(رمضان سیریز: 18)
رمضان المبارک میں اعتکاف
ذکی الرحمٰن غازی مدنی
جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعتکاف کرنے والوں کی مدح وتوصیف فرمائی ہے اور بیت اللہ یعنی حرمِ مکہ کی صفائی ستھرائی اور نظم وانصرام کا ایک مقصد یہ بتایا ہے کہ یہاں لوگ آکر اعتکاف کریں گے۔ ارشادِ ربانی ہے: {وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ} (بقرہ، ۱۲۵) ’’اور ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ ‘‘
رمضان کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اس کے آخری عشرے میں اعتکاف کی عبادت کو مشروع کیا گیا ہے۔ اس عشرے کی فضیلت یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اس میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور آپ کا یہ تعامل تادمِ واپسیں برقرار رہا۔ [کان یعتکف العشر الأواخر من رمضان المبارک حتی توفاہ اللہ عزل وجل] (صحیح بخاریؒ:۱۹۳۱۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۶۷)
ویسے تو اعتکاف پورے سال میں کبھی بھی کیا جاسکتا ہے لیکن رمضان المبارک اور اس میں بھی بالخصوص آخری عشرے میں اس کی فضیلت وعظمت سب سے فائق ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے، لیکن جس سال آپﷺ کی وفات ہوئی آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ ‘‘ [کان رسول اللہ یعتکف فی کل رمضان المبارک عشرۃ أیام فلما کان العام الذی قبض فی اعتکف عشرین یوماً] (صحیح بخاریؒ:۱۹۳۹)
آخری عشرے میں آپﷺ کے اعتکاف کی حکمت علمائے کرام نے یوں بیان کی ہے کہ اس عشرے میں آپﷺ شب ِ قدر کی تلاش میں یکسو ہوجاتے تھے اور ذکر ومناجات اور دعا وتضرع کے لیے خود کو فارغ کر لیتے تھے۔
چونکہ اعتکاف ایک جلیل القدر عبادت ہے، اس لیے اس سے متعلق بعض شرعی احکام کو جان لینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔ اعتکاف کا مطلب ہے کہ انسان دنیاوی مشاغل ومصروفیات سے فارغ ہوکر خالص اجر وثواب کی خاطر اور شب ِ قدر کے حصول کی امید میں کسی مسجد میں گوشہ نشیں ہوجائے اور خود کو دنیاوی علائق وحوائج سے حتی المقدور کاٹ لے۔
اعتکاف کا ارادہ کرنے والے ہر شخص کے لیے اس کی نیت کرنا ضروری ہے، کیونکہ نیت کے بغیر اعمال رائیگاں ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ ‘‘ [إنما الأعمال بالنیات۔۔۔] (صحیح بخاریؒ:۱۔ صحیح مسلمؒ:۱۹۰۷)
اعتکاف کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاص طور سے اللہ کے گھر یعنی مسجد میں کیا جائے کیونکہ قرآن (سورہ بقرہ، ۱۸۷:وأنتم عاکفون فی المساجد) سے بھی اس کی رہنمائی ملتی ہے اور اللہ کے رسولﷺ کا بھی یہی طرزِ عمل تھا۔
مناسب ہے کہ اعتکاف ایسی مسجد میں رکھا جائے جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو کیونکہ ایسا نہ کرنے پر جمعہ کی نماز کے لیے نکلنا اور شاید ایک سے زیادہ بار نکلنا واجب ہوگا، حالانکہ مسجد سے نکلنا اعتکاف کے مقاصد کو فوت کردینے کا سبب بنتا ہے۔
علمائے کرام کے یہاں اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اعتکاف کے لیے روزے دار ہونا ضروری ہے یا نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے روزہ رکھنا شرط نہیں ہے، مستحب ہے۔ یعنی روزہ رکھنے سے معذور کوئی شخص اگر چاہے تو مسجد میں اعتکاف رکھ سکتا ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک بار اللہ کے نبیﷺنے رمضان المبارک کے اعتکاف کی قضا کرتے ہوئے ماہِ شوال میں اعتکاف رکھا تھا، جس میں روزہ رکھنے کا تذکرہ نہیں ہے۔ [اعتکف فی شوال] (صحیح بخاریؒ:۱۹۲۸۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۷۳) اسی طرح آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو ایک رات کے لیے اعتکاف رکھنے کا حکم دیا تھا۔ [فأوف بنذرک فاعتکف لیلۃ] (صحیح بخاریؒ:۲۰۴۳) اگر روزہ اعتکاف کی شرط ہوتا تو آپﷺ صرف رات میں اعتکاف کا حکم نہ فرماتے۔
نفل اعتکاف کی مدت کے بارے میں صحیح ترین بات یہ ہے کہ یہ کم از کم ایک دن رات کے لیے ہونا چاہیے۔
اعتکاف میں داخل ہونے کا صحیح وقت غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے ہے، یعنی اگر کوئی آخری عشرے کا اعتکاف رکھنا چاہتا ہے تو اسے بیسویں روزے کا سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف میں داخل ہوجانا چاہے۔ لیکن اگر کوئی اگلے دن فجر کی نماز تک بھی اعتکاف میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کا اعتکاف ان شاء اللہ درست ہوگا۔ ہماری ماں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:اگر اللہ کے رسولﷺ کا اعتکاف کا ارادہ ہوتا تھا تو فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف میں داخل ہوجاتے تھے۔ ‘‘ [أن النبیﷺ کان إذا أراد أن أعتکف صلی الفجر ثم دخل معتکفہ] (صحیح بخاریؒ:۱۹۲۸۔ صحیح مسلمؒ:۱۱۷۳)
معتکف کے لیے مستحب ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت ذکر وتلاوت اور نماز وعبادت میں گزارے۔ جماع اور اس کے مقدمات ولوازمات معتکف پر بالکل حرام ہیں۔ (سورہ بقرہ، ۱۸۷) تاہم وہ مسجد میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے اور اس کے بیوی بچے وہاں ملاقات کے لیے جاسکتے ہیں۔ ہماری ماں حضرت صفیہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کی زیارت کو جاتی تھیں اور اعتکاف کے خاص حصہ میں بیٹھ کر کچھ دیر باتیں کرتی تھیں اور پھر لوٹ آتی تھیں۔ ‘‘ [أن صفیۃ زارتہﷺ فی معتکفہ وتحدثت عندہ ساعۃ ثم قامت] (صحیح بخاریؒ:۱۹۳۰۔ صحیح مسلم۲۱۷۵)
معتکف اپنے جسم کا بعض حصہ مسجد کی حدود سے نکال سکتا ہے۔ پورا جسم نکالنے کی تین شکلیں ہیں:
الف) معتکف اپنی طبعی وشرعی ضروریات (قضائے حاجت، کھانے پینے، نمازِ جمعہ وغیرہ) کی تکمیل کے لیے مسجد کی حدود سے باہر نکل سکتا ہے۔
ب) معتکف کسی ایسے نیک کام کے لیے جو خاص اسی پر واجب نہیں ہے (مثلاًمریض کی عیادت، تدفینِ جنازہ وغیرہ) مسجد کی حدود سے باہر نکل سکتا ہے بشرطیکہ اس نے ابتدائے اعتکاف ہی میں اس قسم کے نکلنے کی مشروط نیت کی ہو۔
ج) معتکف کے لیے کسی ایسے کام کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے جو اعتکاف کی روح اور اس کے مقاصد کے منافی ہو، مثلاً خرید وفروخت کے لیے یااہلِ خانہ سے ملنے یا مجامعت کے لیے۔ ایسی مشروط نیت بھی بے معنی ہے۔
نوٹ: تمام معتکف بھائیوں سے درخواست ہے کہ اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس دعا کا اہتمام ضرور فرمائیں: "اللہم من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام، ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان”۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے، آمین یا رب العالمین۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔