سحری کھانے کا مسنون طریقہ

سحری کھانے کا مسنون طریقہ

(رمضان سیریز: 4)

سحری کھانے کا مسنون طریقہ

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ماہِ رمضان میں طلوعِ فجر سے پہلے پہلے تک کھانا پینا جاری رکھا جاسکتا ہے۔ (دیکھیں سورہ بقرہ:۱۸۷) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ رکھنے والوں کے لیے سحری کھانا مشروع فرمایا ہے کیونکہ سحری میں برکت رکھی گئی ہے۔ سحری کا بابرکت ہونا اس طور سے ظاہر ہے کہ اس سے اتباعِ سنت کی توفیق ملتی ہے، روزہ رکھنے کی قوت وطاقت میسر آتی ہے، مشقت اور شدت میں تخفیف ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اس سے اہلِ کتاب اور مشرکین کی مخالفت ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اپنے روزوں میں سحری کا اہتمام نہیں کرتے ہیں۔

رات کے آخری پہر سحری کھانا اللہ کے نبی ﷺ کی سنت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے: ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں حد ِ فاصل سحری تناول کرنا ہے۔ ‘‘ [فصل ما بین صیامنا وصیام أھل الکتاب أکلۃ السحور] (صحیح مسلمؒ:۲۶۰۴۔ سنن نسائیؒ:۲۱۶۶)

آپﷺ نے سحری میں کھجور تناول کرنے کی تعریف کی ہے اور فرمایا ہے: ’’مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔‘‘ [نعم سحور المؤمن التمر] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۴۷)

سحری میں برکت کے حصول کی خاطر سحری ضرور کھائی جائے اگرچہ مقدار بیحد کم کیوں نہ ہو۔ اللہ کے نبیﷺ کا فرمان ہے: ’’سحری برکت ہی برکت ہے، لہٰذا اسے ترک نہ کرو اگر چہ پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے، دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ سحری کھانے والوں پر سلام ودرود بھیجتے ہیں۔ ‘‘ [السحور کلہ برکۃ فلا تدعوہ ولوأن یجرع أحدکم جرعۃ من ماء فان اللہ وملائکتہ یصلّون علی المتسحرین] (مسند احمدؒ:۱۱۱۰۱)

حضرت عبداللہ بن حارث ایک صحابیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولﷺ کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپﷺ سحری تناول فرمارہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ سحری ایک برکت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں نوازا ہے، لہٰذا اسے چھوڑا مت کرو۔ ‘‘ [إنھا برکۃ أعطاکم اللہ إیاھا فلا تدعوہا] (مسند احمدؒ:۳/۴۴۔ مجمع الزوائد، ہیثمیؒ:۳/۱۵۰۔ تحسین البانیؒ فی صحیح الجامع:۳۶۸۳)

یاد رکھنا چاہیے کہ سحری کھانے کا وقت وہی ہے جب اللہ تعالیٰ سمائے دنیا پر نزول فرماتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ ذکر واستغفار اور توبہ وانابت کا وقت ہوتا ہے جس میں کثرت کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کا وصف اس طرح بیان کیا ہے:{کَانُوا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْْلِ مَا یَہْجَعُونَ٭وَبِالْأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ} (ذاریات، ۱۷-۱۸) ’’یہ لوگ راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے۔ ‘‘

سحری کھانے میں حکمِ رسولﷺ کی اتباع کا جذبہ کارفرما ہونا چاہیے نہ کہ روزے کے لیے حصولِ قوت وطاقت کا۔

سحری کھانے میں حتی الامکان تاخیر کرنی چاہیے کہ یہی اللہ کے رسولﷺ کی سنت ہے۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ ہم نے اللہ کے نبی کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپﷺ نماز کے لیے اٹھ گئے۔ حضرت انسؓ بن مالک نے پوچھا کہ فجر کی اذان اور سحری کے مابین کتنا فاصلہ تھا؟ فرمایا کہ پچاس آیتیں پڑھنے کا۔ ‘‘ [تسحرنا مع النبی ثم قام إلی الصلاۃ، قال کم کان بین الأذان والسحور قال قدر خمسین آیۃ] (سنن ابوداؤدؒ:۲۳۴۵)

سحری اس وقت تک کھائی جا سکتی ہے جب تک کہ طلوعِ فجر کا براہِ راست افق میں مشاہدہ ہوجائے یا کسی قابلِ اعتماد وسیلے مثلاً اذان یا سائرن وغیرہ سے وقت ختم ہونے کا اعلان ہوجائے۔

سحری کے بعد دل میں ہی روزے کی نیت کر لینی چاہیے، زبان سے روزے کی نیت کرنا شریعت میں ثابت نہیں، بالخصوص ہمارے ہاں پڑھی جانے والی دعا ’’بصوم غدٍ نویت من شھر رمضان‘‘ شرعی نصوص میں وارد نہیں ہوئی ہے، اس لیے اس سے احتیاط کرنی چاہیے۔

یاد رہے کہ فرض روزوں کی نیت رات ہی میں کرلینا ضروری ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص رات ہی میں فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت نہ کرلے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا۔ ‘‘ [من لم یبیت الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ] (سنن نسائیؒ:۱۳۳۱۔ تصحیح البانیؒ فی صحیح الجامع:۶۵۳۴)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں