمَن کَانَ مِنکُم مَّرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَیْْراً فَہُوَ خَیْْرٌ لَّہُ وَأَن تَصُومُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ٭شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیَ أُنزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَی وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُواْ الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُواْ اللّہَ عَلَی مَا ہَدَاکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ } (بقرہ، ۱۸۳-۱۸۵)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرئووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیداہوگی۔ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہویا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ روزہ رکھو۔ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اورحق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔ ‘‘
اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اورمحمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا‘‘ ۔ [بُنی الاسلام علیٰ خمسٍ شھادۃ أن لاالٰہ الا اللہ وأنّ محمداً رسول اللہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وحج البیت وصوم رمضان] (صحیح بخاریؒ:۸۔ صحیح مسلمؒ:۱۲۰)
امت مسلمہ کا اجماع بھی ہے کہ رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر فرضِ عین ہیں اور ان کی حیثیت ’’معلوم من الدین بالضرورۃ‘‘ (دین کے وہ مسائل جن کا حصۂ دین ہونا بدیہی اور یقینی ہو) کی ہے بایں طور کہ ان کا منکِر دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
صیامِ رمضان کی فرضیت سن دو ہجری میں ہوئی تھی۔ اس حساب سے احضرت محمدﷺ نے کل نو سال تک ماہِ رمضان کے روزے رکھے تھے۔
روزے کی فرضیت دو مرحلوں میں ہوئی ہے:
الف) روزہ رکھنے اور مسکین کو کھانا کھلانے میں انتخاب واختیار دیے جانے کا مرحلہ، اگرچہ اس مرحلے میں بھی روزہ رکھنے ہی کو افضل قرار دیا گیاتھا۔
ب) روزے کی قطعی فرضیت کا مرحلہ جس میں کسی دوسرے اختیار کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔
قرآن کی مذکورہ بالا آیات کے متبادر مفہوم اور حضرت سلمہؓ بن اکوع کی حدیث سے ان دونوں مراحل کا پتہ چلتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب سورہ بقرہ کی آیت (نمبر:۱۸۴) نازل ہوئی تو جس نے چاہا روزہ نہیں رکھا اور فدیہ دے دیا۔ لیکن بعد میں اگلی آیت (نمبر:۱۸۵) نازل ہوئی جس نے سابقہ آیت کو منسوخ کر دیا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرضِ عین کی حیثیت سے واجب فرمادیا اور کسی قسم کا اختیار نہیں چھوڑا۔ ‘‘ [لما نزلت۔۔۔کان من أراد أن یفطر ویفتدی حتی نزلت الآیۃ التی بعدھا فنسختھا، فأوجب اللہ الصیام عینا بدون تخییر] (صحیح بخاریؒ:۴۵۰۷۔ صحیح مسلمؒ: ۲۷۴۱)
رمضان المبارک کی آمد سے کچھ پہلے روزے رکھناجائز نہیں، الا یہ کہ کسی کا معمول ایک خاص دن روزہ رکھنے کا ہو اور وہ خاص دن رمضان المبارک سے متصلاً پہلے واقع ہو رہاہو، تو ایسی صورت میں وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے: ’’تم میں سے کوئی (رمضان المبارک سے) ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے البتہ اگر کوئی آدمی اس دن روزہ رکھتا آیا تھا تو اسے چاہیے کہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ ‘‘ [لا یتقدمنّ أحدکم بصوم یومٍ أو یومین الاأن یکون رجل کان یصوم صومہ فلیصم ذالک الیوم] (صحیح بخاریؒ:۱۹۱۴)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔