بسم الله الرحمن الرحيم
زکاۃ سے متعلق نئےمسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی
موبائل: 9451924242
13-کرنٹ اور سیوِنگ اکاؤنٹ
کرنٹ یا سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم بھی قرض ہے، امانت نہیں، کیونکہ بینک اس کا مالک ہوجاتا ہے، اپنی مرضی کے مطابق اس میں تصرف کرتا ہے، ضائع ہونے پر اس کا تاوان دیتا ہے اور جمع کرنے والوں کے مطالبے پر اسے واپس کردیتا ہے، البتہ وہ ایک ایسے قرضے کی طرح ہے جس کی واپسی یقینی ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر اس میں ایسے ہی تصرف کرتا ہے جیسے کہ اپنے گھر کی الماری میں رکھی ہوئی رقم پر، اس لیے وہ گویا کہ اس کے قبضے میں ہے اور اس طرح کے قرضے میں ہر سال کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی، گرچہ وہ رقم بینک میں پڑی رہے اور اس پر قبضہ نہ کرے۔
14- پراویڈنٹ فنڈ
مالی حقوق کی ادائیگی کسی کے ذمہ واجب ہو تو اسے دَین کہاجاتا ہے، اور اس کی تین قسمیں ہیں: دین قوی، دین متوسط، دین ضعیف۔
دین قوی یہ ہے کہ کسی کو نقد رقم یا سو نا چاندی بطور قرض دے رکھا ہو یا سامانِ تجارت کو فروخت کیا ہو اور اس کا عوض باقی ہو اوردینے والے کے پاس قرض کا ثبوت یا لینے والے کو اعتراف ہے، اس طرح کا دین اگر کئی سالوں کے بعد وصول ہو تو بھی گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ فرض ہوگی اوراگر مکمل دین ایک ساتھ نہ ملے تو جتنا ملتا جائے اس کی زکوٰہ ادا کر تا رہے بشرطیکہ وصول شدہ قرض نصاب زکوٰۃ کے پانچویں حصے کے بقدر ہو، مثلاً اگر چاندی ہو تو چالیس درہم وصول ہونے پر ایک درہم بطور زکوٰۃ نکالنا ہوگا اور اگر اس سے کم وصو ل ہو تو فی الحال اس کی زکوٰۃ نہیں ہے، البتہ جب بھی حاصل ہوجائے تو گذشتہ کی زکوٰۃ واجب ہوگی۔
دین متوسط یہ ہے کہ سامانِ تجارت کے علاوہ کسی اور چیز کو فروخت کیا ہو اوراس کا عوض باقی ہو جیسے کہ کھیتی کی زمین یا گھریلو سامان کو فروخت کیا ہواوراس کی قیمت باقی ہو، یہ دین بھی جب وصول ہو تو گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی، البتہ اگر تھوڑا تھوڑا وصول ہو تو اس میں فی الحال اسی وقت زکوٰۃ ہے جب نصاب کے بقدر وصول ہوجائے، اس کے برخلاف دین قوی میں نصاب کے پانچویں حصے کے بقد ر بھی حاصل ہوجائے تو فی الحال اس کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی، یہی دونوں کے درمیان فرق ہے۔
دین ضعیف وہ ہے جو کسی مال کا عوض نہ ہو بلکہ وہ کسی حق اور منفعت کا بدل ہو، جیسے کہ شوہر کے ذمے مہر یا بیوی کے ذمے خلع کی رقم باقی ہو، ایسے قرض کا حکم یہ ہے کہ اس پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہوگی جب وہ قبضہ میں آجائے اوروصول ہونے کے بعد اس پر ایک سال گزر جائے، اس پر گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
پراویڈنٹ فنڈ کے لیے ملازم کی تنخواہ سے کاٹ کر جو رقم جمع کی جاتی ہے وہ ’’دین ضعیف‘‘ کے حکم میں ہے، اس لیے اس پر اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جب قبضہ میں آجائے اور اس کے بعد اس پر سال گزر جائے، گذشتہ سالوں کی زکوٰۃ اس میں واجب نہیں ہوگی۔ اور جمع کردہ سے زائد رقم اس کے لئے حلال ہے ۔
یہ حکم اس وقت ہے جب کہ ملازم قانونی طور پر تنخواہ سے پی ایف کے بقدر رقم کم لینے کا پابند ہو اور اگر قانون کے اعتبار سے کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ ملازم برضا و رغبت اپنی تنخواہ سے پی ایف کے بقدر رقم منہا کرادیتا ہے تو وہ قرض ہے اور دین قوی کے حکم میں ہے اور وصول ہونے پر گذشتہ سالوں کی زکاۃ بھی واجب ہوگی ۔اورجمع کردہ سے زائد رقم سود ہے ۔
15-فیکٹری اور مشینوں پر زکوٰۃ
آج کے دور میں آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ فیکٹری اور مشینیں ہیں، جنہیں خریدنے اور لگانے میں ایک بہت بڑی رقم مشغول ہوجاتی ہے، تو کیا ان کی مالیت پر زکوٰۃ فرض ہے ؟
تمام اماموں کا اس پر اتفاق ہے کہ آلات اور مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے،خواہ ان کی قیمت کچھ بھی ہو کیونکہ ان کا شمار ضروریات میں ہے، البتہ ان سے ہونے والی آمدنی نصاب کے بقدر ہو اوراس پر سال گزر جائے تو زکوٰۃ فرض ہے۔ (۱)ان کے دلائل یہ ہیں:
1-قرآن حکیم میں ہے :
أَمَّا السَّفينَةُ فَكانَت لِمَسـٰكينَ يَعمَلونَ فِى البَحرِ( سورة الكهف:79)
جہاں تک کشتی کا تعلق ہے وہ کچھ غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں مزدوری کرتے تھے،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں کشتی کا مالک ہونے کے باوجود انھیں مسکین قرار دیا اور مسکین مستحق زکاۃ ہوتا ہے حالانکہ کشتی ایک قیمتی چیز ہے کیونکہ کشتی سامان تجارت نہیں بلکہ آلات حرفت میں سے ہے لہذا ذریعے معاش اور آلات تجارت گرچہ بہت قیمتی اور مہنگا ہو اس پر کوئی زکاۃ نہیں ہے۔
2-حضرت علی ؓ سے روایت ہے ہ کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
”لیس علی العوامل شيء” (ابوداود:1572)
کام میں استعمال ہونے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ 3-حضرت عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
لیس في الإبل العوامل صدقة” (السنن الکبریٰ للبیہقی:116/4)
کام کاج میں استعمال ہونے والے اونٹوں پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ 4-امام بیہقی فرماتے ہیں کہ ابن عباسؓ سے مروی ایک روایت میں اونٹ کے ساتھ بیل اور گائیوں کا بھی ذکر ہے ۔السنن الکبری للبیہقی 116/4
5-اور حضرت علی ؓ ، حضرت جابرؓ اور بعض دیگر صحابہ اور تابعین و تبع تابعین سے مروی ہے کہ ”ہل چلانے والے جانور (بیل ، گائے وغیرہ) پر زکوٰۃ نہیں۔” (السنن الکبریٰ للبیہقی 116/4)
انروایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیداوار کا ذریعہ بننے والے جانوروں پر زکاۃ نہیں ہے لہذا جانوروں کے علاوہ بھی جو چیزیں اور مشینیں پیداوار کا ذریعہ ہوں ان پر زکاۃ نہیں ہے ۔
(1)ولیس فی دور السکنی وثیاب البدن واثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ لانھا مشغولۃ بالحاجة الاصلیة ولیست بنامیة ایضاً وعلی ھذا کتب العلم لاھلہ وآلات المحترفین۔ الهداية96/1.نیز دیکھئے :الام63/2.البيان والتحصيل 404/2. الفروع 513/2.
16- فیکٹری کے ذریعے تیارمال پر زکاۃ
مشین کے ذریعے تیار شدہ مال پر زکوٰۃ ہے بشرطیکہ اس پر سال گزر جائے، گرچہ وہ مال فیکٹری ہی میں موجود ہو اور اسے فروخت نہ کیاگیا ہو، کیونکہ اس کا شمار مال تجارت میں ہے اور اس کا شمار خام مال میں نہیں ہوگا اس لئے تیار شدہ سامان کی مالیت کے اعتبار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
17-خام مال کی زکوٰۃ
کسی فیکٹری میں دو طرح کے سامان استعمال ہوتے ہیں، ایک وہ جس کا اثر سامان میں باقی رہتا ہے جیسے کہ گاڑیوں کے لیے لوہے وغیرہ کے پارٹس یا کپڑے کے لیے روئی یا اون وغیرہ،اور مکان بنا کر بیچنے والوں کے لئے لوہا ،اینٹ سمنٹ وغیرہ اور فرنیچر بنا کر بیچنے والوں کے لئے لوہا لکڑی وغیرہ دوسرے وہ جس سے سامان کی تیاری میں مدد تو لی جاتی ہے مگر اس کا کوئی اثر سامان میں نہیں رہتا ہے جیسے کہ اوزار، مشین چلانے کے لیے پٹرول یا صفائی کرنے کے لیے صرف، صابن وغیرہ۔
پہلی قسم کے سامان میں زکوٰۃ ہے، گرچہ وہ سال بھر تک اپنی اصلی شکل میں برقرار رہے اور اس سے کوئی سامان نہ بنایاگیا ہو، کیونکہ وہ مال تجارت ہے، اسے خریدا ہی اس لئے گیا ہے کہ اس سے سامان بناکر فروخت کیاجائے۔ اور دوسری قسم میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے گرچہ وہ نصاب کے بقدر ہو اور سال بھر تک اپنی اصلی شکل میں بر قرار رہے، اس لیے کہ اس سے مقصود تجارت نہیں بلکہ استعمال ہے۔ (۱)
(۱) ھذا فی الآلات التی ینتفع بنفسھا ولایبقی اثرھا فی المعمول واما اذا کان یبقی اثرھا فی المعمول کما لو اشتری الصباغ عصفرا لیصبغ ثیاب الناس باجروحال علیہ الحول کان علیہ الزکاۃ اذا بلغ نصابا وکذا کل من ابتاع عینا لیعمل بہ ویبقی اثرہ فی المعمول کالعفص والدھن لدبع الجلد فحال علیہ الحول کان علیہ الزکاۃ وان لم یبق لذلک العین اثر فی المعمول کالصابون والحرض لازکاۃ فیہ۔ (الفتاوی الھندیۃ:172/1)نیز دیکھیے مواھب الجلیل:3162. المجموع: 6/6. الانصاف:154/4.شرح منتھی الارادت:437/1
18-طویل مدتی قرضے
آج کل حکومتی ادارے یا غیر سرکار ی بینکوں کی طرف سے تجارت، تعمیرمکان اور زراعت کے لیے ایک بڑی رقم قرضے پر دی جاتی ہے اور قسط وار ایک طویل مدت کے بعد اس کی ادائیگی ہوتی ہے، جیسے کہ اگر دس لاکھ روپے قرض لیا ہے تو ہر سال ایک ایک لاکھ کرکے دس سال میں اس کی ادائیگی مطلوب ہوتی ہے۔
اور زکوٰۃ کے معاملے میں ضابطہ یہ یہ ہے کہ اگر کسی کے ذمے ایسا قرض ہے جس کا مطالبہ انسانوں کی طرف سے کیاجائے تو پورے سرمایہ میں سے قرض کے بقدر مال کو غیر موجود سمجھاجائے گا، گویا کہ وہ اس مال کا مالک ہے ہی نہیں بلکہ وہ قرض دینے والوں کا ہے اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ بقیہ مال نصاب کے بقدر ہے یا نہیں، نصاب کے بقدر ہے تو بچے ہوئے مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی ورنہ نہیں، اس لیے کہ حدیث میں ہے کہ:
(۱)فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ “.(صحيح بخاري :1395.صحيح مسلم:19)
’’پھرانہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مالوں میں سے صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیاجائے گا اور ان کے فقیروں کو واپس کر دیاجائے گا‘‘۔
اورظاہر ہے کہ جو شخص قرض میں گھرا ہو ا ہو اسے مالدار نہیں بلکہ محتاج اورضرورت مند سمجھا جائے گا۔
اور حضرت عثمانؓ رمضان کے موقع پر کہاکرتے تھے:
’’ھذا شھر زکاتکم فمن کان علیہ دین فلیؤدہ حتی تخرجوا زکاۃ اموالکم‘‘
’’یہ تمہاری زکاۃ کا مہینہ ہے، اس لیے جس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو قرض ادا کردے تاکہ بقیہ مال کی زکاۃ ادا کرسکو۔ (الموطا:253/1. مصنف ابن ابی شیبہ:194/3 مصنف عبدالرزاق:92/4)
انہوں نے یہ بات صحابہ کرام کے مجمع میں کہی اور کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر صحابہ کرام کا اتفاق ہے۔ (المغنی 264/4)
مذکورہ ضابطہ کے تحت طویل مدتی قرض کو بھی الگ کرکے زکاۃ فرض ہونا چاہیے لیکن طویل مدتی قرضوں کو منہا کرنے کی صورت میں شاید ہی کسی سرمایہ دار پر زکوٰۃ واجب ہو بلکہ وہ خود مستحق زکوٰۃ نکل آئے گا، حالانکہ وہ ان قرضوں سے بڑے معاشی فائدے حاصل کرتا ہے اور اس کا شمار مالداروں میں ہوتا ہے اور ایساکرنے کی صورت میں مستحقین ہمیشہ اپنے حق سے محروم رہیں گے، اس لیے اس معاملے میں شریعت کے روح سے ہم آہنگ بات یہ ہے کہ ہرسال قرض کی جو قسط ادا طلب ہے اسے زکاۃسے الگ سمجھاجائے گا اور بقیہ مال میں زکاۃ واجب ہوگی اور باقی قرض کو پورے مال سے الگ نہیں کیاجائے گا۔ چنانچہ فقہاء حنفیہ نے لکھا ہے کہ ادھار مہر قرض میں شمار نہیں ہوگا اس لئے اسے مال زکاۃ سے الگ نہیں کیا جائیگا اور مہر کے بقدر رقم منہا کئے بغیر پورے مال میں زکاۃ واجب ہوگی کیونکہ عام طور پر اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ۔(1)
(1)قال بعض مشايخنا ان المؤجل لا يمنع . لأنه غير مطالب به عادة (البدائع84/2)
19-قیمت خرید یا قیمت فروخت
سامان تجارت میں زکاۃ کے نصاب کا اندازہ اور ادائیگی یا اموال زکاۃ میں اصل مال کی جگہ قیمت ادا کرنے میں ادائیگی کے دن کی قیمت فروخت کا اعتبار ہوگا قیمت خرید کا نہیں ۔خواہ خریداری کی قیمت کے اعتبار سے اس کا ویلو کم ہو یا زیادہ ۔ یعنی سامان تجارت کو اکھٹا فروخت کرنے میں اس دن اس کی جو قیمت فروخت ہوگی اسی اعتبار سے اس کی زکاۃ نکالی جائے گی (1)
(1)وإن أدى قيمتها فعنده تعتبر القيمة يوم الوجوب في الزيادة والنقصان، وعندهما في الفصلين يعتبر يوم الأداء . (البحر الرائق: 2/ 386)
فالحاصل: أن أبا حنيفة يعتبر القيمة يوم الوجوب في جنس هذه المسائل، وهما يعتبران القيمة يوم الأداء، وهذه المسألة في الحاصل بناء على معرفة الواجب في عروض التجارة يوم حولان الحول، فعندهما الواجب يوم حولان الحول جزء من النصاب عينا، لكن للمالك ولاية نقل الواجب إلى القيمة بالأداء، فتراعى قيمته يوم النقل والدليل (على) أن الواجب ما قلنا، قوله عليه السلام: «خذ من الإبل الإبل ومن البقر البقر» والدليل عليه أن في نصاب السوائم تعتبر القيمة يوم الأداء، حتى إن من وجب في إبله بنت مخاض قيمته خمسة دراهم ثم تغير السعر، فصارت تساوي درهمين ونصفا فأراد أن يؤدي القيمةأدى درهمين ونصفا بالإجماع، فقياس عروض التجارة على السوائم أن تعتبر القيمة يوم الأداء. (المحيط البرهاني: 2/ 249)
20- زکوٰۃ کی ادائیگی میں شمسی سال کا اعتبار
پیداوار میں زکوٰۃ فرض ہونے کے لیے سال کاگزرنا شرط نہیں ہے بلکہ کٹائی کے وقت زکوٰۃ ادا کی جائے گی اور اگر ایک سال میں متعدد بار کٹائی ہوتو ہر مرتبہ زکوٰۃ نکالی جائے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ‘‘(الانعام: 141)
اور جب ان کی کٹائی کا وقت آئے تو اللہ کا حق ادا کرو۔
اور پیداوار کے علاوہ دوسرے اموال میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے سال کا گزرنا شرط ہے، اور اس مسئلے میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ اس میں قمری سال کا اعتبار ہوگا، شمسی سال کا نہیں، کیونکہ تمام دینی امور قمری مہینے اور سال سے وابستہ ہیں، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
’’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ط قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ‘‘(سورہ البقرہ: 189)
لوگ آپ سے نئے مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔آپ انھیں بتادیں کہ یہ لوگوں ( کے مختلف معاملات) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لئے ہیں ۔
اور ایک دوسری آیت میں ہے:
’’ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاء وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابِ‘‘(سورہ یونس : 5)
اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور ،اور اس کے لئے سفر کی منزلیں مقرر کردیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور (مہینوں)کا حساب معلوم کرسکو ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سال کے جاننے کا ذریعہ چاند کے منازل کو قرار دیا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مہینے کی ابتدا اورانتہا چاند کے طلوع سے متعلق ہو، اس لیے زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ چاند کے مہینے کے اعتبار سے سال گزرنے پر زکوٰۃ ادا کریں۔
21-زکوٰۃ کے مال سے غریبوں کے لیے پانی کا انتظام
عالم اسلام میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کی استطاعت ہے کہ اس کے لیے ٹیوب ویل وغیرہ کا نظم کرسکیں، تو کیا اس بات کی اجازت ہوگی کہ زکوٰۃ کی رقم سے ٹیوب ویل کا نظم کردیاجائے جس سے غریب و نادار مسلمان پانی حاصل کرسکیں؟
تمام فقہا ء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اسی وقت ہوگی جب کہ فقیر کو زکوٰۃ کا مالک بنادیاجائے (دیکھیے فتح القدیر:267/2 المجموع:157/6. الفروع:619/2) مذکورہ صورت میں کسی کو مالک بنانا نہیں پایا جارہا ہے اس لئے زکوٰۃ کی رقم کا استعمال درست نہیں ہے، اور اس ضرورت کی تکمیل کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کرنا چاہیے۔