رمضان کے روزے: فرضیت کی شکلیں

(رمضان سیریز: 8)

رمضان کے روزے: فرضیت کی شکلیں

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

روزے کے حوالے سے عام مسلمانوں کو دس بڑے زمروں میں رکھا جا سکتا ہے:

(۱) پہلی قسم ان افراد کی ہے جومسلمان ہیں، عاقل ہیں، بالغ ہیں، مقیم ہیں، روزہ رکھنے پر قادر ہیں اور ان کو کوئی شرعی عذر بھی لاحق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں پر رمضان کے روزے بر وقت ادا کرنا فرض ہے۔

اگر کوئی شخص رمضان المبارک کے مہینے میں دولت ِ اسلام سے مشرف ہوتاہے تو وہ خاص اس دن غروبِ آفتاب تک امساک (یعنی کھانے پینے ومناکحت سے اجتناب) کرے گا اور آئندہ کل سے روزے رکھنا شروع کردے گا۔ سابقہ روزوں کی قضا اس پر واجب نہیں ہے۔

(۲) نابالغ بچے۔ ان پر روزہ رکھنا فرض نہیں ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’قلمِ (تکلیف) تین لوگوں سے اٹھا لیا گیا ہے:سونے والا تاآنکہ وہ جاگ جائے، بچہ تاآنکہ وہ بڑا ہو جائے، مجنون تاآنکہ اسے افاقہ ہوجائے۔ ‘‘ [رفع القلم عن ثلاثۃٍ عن النائم حتیٰ یستیقظ وعن الصبی حتیٰ یکبر وعن المجنون حتیٰ یفیق] (سنن ابوداؤدؒ:۴۴۰۰۔ سنن ترمذیؒ:۱۴۲۳۔ سنن نسائیؒ:۳۴۳۲۔ سنن ابن ماجہؒ:۲۰۴۱)

البتہ برائے تربیت بچوں کو روزے رکھوانا نہ صرف جائز، بلکہ مستحب عمل ہے اور یہی معمول سلف ِ صالحین ؒکا رہا ہے۔

(۳) مفقود العقل افراد۔ متذکرہ بالا حدیث کی رو سے پاگل شخص پر روزہ فرض نہیں ہے۔ اگر پاگل پن دائمی نہیں ہے تو عقلی استحضار کے عرصے میں روزہ رکھنا فرض ہوگا۔ دورانِ رمضان المبارک اگرشفا حاصل ہوجائے تو خاص اس دن غروبِ آفتاب تک امساک کرنا چاہیے اور اگلے دن سے روزہ رکھنافرض ہوگا۔ فوت شدہ روزوں کی کوئی قضا اس پر واجب نہیں ہوگی۔

(۴) پیرانہ سالی اور کبرِ سنی کے باعث مخبوط الحواس افراد۔
ایسے اشخاص پر روزہ رکھنا یا اس کا فدیہ دینا یا روزوں کی قضا کرنا؛ کچھ بھی واجب نہیں ہے کیونکہ ان سے شرعی تکلیف اور پابندی زائل ہوچکی ہے۔ اگر یہ خبط الحواسی مستقل اور دائمی نہیں ہے تو بحالت ِ شفا اور صحیح الحواسی ان پر روزے فرض ہوں گے۔ نماز کا حکم بھی ان حضرات کے تئیں روزے جیسا ہے۔

(۵) مستقل عارضہ -مثلاً دائمی امراض یا سن رسیدگی -کی وجہ سے روزہ رکھنے سے مکمل طور پر عاجز افراد۔
ایسے لوگوں پر روزے رکھنا فرض نہیں ہے البتہ آیاتِ صوم (بقرہ، ۱۸۳-۱۸۵) کی روشنی میں ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ان کے ذمہ ضروری ہوگا۔ مسکین کو کھلانے میں خالی آٹا، گیہوں (ایک مد یعنی تقریباً پانچ سو دس گرام) بھی دیا جا سکتا ہے اور پکا کر بھی کھلایا جا سکتا ہے اوراس کے مساوی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ البتہ دوسری صورت میں الفاظِ قرآن کی رعایت زیادہ ہوتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بوڑھا آدمی اور بوڑھی عورت جو روزے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ ایک دن کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔ ‘‘ [الشیخ الکبیر والمرأۃ الکبیرۃ لا یستطیعان أن یصوما فیطعمان مکان کل یوم مسکیناً] (صحیح بخاریؒ:۴۵۰۵)

(۶) مسافرحضرات، بشرطیکہ ان کے سفر کا مقصد دین میں حیلہ جوئی اور فریضۂ صیام سے اعراض اور پہلوتہی نہ ہو۔ اگر سفر کا مقصد ہی یہ ہو کہ کسی طرح روزے کی مشقت اور تکلیف سے بچا جائے توایسے لوگوں پر حالت ِ سفر میں بھی روزہ فرض رہے گا۔ لیکن اگر مقصد ِ سفر یہ نہیں ہے تو مسافر کو اختیار ہے کہ حالت ِ سفر میں روزہ رکھے یا نہ رکھے۔ یہ حکم ہر حال میں باقی رہے گا قطعِ نظر اس سے کہ مدتِ سفر تھوڑی ہے یا زیادہ، یاسفر کی یہ حالت عارضی ہے یا دائمی۔

عارضی حالت ِ سفر تو یہ ہے کہ کسی مقصد یا کام کی خاطر سفر کیا جائے، جبکہ دائمی حالت ان لوگوں سے مخصوص ہے جن کا پیشہ اور ذریعۂ معاش ہی مستقل سفر کرنا ہے یعنی مستقل طور پرذرائعِ نقل وحمل میں کام کرنے والے لوگ، مثلاً بحری، بری وہوائی جہازراں عملہ یاٹیکسی ڈرائیور وغیرہ۔

آیاتِ صوم (بقرہ، ۱۸۳-۱۸۵) میں مریض ومسافر کا اطلاق وعموم اس حکم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمیؓ کہتے ہیں: ’’میں نے اللہ کے رسولﷺسے عرض کیا: میں بہت سے اونٹوں کی نگہ داشت کرتا ہوں، جن پر میں سفر کرتا ہوں یاانھیں کرایہ پر اٹھاتا ہوں۔ بسااوقات اسی حالت میں رمضان کا مہینہ آجاتا ہے۔ میں طاقتور اور جوان ہوں، اس لیے اے اللہ کے رسولﷺ!میں سفر میں روزہ رکھنے کو اپنے لیے زیادہ آسان پاتا ہوں، بمقابلہ اس کے کہ میں روزوں کو مؤخر کرکے اپنے اوپر قرض بنا لوں۔ تو اے اللہ کے رسول ﷺ!میرا روزہ رکھ لینا زیادہ باعث ِ اجرہے یاروزہ نہ رکھنا؟ آپﷺ نے فرمایا:اے حمزہ!تم جو چاہو۔ ‘‘ [قال:یارسول اللہﷺ انی صاحب ظھر أعالجہ أسافر علیہ وأکریہ وانہ ربما صادفنی ھذا الشھر یعنی رمضان وأنا أجد القوّۃ وأنا شابّ فأجد بأن الصوم یا رسول اللہﷺ أھون علیّ من أن أؤخرہ فیکون دیناً علیً، أفأصوم یارسول اللہﷺ أعظم لأجری أم أفطر؟ قال:أیّ ذالک شئت یا حمزۃ] (سنن ابوداؤدؒ:۲۴۰۵)

دائمی سفر پیشہ حضرات پراگر کسی خاص موسم میں رمضان المبارک کے روزے دشوار گزرتے ہیں تو وہ آئندہ اپنی مناسبت سے آسان موسم میں ان کی قضا کرسکتے ہیں۔

افضل چیز مسافر کے لیے یہی ہے کہ وہ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں اپنے لیے آسان کو اختیار کرے اور اگر اس کی طبیعت پر دونوں یکساں ہوں تو روزہ رکھنے ہی کو ترجیح دے، کیونکہ پورے معاشرے کی معیت میں روزہ رکھنا انسان کے لیے سہل ہوتا ہے اور اس طرح واجب الادافرض کا نپٹارا بھی ہوجاتا ہے۔

اگر حالت ِ سفر میں روزہ رکھنا شاق ہوتاہے تو روزہ نہ رکھنا واجب ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: ’’فتحِ مکہ کے سال آپﷺ مکہ کے لیے روانہ ہوئے توآپﷺ روزے سے تھے۔ آپﷺنے کراع الغمیم نامی ایک مقام پر پڑائو کیا۔ آپﷺ سے کہا گیا کہ لوگوں پر روزہ گراں پڑ رہا ہے اور وہ آپﷺ کے عمل پر نظر لگائے ہوئے ہیں، تو آپﷺ نے نمازِ عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگایا اور لوگوں کے سامنے اسے نوش فرمایا۔ آپﷺ سے پھر کہا گیا کہ کچھ افراد ابھی بھی روزہ رکھنے پر مصر ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا:وہ لوگ نافرمان ہیں، وہ لوگ نافرمان ہیں۔ ‘‘ [انہ خرج الی مکۃ عام الفتح فصام حتی بلغ کراع الغمیم فصام الناس معہ فقیل لہ:انّ الناس قد شقّ علیھم الصیام وانھم ینظرون فیما فعلت، فدعا بقدحٍ من مائٍ بعد العصر فشرب والناس ینظرون الیہ، ثمّ قیل لہ:انّ بعض الناس قد صام فقال:اولٰئک العصاۃ، اولٰئک العصاۃ] (صحیح مسلم: ۲۶۶۶۔ سنن ترمذیؒ:۷۱۰)

اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر روزہ رکھنے کے بعد سفر پیش آجائے تو حدودِ شہر سے نکل کر روزہ توڑا جاسکتا ہے۔

طلوعِ فجر کے بعد سفر سے واپس آنے پر اُس دن کا روزہ نہیں رکھا جا سکتا، نیز ایسے لوٹنے والے پر امساک کرنا بھی واجب نہیں ہے، البتہ مستحب یہی ہے کہ ماہِ مبارک میں روزے دار نہ ہونے کا اعلان اپنے قول وعمل سے حتی المقدور نہ کیا جائے۔

(۷) ایسے مرض میں مبتلا افراد جن کی شفایابی کی امید نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی تین حالتیں ہیں:

الف) ایسے مریض جن کے لیے روزہ شاق اور مضرت رساں نہیں ہے۔ ان پر روزہ رکھنا فرض ہوگا کیونکہ ان کے پاس ترکِ صیام کا کوئی شرعی عذر نہیں ہے۔

ب) ایسے مریض جن پر روزہ شاق ہو لیکن مضرت رساں نہ ہو، ان کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوگی۔ (جیسا کہ سورۂ بقرہ میں وارد آیتِ صوم میں ہے: ۱۸۳-۱۸۵) بلکہ مشقت کے ساتھ روزہ رکھنا ان کے لیے ایک گونہ مکروہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس طرح اللہ تعالیٰ معاصی کے ارتکاب کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح اپنی عطا کردہ رخصتوں کی پیروی کو محبوب رکھتا ہے۔ ‘‘ [انّ اللہ یحبّ أن تؤتیٰ رخصہ کما یکرہ أن تؤتیٰ معصیتہ] (مسند احمدؒ:۵۸۶۶۔ صحیح ابن خزیمہؒ:۹۵۰)

ج) ایسے مریض جن کے لیے روزہ رکھنا مضرت ونقصان کا باعث بنتا ہو۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزہ نہ رکھیں۔ ارشادِ باری ہے:{ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً} (نسائ، ۲۹) ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو اور یقین مانو کہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔‘‘ {وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ} (بقرہ، ۱۹۵) ’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ‘‘

اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’تجھ پر تیری ذات کا حق ہے۔ ‘‘ [انّ لنفسک علیک حقا] (صحیح بخاریؒ:۱۹۶۸۔ صحیح مسلمؒ:۲۷۸۷) نیز آپﷺ نے فرمایا ہے: ’’نہ نقصان اٹھایا جائے گا اور نہ کسی اور کو پہنچایا جائے گا۔ ‘‘ [لاضرر ولاضرار] (سنن ابن ماجہؒ:۲۳۴۱۔ مؤطامالکؒ:۱۴۲۹)

اگر ماہِ رمضان المبارک میں دورانِ روزہ مرض میں مبتلا ہوجائے تو روزہ توڑ دینا جائز ہے، اور اگر دورانِ رمضان اثنائے نہار میں شفایاب ہوجائے تو اگلے دن سے روزہ رکھنا شروع کردے، نہ کہ اسی دن سے۔ نیز اگر علمِ طب کی روشنی میں کسی مریض کے تئیں ثابت ہوجائے کہ روزہ رکھنے سے اس کا مرض بڑھ سکتا ہے یا اس کی وجہ سے حصولِ صحت وشفا میں دیر ہوسکتی ہے تب بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے۔

(۸) ماہواری اور مابعد ِ ولادت فاضل خون والی خواتین (حائضہ اور نفساء) روزہ اور نماز دونوں کااہتمام نہیں کریں گی۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت کو حیض آتا ہے تو وہ نماز اور روزہ کچھ نہیں کر پاتی ہے؟ ‘‘ [ألیس إذا حاضت لم تصل ولا تصم] (صحیح بخاریؒ:۱۸۵)

البتہ ان کے ذمے صرف روزوں کی قضا ہوگی، نماز کی قضا ان کے ذمے نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا: ’’ہم اس عارضے میں مبتلا ہوتے تھے تو ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ ‘‘ [کان یصیبنا ذلک فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاۃ] (صحیح مسلمؒ:۷۸۹۔ سنن ابوداؤدؒ:۲۶۳)

(۹) دودھ پلانے والی مائیں یا حاملہ عورتیں، اگر روزہ رکھنے سے ان کی یا بچہ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے، تو وہ روزہ ترک کر سکتی ہیں۔ البتہ خطرہ زائل ہو جانے کے بعد ان پر روزوں کی قضالازم ہوگی۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر سے آدھی نماز ہٹا دی ہے اور مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں سے روزہ ہٹا دیا ہے۔ ‘‘ [انّ اللہ وضع عن المسافر شطر الصلاۃ وعن المسافر والحامل والمرضع الصوم أو الصیام] (سنن ابوداؤدؒ: ۲۴۱۰۔ سنن نسائیؒ:۲۲۷۵۔ سنن ابن ماجہؒ:۱۶۶۷)

(۱۰) وہ حضرات جنہیں کسی مصیبت زدہ کی مسیحائی وحاجت روائی کی خاطر روزہ توڑنے کی ضرورت پڑ جائے۔ مثلاً معصوم انسانوں کو پانی میں ڈوبنے، آگ زنی کا شکار ہونے یا منہدم عمارتوں میں زندہ درگور ہوجانے سے بچاؤ کے لیے روزہ توڑ دینا ضروری ہے تاکہ امدادی عمل کو پوری جانفشانی وتندہی کے ساتھ انجام دیا جاسکے۔ اس صورت میں روزے کی قضا واجب ہوگی۔

اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ میں دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے مسلم افواج روزہ چھوڑ سکتی ہیں اور بعد میں اس کی قضا کی جائے گی۔ اللہ کے رسولﷺکا ارشادِ گرامی ہے: ’’تم لوگ صبح کے وقت اپنے دشمنوں کاسامنا کرنے والے ہو، ایسی حالت میں روزہ نہ رکھنا تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا، لہٰذا روزہ نہ رکھو۔ ‘‘ [انکم مصبحو عدوکم والفطر أقویٰ لکم فأفطروا] (صحیح مسلمؒ:۲۶۸۰۔ صحیح ابن خزیمہؒ:۲۰۲۳)

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ وقتال کے لیے روزہ چھوڑنا خودایک مستقل سبب ہے، اس کو سفر کے ضمن میں مندرج کرنا ٹھیک نہیں۔

مذکورہ بالا اقسام میں جن لوگوں کے لیے بھی روزہ نہ رکھنا جائز ہے اگر ان کا سبب ِ افطار ظاہر ومشہور ہے مثلاً مریض اور سن رسیدہ افراد، تو ان لوگوں پر اپنی بے روزے داری کا اخفاء واجب نہیں۔ لیکن اگر سبب ِ افطار مخفی ہے مثلاً حائضہ خواتین تو انہیں روزہ نہ رکھنے کے عمل کو پردۂ راز میں رکھنا چاہیے۔

افضل واولیٰ بات یہی ہے کہ عذرِ شرعی زائل ہوتے ہی روزوں کی قضا کرلی جائے۔ ہم سب کی ماں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مجھ پر رمضان المبارک کے روزے واجب رہتے تھے تو میں ان کی قضا شعبان سے پہلے نہیں کر پاتی تھی۔ ‘‘ [کان یکون علی الصوم من رمضان فما أستطیع أن أقضیہ إلا فی شعبان] (صحیح بخاریؒ:۱۹۵۰۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۴۶)

اگلے رمضان المبارک تک بغیر کسی شرعی عذر کے روزوں کی قضا ٹالتے رہنا مناسب نہیں ہے۔ قضا کرنے میں روزوں کا مسلسل رکھنا ضروری نہیں، اپنی سہولت سے انہیں بانٹ کر بھی رکھا جاسکتا ہے۔

اگر کسی شخص نے قضا کا وافر موقعہ پایاتھا، لیکن سہل انگاری میں قضا نہیں کی اور اسی حالت میں وفات ہوگئی تو اس کے ورثہ، اولیاء اور قرابت داروں میں سے کسی کو روزوں کی قضا کر لینی چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جو اس حالت میں مر جائے کہ اس پر روزے تھے تو اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھے۔ ‘‘ [من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۵۲۔ صحیح مسلمؒ:۲۷۴۸)

میت کی جانب سے روزوں کی قضا ایک آدمی بھی کر سکتا ہے اور کئی آدمی بھی۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک ہی دن قضا کی تعداد بھر -مثلاً تیس آدمی- اس کی طرف سے روزہ رکھ لیں۔ اگر روزہ رکھنے پر کوئی قرابت دار آمادہ نہ ہو تو قضا کے بدلے مساکین کو کھانا بھی کھلایا جاسکتا ہے یا پانچ سو دس گرام فی کس کے حساب سے کوئی غلہ (آٹا چاول) وغیرہ تقسیم بھی کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ آخری صورت بالکل آخر میں اختیار کی جانی چاہیے۔

متذکرہ بالا نکات میں سے کوئی بات اگر کسی خاص فقہی مسلک سے مختلف ہے تو جو دینی بھائی اس مسلک کی اتباع کرنے والے ہیں وہ اپنے معتبر اور خداترس علماء پر اعتماد کریں اور اپنے مسلک کے مطابق ہی عمل کریں۔ فقہی اختلافات کو رمضان کے مبارک مہینے میں بحث و نزاع کا موضوع نہ بنائیں۔ اللہ ہم سب کو دین کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

جواب دیں