اردو ادب کے شعری اصناف
رباعی
اردو ادب کی منظوم اور مربوط اصناف میں سب سے دلچسپ اور لطف اندوز صنف رباعی ہے۔اس کا ایک دوسرا نام ترانہ بھی ہے۔ یہ سب سے چھوٹی نظم ہے۔ اس میں صرف دو اشعار اور چار مصرعے ہوتے ہیں، جس میں اشعار اپنی پوری بات کہ دیتاہے۔رباعی کے پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ تیسرا مصرعہ باقافیہ اور بے قافیہ دونوں طرح مستعمل ملتا ہے۔
رباعی کی اصل جان اس کا چوتھا مصرعہ ہوتاہے۔ کیونکہ چوتھا مصرعہ جتنا عمدہ ہوگا رباعی اتنی اچھی ہوگی۔ رباعی کےلیےموضوع کی کوئی قید نہیں۔ ہر موضوع پر رباعیاں لکھی گئی ہیں۔ اردو میں صرف یہی ایک صنف ہے جس کے اوزان مقرر ہیں۔ رباعی کے لیے ۲۴ اوزان مقرر کیے گیے ہیں۔
قطعہ
قطعہ کے لغوی معنی ٹکڑا اور جزو کے ہیں۔ اصطلاح میں ایسے نظم کو کہتے ہیں جس میں کوئی خیال یا واقعہ تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ رباعی کی طرح قطعہ کی بھی اردو شاعری میں ایک الگ پہچان ہے۔ قطعہ کو مختصر نظم بھی کہا جاتا ہے۔ قطعہ کے لیے کم از کم دو شعر یا چار مصرعوں کا ہونا ضروری ہے۔ قطعہ میں مطلع کی موجودگی ضروری نہیں، لیکن ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیہ کی پابندی ضروری ہے۔ قطعہ ہر بحر میں کہا جا سکتا ہے۔
ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں:
حقیقت کی تجھ کو خبر ہی نہیں
نہ جا ان کے ظاہر پہ میرے مربی
کمائی پہ رشوت کی اکثر بنے ہیں
وہ گھر جن پہ لکھا ہے ’’من فضل ربی‘‘
شہر آشوب
شہرآشوب ایسے صنفِ نظم کو کہتے ہیں جس میں ملک،زمانہ اور شہروں کی بدحالی کا تذکرہ کیا گیا ہو، خواہ وہ مخمس کی ہیئت میں ہو یا مسدس میں۔ حالی کی مشہور شہر آشوب ’’ مسدس و مدوجزر اسلام‘‘ ایک اعلی درجے کا شہرِآشوب ہے۔ آج سیاسی،معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھی جانے والی نظمیں شہرِ آشوب کے زمرے میں ہی آتی ہے۔
ریختی
ریختی ایسی نظم کو کہتے ہیں جو عورتوں کی بولی میں کہی جائے۔ ریختی عام طور سے غزل کی ہیئت میں لکھی جاتی ہے۔ بعض شعراء نے مستزاد کی ہیئت میں بھی ریختی لکھی ہے۔
واسوخت
ایسے اشعار کو کہتے ہیں جن میں شاعر اپنی محبوب کی بے وفائی اور بے رخی سے تنگ آ کر اس سے بےتوجہی اور بے التفاتی کا اظہار کرے۔ محبوب کو جلانے کے غرض سے ایسے اشعار کہے جائے جسے سن کر محبوب اس کی طرف دوبارہ مائل ہو جائے۔ واسوخت کے لیے کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں۔ غزل، نظم، قطعہ، رباعی کسی بھی ہیئت میں کہی جا سکتی ہے۔
تضمین
تضمین کے لغوی معنی ملانا، شامل کرنا ہے۔ اصطلاح میں کسی دوسرے کے شعر پر بند یا مصرعہ لگانا ہے، یعنی شعر پر ایک مصرعہ لگا کر مثلث بنا دینا۔ اسی طرح رباعی پر ایک مصرعہ بڑھا کر مخمس کر لینا اور مخمس پر مزید اضافہ کر کے مسدس بنا لینا وغیرہ۔
مستزاد
مستزاد کے لغوی معنی ہے اضافہ چاہنا۔ اصطلاح میں ایک مصرعے پر نصف مصرعہ یا ٹکڑے کا اضافہ کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ ٹکڑا یا مصرعہ باہم ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ جیسے:
برہمن سے رخصت ہیں آج گیان کی باتیں ’’اور دھیان کی باتیں‘‘
شیخ میں نہیں باقی شیوہ مسلمانی!’’ پاس ذوق ایمانی‘‘
اس صنف پر شعراء نے بہت کم کام کیا۔
مثلث
وہ نظم جس کا ہر بند تین مصرعوں پر مشتمل ہو۔ مثلث کے پہلے تین مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہر بند کے پہلے اور دوسرے مصرعے کسی الگ قافیہ میں ہوتے ہیں لیکن ہر بند کا تیسرا مصرعہ پہلے بند کے قافیے کا پابند ہوتا ہے۔
علاجِ دردِ دل بے قرار کر لیتے!
تلافی غم لیل و نہار کر لیتے!
ستم شعار کو جی بھر کے پیار کر لیتے!
فسانۂ غم فرقت انہیں دکھاتے ہم
جو ہم پہ گزری ہے حالت انہیں دکھاتے ہم
اور اپنے ساتھ انہیں اشکبار کر لیتے!
مربع
ایسے نظم کو کہتے ہیں جس کا ہر بند چار مصرعوں پر مشتمل ہو۔ کبھی یہ چاروں مصرعے آپس میں ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں تو کبھی صرف دوسرا اور چوتھا مصرعہ۔ مربع کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں، ہر موضوع پر یہ کہے جا سکتے ہیں۔ علامہ اقبال کے نظم علم و عشق سے یہ مربع ملاحظہ فرمائے:
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن!
عشق نے مجھ سے کہا علم تخمین و ظن!
بندۂ تخمین و ظن! کرم کتابی نہ بن!
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب!
عشق کی گرمی سے معرکۂ کائنات!
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات!
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات!
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب!
مخمس
جس نظم کا ہر بند پانچ مصرعوں پر مشتمل ہو اسے مخمس کہا جاتا ہے۔ اس کی صورتیں ہو سکتی ہیں:
پہلی صورت
پہلے بند کے پانچ مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف یا صرف ہم ردیف ہوں، اس کے بعد ہر بند کے پہلے چار مصرعے آپس میں ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں اور پانچواں مصرعہ پہلے بند کا ہم قافیہ ہوگا۔ جیسے:
کتنی شاداب ہے دنیا کی فضا آج کی رات
کتنی سرشار ہے گلشن کی ہوا آج کی رات
کتنی فیاض ہے رحمت کی گھٹا آج کی رات
کس قدر خوش ہے خدائی سے خدا آج کی رات
کہ نظر آئے گی وہ ماہِ لقا آج کی رات!
کیوں نہ گلزار میں اٹھلاتی پھرے موجِ نسیم
کیوں نہ ہر پھول ہو لبریز بہارِ تسنیم
کوں نہ ہو آمادۂ افلاک ہو پرواز شمیم
کیوں نہ ہر زرّہ بنے جلوہ گہر طور و کلیم
کہ انہیں دیکھیں گے ہم جلوہ نما آج کی رات!
دوسری صورت:
ایک بند کے پہلے تین مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف یا صرف ہم قافیہ ہوں، اور ہر بند کا چوتھا اور پانچواں مصرعہ آپس میں ہم قافیہ و ہم ردیف ہوں۔ جیسے:
موسم کی پابند نہیں ہیں قدرت کے گلزار
چلتی ہیں ہر سمت ہوائیں مستی میں سرشار
کانٹے جن پر وارے جائیں لاکھوں سر و چنار
نقاش فطرت کےآگے کیا ہے دستِ مانی
لہراتا، بل کھاتا، بڑھتا، جھل جھل کرتا پانی
مسدس
صنفِ مسدس کا ہر بند چھ مصرعوں پر مشتمل ہوتاہے۔ پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے یا صرف ہم قافیہ ہوتا ہے، جبکہ پانچواں اور چھٹا مصرعہ الگ ہم قافیہ و ردیف یا صرف ہم ردیف ہوتے ہیں۔ مسدس میں موضوع اور بندوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں۔ مولانا حالی کی مشہور نظم ’’مسدس و مدوجزر اسلام‘‘ مسدس ہیئت میں ہے، جو مسدس حالی کے نام سے موسوم ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال کی شہرہ آفاق نظمیں ’’شکوہ اور جواب شکوہ‘‘ بھی مسدس کی ہیئت میں ہیں۔ ان کے علاوہ اردو کے زیادہ تر مراثی اسی ہیئت میں لکھے گئے ہیں۔ مسدس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائے:
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدس الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا
مسمط
عربہ زبان کا لفظ ہے، اس کے لغوی معنی ہیں پروئی ہوئہ چیز۔ اصطلاح میں ایسے نظم کو کہتے ہیں جس کا ہر بند ایک مقررہ تعداد کے مصرعوں پر مشتمل ہو۔ ایک بند میں مصرعوں کی تعداد تین سےلیکر دس تک ہو سکتی ہیں۔ مسمط کی یوں تو آتھ قسمیں بنتی ہیں، لیکن ان میں چار عام طور سے مستعمل ہیں مثلث،مربع،مخمس، مسدس
مثمن
مثمن ایسے نظم کو کہتے ہیں جس کے ہر بند میں آٹھ مصرعے ہوں۔ مثمن کے لیے اس کے پہلے بند کے تمام مصرعوں کا ہم قافیہ و ہم ردیف ہونا ضروری ہے۔ پہلے بند کے بعد ہر بند کے پہلے چھ یا سات مصرعے الگ قافیہ میں ہوں گے اور آخر کے ایک یا دو مصرعوں میں پہلے بند کے قافیہ کی رعایت کی جاتی ہے۔
گیت
لغت میں گیت سے مراد ’’راگ‘‘ ’’سرور‘‘ اور ’’نغمہ‘‘ کے ہیں، اس لیے اسے گیت کو گانے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ موسیقی سے اس کا گہرا رشتہ ہے اس لیے اس میں تال، سر کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ زمانۂ قدیم میں عورت مرد کو مخاطب بنا کر اظہار کرتی تھی۔ مگر اب ہجر و فراق کے مضامین مرد کی طرف سے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں فلموں کی وجہ سے اس صنف خوب ترقی کی اور مزید کر رہی ہے۔ مگر آج گیت میں شاعری سے زیادہ موسیقی اور رقص پر توجہ دی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بہت سے گیتوں کے موضوع بنا سر پیر کے ہوتے ہیں۔
چہار بیت
چہار بیت ایسی نظم کو کہتے ہیں جسے چند لوگ ایک ساتھ مل کر گاتے ہیں۔ اس میں گروہ آپس میں سوال و جواب کے طرز پر اشعار کہتے ہیں۔ چہار بیت کے لیے کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں یہ مربع،مخمس، مسمط کسی بھی ہیئت میں کہی جا سکتی ہے، اسی طرح اس کے موضوعات کی بھی کوئی قید نہیں اخلاقی، سماجی، تاریخی غرض ہر موضوع چہار بیت کہی جا سکتی ہے۔
ہائکو
ہائکو ایک جاپانی صنف سخن ہے۔ ’’ ہاشو‘‘ اس کا استاذ مانا جاتا ہے۔ اس میں تین مصرعے ہوتے ہیں اور قافیہ کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ مثلث میں بھی تین ہی مصرعے ہوتے ہیں لیکن اس میں وزن ایک ہی ہوتا ہے، جبکہ ہائکو میں تین مصرعے مختلف اوزان میں ہوتے ہیں۔ ہائکو کے پہلے مصرعے میں ارکان کی تعداد پانچ دوسرے میں سات اور تیسرے میں پانچ ہوتے ہیں۔ مثلاً
دھوپ میں نرمی تھی
نرم ملائم موسم تھا
یادیں بچپن کی
ترائیلے
ترائیلے آٹھ مصرعوں والی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کوئی خیال پیش کیا گیا ہو۔ یہ ایک فرانسیسی صنف ہے۔ اس کا پہلا، تیسرا اور پانچواں مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے۔ ترائیلے کا موجد ’’ اڈنس لے رائے‘‘ کو قرار دیا جاتا ہے۔
ماخذ:۔ آئین اردو، اردو ادب کی شعری اصناف