دین کی نئی تفہیم و تعبیر (آخری قسط)

(چھٹی/ آخری قسط)

دین کی نئی تفہیم وتعبیر

شیخ محمد صالح المنجد

ترجمہ: ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

نصِ شرعی کے نئے مطالعے اور نئے فہم کی اس دعوت کے بطن سے جو خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں اور مسلسل ہو رہے ہیں، انھیں دیکھ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دعوت اور مشن کے علم بردار کون لوگ ہیں اور وہ افرادِ ملت کو کس قعرِ مذلت اور خندقِ ضلالت میں گرادینا چاہتے ہیں۔

ان لوگوں کی نگارشات وفرمودات کا پہلا اثر یہ پڑتا ہے کہ دین کے مأخذ کے تئیں عام مسلمان کا بھروسا ٹوٹ جاتا ہے۔ دل کے اندر ایمان ویقین کی کیفیت دم توڑ دیتی ہے۔ قرآن وسنت کی روایتی تعبیر وتفسیر کے بارے میں بے اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ یہ بے اطمینانی گاہے انسان کو کفر وارتداد (Apostasy) تک پہنچا دیتی ہے۔

ان لوگوں نے قرآن کی حاکمانہ پوزیشن ختم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ وہ زندگی کا دستور العمل اور منشور بنے۔ مگر اس مکتبۂ فکر کے لوگ کہتے ہیں کہ ہر انسان کسی بھی آیت سے کچھ بھی سمجھنے کے لیے آزاد اور مختار ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا کوئی قانون یا ضابطہ نہیں رہ جائے گا جس کی روشنی میں کسی چیزکو صحیح یا غلط کہا جاسکے۔

اس مکتبۂ فکر کے کسی فرد کے سامنے تم قرآن کی کوئی آیت بہ طورِ دلیل پیش کرو تو وہ فوراً پلٹ کر کہتا ہے کہ آیت کا یہ مفہوم تم سمجھ رہے ہو، مگر میں بھی اسے درست سمجھوں ایسا ضروری اور لازمی نہیں ہے۔ یا پھر وہ کہے گا کہ یہ قرآن کا ایک احتمالی (Probable) وامکانی(Possible) معنی ہے جو تم پیش کر رہے ہو، مگر اس کے علاوہ بھی مطالعے کی جہتیں(Dimensions) موجود ہیں۔ اگر تم ان سے کہو کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فلاں آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے یا فلاں حکمِ شرعی پر پوری امت آج تک عمل کرتی آئی ہے تو یہ لوگ پلٹ کر کہتے ہیں کہ ابن عباسؓ کی رائے ہو یا پوری امت کا عمل ہو، یہ سب نصِ مقدس (Sacred Text)کا ایک احتمالی مطالعہ ہے، اس کے علاوہ بھی متنوع احتمالات (Probabilities) موجود ہیں۔

الغرض نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ قرآن جو مقدس کلامِ الٰہی ہے وہ دنیا سے اٹھ جائے گا اور جو کچھ باقی رہے گا وہ انسانی فہم اور انسانی مطالعہ ہے جو ہر فرد کے لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے اور جس کے ساتھ دوسرے احتمالات کی پوری گنجائش پائی جاتی ہے۔اللہ نے کوئی آیت نازل کرکے کیا معنی مراد لیا ہے، یہ ہم کبھی نہیں جان سکیں گے کیونکہ حقیقتِ مطلقہ(Absolute Truth) تک رسائی اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔ یہاں کوئی حقیقت آخری وحتمی نہیں ہے۔ ہر حقیقت کسی فرد کے لیے معتبر ہوتی ہے اور کسی کے لیے نامعتبر ہوتی ہے۔

اسی بات کو نصر حامد ابوزید نے یوں کہا ہے: ’’کچھ دیر کے لیے ہم مان لیتے ہیں کہ نصِ قرآنی کی کوئی مخصوص دلالت (Sense)ہے، تب بھی یہ محال ہے کہ کوئی شخص دعویٰ کرے کہ اس نے جو سمجھا ہے وہ وہی مخصوص قرآنی دلالت ہے۔‘‘ [بفرض وجود دلالۃ ذاتیۃ للنص القرآنی فإنہ من المستحیل أن یدعی أحد مطابقۃ فہمہ لتلک الدلالۃ] (نقد الخطاب الدینی:ص۲۱۹)

اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا تھا تاکہ یہ بندوں کے لیے مشعلِ راہ بنے، انھیں راستہ دکھائے، انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ مگر یہ ایمانی لٹیرے اور ضمیر فروش منافقین چاہتے ہیں کہ بندے اور رب کے درمیان اس رابطے کو کاٹ ڈالیں۔ یہ کہتے ہیں کہ کوئی بندہ کبھی بھی اپنے رب کی مرضی نہیں جان سکتا ہے اور نہ اپنی زندگی اس کے احکام کے مطابق گزار سکتا ہے۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم اپنے رب کی پکار پر لبیک کہیں گے یا ان بدبختوں اور ابن الوقتوں کی ہرزہ سرائیوں پر کان دھریں گے:{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ الْکَذِبَ وَہُوَ یُدْعَی إِلَی الْإِسْلَامِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ٭یُرِیْدُونَ لِیُطْفِؤُوا نُورَ اللَّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ٭ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ} (صف،۷-۹)’’اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اسے اسلام (اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دینے)کی دعوت دی جارہی ہو؟ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنے منھ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا،خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔وہی تو ہے جس نے اپنے رسول(محمدؐ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے، خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

اپنی راۓ یہاں لکھیں