پہلی غزل
خوشی ہے کیا کسی آوارہ وطن کے لئے
بہار آئی ہے تو آیا کرے چمن کے لئے
نہ لالہ و گل و نسریں نہ نستَرَن کے لئے
مٹے ہیں ہم کسی غارت گرِ چمن کے لئے
کبھی جو گوشہ خلوت میں شمع ہاتھ آئی
لپٹ کے رو لئے یارانِ انجمن کے لئے
ہم ان سے شکوہ بیداد کیا کریں عاجز
یہاں تو پاسِ وفا قفل ہے دین کے لئے
غزل(2)
جدا دیوانہ پن اب ایسے دیوانے سے کیا ہوگا
مجھے کیوں لوگ سمجھاتے ہیں سمجھانے سے کیا ہوگا
سلگنا اور شئے ہے جل کے مر جانے سے کیا ہوگا
جو ہم سے ہورہا ہے کام پروانے سے کیا ہوگا
مرا قاتل انہیں کہتے ہیں سب اور ٹھیک کہتے ہیں
قسم سو باروہ کھائیں قسم کھانے سے کیا ہوگا
مناسب ہے سمیٹو دامنِ دست دعاء عاجز
زبان ہی بے اثر ہے ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا
غزل (3)
کچھ انتہائے سلسلہ غم نہیں ہے آج
ہر ظلمِ آخریں ستمِ اولیں ہے آج
میرے مذاق غم پہ ہر اک نکتہ چیں ہے آج
ان کی طرف نگاہ کسی کی نہیں ہے آج
بدنام کر رہی ہے مجھے میری بندگی
ہر سنگ آستاں پہ نشانِ جبیں ہے آج
درماں کہاں کہ پرسش غم بھی نہ کر سکی
اتنی بھی اُس نگاہ کو فرصت نہیں ہے آج
پردہ حریمِ ناز کا اپنے بچائیے
فریاد کا مزاج بہت آتشیں ہے آج
انکار کر رہے ہیں وہ اسی جرمِ قتل سے
جس کی گواہ ہر شکنِ آستیں ہے آج
زنجیر اپنا ہاتھ بڑھاتی ہی رہ گئی
دیوانہ بہار کہیں سے کہیں ہے آج
عاجز مری فغاں پہ ہر اک یوں خموش ہے
جیسے کسی کی آنکھ میں آنسوں نہیں ہے آج
غزل (4)
چمن اپنا لٹا کر بلبل ناشاد نکلی ہے
مبارک باد -تیری آرزو صیاد نکلی ہے!
خدا رکھے سلامت تیری چشمِ بے مروت کو
بڑی بے درد نکلی ہے بڑی جلاد نکلی ہے
نکل کر دل سے آہوں نے کہیں رتبہ نہیں پایا
چمن سے جب بھی نکلی ہے بوئے گل -برباد نکلی ہے
لبِ بام آکے تم بھی دیکھ تو لو کیا تماشہ ہے
فغاں کی دوش پر لاشِ دلِ برباد نکلی ہے
پریشاں ہو کے جانِ زار کیا نکلی ہے سینے سے
کسی بیداد گر کی حسرتِ بیداد نکلی ہے
غزل (5)
ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی نا مہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
بنائے زندگی دوچار تنکوں پر سہی لیکن
انہی تنکوں کو آخر آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
بھلا ہم اور تجھ کو نازبردارِ عدو کہتے؟
مگر اے بے نیازِ دوستاں! کہنا ہی پڑتا ہے
مری آہ و فغاں کو نالہ بلبل سے کیا نسبت
مگر اک ہم وطن کو ہم زباں کہنا ہی پڑتا ہے
محبت حانہ صیاد سے بھی ہو ہی جاتی ہے
قفس کو بھی کسی دن آشیاں کہنا ہی پڑتا ہے
بتوں سے اتنا دیرینہ تعلق باوجود اسکے
ہوا جو کچھ سرِ کوئے بتاں کہنا ہی پڑتا ہے
ہر اک محفل میں جاکر ہم غزل کہتے نہیں لیکن
جہاں وہ شوخ ہوتا ہے وہاں کہنا ہی پڑتا ہے
یہ مانا عشق میں ضبطِ فغاں کی شرط لازم ہے
الجھنا ہے جو دل دردِ نہاں کہنا ہی پڑتا ہے