دین کی نئی تفہیم و تعبیر (تیسری قسط)

(تیسری قسط) 

دین کی نئی تفہیم وتعبیر

شیخ محمد صالح المنجد

ترجمہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی

          جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

اس مکتبۂ فکر کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ نصوصِ شرعیہ کی جو تفہیم آج تک علمائے دین کراتے آئے ہیں اس کی قدر وقیمت ختم ہونی جائے۔ دیکھا جائے تو ان کا یہ اصول بھی ان کے پچھلے اصول کا ہی منطقی نتیجہ ہے۔ وہ صحابۂ کرامؓ، تابعینِ عظامؒ، اسلافِ امت، صلحائے ملت اور ہر دور کے علماء واکابرین کے فہمِ دین کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ اس کی پابندی کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ یہ بس ایک دینی مطالعہ ہے جس کا احتمال نصوصِ شریعت میں پایا جاتا ہے، مگر دوسرے بے شمار احتمالات ابھی تک سربستہ ہیں، ان سے پردہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ 

 سوڈانی سیکولر مفکر حسن ترابی لکھتے ہیں:’’وہ تمام فکری سرمایہ جو سلفِ صالح (صحابۂ کرامؓ وغیرہ)نے دینی امور کے حوالے سے پیچھے چھوڑا ہے، وہ بس ایک موروثی سرمایہ (Legacy)ہے جس کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ اس سے بس استیناس(Reinstate) کیا جا سکتا ہے۔‘‘[وکل التراث الفکری الذی خلفہ السلف الصالح فی أمور الدین ہو تراث لا یلتزم بہ وإنما یستأنس بہ](تجدید الفکر الإسلامی:ص۱۰۵) 

ترابی کے اساتذہ میں سے مشہور ومعروف لبرل مفکر “محمود محمد طہ” (1909-1985) کے نظریۂ نسخِ معکوس (Reverse Abrogation) میں اس بگاڑ کا بہ آسانی سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ (Towards an Islamic Reformation: Civil Liberties, Human Rights and International Laws, by Ahmad Abdullah an Naim) 

محمود محمد طہ کے نظریۂ نسخِ معکوس کا لفظی مفہوم قرآن کو الٹا پڑھنا ہے۔ اس نظریے کے مطابق قرآن نے وحی کے ابتدائی دور میں کچھ اصول پیش کیے تھے، آگے چل کر جن کا عملی اظہار مدنی معاشرے کے قیام کی صورت میں سامنے آیا تھا اور پھر اسی عملی اظہار کو سنتِ رسولﷺ مان کر تاریخ کے تمام ادوار میں ان اصولوں کی تشریح و ترجمانی کی جاتی رہی۔ موجودہ دورِ ترقی میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ابتدائی قرآنی اصولوں کے تمام تاریخی اظہارات وتطبیقات ( Manifestations & Implementations) کو -بہ شمول عہدِ نبوی اور دورِ خلفائے راشدین- بالائے طاق رکھ کر ان کی از سرِ نو تعبیر وتشریح کی جائے۔ 

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بنیادی قرآنی اصولوں کو سامنے رکھ کر امتِ مسلمہ کی فکری تشکیلِ نو کا بیڑہ اٹھایا جائے۔ ان قرآنی اصولوں کا زمانہ ٔنزول مکہ کا ابتدائی دور تھا، لہٰذا مکہ کے آخری دور اور مکمل مدنی دور میں نازل شدہ متعین اور مخصوص قرآنی احکامات اور ان کی محمدی تشریحات، نیز بعد کے ادوار میں ان سے مستنبط فقہی وکلامی تفصیلات کو ان آفاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے۔ ان اصولوں پر مشتمل قرآنی آیات کو اصل آیات( Primary verses) اور دیگر کو ضمنی آیات (Subsidiary Verses) قرار دیا جانا چاہیے۔ 

محمود طہ کے الفاظ میں:”ہم الفاظ ومتون سے گزر کر حکمت و مقصد سے بحث کرتے ہیں۔ اگر ساتویں صدی عیسوی(یعنی خیر القرون) میں کسی ضمنی آیت کی روشنی میں کچھ اصولی اور بنیادی آیات کو منسوخ مان لیا گیا تھا تو یہ عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے، کیونکہ بیسویں صدی کے عصرِ حاضر میں ضمنی آیات کہ حیثیت اصولی آیات کے بالمقابل ناقابلِ اعتبار ہو گئی ہے۔ لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اصولی آیات کو ضمنی آیات پر ہر اعتبار سے فوقیت اور ترجیح دی جائے، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے سے قرآن کی اصولی آیات کو موجودہ دور میں قابلِ عمل بنایا جاسکتا ہے اور ایک نئے تشریعی دستور العمل کا خاکہ تیار ہوسکتا ہے۔ شرعی ارتقاء یا دینی ترقی سے ہماری مراد یہی ہے۔”

 (We Consider the Rationale beyond the text.if a subsidiary verse which used to overrule a primary verse in seventh century, has served it’s purpose comply and become irrelevant for the new era,the twentieth century, then the time has come for it to be abrogated and for the primary verse to be enacted. In this way the primary verse has its turn as the operative text in the Tweentith century and becomes the basis of the new legislation. This is what the evolution bof Shariah means. )

 حسن ترابی اور ان کے استاد نے الفاظ قدرے نرم رکھے ہیں، مگر دیگر لوگوں نے پوری صراحت کے ساتھ کہہ دیا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کا فہمِ دین غلط تھا اور انھوں نے دین کی جن نصوص کو غلط سمجھ لیا تو ان کے بعد کی نسلوں نے بھی اس غلطی کو من وعن تسلیم کر لیا اور یہ غلطی آج تک چلی آرہی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بہت ساری نصوص کی تفہیم میں صحابۂ کرامؓ نے -معاذ اللہ- ٹھوکر کھائی ہے۔

  ایک بدبخت عبدالمجید شرفی نے باقاعدہ اس نظریے کے اثبات کے لیے کتاب لکھی ہے اور اس کا نام رکھا ہے: ’’الإسلام بین الرسالۃ والتاریخ‘‘، یعنی اسلام اللہ کی جانب سے کیسا نازل ہوا تھا اور تاریخ میں اسے کیسا سمجھا گیا۔ اس نے اپنی کتاب میں بار بار دعویٰ کیا ہے کہ دینِ اسلام جیسا کچھ محمدﷺ پر نازل ہوا ہے،وہ ہرگز وہ نہیں ہے جو عہدِ صحابہؓ اور عہدِ تابعینؒ اور بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی عملی زندگی میں جاری رہا۔

 محمد ارکون اس نظریے کے پرچار میں پیش پیش رہے ہیں۔ وہ اور ان کے ہم نوالہ وہم پیالہ افراد جگہ جگہ فہمِ سلف کا مذاق اڑاتے ہیں اور عام مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ کب تک تم بدویوں اور صحراء نشینوں کے فہمِ دین کو اپنے لیے حجت سمجھتے رہو گے۔

 محمد ارکون نے فرانس میں ایک لیکچر دیا تھا جس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک فرانسیسی مفکر ’’آرنالڈجانسن‘‘ (Arnold Janssen)نے کہا تھا:’’میں سمجھتا ہوں کہ محمد ارکون کی بنیادی فکر وہی ہے جس کے بارے میں ماضی میں کافی بحث وتکرار ہوچکی ہے۔ یعنی اسلام کی تاریخ میں بہت سارے دینیاتی، قانونی اورتشریعی سانچے ایسے پائے گئے ہیں جنھوں نے قرآنی تعلیمات کو بدل دیا یا بگاڑ دیا، حالانکہ یہ تعلیمات پہلے بالکل کھلی ہوئی اور لبریز تھیں۔ ان میں کئی احتمالات پائے جاتے تھے۔ انسانیت کے لیے ممکن تھا کہ ان پر غوروفکر کرے اور قیامت تک ان سے فائدہ اٹھاتی رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محمد ارکون جب یہ بات کہتے ہیں تو اس کے بہت سے حصے درست ہیں، مگر پھر بھی میں ان فقہاء وعلماء اور مفسرین کی طرف سے بولنا چاہوں گا جنھیں میں نے پڑھا ہے اور جن کی عبارتوں کے ساتھ شب وروز گزارے ہیں۔ میں محمد ارکون کو یاد دلانا چاہوں گا کہ یہ فقہاء کافی چاک چوبند اور زیرک وفطین تھے۔ انھوں نے قرآنی نصوص کو حرکت واضطراب سے بھر دیا تھا اور اپنی تفسیروں کے ذریعے سے ان میں جان پھونک دی تھی اور یہ اس حد تک ہوا تھا کہ آج ہمارے لیے کسی بھی عنوان سے، جی ہاں چاہے وہ علومِ انسانیہ (Humanities)کا عنوان ہو، یہ ناممکن ہے کہ کوئی ایسی نئی چیز لاسکیں جو وہ ہم سے پہلے پیش نہیں کر چکے ہیں۔۔۔۔اسلام کے کلاسیکی عہد میں مفسرین اس کی قدرت رکھتے تھے کہ وہ قرآنی آیات سے تقریباً ہر وہ نکتہ نکال دکھائیں جو اس میں کہا گیا ہے یا جو اس میں متضمن (Included)ہے۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ وہ مسلمان اسکالرس جو مغربی طریقوں اور منہجوں (Methodologies)سے استفادہ کرتے ہیں، ان کے لیے زیادہ شایانِ شان بات یہ ہے کہ وہ اپنے قدیم اسلاف کے مناہج وطرق پر اکتفاء (Content)کریں کیونکہ یہ انھیں پوری جزرسی کے ساتھ اس درجہ اہل بنادیں گے کہ یہ لوگ انہی قرآنی آیات سے وہ تمام نکتے استنباط کر سکیں گے جن تک انھیں وہ مغربی مناہج پہنچا سکتے تھے جو علومِ انسانیات کے تحت آتے ہیں اور جن کا نغمہ بار بار محمد ارکون گاتے ہیں۔‘‘

 [أعتقد أن الفکرۃ المحوریۃ لمحمد أرکون والتی طالما تناقشنا حولہا فی الماضی ہی التالیۃ لقد وجدت فی تاریخ الإسلام ترکیبات ثیولوجیۃ وقانونیۃ وتشریعیۃ جمدت وربما بدلت وشوہت التعالیم القرآنیۃ التی کانت منفتحۃ وغنیۃ ومتعددۃ الاحتمالات والتی یمکن للبشریۃ أن تتأمل بہا وتفکر فیہا حتی یوم الدین وأعتقد أنہ إذ یقول ذلک یقول أشیاء صحیحۃ ولکننی سأدافع ولو للحظۃٍ عن کل أولٰئک الفقہاء والعلماء والمفسرین الذین طالما درستہم وعاشرت نصوصہم سوف أذکر محمد أرکون بأن ہؤلاء الفقہاء کانوا نشیطین جدا وأنھم حرکوا النصوص القرآنیۃ وأنعشوہا بتفاسیرہم إلی درجۃ أنہ یصعب علینا الیوم حتی باسم العلوم الإنسانیۃ أن نجد فیہا شیئا آخر جدیدا غیر الذی وجدوہ۔۔۔۔ المفسرون فی العصر الکلاسیکی للإسلام کانوا قادرین علی أن یستخرجوا من الآیات القرآنیۃ کل ما ہو مقال أو متضمن فیہا تقریباً ولہذا السبب أقول إن المسلمین المحدَثین الذین یستعیرون المناہج الغربیۃ کان أحری بہم أن یکتفوا بمناہج أسلافہم من القدماء فہی توصلہم بالدقۃ نفسہا لأن یستخلصوا من الآیات القرآنیۃ ما توصلہم إلیہ ہذہ المناہج التابعۃ للعلوم الإنسانیۃ والتی طالما یتغنی بہا محمد أرکون](الفکر الإسلامی نقد واجتہاد، محمد أرکون، ترجمہ ہاشم صالح:ص۳۲۶-۳۲۷)

 علامہ ابن تیمیہؒ نے محمد ارکون جیسے الحاد زدہ لوگوں کے بارے میں ہی غالباً فرمایا ہے: ’’السابقون الأوّلون‘ کو جاہل اور احمق سمجھنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ وہ تو انپڑھ اور گنوار لوگ تھے جن کا زیادہ سے زیادہ درجہ یہ ہو سکتا ہے کہ انھیں نیک اور پارسا مان لیا جائے، ورنہ وہ علمِ الٰہی کے حقائق ودقائق میں متبحر نہ تھے اور نہ علمِ الٰہی کے دقائق ولطائف ان کی دسترس میں آسکتے تھے، اور یہ ماننا کہ اس میدان میں بعد کے لوگ ان سے بازی لے گئے ہیں؛ یہ ایسی بات ہے جس پر کوئی انسان غور کرے تو اسے حد درجہ جہالت اور حد درجہ ضلالت سے بھرا پائے گا۔‘‘[إن استجہال السابقین الأولین واستبلاہہم واعتقاد أنھم کانوا قوما أمّیّین بمنزلۃ الصالحین من العامۃ لم یتبحرّوا فی حقائق العلم باللّٰہ ولم یتفطّنوا لدقائق العلم الإلٰہی وإن الخلف الفضلاء حازوا قصب السبق فی ہذا کلہ؛ ہذا القول إذا تدبّرہ الإنسان وجدہ فی غایۃ الجہالۃ بل وفی غایۃ الضّلالۃ](مجموع الفتاوی:۵/۱۰)

 ان لوگوں کا وہی حال ہے جو منافقین کا حال تھا۔ قرآن کہتا ہے:{وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُواْ کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاء أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَاء وَلَـکن لاَّ یَعْلَمُونَ}(بقرہ،۱۳)’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جس طرح دوسرے لوگ(یعنی صحابہ کرام) ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لائو تو وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟ خبردار، حقیقت میں تو یہ خود بے وقوف ہیں،مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘

 اس آیت میں جن اہلِ ایمان کا تذکرہ ہوا ہے اور جن کے ایمان لانے کو ایک نمونے اور مثال کے طور پر منافقین کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ کوئی اور نہیں، صحابۂ کرامؓ ہی ہیں۔ اس لیے آج بھی اگر کوئی صحابۂ کرامؓ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتا ہے، انھیں نادان، کم علم، جاہل، بے وقوف اور غیر دانش مند کہتا ہے تو قرآنی نص کے بہ موجب وہ خود بے وقوف ہے۔

اس نوع کی حرکتِ شنیعہ کرنے والے حقیقت میں اسلاف کی قدر ومنزلت کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔ صحابہؓ کے علم کی گہرائی ان کے سان وگمان سے بڑھ کر ہے۔وہ تکلفات سے دور تھے۔ ان کی بصیرت کامل درجے میں تھی۔اللہ کی قسم، بعدکے لوگوں کے اندر صحابۂ کرامؓ سے زیادہ بس ایک چیز پیدا ہوئی ہے اور وہ ہے تکلفات کا بوجھ اور ان چیزوں کے کناروں اور زوائد میں بحث وتکرار کرنا جن کے اصول کی رعایت صحابۂ کرامؓ نے فرمائی تھی اور قاعدوں کو منضبط کیا تھا اور بکھرائو اور انتشار کی پہلوئوں کو باندھ رکھا تھا۔اسلافِ امت کا حوصلہ ہر معاملے میں بلند ترین مطالب کی تحصیل کا رہا ہے۔متاخرین دوسری وادی میں ہیں اور اسلافِ امت کا میدان بالکل الگ تھا اور اس پر کسی کو شکوہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک وقت مقرر کیا ہے اور ہر فضیلت کے مستحق کچھ لوگ بنائے ہیں۔ [الواقعون فی ہذا محجوبون عن معرفۃ مقادیر السلف وعمق علومہم وقلۃ تکلفہم وکمال بصائرہم وتاللّٰہ ما امتاز عنہم المتأخرون إلا بالتکلف والاشتغال بالأطراف التی کانت ہمۃ القوم مراعاۃ أصولہا وضبط قواعدہا وشدّ معاقدہا وہممہم مشمّرۃ إلی المطالب العالیۃ فی کل شییٔ فالمتأخرون فی شأن والقوم فی شأن آخر وقد جعل اللّٰہ لکل شییٔ قدراً](شرح العقیدۃ الطحاویۃ،امام ابن ابی العز الحنفیؒ:ص۷۶)

 اس ملحدانہ ذہنیت کے بعض افراد دعویٰ کرتے ہیں کہ صحابہؓ کا فہمِ دین اور قرونِ اولیٰ کا مطالعۂ شریعت ان کے اپنے زمانے اور حالات کے موافق تھا اور مفید بھی تھا، مگر آج ہماری تمدنی وتہذیبی ضروریات کچھ اور تقاضا کرتی ہیں، اب اُس فہمِ دین کو حجت مان کر ہم نہیں جی سکتے ہیں۔ مگر یہ قولِ باطل ہے کیونکہ نصوصِ قرآنیہ بہ زبانِ عربی نازل ہوئی ہیں اور ہر آیت کے الفاظ کے کچھ طے شدہ معانی ہیں جنھیں اس زبان کے علماء وماہرین بہ خوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ارشادِ باری ہے:{إِنَّا أَنزَلْنَاہُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُون}(یوسف،۲)’’ہم نے اس کتاب کو نازل کیا ہے، قرآن بناکر عربی زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔‘‘

 اس کے بعد سنتِ محمدیہ نے قرآنی الفاظ کے ان لغوی معانی کی مزید تشریح وتبیین کردی ہے۔بعدازاں صحابۂ کرامؓ نے ان آیات کی تعبیر وتفسیر اس فہم کے مطابق فرمائی جو انھوں نے قرآن وسنت سے لیا۔ عربی زبان ان کی مادری زبان تھی۔ انھوں نے اللہ کے نبیﷺ کی صحبت بھی پائی اور ان موقعوں اور حالتوں کا مشاہدہ بھی کیا جس میں قرآن کی مختلف سورتیں اور آیتیں نازل ہوئی تھیں اور ان واقعات سے بھی گزرے جن میں اللہ کے رسولﷺ نے کوئی رہنمائی فرمائی۔اس کے بعد ملت کی نسلیں یکے بعد دیگرے آتی جاتی رہیں۔ ان میں علماء وفقہاء اور اکابرین وائمہ پیدا ہوتے گئے اور سب نے کتاب وسنت سے یہی فہم اخذ کیا جیسا کہ ا ن حضرات کی لکھی ہوئی کتابوں کے مطالعے سے مبرہن ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعویٰ کرنا کہ اسلاف نے قرآنی آیات کو اپنے زمانے کی معلومات وتجربات کے مطابق سمجھا تھا؛یہ محض ایک واہمہ (Illusion) ہے جس کی تردید معلوم تاریخی حقائق سے ہوجاتی ہے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ 

(جاری)

اپنی راۓ یہاں لکھیں