ان حالات سے ایمان میں اضافہ ہونا چاہیے
مــحــمــد قمــرالـــزماں نــــدوی
استاد/ مدرسـه نـــور الاســلام کنــڈہ پـرتاپــگــڑھ 6393915491
قرآن مجید میں جنگ بدر کو یوم الفرقان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ یہ جنگ خیر و شر نور و ظلمت اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کن جنگ تھی ،اس جنگ کو ہم اسلام کے لئے ٹرننگ پوائنٹ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس میں مسلمانوں کو زبردست کامیابی ملی۔ ستر مشرکین قتل کئے گئے اور تقریبا اتنے ہی قیدی بنائے گئے، جنھیں بعد میں فدیہ لے کر آزاد کر دیا گیا،اور جو مالی اعتبار سے کمزور تھے، لیکن پڑھے لکھے تھے ،ان سے علمی خدمات لے کر ان کو رہا کر دیا گیا ۔ جنگ بدر میں ہار ، شکست و ہزیمت اور ناکامی سے مشرکین کو گہرا صدمہ ہوا، اور اس کا بدلہ لینے کے لئے وہ برابر کوشاں اور فکر مند رہے۔ جب جنگ احد کا واقعہ پیش آیا تو اس جنگ میں بھی پہلے پہل مسلمان ہی فاتح رہے، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر جہاں ظاہری فتح دیکھ کر پچاس میں سے چالیس صحابہ کرام جو ایک گھاٹی پر متعین کئے گئے تھے ، اپنی جگہ سے ہٹ گئے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور مشرکین کی طرف سے جنگ کے قائد اور ہیرو تھے، انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فتح حاصل کرنے کے باوجود شکست کھا گئے، کافی صحابہ کرام شہید ہوگئے اور متعدد زخمی ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چوٹیں آئیں ،دندان مبارک شہید ہوئے ۔ کافروں نے مسلمانوں کو مزید نروس اور خوف زدہ کرنے کے لیے یہ افواہ پھیلا دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وفات ہوگئ ہے۔جس سے مسلمانوں میں افرا تفری بے چینی اور سخت مایوسی پیدا ہوگئی، وہ شکستہ خاطر ہوکر بیٹھ گئے ۔ بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئی، پھر مسلمانوں کا ڈھارس بندھا، اور ان کے اندر ہمت و حوصلہ پیدا ہوا ۔
جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس جنگ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت چوٹیں آئیں، اور آپ بری طرح زخمی ہوئے، شانہ مبارک پر بھی چوٹیں آئیں اور دندان مبارک بھی شہید ہوئے ۔ اس ناکامی اور شکست کا فطری نتیجہ تھا کہ مسلمانوں میں سخت مایوسی و نا امیدی پیدا ہو اور وہ ان حالات سے مزید نروس اور خوفزدہ ہوجائیں ۔ اس موقع پر بعض منافقین نے مسلمانوں کو مشرکین سے مزید ڈرانے اور مرعوب کرنے کی کوشش کی، جس کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے ۔ لوگ تمہارے لئے اکٹھا ہوگئے ہیں ۔ تم ان سے ڈرو اور خوف کھاو ۔ لیکن صحابہ کرام ان کی اس بزدلانہ باتوں سے حوصلہ نہیں ہارے، ہمت و عزیمت حوصلہ و جرآت اور ثبات و قرار کے پیکر بنے رہے ۔ قرآن مجید نے صحابہ کرام کے ایمان و یقین اور عزیمت و قرار اور حوصلہ کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ موجودہ حالات کے تناظر میں ہمارے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ جب لوگوں نے ایمان والوں کو طرح طرح کی باتیں بنا کر ڈرانے کی کوشش کی، تو اس نے ان کے ایمان میں مزید اضافہ کردیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے ۔
اِس وقت پوری دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے حالات سخت ہیں، مسلمانوں کو کمزور اور خوفزدہ کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ان کو ہراساں کرنے اور انکے حوصلوں کو توڑنے کی پوری منصوبہ بند کوشش چل رہی ہے ،عدالتوں کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے ، ہماری مسجدوں کو قبضہ کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، گیان واپی مسجد کے تہ خانے میں پوجا کی اجازت دے کر قانون کے رکھوالوں نے خود قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی کوشش جاری ہے اور دوسری طرف مدارس کو بند کرنے کی بھی پلانگ جاری ہے اس کے لئے بھی قانون بنا رہے ہیں ۔ غرض ،ہر طرف مسلمانوں کے لیے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ مستقبل حال سے بھی تاریک نظر آرہا ہے ۔ حالات یقینا موہوم اور ناگفتہ بہ ہیں۔
ایسے سخت حالات میں ضرورت ہے کہ ایمان والے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روش اور راستہ اختیار کریں ۔ خواہ دشمن لاکھ ڈرانے کی کوشش کرے۔ وہ ہر طرف سے گھیرا ڈالنے کی کوشش کرے۔ جب نگاہیں پتھرا جائیں اور کلیجے منہ کو آجائیں اور جب حالت ایسی ہو کہ ہر وقت دشمن کی سازش کا خطرہ ہو ایسے وقت میں بھی اہل ایمان کو گھبرانے اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ ان حالات کی وجہ سے ہمارے ایمان و یقین میں اور اضافہ ہونا چاہیے، ہمارے پائے استقامت میں مزید مضبوطی و پختگی آنی چاہیے ۔ حالات کو دیکھ دل برداشتہ ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ہے۔
ایمان والوں پر ہمیشہ حالات آئیں ہیں، انہیں سخت آزمائشوں اور امتحانات سے بارہا گزرنا پڑا ہے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے جو واقعات اور دعوتی زندگی کا تذکرہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اہل حق کو ہمیشہ ڈرایا اور ستایا گیا ،انہیں ہر ممکن ہراساں کیا گیا، انہیں بے وطن کرنے اور ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ۔انہیں قید و بند کی اذیتوں سے گزرنا پڑا ۔انہیں اپنوں نے بھی ستایا غیروں نے بھی انہیں تختئہ مشق بنایا ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کی قوم نے یہاں تک دھمکی دی اور وارننگ دی کہ: اے شعیب! ہم تمہیں اور تمہارے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے اپنے ملک سے نکال دیں گے، یا یہ کہ تم ہماری ملت میں ہمارے مذہب میں لوٹ آو یعنی گھر واپسی کرلو ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خود انہیں کے والد نے دھمکی دی،دعوت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی، اور ان کے لئے عرصئہ حیات تنگ کرنے کی پوری کوشش کی ۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے ان کو اسی طرح جلا وطنی اور بے گھر کرنے کی دھمکی دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفار مکہ اور عرب کے مشرکین اور یہود و نصاری نے کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے، اور کس کس طرح آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر مشکلیں نہ ڈھائیں یہ سب تاریخ کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ایمان والوں کو یہ سمجھا دیا اور اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ ایمان والوں کو تو آزمائشوں اور حالات سے گزرنا ہی پڑے گا ۔
سورہ عنکبوت میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے، : کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف ان کے یہ کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئیں ہیں ،انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا، میں نے تو ان سے پچھلے لوگوں کو بھی آزمایا تھا او ان کو بھی آزمائیں گے۔
بہرحال اس وقت مخالف طاقتیں ہمارے خلاف متحد ہوگئی ہیں، وہ ہمیں خوف و دہشت میں مبتلا کرنا چاہتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے رہیں اور آتے رہیں گے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دین حق کی خاطر اللہ کے پیغمبروں نے تکلیفیں برداشت کیں، اور ان کے رفقاء نے جان و مال کی مصیبت کو برداشت کیا، بائکاٹ کی صعوبتوں کو سہا، لیکن ان کی زبان پر صرف ایک جملہ ہوتا۔۔ حسبنا الله ونعم الوکیل ۔ یہی کیفیت آج کے حالات میں ہم مسلمانوں سے بھی مطلوب ہے۔۔
یقینا یہ حالات ہمارے امتحان اور آزمائش کے لئے آتے ہیں، ان حالات سے مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان حالات سے ہمارے ایمان و عمل میں اضافہ ہونا چاہیے، یقین مضبوط ہونا چاہئے ۔ ان حالات میں اپنے رب سے تعلق اور رشتے کو اور مضبوط و مستحکم کرنا چاہیے ۔ خدا کرے یہ حقیقت ہمارے دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور ہمارے ایمان و یقین اور عمل و قرار میں مضبوطی پیدا ہوجائے آمین۔
اخیر میں ہم ایک خاص نکتہ جانب بھی اشارہ کرنا چاہتے ہیں اور ایک قرآنی نسخہ ،حل اور فارمولا بتانا چاہتے ہیں جو مصیبت و مشکلات اور حالات و مصائب کے حل کے لیے بہت ضروری ہے اور وہ فارمولا یہ ہے کہ جب دشمنوں سے مقابلہ ہو تو اس وقت قرآن مجید نے ایک پانچ نکاتی پروگرام اور فارمولا پیش کیا ہے اس پر ہم سب عمل کریں ۔ اگر ہم مسلمان اس پر عمل کریں گے تو ہم مشکل حالات سے نکل جائیں گے اور کامیابی و کامرانی ہمارا نصیبہ ہوگی اور ہم ہر طرح سے غالب و حاکم ہوں گے ہمارا ستارئہ اقبال بلند ہوگا ،ناکامی محرومی اور شکست خوردگی کے دلدل سے ہم نکل جائیں گے ۔ وہ پانچ نکاتی پروگرام اور فارمولا کیا ہے ؟
دوستو !
ان میں پہلی چیز ہے کہ دشمن کے سامنے دٹ جانا ثابت قدم رہنا اور ہر طرح سے دشمن کو ناکام کرنا ، دوسری چیز ہے اللہ کا کثرت سے ذکر ، یہ کامیابی کی شاہ کلید ہے ، ذکر میں نماز دعا تلاوت تسبیحات یہ سب شامل ہیں ، تیسری چیز ہے اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت زندگی کے ہر موڑ اور ہر موقع پر اور چوتھی چیز ہے اختلاف منزاعت اور جھگڑا و انتشار سے پرہیز کیونکہ اس سے اجتماعیت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اور ہماری ہوائیں اکھڑ جاتی ہیں اور یہ ناکامی کا پیش خیمہ ہے اور پانچویں اور آخری چیز ہے صبر اختیار کرنا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں اس فارمولے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔
یا ایھا الذین آمنوا اذا لقیتم فئیة فاثبتوا ، و اذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون ، و اطیعوا اللہ و رسولہ ، ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم ، واصبروا ان اللہ مع الصابرین ۔۔۔۔
اے ایمان والو! جب تمہارا کسی مخالف جماعت سے سامنا ہو تو ثابت قدم رہو ، اللہ کو کثرت سے یاد کرو شاید کہ کامیاب ہو جاؤ
اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت و پیروی کرو ، مت جھگڑو ورنہ ناکام و نامراد ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی ، اور صبر کرو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔
ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ واٹس ایپ نمبر
9506600725
***