مناقب اہل بیت
شمع فروزاں۔۔۔مولانامحمدمحفوظ قادری
9759824259
حضرت فاطمہ،حضرت علی اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں شامل ہیں۔ان کی فضیلت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’اے نبی کے گھر والو!اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی ناپاکی دور فرمادے‘‘(سورۃ الاحزاب)
اسی آیت کے تحت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ صبح کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے پاس کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی اسی دوران حسن بن علی تشریف لائے تو آپ نے ان کو اپنی اس چادر میں داخل فرمالیا پھر حسین آئے تو ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضرت فاطمہ آئیں ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضرت علی تشریف لائے ان کو بھی داخل فرمالیا پھر حضور علیہ السلام نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ’’اللہ صرف یہی چاہتا ہے،اے اہل بیت!کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرمادے اور تم کو مکمل طور پر پاک و صاف کردے‘‘۔(مسلم شریف)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عہنا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لیا اور فرما یا کہ اے اللہ!یہ میرے اہل بیت ہیں۔(حاکم المستدرک)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ ’’آپ فرمادیں آئو ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلائو‘‘ نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو بلایا پھر فرمایا:یہ میرے اہل بیت ہیں۔(مسلم شریف)
اہل بیت سے محبت کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ اپنے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ ’’تم فرمائو میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا،مگرقرابت داروں کی محبت‘‘(سورۃ الشورایٰ)یعنی اے حبیب مکرم آپ فرمادیں کہ اے لوگو!میں رسالت کی تبلیغ پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا(جس طرح مجھ سے پہلے کسی نبی نے دین کی تبلیغ پر اپنی قوم سے کوئی بدلہ طلب نہیں کیا)بس تم میرے قرابت داروں(یعنی میرے اہل بیت)سے محبت کرنا،اور اہل بیت سے میرے رشتہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ایذا رسانی سے باز رہنا۔
جمیع بن عمیر بیان کرتے ہیں میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ کے پا گیا تو میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کس سے محبت تھی۔۔ ؟
انہوں نے فرمایا:فاطمہ سے،پھر معلوم کیا مردوں میں۔۔؟
انہوں نے فرمایا ان کے شوہر علی سے (ترمذی شریف)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کا ذکرفرماتے ہوئے حضورعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اس سے دشمنی رکھی اس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔دوسری روایت میں فرمایا کہ جو چیز اسے قلق (بے چین)کرتی ہے وہی چیز مجھے قلق میں مبتلا کرتی ہے اور جو چیز فاطمہ کو ایذا پہنچاتی ہے وہی چیز مجھے بھی ایذا پہنچاتی ہے۔(مشکوٰۃ شریف)
اپنے نواسہ حسنین کریمین کی نسبی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے لوگو! کیا میں تم کوان کے بارے میں خبر نہ دوں جو اپنے نانا اور نانی کے اعتبار سے سب لو گوں میں بہتر ہیں۔۔؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے چچا اور پھوپھی کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں۔۔؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں نہ بتائوں جو اپنے ماموں اور خالہ کے اعتبارسے سب لوگوں سے بہتر ہیں ۔۔؟
کیا میں تمہیں ان کے بارے میں خبر نہ دوں جو اپنی ماں اور باپ کے لحاظ سے سب لوگوں سے بہتر ہیں۔۔؟
وہ حسن اورحسین ہیں،ان کے نانا اللہ کے رسول،ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد،ان کی والدہ فاطمہ بنت رسول اللہ،ان کے والد علی بن ابی طالب،ان کے ماموں قاسم بن رسول اللہ،ان کی خالہ رسول اللہ کی بیٹیاں زینب،رقیہ،اور کلثوم ہیں۔ان کے نانا،والد،والدہ،چچا،پھوپھی،ماموں اورخالہ(سب)جنت میں ہوں گے اوروہ دونوں(حسنین کریمین)بھی جنت میں ہوں گے۔(طبرانی المعجم الکبیر)
حضرت امام حسن سے محبت کے تعلق سے حضرت براء بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی آپ کے کاندھے پر سوار تھے اور حضور فرمارہے تھے اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(مشکوٰۃ شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دن کے کسی حصہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا یہاں تک کہ آپ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور آپ نے معلوم کیا ’’کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے کیا یہاں چھوٹا بچہ ہے یعنی حسن ہے۔۔؟‘‘
کچھ ہی دیر میں حسن دوڑ تے ہوئے آئے اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی کو گلے لگا یا،پھر حضور نے ارشاد فرمایا ’’اے اللہ!بیشک میں اس سے محبت کرتا ہوں،تو بھی اس سے محبت رکھنے والوں سے محبت فرما۔
حضرت امام حسین سے محبت کا ذکرکرتے ہوئے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں:جو شخص حسین سے محبت کر تا ہے اللہ اس سے محبت کرے،اور حسین میری اولاد ہیں۔(مشکوٰۃ شریف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین کے مقام ومرتبہ کو بیان کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا کہ حسن وحسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں (حدیث)
اسی طرح حضور علیہ السلام نے دنیوی مقام کو ظاہر کرتے ہو ئے ارشاد فرماکہ حسن وحسین دینا میں میرے دو پھول ہیں(حدیث)
حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو دیکھا حسن وحسین علیہماالسلام رسول اللہ کے سامنے یا گود میں کھیل رہے تھے میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں۔۔؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حالانکہ میرے گلشن دنیا کے یہی تو دو پھول ہیں جن کی مہک سونگھتا رہتا ہوں۔(طبرانی المعجم الکبیر)
حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت کی وجہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہواآپ باہر تشریف لائے تو میں نے دیکھا کہ آپ کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھے میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔۔ ؟
جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا چیز چھپا رکھی ہے۔۔۔؟
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا ہٹایا تو آپ کے دونوں کولہوں پر حسن وحسین تھے،اور آپ نے ارشاد فرما یا کہ ’’کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ!میں انہیں محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما،اوران سے محبت رکھنے والوں سے بھی محبت فرما‘‘۔(جامع ترمذی)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن سینے سے لیکر سرتک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ تھے جبکہ حسین نچلے حصہ سے مشابہت رکھتے تھے۔(جامع ترمذی) سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روزنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اورفرمایا کہ:میرے بیٹے کہاں ہیں۔۔؟میں نے عرض کیا علی (رضی اللہ عنہ)ساتھ لے گئے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں نکلے پانی پینے کی جگہ پر کھیلتے ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچھ کھجوریں بچی ہوئی تھیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے علی!خیال رکھنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے واپس لے آنا۔(حاکم المستدرک)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین کریمین کی محبت کو اپنی محبت کاذریعہ بھی قراردیا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی،اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں(نواسواں) سے بھی محبت کرے۔(نسائی شریف)
دوسری روایت میں آتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کوارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے حسن اورحسین سے محبت کی،اس نے مجھ سے محبت کی،اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی،اور جس نے اللہ سے محبت کی اس نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔(حاکم المستدرک)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے حسن اورحسین سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔(ابن ماجہ شریف)
اہل بیت سے جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی،حضرت فاطمہ،حضرت حسن،حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا کہ جس سے تم لڑوگے اس سے میری بھی لڑائی ہوگی،اور جس سے تم صلح کروگے اس سے میری بھی صلح ہوگی۔(جامع ترمذی)
اہل بیت سے محبت اور ان کی راہ پر چلنا دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ بھی ہے حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی جگہ خم نامی مقام پر پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا سب سے پہلے آپ نے اللہ کی حمدوثناء بیان کی وعظ و نصیحت کی،پھر فرمایا اے لوگو!میں بھی انسان ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں!میں تمہارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں،ان میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے اس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ کی کتاب کو لازمی پکڑے رہنا۔
پھر فرمایا دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں،میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں۔دوسری روایت میں آتا ہے کہ اللہ کی کتاب، وہ اللہ کی رسی ہے،جس نے اس کی اتباع(کتاب)کی وہ ہدایت پر ہے،اور جس نے اسے چھوڑدیا وہ گمراہی پر رہے گا۔(مسلم شریف)
اللہ رب العزت قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرماکر،پیارے آقا اور آپ کے ’’اہل بیت‘‘کی صحیح معنیٰ میں اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔آمین