اخلاقِ نبوی ﷺ
مفتی ولی اللہ مجیدقاسمی
خالق کائنات نے انسان کو خلاصہ کائنات بنایا ، اسے خوبصورت ترین جسم اوربہترین پیرہن سے نوازا، عقل و شعور کی دولت بخشی، غوروفکر کی صلاحیت عطاکی، احساسات و جذبات کا سرمایہ دیا اور دنیاکی تمام چیزوں پردسترس حاصل کرنے کی قوت دی اور اس میں تصرف کرنے کا اختیار عنایت کیا، تاکہ معلوم ہوسکے کہ اخلاق و کردار اور عمل کے اعتبار سے کون بہترہے۔
اور خیرو شر کی تمییز کے لیے نبیوں اور رسولوں کاسلسلہ جاری فرمایاتاکہ علم کے ساتھ اس کا عملی نمونہ بھی لوگوں کے سامنے رہے اور سب سے آخرمیں رہتی دنیا تک کے لیے محمدﷺ کو مبعوث فرمایاجوپوری کائنات کے لیے پیکر رحم و کرم بناکربھیجے گئے۔
چنانچہ تمام جہانوں کے رحمان و رحیم، رب کی طرف سے اعلان کیاگیاکہ
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ (انبیاء/107)
ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجاہے۔
اور جن کے متعلق خود اس نے گواہی دی کہ
انک لعلیٰ خلق عظیم(القلم/4)
تم اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو۔
نیز ارشاد فرمایاکہ:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔التوبۃ/۱۲۸)
تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک پیامبر آئے جن پر تمہاری پریشانیاں نہایت گراں گذرتی ہیں اور جو تمہاری اچھائی اور بھلائی کے خواہش مندرہتے ہیں اور اہل ایمان پر نہایت نرم اور مہربان ہیں۔
رحم وکرم کی متعدد شکلیں اور مختلف درجے ہیں۔ پیاسے کو پانی پلانا، بھوکے کو کھانا کھلانا، بے لباسوں کو کپڑا پہنانا، مہمان نوازی کرنا، ٹھنڈک میں غریبوں کے لیے گرم کپڑے اور لحاف کا نظم کرنا، اجنبی مسافر کو راستہ بتانا، ناداروں اور کمزوروں کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرنا، بچوں، ضعیفوں، غلاموں اور ماتحتوں پر ترس کھانا، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤکرنا، مصیبت اور حادثات میں لوگوں کی مدد کرنا، ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہونا۔
یہ سب رحم کی صورتیں ہیں، اور اسی جذبے کے تحت والدین اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، اور ڈوبنے یا جل کر مرنے والوں کو اپنی جان پر کھیل کر لوگ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب رحمت کی ظاہری شکلیں ہیں،
حقیقی رحمت یہ ہے کہ انسانیت کو ہلاکت وتباہی کے جہنم میں گرنے سے بچا لیا جائے، اور زخمی روح کی شفایابی کی کوشش کی جائے، اور اسے اخلاق وکردار کا پیکر بنا کر دنیا اور آخرت کی سعادت سے ہمکنار کیا جائے۔ اللہ کے رسول کی زندگی اور تعلیمات میں رحمت کی یہ دونوں شکلیں بہت نمایاں ہیں۔
آپ کی تعلیمات کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے جوکچھ کہاسب سے پہلے خود اس پر عمل کرکے دکھایا، آپ کی پوری زندگی قول و فعل کے تضادسے خالی تھی، آپ کی زندگی اللہ کی رضا سے عبارت تھی۔
عبادت، معاشرت، اخلاق، معاملات، محبت و نفرت، ہرچیز اللہ کی رضا کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی ، جس طرح سے آپ کی نماز اور روزہ عبادت ہوتی تھی، اسی طرح سے آپ ہنسی اور خندہ پیشانی اورخوش خلقی کو بھی عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ، لَا شَرِیۡکَ لَہٗ ۚ وَ بِذٰلِکَ اُمِرۡتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿انعام/162،163﴾ ۔
تم کہہ دو کہ میری نماز ، میری عبادت اور میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ ہی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کاپروردگار ہے، جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں فرمانبرداروں میں سب سے پہلافرمانبردارہوں۔
آپ کو خود دست قدرت نے سجایا اور سنواراتھااور رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ اور آئیڈیل بنایا۔
جیساکہ قرآن گواہی دیتاہے کہ:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة (الاحزاب/21)
تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات ایک بہترین نمونہ ہے۔
اس لیے کہ آپ کا پیکر قرآن کے سانچے میں ڈھلاہواتھا، قرآن میں جوکچھ بھی ہے اس کے سب سے پہلے مخاطب اور سب سے زیادہ پابند آپ تھے، بیوی سے بڑھ کر رازدار کون ہوسکتاہے،
آپ کی اہلیہ حضرت عائشہؓ آپ کے اخلاق کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
کان خلقہ القرآن۔
آپ سراپا قرآن تھے۔(مسنداحمد91/6)
حسن سلوک
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
واحسنوا ان اللّٰہ یحب المحسنین۔
اوراچھی روش اختیار کرو، اللہ تعالیٰ اچھی روش اختیار کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
اور نبی ﷺ نے فرمایاکہ:
ان اللہ کتب الاحسان علی کل شیئ۔(رواہ مسلم، ریاض الصالحین/248، باب الحلم والرفق)
اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ اچھے برتاؤکوضروری قرار دیاہے۔
آنحضور کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلوحسن سلوک ہے جس میں دوست اور دشمن، اپنے اور بے گانے،طاقتور اور کمزور، مالدار یانادار کی کوئی تفریق نہ تھی، بلکہ ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک روارکھتے تھے ، جو سراپا رحم دلی اور انسانیت نوازی سے عبارت تھی۔ کسی کی دل شکنی اور بے عزتی گوارا نہ تھی ، کسی کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچے یہ برداشت نہ تھا۔
غیرمسلموں کے ساتھ آپ کا برتاؤ
اپنوں ، دوستوں اور مالداروں کے ساتھ اچھابرتاؤتو بہت آسان ہے لیکن غیروں، دشمنوں اور کمزوروں اور ناداروں کے ساتھ حسن سلوک بڑادشوار ہے لیکن یہی حسن اخلاق کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار ہے اور اللہ کے رسول کی زندگی میں یہ کٹھن مرحلہ بڑا آسان نظر آتا ہے، اس لیے کہ آپ کی ذات، پوری انسانیت کے لیے پیکررحم و کرم تھی، اس لیے آپ ﷺ سخت غصہ کی حالت میں اور شدید ترین دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہاکرتے تھے۔
مکہ کے مشرکوں نے آپ پر ظلم و ستم کے ترکش کے تمام تیر استعمال کرڈالے، ستم رانی کا کون سا ایساطریقہ تھاجوآپ پر آزمایانہ گیاہولیکن ان سب کے باوجود جب غزوہ بدر میں یہ لوگ مارے گئے تو آپ نے ان کی لاشوں کوچیل کوے، کتے اور جنگلی جانوروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی تدفین کا انتظام کیا اور اس جنگ میں جولوگ قیدی بنائے گئے تھے ، ان کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرنے کی تاکیدفرمائی،
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام خود بھوکے رہ کر انھیں پیٹ بھرکھلایاکرتے تھے اور جب یہ لوگ قید سے رہاہوئے تو انھیں نیا جوڑا عنایت کرکے عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔
عکرمہ بن ابوجہل آپ کا جانی دشمن تھا، فتح مکہ کے بعدبھاگ کر یمن چلاگیا، ان کی بیوی نے ان کی جان کی امان چاہی، آپ نے بخوشی امان مرحمت فرمایا، وہ انھیں لے کر آپ کی خدمت میں حاضرہوئیں، فرطِ مسرت کی وجہ سے آپ کھڑے ہوگئے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔
مرحبا بالراکب المھاجر
ہجرت کرنے والے سوار! خوش آمدید۔(السیرة النبویہ للصلابی ۲/۸۱۶)
ایک شخص جو جنگ کی آگ بھڑکانے میں پیش پیش رہاکرتاتھا اور آپ کی جان لینے کے لیے موقع کی تلاش میں تھالیکن جب اس کی جان پر بن آئی تو بھاگ کھڑاہوا، ایسے شخص کا اس قدر شان دار استقبال، اور بھگوڑاکہنے کے بجائے ”مہاجر“ کے لفظ کا استعمال کیااس کی کہیں اور کوئی مثال مل سکتی ہے؟
صفوان بن امیہ نے عمیر بن وھب کو آپ کے قتل پر اکسایاتھا، جنھوں نے مدینہ پہنچ کر آپ کے حسن سلوک سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیا اور صفوان شرک پر قائم رہا اور فتح مکہ کے بعد جدہ بھاگ گیا۔ حضرت عمیر نے اس کی طرف سے امان چاہا، آپ نے امان دے دیا اور بطور نشانی اپنا عمامہ عنایت فرمایاجسے لے کر وہ صفوان کے پاس گئے، اس نے آتے ہی فوراً پوچھا کہ عمیر کہتے ہیں کہ میری جان کو امان ہے ، کیایہ سچ ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں، اس نے کہاکہ مجھے دو ماہ کی مہلت مطلوب ہے ، آپ نے فرمایاکہ چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے ۔ صفوان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میری نگاہ میں ناپسندیدہ ترین لوگوں میں تھے، لیکن آپ مجھے ہمیشہ نوازتے تھے، یہاں تک کہ آپ کی ہستی میرے نزدیک محبوب ترین ہوگئی۔(صحیح مسلم /2313)
یہودیوں کے ساتھ حضور ﷺ کا برتاؤ
یہودیوں کا آپ کے ساتھ جو رویہ تھا وہ محتاج بیان نہیں ہے ، مشرکوں کے ساتھ جولڑائیاں ہوئیں، زیادہ تر ان ہی کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھیں، لیکن ان سب کے باوجود کبھی بھی آپ ان کے ساتھ غلط اور اہانت آمیزسلوک روانہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ جب ایک یہودی کا جنازہ آپ کے پاس سے گذرا توا حترام انسانیت کے تقاضے کے پیش نظر کھڑے ہوگئے ، لوگوں نے کہاکہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے ، آپ نے فرمایاکہ وہ بھی تو انسان ہے۔
فتح خیبرکے بعد ایک یہودی خاتون نے آپ کی دعوت کی، آپ نے دلجوئی کے مقصد سے اس کی دعوت قبول فرمالی، اس نے زہرآلود کھانا آپ کو کھلادیا، لیکن اس قدر شدیدجرم کو بھی آپ نے معاف کردیا، آنحضور زندگی کے آخری مرحلے میں کہاکرتے تھے کہ اس زہر کے اثر کی وجہ سے میری شہہ رگ کٹی جارہی ہے۔
نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا، آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کااستقبال کیا، نہایت اعزاز و اکرام کامعاملہ فرمایا اور انھیں مسجدمیں ٹھہرایا اور اپنے طریقے پر مسجدنبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔(زادالمعاد633/3)
ابن ابی،منافقوں کا سردار اور آپ کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھالیکن جب وہ مرض موت میں مبتلاہواتو آپ نے اس کی عیادت فرمائی اور کفن، دفن میں شریک رہے بلکہ ان کے بیٹے کی درخواست پر کفن میں رکھنے کے لیے اپنا پیرہن عنایت فرمایا۔
ان واقعات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ دشمنوں کے لیے بھی آپ کا سینہ کس درجہ کشادہ تھا اور آپ کی محبت و رحمت کا ابرکرم صرف دوستوں تک محدود نہ تھابلکہ آپ پوری انسانیت کے لیے پیکر رحم و کرم تھے اور مومنوں کو آپ نے یہ تعلیم دی کہ:
لا یؤمن أحدکم حتی یحب للناس ما یحب لنفسہ۔
تم میں سے کوئی اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ دوسروں کے لیے بھی وہی سلوک اور رویہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔
یعنی مسلموں اور غیرمسلموں کی تفریق کے بغیر ہر ایک کے ساتھ اچھے برتاؤکے بغیر کوئی مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔
کمزوروں اور ناداروں کے ساتھ آپ کا طرز عمل
آپ کی نگاہ میں کمزور اور نادار سب سے زیادہ توجہ اور لطف و مہربانی کا مستحق تھا، آپ نے یہ تصوردیا کہ کمزوروں اور ناداروں ہی کی وجہ سے روزی ملتی ہے اور سرفرازی اور کامیابی نصیب ہوتی ہے ۔
ھل تنصرون وترزقون الا بضعفاءکم (ریاض الصالحین/130)
حضرت خدیجہؓ آپ کی دن بھر کی مصروفیات کو ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا، آپ رشتہ داری کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکل گھڑی میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔
معاشرہ کے دبے کچلے اور دھتکارے ہوئے لوگ آپ کے یہا ں لائق استقبال تھے اور عزت واحترام کے لائق۔ آپ کی شفقت و عنایت ایسے لوگوں پر سب سے زیادہ تھی،آپ اپنی دعاؤں میں کہاکرتے تھے کہ اے اللہ!میری زندگی مسکینوں جیسی ہو اور موت بھی ان کی طرح سے آئے اور مسکینوں کے ساتھ میراحشر ہو، آپ نے فرمایاکہ کسی مسکین کو اپنے دروازے سے نامراد واپس مت کرو، گرچہ چھوہارے کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، عائشہؓ ! غریبوں سے محبت رکھو، ان کو اپنے سے قریب کروتو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی قربت عطاکرے گا۔(مشکاۃ:438/2)
ایک مرتبہ آنحضورصحابہ کرام کے ساتھ مسجدمیں بیٹھے ہوئے تھے ، دیکھاکہ قبیلہ مضر کے کچھ لوگ اس حال میں چلے آرہے ہیں کہ بدن پر قاعدے کا کوئی کپڑانہیں، سترچھپانے کے لیے چیتھڑے لپیٹ رکھے ہیں، ان کی فاقہ مستی، بے لباسی اور پرمشقت زندگی کو دیکھ کر آپ کے چہرے کارنگ بدل گیا ،وہاں سے اٹھ کر گھرتشریف لے گئے کہ انھیں دینے کے لیے کچھ مل جائے، لیکن کچھ نہیں ملا۔ دوسرے گھرمیں گئے وہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا، شدت اضطراب اور سخت پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر جاتے رہے، یہاں تک کہ ظہرکاوقت ہوگیا، اذان دی گئی، نمازہوئی اور اس کے بعد آپ نے ان کی امداد اور اعانت کے لیے تقریرفرمائی،جسے سن کر کے جس کے پاس جوکچھ تھا لالاکر مسجدنبوی میں جمع کرناشروع کردیا۔ یہاں تک کہ کپڑے اور کھانے کے سامان کا بڑا ذخیرہ ہوگیاجسے دیکھ کر آپ کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا۔(صحیح مسلم کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة)
حضرت زاہردیہات کے رہنے والے تھے ، وہاں سے آپ کے لیے گھی اور پنیر وغیرہ لایاکرتے تھے اور جب رخصت ہوتے تو نبی ﷺ کھجوروغیرہ انھیں عنایت کرتے، ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے ، آپ گھرپہ موجودنہ تھے، وہ بازار کی طرف چلے گئے، اللہ کے رسول جب تشریف لائے تو آپ کو ا ن کی آمد کی اطلاع دی گئی ، آپ فوراً ان کی تلاش میں بازار روانہ ہوگئے، دیکھاکہ وہ وہاں اپناسامان بیچنے میں مشغول ہیں، آپ نے پیچھے کی طرف سے جاکر انھیں پکڑلیا اور فرمایاکہ کون اس غلام کو خریدے گا پہلے تووہ گھبرا گئے، لیکن جب احساس ہواکہ یہ صدا لگانے والے اللہ کے رسول ہیں تو وہ آپ کے سینے سے لگ گئے اور کہنے لگے، اللہ کے رسول! مجھے خرید کر کون گھاٹے کا سوداکرے گا ، میں تو ایک کھوٹے سکے کی طرح ہوں، آپ نے فرمایا کہ لیکن تم اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہو۔(ترمذی فی الشمائل)
سوچنے کی بات ہے کہ حضرت زاہر ایک عام صحابی تھے، اگریہ واقعہ پیش نہ آتاتو شاید کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتا، اگرکوئی اور ہوتاتو خیال کرتاکہ اس طرح کے لوگ آتے ہی رہتے ہیں، دوبارہ آجائیںگے، نمازمیں یاکسی وقت ملاقات ہوجائے گی، لیکن رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں کوئی عام اور خاص نہیں بلکہ ہرایک محبوب تھا، آپ نے ان کو اتنی اہمیت دی کہ ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور بکری اور اونٹ کے چرواہے کو جوگردوغبار سے اٹاہوا اور پسینہ میں شرابورتھاایک ایسی ہستی نے اپنے سینے سے چمٹالیاجوسراپامعطر اور روئے زمین پر سب سے زیادہ پاکبازتھا۔ آپ نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ان کا لباس میلا اور ان کے پسینے سے بدبوآرہی ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
نوٹ:۔اس طرح کے مزید مضامیں حاصل کرنے کیلئے لال رنگ کے گھنٹی والے نشان کو دبا کر ہماری ویب سائٹ ’’علم کی دنیا ڈاٹ اِن‘‘ کو سبسکرائب کرلیں ۔